Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
(یہ قرآن) ان لوگوں کے لیے (ہدایت ہے) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ “ اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
اَلَّذِ یْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (یہ قرآن) ان لوگوں کے لیے (ہدایت ہے) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں) ایمان بالغیب کا مفہوم ہماری محولہ بالا گزارشات سے یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے کم سے کم تقویٰ کی صفت ضروری ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسان کو اپنی زندگی اور اس کے انجام پر غور وفکر کی دعوت دیتی ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان قرآن کریم سے استفادہ کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ پھر جب اللہ کی اس کتاب کو وہ پڑھنا شروع کرتا ہے اور اس کی رہنمائی میں قدم قدم آگے بڑھتا ہے تو تقویٰ بھی اس کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ چناچہ قرآن ِکریم کی رہنمائی میں تقویٰ کی جو پہلی کونپل پھوٹتی ہے، وہ ایمان بالغیب ہے۔ یہ قرآن پاک سے تعلق کا نتیجہ بھی ہے اور یہی تقویٰ کی اگلی منزل بھی ہے۔ یعنی یہ ایک ایسی صفت ہے جو تقویٰ کے اگلے مراحل کے لیے زینہ کا کام بھی دیتی ہے۔ اور یہی قرآن کریم کے ابتدائی مطالعہ کا حاصل بھی ہے۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ جو شخص قرآن پاک سے استفادہ کے لیے اپنے آپ کو قرآن کریم سے وابستہ کردے گا تو سب سے پہلے یہی صفت اس کے اندر جنم لے گی اور جو شخص تقویٰ کے اگلے مراحل پر پہنچنے کے لیے کوشش کرے گا تو یہ صفت اس کے لیے معاون و مددگار ہوگی۔ حیرانی کی بات ہے کہ یہی صفت تقویٰ کا ثمرہ بھی ہے اور تقویٰ کے آئندہ مراحل کے لیے بیج اور تخم بھی ہے۔ ان دونوں میں فرق ملحوظ رہے تو اس صفت کے دو گونہ فوائد کو سمجھنا آسان ہوجاتا ہے۔ انسان کی کمزوری یہ ہے کہ وہ ہمیشہ ان چیزوں کو مانتا ہے جن کا تعلق محسوسات اور مادیات سے ہے اور جنھیں وہ اپنے حواس خمسہ سے محسوس کرسکتا اور عقل کے ذریعے آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ جب بھی اسے کسی ایسی چیز کو ماننے کی دعوت دی جائے جو اس کے حواس کی گرفت میں نہ آتی ہو تو وہ بالعموم اس کے وجود سے انکار کردیتا ہے۔ اور اس کا اصرار یہ ہوتا ہے کہ میں جب تک اس چیز کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں یا اپنے حواس سے محسوس نہ کرلوں کیسے مان سکتا ہوں ؟ مشرکین مکہ سے جب آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے نبوت دی ہے اور فرشتہ مجھ پر وحی لے کر اترتا ہے تو ان کا اصرار بھی یہی تھا کہ جو فرشتہ آپ ﷺ پر اترتا ہے وہ ہمیں نظر کیوں نہیں آتا اور وہ ہم سے باتیں کیوں نہیں کرتا ؟ اور ہم اس کتاب کو جو تم پر اتر رہی ہے اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک ہم اسے مجلد شکل میں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں۔ یہ انسانی کمزوری اتنی گہری ہے کہ جس کے اثرات ہمیں دورتک تاریخ میں پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ بنی اسرائیل کے منتخب افراد کو جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے ساتھ لے کر کوہ طور پر گئے اور نہوں نے پس پردہ اللہ کی آواز بھی سنی لیکن پھر بھی مطالبہ کیا ” لَنْ نُّؤْمِنَ لَـکَ حَتّٰی نَرَیْ اللّٰہَ جَہْرۃً “ کہ ” ہم ہرگز اے موسیٰ ! تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک اللہ تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں “۔ اقبال نے اسی انسانی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ؎ خوگرِ پیکر محسوس تھی انساں کی نظر مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیوں کر اسی انسانی کمزوری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ تقویٰ کے نتیجے میں جو پہلی صفت قرآن کے ماننے والے میں پیدا ہوتی ہے اور جو قرآن سے مزید فیض حاصل کرنے کے لیے ضروری بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ مادیات اور محسوسات سے جو دراصل حیوانی زندگی ہے، اپنے آپ کو بلند کرلیتا ہے اور اس کی عقل اتنی دوررس اور اتنی دوربین ہوجاتی ہے کہ وہ ان حقیقتوں کو بھی ماننے لگتا ہے جو اگرچہ آنکھوں سے نہیں دیکھی جاسکتیں لیکن عقل سلیم انھیں ماورائے عقل نہیں سمجھتی۔ اس لیے وہ ان حقیقتوں کو بڑی آسانی سے قبول کرکے ہدایت اور تقویٰ کے اگلے مراحل کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں اس کی زندگی کے اعمال بدلنا شروع ہوجاتے ہیں اور ان اعمال کا ظہور شروع ہوجاتا ہے جو تقویٰ کے فیضان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ آج بھی ہم ” ان پڑھوں کو تو جانے دیجئے “ جب پڑھے لکھوں کو دیکھتے ہیں تو ان میں یہ تقسیم صاف دکھائی دیتی ہے کہ جو لوگ قرآنی ہدایت کے سائے میں پروان چڑھتے اور اسی کی رہنمائی میں زندگی گزارتے ہیں ان کے لیے ماورائے محسوسات حقائق کو دیکھ لینا اور مان لینا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ لیکن جن کی طبیعتیں محسوسات اور مادیات سے آگے نہیں بڑھتیں اور وہ اپنی عقلوں کو ہمیشہ محسوسات کی خدمت میں لگائے رکھتے ہیں ان کی زندگیوں میں یہ عجیب تضاد دکھائی دیتا ہے کہ ایک طرف تو اسلام کی بیان کردہ نادیدہ حقیقتوں کو تسلیم کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا ہے لیکن دوسری طرف ان کی ضعیف الاعتقادی مخلوقات میں عجیب و غریب قوتیں تسلیم کرلینے میں کوئی دشواری محسوس نہیں کرتی یہ عقل کی نارسائی، فکر کی کوتاہی اور مادے کی غلامی کا وہ نتیجہ ہے، جو تاریخ میں بھی اور آج بھی ہم ہر اس جگہ دیکھتے ہیں جہاں قرآنی تعلیمات کے اثر ات کی کمی ہے۔ چناچہ اسی بنیادی کمزوری سے بچانے کے لیے اس حقیقت کی عقدہ کشائی کی گئی ہے کہ قرآن کریم کی ہدایت کو قبول کرنے والے لوگ ہمیشہ اپنی صلاحیتوں میں بھی نوازے جاتے ہیں جس کا پہلا ثمرہ یہ ہے کہ وہ ایمان بالغیب کی حقیقت سے بہرہ ور ہوجاتے ہیں۔ اب ہم ایمان بالغیب کی وضاحت کرتے ہیں۔ ایمان امن سے ہے، جس کا معنی ہے امن دینا، قرآن ِکریم میں یہ لفظ بعض مقامات پر زبانی اقرار کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ لیکن اس کا اصل استعمال کبھی لام کے صلہ کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی ب کے صلہ کے ساتھ آمَنَ لَہٗ کے معنی ہیں صَدَّقَـہٗ وَاِعْتَمَدَ عَلَیْہِاس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا اور آمَنَ بِہٖ کے معنی ہیں اَیْقَنَ بِہٖ اس پر یقین کیا۔ قرآن کریم جس حقیقی ایمان کی دعوت دیتا ہے اور یہاں جو معنی مراد ہے وہ یہی ہے جس میں تصدیق، اعتماد اور یقین تینوں شامل ہیں۔ اس لحاظ سے ایمان کی تعریف یہ ہوگی کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر رسول اللہ ﷺ پر، فرشتوں پر، تمام کتابوں پر، تمام نبیوں پر اور آخرت پر دل کی تصدیق اور یقین کے ساتھ صرف رسول اللہ ﷺ کے اعتماد پر ایمان لائے وہ مومن ہے۔ یعنی اس کے سامنے ماننے کی باتوں میں سے کوئی بات بھی پیش کی جائے چاہے اس کا تعلق اللہ کی ذات یا صفات سے ہو چاہے اس کا تعلق وحی یانبی سے ہو چاہے اس کا تعلق احکام خداوندی یا احکام نبوت سے ہو اور چاہے اس کا تعلق عالم آخرت سے ہو اس کو دل کی تصدیق اور یقین سے ماننا اور کسی طرح کے شک میں مبتلا نہ ہونا اور دنیا بھرکے اہل دانش بیشک اسے ماننے سے انکار کریں اور بیشک ماننے والے کی اپنی عقل بھی اسے تسلیم کرنے سے انکار کردے لیکن ْصرف اس لیے مان لینا کہ آنحضرت ﷺ نے اسے ماننے کا حکم دیا ہے اور یا یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کا حکم دے رہے ہیں۔ تو صرف آپ ﷺ کے اعتماد پر اسے تسلیم کرلینا یہ حقیت میں ایمان ہے اور یہی وہ ایمان ہے جسے مندرجہ ذیل آیات میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے۔ اِنَّمَا الْمُؤْ مِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَا بُوْا (الحجرات : 15) (مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے) اِنَّ الَّذِ یْنَ قَا لُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا (حم السجدہ : 30) (جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ گئے ) اِنَّمَا الْمُؤْ مِنُوْنَ الَّذِ یْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ (الانفال : 2) (مومن تو حقیقت میں وہ ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں ) وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ (البقرۃ : 165) (اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں ) فَلاَ وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا (النساء : 65) (پس نہیں ، (اے نبی) تمہارے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ہیں جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں) ان سے بھی زیادہ اس آیت میں زبانی اقرارِ ایمان اور حقیقی ایمان کا فرق ظاہر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اصل مطلوب حقیقی ایمان ہے نہ کہ زبانی اقرار : یَاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْاآمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (النساء : 136) (اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر) ہر دور میں انسان کی یہ کمزوری رہی ہے کہ وہ اللہ، اس کے رسول اور باقی ایمانیات پر ایمان لانے کا مطلب یہ سمجھتارہا ہے کہ زبان سے اگر یہ کہہ دیا جائے کہ میں نے ان صداقتوں کو قبول کرلیا ہے تو یہی وہ ایمان ہے جو میرے لیے کافی ہے۔ یہاں پوری طرح اس غلط فہمی کو دور کیا گیا ہے کہ کسی بھی صداقت کا زبانی اقرار کبھی قابل قبول نہیں ہوتا ہے جب تک اس اقرار کی علامات انسانی رویے میں منعکس نہیں ہوتیں اور یہ ایک حقیقت ہے کوئی بھی زبان کا اقرار انسان کے رویے پر اس وقت اثر انداز ہوتا ہے جب وہ اقرار اس کے دل کی تصدیق بن جاتا ہے یہی تصدیق اس کے رویے کو متشکل بھی کرتی ہے اور اس کے کردار میں پختگی کا باعث بھی بنتی ہے۔ ہم عام انسانی معاملات میں دیکھتے ہیں کہ باتیں مانی جاتی ہیں اور منوائی جاتی ہیں اور اگلے روز ان باتوں کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ بہت آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ رات گئی بات گئی۔ مفادات کے زیر اثر تسلیم کردہ باتیں مفاد کے بدلنے سے اپنااثر کھودیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست دانوں میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ سیاسی وعدے پورا کرنے کے لیے نہیں ہوتے۔ حالانکہ وعدہ ایفاء کے تصور کے بغیر اپنا کوئی مفہوم نہیں رکھتا اور ہر دور میں اس کا احترام کیا گیا ہے۔ لیکن جو وعدے بھی مفاد کے تحت زبان کا عمل بن کے رہ جاتے ہیں، وہ اپنا احترام بھی کھو دیتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی میں زبانی اقرارکو اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں مل سکتی جب تک اس کے ساتھ دل کی تصدیق اور عمل کی قوت شامل نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب دل کی تصدیق میسر آجائے تو اس کے بعد عمل کا اس سے الگ رہنا ناقابل تصور ہے۔ جب عام انسانی زندگی اور اس کے معاملات میں، عام حقائق کی یہ حالت ہے تو پھر کائنات کی سب سے بڑی حقیقت جسے ایمان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ اگر صرف زبان کے اقرار تک محدود رہے تو اس سے ایمانی زندگی کیسے پیدا ہوسکتی ہے اور اللہ کی نگاہ میں اس کی کیا قدر و عظمت ہوسکتی ہے ؟ یہی وہ بات ہے جو یہاں کہی جارہی ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جسے اقبال نے اپنے انداز میں کہا تھا : تو عرب ہو یا عجم ہو ترا لا اِلٰہ اِلاّ لغتِ غریب جب تک ترا دل نہ دے گواہی یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ میں غیب پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے کہ متقین کی پہلی صفت یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ دوسرا ترجمہ اس کا یہ کیا گیا ہے کہ وہ غیب میں رہتے ہوئے ایمان لاتے ہیں۔ پہلی صورت میں بالغیب مفعول ہے اور دوسری صورت میں ظرف ہے۔ ہمارے نزدیک مأل کار دونوں صورتوں میں مفہوم اور مراد میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مقصود یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں یعنی ہر اس چیز کو مانتے ہیں جسے ماننے کا انھیں حکم دیا جائے چاہے وہ چیز ان کے لیے غیب کا درجہ کیوں نہ رکھتی ہو اور غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہو اور یا اسے جاننے کا کوئی ذریعہ نہ ہو۔ نہ حواس اسے محسوس کرسکیں اور نہ عقل اس کا ادراک کرسکے لیکن جب قرآن کریم ایسی باتوں کو ماننے کا حکم دے تو متقی اس کے ماننے میں تأمل نہیں کرتے انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ہمیں جس چیز پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے، وہ ہمارے حواس یا ادراک کی گرفت میں نہیں آتی، کیونکہ وہ اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ ہمارے لیے ماننے کا اصل ذریعہ اور تسکین و اطمینان کا اصل حوالہ اللہ کا رسول ہے۔ ہمارے نزدیک اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ یہ بات اللہ کے رسول نے فرمائی ہے یا اللہ کی طرف سے ہمیں پہنچائی ہے اور آپ کی ذات سے اس کا انتساب ثابت ہے تو پھر ہمارے نزدیک اور کسی چیز کی کوئی اہمیت نہیں۔ آپ نے غور فرمایا کہ ایمان بالغیب میں تین باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ سب سے پہلی یہ بات کہ دین اسلام جو مسلمانوں کے لیے ضابطہء حیات ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دین کا تعلق اللہ کی ذات سے ہے جسے ہم اپنے حواس اور اپنی عقل سے احاطہ ادراک میں نہیں لاسکتے اور اللہ کے اس کلام کو اللہ کے رسول پر لے کر آنے والا ایک فرشتہ ہے جن کا نام نامی جبریل امین ہے۔ انھیں بھی ہم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ جب وحی لے کر سرور دوعالم ﷺ پر نازل ہوتے ہیں اور آپ ﷺ کے قلب مبارک پر قرآن ِپاک اتارتے ہیں۔ تو اسے صرف رسول پاک ﷺ سنتے ہیں اور کوئی نہیں سن سکتا اور پھر اس کلام پاک میں جن باتوں کی خبر دی گئی ہے۔ مثلاً عالم برزخ، عالم آخرت، جنت، دوزخ، انسان کا دوبارہ زندہ کرکے اٹھایا جانا، اور تمام انسانوں کا ایک دن اللہ کی عدالت میں جواب دہی کے لیے پیش ہونا، تمام اعمال کا حاضر کیا جانا، اور تمام جن وانس کے اعمال کا حساب لیا جانا اور ایسی بہت ساری باتیں ہیں جو ہمارے حواس اور ہماری عقل سے ماوراء ہیں اور جنھیں ہم جاننے سے عاجز ہیں۔ غور فرمائیے ! اگر قرآن پاک سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے ایمان بالغیب کو ضروری قرار نہ دیا جاتا تو قرآن پاک کا پڑھنے والاان میں سے ہر بات کے جاننے پر اصرار کرتا تو کیا قرآن پاک سے استفادہ کبھی ممکن ہوتا۔ وہ عالم غیب کی کسی بات کو حواس وعقل کے ذریعے جاننے سے عاجز ہوتا تو یقیناان باتوں کا انکار کردیتاوہ یہ کہ تاکہ جن صداقتوں پر پورے دین ِاسلام کی عمارت کھڑی ہے جب میں انھیں ماننے سے عاجز ہوں کیوں کہ وہ میرے حواس اور عقل کی گرفت میں نہیں آتیں تو پھر میں اس قرآن کریم کو کیسے تسلیم کرلوں۔ اس لیے صاف طور پر فرمایا گیا کہ اگر تم قرآن پاک سے ہدایت کے طلبگار ہو تو پھر ضروری ہے کہ غیب پر ایمان لائو۔ جس طرح ہر Subject کی تعلیم سے پہلے اس کی مبادیات اور مسلمات پر لیکچر دیا جاتا ہے کہ اگر تم اس Subject کو پڑھنا چاہتے ہو تو تمہیں یہ یہ باتیں پہلے تسلیم کرنا ہوں گی۔ فلسفہ کی مبادیات بالکل اور ہیں اور سائنس کی مبادیات بالکل اور ہیں ایک کا دارومدار Practice پر ہے اور دوسرے کا تخییلی اور فکری قوت پر۔ ان بنیادوں کو تسلیم کرنے کے بعدمطلوبہ علم حاصل کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔ بالکل اسی طرح پروردگار نے قرآن پاک سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے چند بنیادی مقدمات کا ذکر کردیا ہے۔ جن پر درجہ بدرجہ ہدایت کا دارومدار ہے۔ دوسری بات جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ ہے ایقان ویقین۔ یہاں جس ایمان کی بات کی جارہی ہے۔ وہ اسلام اور قرآن کی بنیادی صداقتوں کو زبان سے مان لینے کا نام نہیں۔ بلکہ اس کی حقیقی روح دل کی تصدیق اور دل کا یقین ہے۔ صرف زبان سے اقرار کرلینے سے آدمی دائرہ ایمان میں داخل تو ہوجاتا ہے لیکن جب تک دل کی تصدیق اور اس کے مطابق عمل کی قوت شامل نہ ہو ایمان مکمل نہیں ہوتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ قوت جو انسان کو آمادئہ عمل کرتی اپنے اعتقاد ات پر استقامت عطا کرتی اور بڑی سے بڑی مخالفت میں بھی کھڑا رہنے کا حوصلہ دیتی اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی اور ایثار کو ممکن بنادیتی ہے وہ یہی یقین کی قوت ہے۔ جس آدمی کو اس بات کا یقین ہے کہ میرا اللہ مجھے ہر وقت دیکھتا ہے وہ کبھی گناہ نہیں کرسکتا۔ وہ تخت نشین ہو کر بھی اپنے آپ کو ایک عاجز بندہ سمجھتا ہے اس کے ہاتھوں میں خزانہ بھی آجائے تو وہ اس کے ایک ایک پیسے کو خرچ کرتا ہوا فکر مند ہوتا ہے۔ یعنی اس کا ہر عمل اس لیے پاکیزہ ہوجاتا ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ میں اللہ کی نگاہوں میں ہوں۔ اسی طرح اللہ کا کوئی حکم جس پر اسے یقین ہے کہ میرے اللہ کا حکم ہے اور یہ بھی یقین ہے کہ اللہ کے حکم سے سرتابی دنیوی اور اخروی تباہی کا باعث ہے اور یہ بھی وہ جانتا ہے کہ علم الٰہی سے نکلا ہوا کوئی حکم کبھی اپنے قابل عمل اور نتیجہ خیز ہونے میں غلط نہیں ہوسکتا۔ تو ایسے شخص کے لیے بہت مشکل ہے کہ وہ اللہ کے حکم سے انحراف کرے یا اس کے کسی حکم کو ناقابل عمل سمجھے، یا مستقبل میں اس کے نتائج کے بارے میں اسے کوئی تردد ہو۔ اسی طرح جب تک ایک مومن کو یقین ہے کہ میں جس ذات بابرکات پر ایمان لایا ہوں، وہ معصوم ہے وہ نہ دین پہنچانے میں غلطی کرسکتے ہیں اور نہ اس پر عمل کرنے میں کوئی کوتاہی کرسکتے ہیں ان کی ہر بات ہمارے لیے حجت ہے ایسے مومن سے اس بات کی کبھی توقع نہیں ہوسکتی کہ وہ رسول پاک ﷺ کی کسی سنت کے بارے میں کسی طرح کے ذہنی تحفظ کا شکار ہو۔ یہ فکر اور عمل کی حیرت انگیز تبدیلی یا استقامت کی یہ تصویر جس کا ذکر میں آپ سے کررہا ہوں، یہ صرف یقین کے نتائج ہیں کیونکہ یقین ایک ایسی قوت کا نام ہے جو انسان کی کردار سازی کے لیے سب سے موثر عامل ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا تھا : ؎ یقین افراد کا سرمایہء تعمیرِ ِملّت ہے یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیر مِلّت ہے اور اگر کسی قوم میں یہ یقین اور ایمان کی قوت کی نہ رہے تو ایسی قوم نہ صرف کہ کردار کی عظمت سے محروم ہوجاتی ہے بلکہ وہ دھرتی کا ایسا بوجھ بن جاتی ہے جس کے لیے اپناقومی وجود اور پنی سیاسی آزادی کا تحفظ بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ وہ انسانوں کی ایک ایسی بھیڑ ہوتی ہے جسے کوئی بھی طاقت ور قوم بھیڑوں کے ریوڑ کی طرح ہانکنے لگتی ہے۔ اس کے فیصلے اپنے نہیں ہوتے بلکہ دوسرے ان کے لیے فیصلے کرتے ہیں وہ بظاہر آزاد بھی ہو تب بھی غلاموں سے بدتر ہوتی ہے۔ بقول اقبال ؎ سن اے تہذیبِ حاضر کے گرفتار غلامی سے بتر ہے بےیقینی تیسری چیز، جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ وہ ہے اللہ اسکی کتاب اور اس کے رسول ﷺ پر اعتماد۔ دنیا کی ریت یہ ہے کہ یہاں ہر بات کو ہر آدمی نہیں جانتا۔ ہم اپنے بیشتر معاملات اور بیشتر ضرورتوں میں دوسروں پر اعتماد کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور اسی اعتماد سے دنیا کا کاروبار چلتا ہے آدمی بیمار ہوتا ہے تو ڈاکٹر یا طبیب کے پاس جاتا ہے۔ وہ جو نسخہ لکھ کردے دے، بےتردد اسے استعمال کرتا ہے۔ کبھی کوئی مریض کسی ڈاکٹر سے نہیں پوچھتا کہ آپ مجھے پہلے اپنے لکھے ہوئے نسخے اور اس کے اجزاء کے بارے میں مطمئن کریں، تب میں آپ کا نسخہ استعمال کروں گا کیونکہ مریض کو ڈاکٹر پر اعتماد ہوتا ہے اور وہ یقین رکھتا ہے کہ وہ مجھے جو بھی نسخہ لکھ کردے گا میرے لیے اسی میں بھلائی ہے۔ اگر کوئی مریض ڈاکٹر کے نسخے پر اعتراض کرے تو ڈاکٹر اس کے علاج سے انکار کردیتا ہے۔ بچہ جب تعلیم کے قابل ہوتا ہے تو اس کے اہل خانہ اسے کسی تعلیمی ادارے میں اساتذہ کے حوالے کردیتے ہیں اور کبھی کسی استاد سے روزانہ تعلیم کی تفصیل نہیں پوچھی جاتی، بچے کو اور اس کے اہل خانہ کو اطمینان ہوتا ہے کہ بچے کو ٹھیک تعلیم مل رہی ہے اور اس اطمینان کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ انھیں اساتذہ کے علم پر اعتماد ہوتا ہے۔ غرضیکہ زندگی کے جتنے شعبے ہیں جن میں افادہ اور استفادہ کا عمل ضروری ہے ان تمام میں بنیادی چیز اعتماد ہی ہوتی ہے۔ حکومتوں پر عوام اعتماد کرتے ہیں تو چلتی ہیں، عدالتوں سے انصاف طلب کرنے کے لیے ہجوم لگارہتا ہے، کیونکہ ججز پر اعتماد ہوتا ہے کہ وہ انصاف مہیا کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی زندگی کے ہر اس شعبے میں جس میں دوسروں سے احتیاج ضروری ہے وہاں اعتماد کے بغیر کام نہیں چل سکتا حالانکہ یہ تمام ادارے اور شعبے ایسے ہیں جس میں کام لینے والے اور کام دینے والے دونوں صلاحیتوں کے اعتبار سے بہت متفاوت نہیں ہوتے۔ لیکن ایک تقسیم کار ہے جس نے انسانوں میں یہ تقسیم قائم کررکھی ہے اور اسی سے انسانوں کا کام چلتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شعبہ ایسا ہو کہ جس کی احتیاج بھی سب انسانوں کو ہو اور وہاں کام دینے والی ذات ایسی ہو کہ دوسرا کوئی اس کی جگہ بھی نہ لے سکے تو یہاں اگر اعتماد میں کمی آجائے تو اندازہ کیجئے کہ انسانی زندگی میں کیسی دراڑیں آجائیں گی۔ انسان اپنے اللہ کا بندہ ہے۔ بندہ ہونے کے اعتبار سے وہ اپنے رب کی بندگی کا پابند ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ میرے رب نے میرے لیے بندگی کا کون سا طریقہ پسند فرمایا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ بات جاننا جس قدر ضروری ہے، اسی قدر براہ راست اللہ سے جاننا ناممکن بھی ہے۔ انسانوں کی اس کمزوری کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مبعوث فرمائے جن پر اپنی کتابیں نازل فرمائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندوں اور ان کے رب کے درمیان جاننے اور معلوم کرنے کا جو ذریعہ ہے وہ اللہ کے نبی ہیں۔ اب اگر ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا رب کن باتوں میں راضی ہے اور کن باتوں میں ناراض، تو ضروری ہے کہ ہم اس کے آخری رسول ﷺ پر آخری حدتک اعتماد کریں۔ اگر اس اعتماد میں کمی آجائے گی توہمار اتعلق اپنے رب سے ٹوٹ جائے گا کیونکہ ہم اس علم کے حصول سے براہ راست عاجز ہیں یہ وجہ ہے جس کی وجہ سے ایمان میں اللہ کے رسول پر اعتماد کرنا لازمی ٹھہرایا گیا ہے کہ اگر ہر امتی اللہ کے رسول سے ہر حکم خداوندی یا حکم نبی کے بارے میں سوال کرنا شروع کردے تو وہ کبھی بھی دینی احکام پر عمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ چناچہ دور نبوت اور دور صحابہ میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ صحابہ کو صرف یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی تھی کہ کسی چیز کے بارے میں آں حضرت ﷺ نے کیا فرمایا یا کیا پسند فرمایا اتنی بات معلوم ہوجانے کے بعد اب انھیں اس پر عمل کرنے میں کوئی تردد نہیں ہوتا تھا۔ بڑے سے بڑے نازک موقعوں پر بھی یہی اعتماد ان کا سب سے بڑاسہار اثابت ہوتا تھا۔ معراج شریف سے واپسی پر جب اشرارِ قریش نے شور مچایا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہی رات میں بیت المقدس اور آسمانوں تک کا سفر سمٹ جائے لیکن جب یہ بات حضرت صدیق اکبرص تک پہنچی تو انھوں نے فرمایا ” کہ جب میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ روزانہ اللہ کا فرشتہ آسمانوں سے حضور ﷺ پر نازل ہوتا اور واپس چلا جاتا ہے اور اس میں مجھے کوئی استبعاد محسوس نہیں ہوتا تو اگر پروردگار حضور ﷺ کو ایک رات میں بیت المقدس اور پھر آسمانوں میں لے گیا تو اس میں ایسی کیا بات ہے کہ جس کا ماننا میرے لیے مشکل ہو۔ اگر یہ بات کوئی اور کہتا تو میں کبھی نہ مانتالیکن یہ بات چونکہ حضور ﷺ فرما رہے ہیں ان پر اعتماد کی وجہ سے میں کبھی اس بات کا انکار نہیں کرسکتا۔ “ معاہد ہ حدیبیہ مسلمانوں کے جذبات کے لیے بہت بڑا امتحان تھا۔ وہ یہ یقین رکھتے تھے کہ اسلام کبھی کسی سے مغلوب نہیں ہوتا اللہ کی قدرت جس کی پشت پناہ ہو اسے کوئی نہیں جھکا سکتا اور دنیا میں اللہ کی قدرت اور نصرت کا مورد اللہ کے رسول سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا رسول صحابہ کو ساتھ لے کر عمرہ کے ارادہ سے سفر کرے اور پھر عمرہ کیے بغیر احرام کھول دے اور یہ بات کیسے باور کی جاسکتی ہے کہ آنحضرت ﷺ قریش مکہ کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرلیں جو سراسر یک طرفہ ہو اور جس میں اسلام اور مسلمانوں کی مرعوبیت کا احساس نمایاں ہو۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ آں حضرت ﷺ نے اس معاہدے کو قبول کرلیا ہے اور آپ ﷺ نے احرام بھی کھول دیا ہے تو مسلمان اپنی ساری غیرت وحمیت کے باوجود اس لیے اس معاہدہ کے سامنے جھک گئے کہ انھیں اس بات پر اطمینان تھا کہ اللہ کے رسول کوئی کام اللہ کے حکم کے بغیر نہیں کرتے۔ یہ معاہدہ اگرچہ مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف دکھائی دیتا ہے لیکن آنحضرت ﷺ کا اسے قبول کرلینا اس بات کا غماز ہے کہ اس کے قبول کرلینے ہی میں مسلمانوں کی بھلائی اور اسلام کی عظمت ہے۔ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ ایمان میں جس اعتماد کو شرط قرار دیا گیا ہے وہ اعتماد اللہ پر بھی ہے، اس کے رسول پر بھی اور اس کی کتاب پر بھی یعنی اللہ کا کوئی حکم اس کی کتاب کے ذریعے نازل ہو، تو وہ اس لیے واجب الاذعان اور واجب التعمیل ہے کیونکہ ہم اللہ پر اور اس کی کتاب پر اعتماد رکھتے ہیں کہ اس کی ہر بات صحیح ہے اور اسی اعتماد پر مانی ہوئی بات ایمان کہلاتی ہے۔ اسی طرح جب آں حضرت ﷺ کوئی بات فرمائیں بیشک اللہ کی کتاب میں اس کا ذکر نہ ہوتوہ میں اس لیے اس کے ماننے میں کوئی تأمل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور آپ ﷺ پر اعتماد ہی دراصل ہمارے لیے ایمان کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم آپ ﷺ کی کسی بات اور کسی پسند و ناپسند کے بارے میں تحفظ ذہنی کا شکارہوں یا ہماری مصلحتیں اس پر غالب آجائیں یا ہماری عقل ہمیں یہ سجھائے کہ آج کے دور میں یہ بات چلنے والی نہیں تو سمجھ لیجئے کہ حضور ﷺ کی ذات پر اعتماد نہ رہنے کے باعث آپ ایمان سے محروم ہوگئے ہیں۔ صحابہ اسی اعتماد سے سرشار تھے، یعنی انھیں اللہ اس کی کتاب اور اسکے رسول پر حد درجہ اعتماد تھا انھیں یقین تھا کہ یہ ممکن ہے کہ ہمارے حواس دھوکہ کھاجائیں ہماری عقل ٹھوکر کھاجائے دنیا بھر کے اہل دانش کسی بات کے سمجھنے میں ناکام رہیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ کی کوئی بات غلط ہوجائے یا اللہ کے رسول ہمیں کسی ایسی بات کا حکم دیں جو ہمارے لیے دنیا اور آخرت میں مفید نہ ہو اور یا دنیا میں قابل عمل نہ ہو۔ سورة توبہ میں 9 ہجری کے ایام حج میں جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اِنَّمَاالْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فََلاَ یَقْرَبُوْاالْمَسْجِدَالْحَرَامِ بَعْدَعَامِھِمْ ھٰذَا (یقینا مشرک پلید ہیں اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں) ۔ یعنی اللہ کا گھر ہر طرح کی پاکیزگی کا سرچشمہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اسے ہر طرح کی گندگی سے پاک کردیا جائے مشرکوں میں عقیدے اور اخلاق کی گندگی پائی جاتی ہے۔ جس کا اظہار وہ اللہ کے گھر میں مشرکانہ اعمال کے ذریعے کرتے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے بعد اسلام کو غلبہ عطا فرمایا ہے اس لیے حج کے موقع پر یہ اعلان کردیا جائے کہ اب شرک کی یہ پلیدی اور گندگی ناقابل برداشت ہے۔ اس لیے یہ 9 ہجری کا حج تو مشرکوں کو اپنے طریقے سے کرنے کی اجازت ہے آئندہ حج سے پہلے یا تو وہ مسلمان ہوجائیں اور یا جزیرہ عرب سے نکل جائیں۔ اب انھیں اپنی گندگیوں سمیت اللہ کے گھر کے قریب آنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس حکم کے نزول کے بعد مکہ کے رہنے والے مسلمانوں میں پریشانی اور تشویش کی لہر دوڑ گئی کیونکہ ابھی تک جزیرہ عرب میں ایک معقول تعداد مشرکین عرب کی تھی۔ وہ جب حج پہ آتے تھے تو اپنے ساتھ ضروریاتِ زندگی اور سامانِ تجارت بھی لے کر آتے تھے، حج کے فوراً بعد تجارتی بازار سج جاتے تھے اس تجارت سے مسلمانوں کو سال بھر کی گزر بسر کے لیے معقول آمدنی ہوجاتی تھی۔ اس آیت کریمہ کے نازل ہوجانے کے بعداب چونکہ مشرکین عرب مکہ معظمہ نہیں آسکیں گے تو جس تجارت پر مکہ کے مسلمانوں کی گزر بسر کا انحصار تھا وہ ختم ہوجائیگی اور ادھر حجاز کا پور اعلاقہ چونکہ اپنی آمدنی کا کوئی اور معقول ذریعہ نہیں رکھتا تھا۔ جس پر مسلمان بھروسہ کرسکتے اس لیے، مسلمانوں کا اپنی معیشت کے حوالے سے پریشان ہونا بالکل فطری تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے آیت کریمہ کا دوسرا حصہ نازل فرمایا : وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ اِنْ شَائَ (اگر تمہیں اندیشہ ہے تنگدستی کا تو اللہ تعالیٰ تمہیں عنقریب غنی کردے گا، اگر اس نے چاہا) ۔ غور فرمائیے اس آیت کریمہ میں ایک بہت بڑی پریشانی کے ازالے کے لیے اللہ تعالیٰ نے غنی کرنے کی صرف امید دلائی ہے۔ لیکن آیت کے اس ٹکڑے کے نازل ہوجانے کے بعد تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی تشویش کے بادل چھٹ گئے۔ وہ بالکل مطمئن ہوگئے کہ اب ہمیں رزق کی تنگی اور اسبا بِ معیشت کی کمی کا کوئی اندیشہ نہیں۔ کیونکہ ہمارے رب نے قرآن ِکریم کی اس آیت کے ذریعے ہم سے غنا کا وعدہ فرما لیا ہے کیونکہ اللہ کا امید دلانا بھی وعدے سے کم نہیں اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدوں میں سچا کون ہوسکتا ہے۔ چناچہ اسی اعتماد کی قوت نے ان کے سارے اندیشے دور کرڈالے اور ان کے سینوں کو حوصلوں سے بھر دیا۔ اے کاش ہم اس بات پر غور کرسکیں کہ اللہ کے بیسیوں وعدے آج بھی موجود ہیں۔ مثلاً اس نے سود کو حرام کیا، تو ساتھ ہی یہ ارشاد فرمایا یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰووَیُرْبِیْ الصَّدَقَاتِ (اللہ سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو پالتا اور بڑھاتا ہے) یعنی وہ نظام جس میں سود داخل ہوگا وہ کبھی انسانی فلاح کا باعث نہیں بنے گا۔ اس سے سرمایہ دارانہ نظام وجود میں آئیگا۔ جس کے نتیجے میں غریب، غریب تر ہوتا جائے گا اور امیر، امیر تر۔ اس طرح دنیا طبقات کا شکار ہو کر ظلم کی چکی میں پستی رہے گی۔ لیکن جس نظام میں انفاق وایثار کا جذبہ شامل ہوگا جسے نظام زکوٰۃ کہا جاتا ہے اسے اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا اور اسی کے نتیجے میں انسانوں کو فلاح نصیب ہوگی۔ یہ آیت آج بھی قرآن مجید میں موجود ہے لیکن ہم اجتماعی طور پر اس حکم پر عمل کرنے سے اسلیے محروم ہیں کہ صحابہ کو جس طرح اللہ اور اس کے رسول پر اعتماد تھا ہم اس اعتماد سے تہی دامن ہیں۔ اسی اعتماد نے ان میں قوت کے طوفان بھر دیئے تھے۔ اور کردار کی عظمتیں ان کے ہم رکاب ہوگئی تھیں۔ وہ وسائل کے اعتبار سے تہی دامن تھے افرادی قوت بھی زیادہ نہ تھی باایں ہمہ انھوں نے تخت الٹ ڈالے، اور دنیا کی تاریخ بدل دی اور ہم اپنے پاس سب کچھ رکھتے ہوئے ذلت کی علامت بنتے جارہے ہیں وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے پاس اللہ کی کتاب اور رسول ﷺ کی سنت موجود ہے لیکن ہمیں ان پر اعتماد نہیں ہے۔ ہمارا قومی شاعر اسی بھولے ہوئے سبق کے لیے دعائیں کرتارہا لیکن ہمیں آج تک انھیں سمجھنے کی توفیق نہ ہوئی۔ وہ صحابہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے ؎ طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو وہ راز اس نے پایا انہی کے جگر میں دلِ مردِ مومن میں پھر زندہ کر دے وہ بجلی کہ تھی نعرئہ لاتذر میں عزائم کو سینوں میں بیدار کر دے نگاہِ مسلماں کو تلوار کر دے ہم اس سے پہلے پڑھ چکے ہیں کہ یہ کتاب ہدایت ہے متقین کے لیے۔ یعنی ان لوگوں کے لیے جن میں شعور زندہ ہو، جو انسانی احساس سے بہرہ ور ہوں۔ ان کی عقل، اپنے خصائص کھو نہ چکی ہو بلکہ اس میں ابھی تک وہ نور باقی ہو جس کی وجہ سے وہ اپنے اور کائنات کے خالق کے بارے میں غور و فکر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو اور جس کے لیے اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہ ہو کہ وہ خالق ومالک جس نے ہر چیز کو تخلیق فرمایا ہے وہ حکیم بھی ہے۔ اس کی حکمت سے یہ بات بہت بعید ہے کہ انسان جو اس کائنات کا گل سرسبد ہے، اسے اس نے بےمقصد پیدا کیا ہو، ایک ایسی مخلوق جو حواس، عقل اور دل و دماغ کی رعنائیاں دے کر پیدا کی گئی ہو کیسے ممکن ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد نہ ہو، جب اس کا سوچنے والا دماغ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ یقینا میری زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے تو مقصد کی تلاش کے لیے یہ کتاب اس کی رہنماثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ دنیا کی کوئی اور کتاب بہ تمام و کمال انسانی زندگی کے مقاصد کو واضح نہیں کرسکتی۔ اس فکر مندی اور سنجیدگی کے ساتھ جب وہ اس کتاب سے استفادہ کرتا ہے تو اس کے اندر جو سب سے پہلی صفت پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں اسے اپنے خالق ومالک کو سمجھنا اور اس کی طرف سے نازل کردہ احکام کی حقیقت کو جاننا آسان ہوجاتا ہے وہ ہے ایمان بالغیب، جس کی وضاحت متذکرہ گزارشات میں ہوچکی ہے۔ چناچہ ایمان بالغیب سے جب قرآن سے استفادہ کرنے والے کا اپنے اللہ سے حقیقی تعلق پیدا ہوجاتا ہے اور وہ نبوت و رسالت کی حقیقت کو بھی سمجھنے لگتا ہے اور اپنی زندگی کے مقاصد اس کے سامنے منکشف ہونے لگتے ہیں۔ تو یقینا اس کے اندر اپنے خالق ومالک کی یاد کا ایک زور دار جذبہ سر اٹھاتا ہے۔ اب وہ یہ چاہتا ہے کہ میں اپنے اللہ کے نام کا ذکر کروں اس کے سامنے سر جھکائوں، اپنے دل کی دنیا کو اس سے آباد کروں، میرا انگ انگ اس کی یاد سے سرشار ہوجائے، میں کبھی اس کے سامنے جھک کر اسے یاد کروں، کبھی اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤں، کبھی بیٹھ کر اس سے مناجات کروں، میں زندگی کا کوئی عمل بھی کروں لیکن اس کی یاد برابر میری رفیق رہے۔ میرے اعضائے جسم کسی بھی کام میں مصروف ہوں لیکن میرے قلبی احساسات اور فکری توانائیاں اسی کے سامنے سجدہ ریز رہیں، یہ وہ فکری احساسات ہیں جو ایمان بالغیب سے بہرہ ور ہونے والے کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ اس کے اظہار کی کسی نہ کسی صورت کا متلاشی ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اسی جذبے کی کارفرمائی کے لیے نماز کی نعمت عطا فرمائی گئی ہے اور اس کو دوسری صفت کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ قرآن پاک سے ہدایت حاصل کرتے ہیں ان کے اندر کا تقویٰ جو انھیں اس آستانے تک کھینچ کر لاتا ہے وہی تقویٰ سب سے پہلے ایمان بالغیب سے متصف ہوتا ہے اور اس کے بعد عمل کی دنیا میں سب سے پہلے اقامتِ صلوٰۃ سے نوازا جاتا ہے اور اس تقویٰ کا حامل یعنی متقی ان صفات سے پہچانا جاتا ہے گویا یہ اس کی توضیحی صفات ہیں۔ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ (وہ نماز قائم کرتے ہیں) اقامتِ صلوٰۃ کا مفہوم یہاں یہ نہیں فرمایا کہ وہ نماز پڑھتے ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ قرآن کریم کی اس اصطلاح کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اقامت کا معنی ہے کسی چیز کو کھڑا کرنا یا اس طرح سیدھا کرنا کہ اس میں کوئی ٹیڑھ باقی نہ رہے۔ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہما السلام) کے ایک سفر کا احوال بیان کیا گیا ہے۔ جس میں ایک جگہ بتایا گیا ہے کہ ایک گائوں میں انھوں نے ایک جگہ دیکھا کہ ایک دیوار گرا چاہتی ہے تو انھوں نے اسے سیدھا کردیا۔ اس کے لیے قرآن کریم نے تعبیر اختیار کی فاقامۃ پس اس نے اسے سیدھا کردیا تو یہاں دیکھئے اقامۃ ٹیڑھی دیوار کے سیدھا کرنے کے معنی میں آیا ہے۔ تو اس لفظ کے معنی پر غور کرتے ہوئے کئی حقیقتیں واضح ہوتی ہیں : 1 نماز قائم کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ نماز صرف اللہ ہی کے لیے پڑھی جائے کسی اور کو اس میں شریک نہ کیا جائے اس میں دکھاوے کی آلائش تک شامل نہ ہو۔ ریاکاری کی پرچھائیں نہ پڑنے پائے۔ نماز چونکہ اللہ کے لیے ہے اس لیے اسی کے گھر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی جائے اور دل کا رخ صرف اللہ کی طرف رہے اور کوشش یہ کی جائے کہ نماز میں مکمل یکسوئی حاصل ہو، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ وَاَقِیمُواوُجُوْہَکُم عِندَ کُلِّ مَسجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخلِصِیْنَ لَـہُ الدِّین (اور اسی کی طرف اپنا رخ کرو ہر نماز کے وقت اور اسی کو پکارو اسی کے لیے اطاعت کو خالص کرتے ہوئے) ۔ 2 نماز اس طرح پڑھی جائے جس سے محسوس ہو کہ واقعی اللہ کو یاد کیا جارہا ہے۔ یعنی آدمی نماز کا ہر رکن ادا کرتے ہوئے، خشوع و خضوع میں ڈوبا ہوا ہو۔ آدمی پر اللہ کی خشیت بھی طاری ہو اور اس کی محبت سے دل لبریز بھی ہو۔ اور یہی وہ نماز ہے جو مسلمانوں کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ اسی لیے قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُوْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ (ان مومنوں نے فلاح پائی جو اپنی نمازیں خشوع و خضوع سے ادا کرتے ہیں ) ۔ 3 نماز کو وقت کی پابندی کے ساتھ ادا کرنا، نہ تعجیل سے کام لینا نہ تاخیر سے۔ کیونکہ نہ وقت سے پہلے نماز ادا ہوتی ہے، نہ وقت کے بعد۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا (بےشک نماز مسلمانون پر وقت کی پابندی سے فرض کی گئی ہے ) 4 نماز کا اس طرح ادا کرنا جس میں فرائض واجبات، سنن، اور آداب تک کا لحاظ رکھا جائے۔ اگر فرض یا واجب کی پابندی نہ کی گئی تو نماز نہیں ہوگی اور اگر سنت سے لاپرواہی کی گئی تو نماز مکروہ ہوگی اور اگر آداب کا خیال نہ رکھا گیا تو نماز بےبرکت ہوجائے گی۔ اس لیے حقیقی نماز وہی ہے جو ان تمام پابندیوں کے ساتھ ادا کی جائے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جلدی جلدی نماز پڑھ رہا ہے۔ نہ قیام درست ہے نہ قعود، نہ رکوع میں سلامتی ہے نہ سجدے میں، بس جلدی جلدی نماز نمٹانے کی کوشش کررہا ہے۔ جس طرح عموماً ہم نماز پڑھتے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے اسے بلا کر فرمایا نماز دوبارہ پڑھو، تم نے جو کچھ نماز کے طور پر کیا ہے یہ نماز نہیں ہے، کیونکہ نماز میں تعدیلِ ارکان بھی ضروری ہے۔ 5 پانچ نمازیں فرض ہیں، کوئی پڑھنا اور کوئی چھوڑدینا، اسے نماز قائم کرنا نہیں کہتے۔ یہ تو اپنے نفس کی نماز ہوئی کہ جب جی چاہا پڑھ لی اور جب جی چاہا چھوڑ دی۔ اس لیے فرمایا حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ (نمازوں کی محافظت کرو) ۔ اور نمازیوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ دَائِمُوْنَ (وہ اپنی نمازوں پر برابر قائم رہتے ہیں) ۔ 6 جماعت کی پابندی کرنا، قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے اس کی بےحد تاکید فرمائی ہے۔ قرآن ِکریم میں ارشاد ہے وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ (اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ) یعنی جماعت کی پابندی کرو۔ اور آنحضرت ﷺ نے رحمت للعالمین ہونے کے باوجود ارشاد فرمایا کہ ” جو لوگ اذان سننے کے بعد گھروں میں بیٹھ رہتے ہیں اور جماعت میں شریک نہیں ہوتے، میرا جی چاہتا ہے کہ میں کسی سے نماز پڑھانے کے لیے کہوں اور خود ان کے گھروں کو آگ لگادوں۔ اگر مجھے بچوں، بوڑھوں اور بیماروں کا خیال نہ ہوتا تو میں ایسا ضرور کر گزرتا۔ “ 7 جماعت کی پابندی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی شیرازہ بندی جس کا اہم ذریعہ جماعت کے اندر نمازیوں کے صفوں کا سیدھا رکھنا ہے یہ بھی اقامتِ صلوٰۃ میں شامل ہے۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا : تَسْوِیَۃُ الصُّفُوفِ مِن اِقَامَۃِ الصَّلٰوۃ (صفوں کا برابر کرنا بھی اقامت صلوٰۃ کا ایک جز ہے) ۔ اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ نے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ ” جس قوم کی صفیں ٹیڑھی ہوتی ہیں اندیشہ ہے کہ ان کے دل نہ ٹیڑھے کردیئے جائیں۔ “ اقامتِ صلوٰۃ مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری 8 جہاں قرآن کریم نے اقامت صلوٰۃ کی نسبت پوری امت یا ان کے امام کی طرف کی ہے تو وہاں اس سے مراد ایک تو اجتماعی نمازوں کا قیام ہے جس میں جمعہ، جماعت اور عیدین کی نمازیں شامل ہیں اور دوسرے اس میں حکومت اسلامی کی سب سے پہلی ذمہ داری سے آگاہ کیا گیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی خطہء زمین میں مسلمانوں کو حکومت دے دے تو ان کی سب سے پہلی ذمہ داری نماز کا قائم کرنا ہے۔ ارشاد فرمایا اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنَّاھُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَامُوْالصَّلٰوْۃَ وَاٰتَوُالزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْابِالْمَعْرُوْفِ وَنَہَوْعَنِ الْمُنْکَرِ (اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں معروف کا حکم دیں اور برائی سے روکیں) ۔ اس آیت کو پھر پڑھئے اور اندازہ فرمائیے کہ جس طرح قرآن کریم اپنے استفادہ کرنے والوں میں سب سے پہلی عملی صفت اقامتِ صلوٰۃ قرار دیتا ہے۔ اسی طرح یہاں مسلمان حکومت کی پہلی ذمہ داری اقامت صلوٰۃ ٹھہرا رہا ہے۔ اگر تدبر سے کام لیں تو اس کی دو وجہیں معلوم ہوتی ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک عظیم عمارت ہے، جو پانچ بنیادوں پر اٹھائی گئی ہے اور یہی پانچوں اس کے ستون ہیں۔ جن پر یہ عمارت ایستادہ ہے۔ ان میں پہلا اور اہم ترستون نماز ہے یہ ارکان اسلام میں سے ایسا رکن ہے جو سب سے پہلے امت مسلمہ پر فرض کیا گیا اور قیامت کے روز سب سے پہلے اسی سے متعلق سوال کیا جائے گا۔ اسی کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا الصَّلٰوۃُ فَارِقٌ بَینَ الحَقَّ وَالبَاطِلِ (نماز حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والی ہے) ۔ مزید فرمایا : الصَّلٰوۃُ عِمَادُالدِّیْنِ مَن اَقَامَھَا فَقَدْ اَقَامَ الدِّین وَمَنْ ھَدَمَھَافَقَد ھَدَمَ الدِّینَ (نماز دین کا ستون ہے جس نے اسے قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا اور جس نے اسے گرادیا اس نے دین کو گرادیا) ۔ کسی آدمی کے اسلام کی شناخت اور علامت یہی نماز ہے کیونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد نماز کا وقت داخل ہوتے ہی یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ شخص دعوائے ایمان میں سچا ہے یا جھوٹا۔ قرآن پاک میں فرمایا : فَاِنْ تَابُوْاوَ اَقَامُوْالصَّلٰوۃَ وَاَتٰوُالزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْاسَبِیْلَھُمْ (اگر یہ توبہ کریں اور نماز ادا کریں اور زکوٰۃ دیں تو ان کا راستہ چھوڑدو) یعنی ان کے ایمان کو معتبر جانو۔ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ مسلمانوں کا لشکر اگر کسی آبادی پر گزرے اور معلوم نہ ہو کہ اہل بستی مسلمان ہیں یا غیر مسلم تو اذان کہو اگر بستی سے اذان کا جواب ملے تو اس بستی کو مسلمان جانو اور ان سے مسلمانوں جیسا سلوک کرو۔ کیونکہ نماز ہی اہل اسلام کی پہچان ہے۔ ارکان اسلام میں سے کوئی رکن بجز زکوٰۃ کے ایسا نہیں جس کی قرآن وسنت میں اس تکرار کے ساتھ تاکید آئی ہوجیسی تاکید نماز کے لیے آئی ہے۔ قرآن کریم میں بار بار اَقِیْمُوالصَّلٰوۃَ (نماز قائم کرو) فرمایا گیا ہے۔ نمازوں کی حفاظت کا حکم دیا گیا۔ حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ (نمازوں کی حفاظت کرو) ترک نماز پر شرک کے اندیشہ کا اظہار کیا گیا کہ نماز قائم کرو ورنہ اندیشہ ہے کہ کہیں مشرک نہ ہوجاؤ۔ اَقِیْمُوْالصَّلٰوۃَ وَلَا تَـکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ اور شرک ایسی برائی ہے جس کا تصور بھی ایک مسلمان کے لیے ناقابل قبول ہے۔ مسلمانوں کو صرف اقامتِ صلوٰۃ ہی حکم نہیں دیا گیا بلکہ اسے ہر مسلمان اور مسلمان معاشرے کی پہچان اور روح قرار دیا گیا اور اسے مسلمانوں کی ایسی صفت قائمہ و مستمرہ ٹھہرایا گیا جو مسلمانوں سے کبھی منفک نہیں ہوسکتی یعنی جس طرح برف سے ٹھنڈک، آگ سے تپش، چاند سے چاندنی، سورج سے روشنی اور موتی سے آب الگ نہیں ہوسکتی اسی طرح ایک مسلمان بلکہ مسلمان معاشرہ سے نماز کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ارشاد فرمایا گیا : وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلٰواتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (وہ مسلمان ہمیشہ اور ہر حالت میں نمازوں کی محافظت کرتے ہیں) ۔ جس طرح ان کے جسموں سے ان کی روحوں کو جدا نہیں کیا جاسکتا اسی طرح ان کی دینی زندگی نمازوں کے اہتمام اور اس کے اثرات سے بےنیاز نہیں رہ سکتی۔ نماز کی پابندی نہ کرنا نفاق کی علامت ہے یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام جس کسی مسلمان کو مسجد سے چند نمازوں میں غائب دیکھتے، تو اس کی مزاج پرسی اور تیمار داری کے لیے اس کے گھر کا رخ کرتے، انھیں یقین ہوجاتا کہ وہ یقینا بیمار ہے یا اسے کوئی عذر لاحق ہے۔ ان کے لیے یہ بات ناقابل تصور تھی کہ کوئی مسلمان بدوں عذر بھی کبھی نماز باجماعت یا مسجد سے بیگانہ رہ سکتا ہے اور اگر انھیں یہ معلوم ہو تاکہ غیر حاضر شخص کوئی معقول عذر نہیں رکھتا تو انھیں اس کے منافق ہونے کا یقین ہوجاتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے ترک نماز نہیں بلکہ اہتمامِ نماز میں سستی کو بھی منافقین کی علامت قرار دیا۔ ارشاد فرمایا : وَاِذْقَامُوْااِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْا کُسَالٰی (جب وہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو ڈھیلے ڈھالے اور کسمسائے ہوئے اٹھتے ہیں) ۔ پروردگار کی نگاہ میں یہ مسلمان کا شیوہ نہیں پھر یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ عہد نبوی اور عہد صحابہ میں آخر منافقین نہ چاہتے ہوئے بھی نماز کیوں پڑھتے تھے ؟ اس کی دو وجوہ تھیں۔ 1 وہ جانتے تھے کہ مسلمان معاشرہ میں رہنے اور خود کو انھیں میں سے ظاہر کرنے کے لیے نماز میں شرکت ضروری ہے ورنہ مسلمان انھیں کبھی مسلمانوں میں شمار نہیں کرسکتے تھے کیونکہ انھیں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد خوب معلوم تھا : مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْکَفَرَ (جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑ دی اس نے کفر کیا) ۔ 2 دوسری وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو جس سانچے میں ڈھالا گیا تھا اس میں نماز کا اہتمام نہ کرنے والوں کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی۔ جس طرح ایک صحت مند معدہ مکھی یا کسی ایسی ہی کسی چیز کو قبول نہیں کرتا بلکہ اگل دیتا ہے۔ اسی طرح صحت مند مسلمان معاشرہ کبھی بےنماز کو برداشت نہیں کرتا بلکہ بےنماز آدمی اکل کھرے معاشرے میں کھوٹ کی طرح الگ ہوجاتا ہے کیونکہ پروردگار نے اس مسلمان معاشرے کے معماروں یعنی انبیاء کرام کی یہ ذمہ داری ٹھہرائی تھی کہ وہ خود بھی نماز کی پابندی کریں اور اپنے ماننے والون کو بھی اس کا حکم دیں اور اس کا آغاز اپنے گھر سے کریں آں حضرت ﷺ سے فرمایا جارہا ہے وَأْمُرْاَھْلَـکَ بِاالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْعَلَیْہَا (اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجئے اور خود بھی اس کی پابندی کیجئے ) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا قرآن ِ کریم میں قیامت تک کے لیے محفوظ فرمادی گئی۔ رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ (اے رب مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا) ۔ ایسے معاشرے میں ترک نماز کی کہاں گنجائش رہ سکتی ہے۔ جس میں یہ بات دل و دماغ میں اتار دی گئی ہو کہ نماز زندگی میں بجز جنون اور بےہوشی کے کسی حالت میں بھی ساقط نہیں ہوسکتی۔ اگر گھر کا سکون میسر نہیں حالت سفر درپیش ہے، تو سفر کی روا روی میں بھی نماز چھوڑی نہیں جاسکتی۔ البتہ قصر پڑھو یعنی دو رکعت نماز کافی ہے اور اگر بیماری کا عذر ہے تو عذر کے مطابق نماز پڑھو۔ یعنی قیام پر قادر نہیں ہو توبیٹھ کر پڑھو بیٹھ بھی نہیں سکتے تو لیٹ کر سر کے اشارے سے اور اگر اتنی بھی ہمت نہیں تو آنکھوں کے اشارے سے پڑھ لو، اور اگر وضو نہیں کرسکتے تو تیمم کرلو۔ خود نہیں کرسکتے تو دوسرا کرادے اور اگر جنگ کی حالت درپیش ہو تو صلوٰۃ الخوف یعنی ” خوف کی نماز “ پڑھو۔ اندازہ فرمائیے ! جنگ کی ہولناکیوں میں غذا میسر نہیں آرام کا موقعہ نہیں جان کے لالے پڑے ہیں مگر نماز بہرحال پڑھنی ہے اگر مسلسل فائرنگ اور گولہ باری کی وجہ سے کسی طرح بھی نماز نہیں پڑھی جاسکتی، تو پھر جب موقع ملے جو نمازیں قضا ہوگئی ہیں انھیں پڑھ لو۔ جیسا کہ غزوئہ خندق میں آنحضرت ﷺ کی دو نمازیں کفار کے مسلسل حملے کی وجہ سے قضاء ہوگئی تھیں تو آپ ﷺ نے انھیں قضا پڑھا لیکن نمازوں کے قضا ہوجانے کا رنج اتنا شدید تھا کہ آپ ﷺ کی زبان سے ان کفار کے لیے بددعا نکلی۔ حالانکہ آپ ﷺ سراپا رحمت تھے اور کبھی اپنی ذات کے لیے کسی کو کبھی حرف ناملائم بھی نہیں فرمایا اور طائف کے پتھر کھاکر بھی بددعا نہیں فرمائی۔ لیکن نماز کے معاملہ میں آپ بہت حساس واقع ہوئے تھے کیونکہ نماز فی الحقیقت اللہ تعالیٰ سے وفاداری کا اقرار واعلان ہے اور اس کی مداومت اور پابندی اس عہد وفا کی پاسداری ہے اس لیے جب آپ اس عہد وفا کو شکست ہوتا دیکھتے تو اس دھرتی پر سایہء رحمت ہونے کے باوجود غضبناک ہوجاتے۔ آنحضرت ﷺ کے نماز کے بارے میں شدید حساس ہونے اور نماز کی اہمیت و عظمت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ مرض الوفات میں جبکہ نقاہت کے باعث آپ کی آواز جواب دے رہی تھی اور چند لمحوں بعد آپ واصل بحق ہونے والے تھے۔ حضرت عباس ص فرماتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کے لب مبارک جنبش کرتے ہوئے دیکھے تو میں نے لبوں سے کان لگادئیے۔ آپ فرما رہے تھے : اَلصَّلٰوۃ ۃُ وَمَا مَلَـکَتْ اَیْمَانُـکُمْ (لوگو ! نماز کی پابندی کرنا اور زیر دستوں سے حسن سلوک سے پیش آنا) ۔ جس تحفہ کو عالم لامکاں سے شب معراج آپ اپنے رب سے لے کر آئے تھے، دنیا سے دم واپسیں اسی کی یاد دہانی فرما رہے تھے۔ مسلمان معاشرے میں اسی تاکید واہتمام کا اثر تھا کہ عالم اسلام پر غیر ملکی استعمار کے مکروہ سایہ پڑنے تک مسلمانوں میں ہر طرح کا عیب تلاش کیا جاسکتا ہے مگر بےنماز ہونا یعنی ترک نماز، یہ برائی مسلمانوں میں کبھی نہ تھی کیونکہ مسلمان خوب جانتے تھے کہ اسلام اور پروردگار سے ہمارے تعلق کا یہ آخری ٹان کہ ہے اگر یہ بھی ٹوٹ گیا تو پھر رسمی تعلق تو شاید باقی رہ جائے حقیقی تعلق باقی رہنے کا سوال ہی پید انھیں ہوتا۔ آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کی اجتماعیت کے تحفظ کے لیے غلط کار اور بدعمل حکمرانوں کو بھی آخر حد تک زیادہ سے زیادہ برداشت کرنے کا حکم دیا مگر اس برداشت کی آخری حد یہ بیان فرمائی کہ جب تک وہ تمہیں اقامتِ صلوٰۃ کا حکم دیتے رہیں یعنی اس کے بعد انھیں برداشت کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ قرآن حکیم نے گزشتہ قوموں کے حوالے سے ان کی جس آخری برائی اور گمراہی کو بیان فرمایا ہے جس کے بعد وہ ہلاکت سے نہ بچ سکے۔ وہ یہی نماز کا ضائع کردینے کی حالت ہے ارشاد پاک ہے۔ فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوْاالصَّلٰوۃَ وَاتَّبِعُوْاالشَّھَوٰاتِ (پھر ان کے بعد ایسے ناخلف آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کردیا اور شہوات کے پیروکار ہوگئے) ۔ پھر اللہ کا قانون حرکت میں آیا اور نامرادی و خسران اور تباہی و بربادی ان کا مقدربن گئی۔ واحسرتا ! آج امت مسلمہ اپنی اس متاع بےبہا کو گم کرچکی بالخصوص اس کا طبقہء خواص اس کی اہمیت، افادیت اور عظمت کو بالکل بھلا چکا ہے۔ متذکرہ بالا تفصیل سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ اسلام میں نماز کا کیا مقام اور کیا اہمیت ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ جس فریضہ الہٰی کی دین میں یہ اہمیت ہو اسے قائم کرنا اگر اسلامی حکومت کی پہلی ذمہ داری نہ ٹھہرائی جائے پھر اور کس کی ٹھہرائی جائے۔ نماز کا اہتمام بحالی امن کا پیش خیمہ ہے اقامتِ صلوٰۃ کو اسلامی حکومت کی ذمہ داری ٹھہرانے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر متمدن اور مہذب حکومت کی ذمہ داریوں میں سب سے پہلی ذمہ داری یہ سمجھی جاتی ہے کہ وہ ملک کے نظم ونسق کو بہتر بنائے۔ لوگوں کی جان مال اور عزت محفوظ ہو۔ راستے خطرات سے پاک ہوں، لوگ رات کو آرام کی نیند سو سکیں، ملک کا ہر شہری اپنے آپ کو ہرحال میں محفوظ تصور کرے۔ اسلامی حکومت کی بھی سب سے پہلی یہی ذمہ داری ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پروردگار نے اسلامی حکومت پر اس ذمہ داری کو عائد کرنے سے پہلے ایک اور ذمہ داری عائد کی ہے۔ اگر حکومت اس ذمہ داری کی ادائیگی میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ دوسری ذمہ داری خود بخود ادا ہوجاتی ہے اور وہ پہلی ذمہ داری، دوسری ذمہ داری کی ادائیگی کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ پہلی ذمہ داری سے مراد میری یہ ہے کہ اسلامی حکومت کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کا اپنے اللہ سے تعلق درست کردے۔ ہر مسلمان ہر وقت اس بات کا یقین رکھے کہ جس خالق ومالک نے مجھے پیدا کیا ہے اور جس نے میری زندگی کے اسباب پیدا کیے ہیں اور جس نے مجھے قوت احساس اور قوت ادراک سے نوازا ہے، وہی پروردگار ہر وقت مجھے دیکھتا ہے، میں ہر وقت اس کی نگرانی میں ہوں اس کے متعین کردہ نگران میرے ایک ایک عمل کو محفوظ کررہے ہیں۔ مرنے کے بعد ایک دن ایسا آئے گا جب میں دوبارہ زندہ کیا جاؤں گا اور پھر مجھے اپنے ایک ایک عمل کا اپنے پروردگار کو حساب دینا ہوگا۔ اسی طرح اسلامی حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر مسلمان کے دل میں یہ بات راسخ کردے کہ تم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں از اول تا آخر اللہ ہی کے بندے ہو۔ اسی کی بندگی اور اسی کی اطاعت تم پر لازم ہے۔ وہی ایک ذات ہے جو تمہاری زندگی کی حقیقی راہنما تمہاری کمزوریوں میں وہی تمہارا سہارا ہے اور تمہاری سرفرازیاں بھی اسی کی دین اور اسی کی امانت ہیں۔ تم ہرحال میں اللہ کے بندے ہو بندگی کا حق ادا کرنا اور اس کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرنا تمہاری معراج ہے۔ کسی بھی ملک کے رہنے والوں میں اگر یہ تصورات پختہ کردیئے جائیں تو اندازہ فرمایئے ! کیا اس ملک میں جرم پرورش پاسکتا ہے ؟ جو شخص ہر وقت اللہ کی ذات کو اپنے دماغ میں مستحضر رکھتا ہے وہ کسی بھی ذمہ داری کی ادائیگی میں خیانت کیسے کرسکتا ہے ؟ وہ کسی شخص پر ظلم کیسے کرسکتا ہے ؟ وہ کسی کے مال میں دست درازی کیسے کرسکتا ہے ؟ اس کے سامنے سر جھکانے والا سرکشی کا رویہ کیسے اختیار کرسکتا ہے ؟ اندازہ فرمائیے ! اگر اس تبدیلی کے بعد واقعی انسان ہر طرح کے گناہ اور جرم سے بچ جاتا ہے اور اگر معاشرہ اس قالب میں ڈھل جائے تو پورا معاشرہ گناہوں اور جرائم سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ تو اس کے بعد نظم ونسق کی بحالی اور لاء اینڈ آرڈر کی بہتری کے لیے اور کچھ کرنے کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے۔ اس لیے پروردگار نے سب سے پہلے مسلمانوں کو اس بنیادی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اقامت صلوٰۃ کا حکم دیا۔ کیونکہ نماز ہی ہے جس کے ذریعے اسلامی معاشرے میں متذکرہ بالا تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ایک آدمی جب نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو سب سے پہلے اللہ اکبر کہتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات، اپنی ضروریات، اپنی خواہشات، دنیا کے تقاضوں، اور دنیا کی تمام نام نہاد عظمتوں کا انکار کرتے ہوئے صرف اللہ کی بڑائی کا اعتراف کرتا ہے اور ہاتھ اٹھاتے ہوئے ہر چیز کو پس پشت پھینکتا ہے اور اللہ کی بندگی کا اقرار کرتے ہوئے ہاتھ باندھ لیتا ہے۔ اس کے بعد اسی کی ثناء کرتا ہے، اسی کی حمد بیان کرتا ہے، اسی کی بندگی کا اعتراف کرتا ہے اور صرف اسی سے مدد طلب کرتا ہے اور پھر اسی کے ضابطہ حیات کی تلاوت کرتا ہے، پھرا سی کے سامنے رکوع، سجود اور قعود سے بندگی کی تکمیل کرتا ہے۔ یہ سب کچھ امت اسلامیہ کا ایک فرد بھی کرتا ہے اور پوری امت بھی کرتی ہے، اسی کا نام نماز ہے۔ اگر یہ نماز شعوری طور پر پڑھی جائے اور اس کے تمام تقاضوں کو بروئے کار لایا جائے اور اس کے مقاصد میں سے کم از کم اس بات کو ذہن نشین کرلیا جائے اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ (کہ میری یاد کے لیے نماز کو قائم کرو) ۔ اور اس کے منفی پہلو کو بھی مضبوط ہاتھوں سے تھام لیا جائے اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ (بےشک نماز بےحیائی کے کاموں سے اور گناہ سے روکتی ہے) ۔ تو تصور کیجئے ! اللہ کی یاد کے ساتھ گناہوں کا وجود کیسے باقی رہ سکتا ہے اور بےحیائی اور گناہوں کے رکنے کے عزم کے ساتھ جرم کیسے جنم لے سکتا ہے ؟ یہ اللہ کا دیا ہوا حیرت انگیز نظام ہے کہ اس نے ایک عبادت کے ذریعے پوری اجتماعی زندگی کو ہر طرح کی دراڑوں سے محفوظ کردیا اور اسے ایک ایسے اہم کام کا ذریعہ بنادیا جو حکومتوں کی پہلی ذمہ داری ہے اور جس کی ادائیگی آج بھی دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے مشکل ہورہی ہے میری ان گذارشات سے یہ بات سمجھنا آسان ہوگیا ہوگا کہ قرآن کریم نے اسلامی یا مسلمان حکومت کے لیے سب سے پہلے نماز قائم کرنا ضروری کیوں قرار دیا۔ لیکن اپنی کو تاہی فکر اور بدنصیبی پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے کہ جب بھی کہیں جزوی طور پر بھی مسلمانوں نے اقتدار پاکر اقامتِ صلوٰۃ کے فریضہ کو انجام دینے کی کوشش کی ہے تو ہمارے دانشوروں کا گروہ ہاتھ جھاڑ کر ان کے پیچھے پڑگیا ہے۔ آپ کو سب سے پہلے لاء اینڈآرڈر کا مسئلہ حل کرنا چاہیے لوگوں کی محرومیوں کا علاج کرنا چاہیے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے چاہئیں۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ نماز صرف اولین فریضہ ہی نہیں بلکہ مسلمان معاشرے کی تبدیلی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس کے نتیجے میں خود بخود ایک صالح انقلاب آتا ہے جو مسلمان معاشرے کے لیے خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوتا ہے۔ اس پوری تفصیل سے آپ کو اس بات کا بھی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ قرآن کے مطالعہ سے متقین میں جو صالح اعمال پیدا ہوتے ہیں، ان میں جسمانی اعمال میں سے صرف نماز کا ذکر کیوں کیا گیا ہے ؟ نماز اصلاً ایک ایسی کلید ہے جس سے انسانی سیرت و کردار کا ہر بند دروازہ کھلتا چلا جاتا ہے۔ اللہ سے تعلق کی درستی کے ساتھ ساتھ دوسری چیز جو اسلام اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کا تعلق دوسرے انسانوں اور دوسرے مسلمانوں سے درست ہوجائے۔ یوں تو وہ ہر مخلوق سے مسلمانوں کے تعلق کی درستی کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن انسانوں اور بطور خاص مسلمانوں سے صحیح تعلق کی استواری کا نماز ہی کی طرح تاکید کرتا ہے کیونکہ جب ایک نمازی نماز کے لیے مسجد جاتا ہے تو نماز کے دوران اور نماز کے ماحول میں جس طرح اللہ سے قرب نصیب ہوتا ہے اسی طرح مسلمانوں سے بھی قربت کا موقع ملتا ہے اپنے دینی بھایئوں کے حالات سے آگاہی ہوتی ہے۔ قرنِ اول کے مسلمان ہماری طرح بےگانوں کی طرح نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ وہ باہمی ایک دوسرے سے قربت اور حالات سے آگاہی کو بھی ضروری سمجھتے تھے اور پھر مسلمانوں کا امام نمازوں کی اور جمعہ کی جماعت کے وقت مسلمانوں کو ملک کے اندرونی اور بیرونی حالات اور ضرورتوں سے بھی آگاہ رکھتا تھا اور بعض دفعہ مسلمانوں کی ضرورتوں کی طرف متوجہ بھی کرتا تھا۔ اگر نمازوں کے اوقات کے علاوہ کبھی کوئی ایسی مالی ضروت پیش آجاتی یا کوئی حالات کے ہاتھوں ستایا ہوا مسلمانوں کا قافلہ مسجد میں پہنچ جاتا تو الصلوۃ جامعۃ کی صدا گونجنے لگتی اور مسلمان کشاں کشاں مسجد میں پہنچ جاتے اور آنے والے بےنوائوں اور بےکسوں کے دکھوں کا مداویٰ کیا جاتا۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے ایک شخص کو چیتھڑے پہنے ہوئے دیکھا تو باوجود اس کے کہ آپ ﷺ خطبے کے لیے منبر پر رونق افروز ہوچکے تھے آپ ﷺ نے اسے کھڑے ہو کر سنتیں پڑھنے کی تاکید فرمائی۔ تاکہ لوگ اس کی زبوں حالی اور بےکسی کو دیکھ لیں اور خود بخود اس کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز جس طرح اللہ سے تعلق کو استوار کرتی ہے اسی طرح مسلمانوں کے باہمی تعلق کو مضبوط کرنے کا ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے اس کے فوراً بعد ارشاد فرمایا گیا : وَمِمَّا رَزَقْنَا ھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۔ (البقرۃ : 3) (اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ) انفاق کی حقیقت یعنی دوسری صفت جو متقین میں پید اہوتی ہے وہ یہ ہے کہ وہ نمازی ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے میں بھی بہت فیاض ہوتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایک مسلمان پر جس طرح یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اپنے اللہ سے تعلق کو درست رکھے اور اللہ کے حقوق ادا کرے۔ اسی طرح اس پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اللہ کے بندوں سے محبت کرے اور ان کے جو حقوق اس پر عائد ہوتے ہیں انھیں ادا کرے۔ اس جملے کے الفاظ پر اگر غور کریں۔ تو کئی حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں۔ 1 یہاں کسی چیز کا نام نہیں لیا گیا بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے جو کچھ انھیں عطا کیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ہم نے اگر انھیں مال عطا کیا ہے تو وہ مال خرچ کرتے ہیں اور اگر علم عطا کیا ہے، تو جاہلوں میں علم لٹاتے ہیں۔ اگر انھیں طلاقتِ لسانی سے نوازا ہے تو وہ تبلیغ و دعوت کا فرض انجام دیتے اور لوگوں کو راہ راست دکھاتے ہیں اور اگر انھیں عہدہ ومنصب دیا گیا ہے تو وہ غریبوں، بےکسوں اور بےسہارا لوگوں کے کام آتے ہیں۔ جسے جسمانی طاقت سے مضبوط بنایا گیا ہے وہ جسمانی طور پر کمزور لوگوں کی مدد کرکے اور ان کا سہارا بن کے اپنی اس طاقت کو صرف کررہا ہے۔ غرضیکہ رزق کا معنی چونکہ حصہ اور نصیب ہوتا ہے جو ہر نعمت پر بولا جاتا ہے اس لحاظ سے اس لفظ میں بڑی وسعت ہے۔ 2 یہاں ینفقون کے لفظ کو بھی عام رکھا گیا ہے۔ جو صدقات واجبہ اور صدقات نافلہ دونوں کو شامل ہے۔ کہ وہ صرف صدقات واجبہ ہی ادا نہیں کرتے یعنی صرف زکوٰۃ، صدقہ فطریا نذر وغیرہ ادا کرکے مطمئن نہیں ہوجاتے بلکہ وہ اللہ کی راہ میں ہر ضرورت کے وقت اپنا مال بےدریغ خرچ کرتے ہیں۔ کوئی بھی انفرادی ضرورت ہو یا اجتماعی ضرورت وہ صرف زکوٰۃ ادا کرکے فارغ نہیں ہوجاتے بلکہ اپنی وسعت کے مطابق ہر ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس میں ان کی فیاضی اور سخاوت کا یہ عالم ہے کہ بعض دفعہ اپنا پیٹ کاٹ کر بھی اور خود بھوکے رہ کر بھی دوسروں پر خرچ کر کے خوش ہوتے ہیں۔ اسی کی تعریف کرتے ہوئے پروردگار نے قرآن کریم میں فرمایا : یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃً وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں وہ خود اگرچہ بھوک سے ہوں “۔ پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے پاس دولت کی فراوانی ہو تو وہ حضرت عثمان غنی ص کی طرح سینکڑوں مجاہدین کو مسلح کردیں بلکہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا شوق انھیں یہاں تک کھینچ لاتا ہے کہ جنگ تبوک کے موقع پر جب آنحضرت ﷺ نے چندے کی اپیل فرمائی تو مسجد میں ڈھیر لگ گیا لیکن شام کے وقت ایک صاحب آئے انھوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں چھوہاروں کی ایک پوٹلی پیش کی۔ آپ ﷺ نے اسے قبول فرماتے ہوئے حکم دیا کہ ان چھوہاروں کو اس ڈھیر پر بکھیر دیا جائے کیونکہ وہ چھوہارے لانے والے کی دن بھر کی مزدوری تھی جو اس نے آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کردی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی دینے والے کے اخلاص میں کمی بھی ہوگی تو ان چھوہاروں کی برکت سے اللہ تعالیٰ سب کے عطیات کو قبول فرمالیں گے۔ رَزَقْنَاھُمْ کا مفہوم 3 اس جملے میں چونکہ یہ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جو کچھ ہم نے دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو وہ درحقیقت اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ یہ میں جو کچھ دے رہا ہوں۔ یہ مال میرا نہیں بلکہ اللہ ہی نے مجھے عطا کیا تھا اور میں نے اسی مال میں سے اللہ کے بندوں پر خرچ کیا ہے۔ یہ اعتراف ایک بہت بڑی اصلاح کا ذریعہ بن جاتا ہے کیونکہ ایک متمول آدمی میں خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے اور بخل کو اس وقت اس کے دل میں جگہ بنانے کا موقع ملتا ہے جب وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مال میرا ہے اور میں نے اپنی صلاحیت سے کمایا ہے۔ اس لیے اب اسے خرچ کرنا جہاں چاہے خرچ کرنا اور جتنا چاہے خرچ کرنا مجھے بجا طور پر اس کا حق ہے کیونکہ میں بہر صورت اس مال کا مالک ہوں۔ ایسے شخص کو مالی بد عنوانی سے اور مال کو فسق وفجور کا ذریعہ بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اسے روکنے کی ایک ہی صورت ہے کہ اس کے ذہن میں یہ احساس پیدا کردیا جائے کہ یہ مال تیری ملکیت نہیں بلکہ اللہ کی دین اور اس کی امانت ہے۔ اس لیے اگر تم نے اس کے احکام سے ہٹ کر اس میں تصرف کیا تو تم خیانت کا ارتکاب کرو گے اور قیامت کے دن تم سے اس کی بازپرس ہوگی۔ 4 عبارت کے اس اسلوب سے انفاق کرنے والے کے لیے انفاق سہل ہوجاتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ اللہ نے مجھے ڈھیروں دیا ہے لیکن اس میں سے کچھ خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہ اس مال کا مالک ہے وہ اگر چاہتاتو یہ بھی حکم دے سکتا تھا کہ اپنی ضرورتوں کے لیے معمولی سا رکھ کر سارا میرے راستے میں خرچ کردو یہ اس کا کرم ہے کہ اس میں سے صرف اڑھائی روپے مجھے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور باقی میں مجھے اختیار دے دیا ہے۔ تو جب آدمی اپنے اختیار سے خرچ کرتا ہے تو ایسا خرچ اور انفاق اس کے لیے بوجھ نہیں بنتا۔ اگر وہ صحیح جذبے سے خرچ کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ خرچ کرکے بھی شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ مجھ سے کچھ بھی نہ ہوسکا کیونکہ اگر میں سارا بھی خرچ کر ڈالتاتو تب بھی یہ اسی کا دیا ہوا تھا اسی کو لوٹا دیتا۔ یہ کون سے کمال کی بات ہے۔ جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا قرآن کریم نے جس طرح اقامتِ صلوٰۃ کو اسلامی حکومت کی ذمہ داری ٹھہرایا ہے اسی طرح انفاق فی سبیل اللہ میں سے کم از کم زکوٰۃ کی ادائیگی کو اسلامی حکومت کی ذمہ داری بنایا ہے۔ ایک وجہ تو ظاہر ہے کہ نماز کی طرح زکوٰۃ بھی ارکان دین میں سے ہے۔ قرآن کریم میں تقریباً اسی (80) جگہ نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوجاتا ہے کہ خلافت راشدہ میں جب کچھ قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تو صحابہ ( رض) نے بالاجماع ان کے خلاف قتال کیا حالانکہ قتال غیر مسلموں کے خلاف ہوتا ہے۔ وہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے لیکن صحابہ کرام ( رض) جو آنحضرت ﷺ کے تربیت یافتہ تھے انھوں نے زکوٰۃ سے انکار کو اسلام کے انکار کے مترادف قرار دیا۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے ( میں اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں) کہ دین کے دوہی مقاصد ہیں ایک اللہ سے تعلق کو درست کرنا اور دوسرا بندوں کا بندوں سے تعلق درست کرنا۔ یہ دو باتیں اگر مکمل ہوجائیں تو دین مکمل ہوجاتا ہے۔ پہلا مقصد نماز سے پورا ہوتا ہے اور باقی سارے اصلاحی احکام اسی کی شاخیں ہیں اور دوسرا مقصد انفاق فی سبیل اللہ سے پورا ہوتا ہے۔ جب اس کا تعلق بندوں سے ٹھیک نہج پر قائم ہوگیا تو اب اس کے لیے بندوں کے حقوق ادا کرنا کوئی مشکل نہیں رہتا۔ یہ تعلق کی اصلاح انسانوں کے باہمی تعلقات کی اصلاح کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ ایک اور پہلو سے بھی غور کیا جائے تو اس صفت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اللہ سے اور بندوں سے تعلق میں جو خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اس کے متعدد اسباب ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک اہم تر سبب انسانوں کی باہمی اقتصادی مشکلات ہیں۔ جب ایک معاشرے میں اقتصادی استواری کی بجائے اقتصادی ناہمواری پیدا ہوتی ہے اور غریب قوت لایموت کے لیے پریشان ہوتا ہے۔ بنیادی انسانی ضرورتیں بھی انسانوں کو میسر نہیں آتیں تو اخلاقی قدریں بھی ٹوٹنے لگتی ہیں اور جرائم کو بھی کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ اس لیے اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مسلمانوں کی بنیادی ضرورتوں کی کفیل ہو۔ اس کے لیے اسلام نے جس طرح زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا ہے اور تمام ایسے راستوں کو بند کردیا ہے جس سے اسراف، تبذیر، تعیش، فسق و فجور، قمار، ارتکازِ زر اور سود جیسے جرائم پرورش پاتے ہیں۔ لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعے ایک ایسا مزاج تیار کرتا ہے، جس کے نتیجے میں معاشرے میں کوئی شخص نہ محرومیوں کا شکار ہوتا ہے اور نہ بنیادی ضرورتوں سے تہی دامن رہتا ہے۔ وہ ہر مال دار کے ذہن میں یہ بات پیوست کردیتا ہے کہ تمہارے پاس دولت امانت ہے اور تہی دست تمہاری دولت میں شریک اور حصہ دار ہے۔ اگر تم نے اس کی ضرورت دیکھ کر بھی اس کا حصہ ادا نہ کیا تو تم اس امانت میں خیانت کروگے۔ اقبال نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے : ؎ کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک و صاف منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و نظر کا انقلاب بادشاہوں کی نہیں اللہ کی ہے یہ زمیں اس تعلیم و تربیت کا نتیجہ تھا کہ قرون اولیٰ میں ہر کھاتا پیتا شخص فجر کی نماز کے بعد گھر کی چھت پر چڑھ کر بلند آواز سے پوچھتا تھا کہ رات کو کسی گھر میں کوئی یتیم یا مسکین بھوکا تو نہیں سویا۔ اگر ایسا ہے تو فوراً اس کی خبر لو، ورنہ اندیشہ ہے کہ کہیں اللہ کا عذاب نہ نازل ہوجائے۔ محتاج امرا کو نہیں، بلکہ امرا محتاجوں کو ڈھونڈتے تھے اور ڈرتے تھے کہ ان کی احتیاج اللہ کی ناراضگی کا سبب نہ بن جائے۔ وہ زمانہ تو خیر و برکت کا زمانہ تھا۔ ہماری قریبی تاریخ میں پاکستان بننے سے چند سال پہلے کا واقعہ ہے۔ جس نے ایک بڑی شخصیت کو بدلنے میں مدد دی۔ معروف شخصیت علامہ اسدجو ایک یہودی نو مسلم تھے۔ اصل نام ان کا لیوپولڈ تھا۔ جرمنی کے رہنے والے تھے۔ جن دنوں وہ اسلام اور مسلمانوں کا مطالعہ کررہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ دمشق کے سفر میں میں ٹرین میں سوار تھا کہ دوپہر کو جب کھانے کا وقت ہوا، تو ٹرین کے مسافروں میں حسب طاقت لوگوں نے کینٹین سے کھانا منگوایایا اپنے اپنے توشہ دان کھولے۔ لیکن دو عرب مسافروں کو میں نے دیکھا، وہ آمنے سامنے بیٹھے تھے اور دونوں ایک دوسرے سے ناآشنا تھے۔ ایک نے اپنے تھیلے سے ایک تنور کی پکی ہوئی روٹی نکالی، جس کے ساتھ کوئی سالن وغیرہ نہیں تھا۔ اس نے بغیر پوچھے اس کے دو حصے کیے، ایک حصہ اپنے پاس رکھا اور دوسرا سامنے کے مسافر کی طرف بڑھا دیا۔ اس مسافرنے لینے میں تأمل کیا، لیکن اس مسافر کے اصرار پر دونوں نے ایک روٹی سے اپنا پیٹ بھر لیا۔ انفاق کا یہی جذبہ تھا، جس نے مسلمانوں میں بےسروسامانی کے باوجود، بنیادی ضرورتوں کا مسئلہ حل کردیا تھا۔ ہم جیسے جیسے اس جذبے سے تہی دامن ہوتے گئے ویسے ویسے مسائل کا شکار ہوتے گئے۔ آج بھی قرآن کریم خود سے استفادہ کرنے والوں کو توجہ دلا رہا ہے کہ آج بھی اگر تم اپنے بنیادی مسائل حل کرنا چاہتے ہو، تو حصول معاش کی ضرورتوں کے ساتھ ساتھ یہ جذبہ اپنے اندر پید اکرو کہ صاحب وسائل، اپنے وسائل میں دوسروں کو شریک کریں، تو بےوسیلہ لوگوں کو خود بخود ایک ریلیف میسر آئے گا۔ جس سے بنیادی ضرورت بھی پوری ہوگی اور باہمی محبت بھی پروان چڑھے گی۔ صرف وسائل کی فراہمی، اندر کی تربیت کے بغیر، معاشرے میں تفاوت میں تو اضافہ کرسکتی ہے، لیکن غریب کی غربت کا علاج نہیں کرسکتی۔
Top