Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ
: جو لوگ
يُؤْمِنُونَ
: ایمان لاتے ہیں
بِالْغَيْبِ
: غیب پر
وَيُقِيمُونَ
: اور قائم کرتے ہیں
الصَّلَاةَ
: نماز
وَمِن
: اور سے
مَّا
: جو
رَزَقْنَاهُمْ
: ہم نے انہیں دیا
يُنْفِقُونَ
: وہ خرچ کرتے ہیں
ان لوگوں کے لیے جو غیب میں رہتے ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو بخشا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
يُؤْمِنُونَ بِٱلْغَيْبِ: ایمان، امن سے ہے۔ ایمان کے اصل معنی امن دینے کے ہیں۔ اگر اس کا صلہ لام کے ساتھ آئے تو اس کے معنی تصدیق کرنے اور رب کے ساتھ آئے تو یقین اور اعتماد کرنے کے ہوجاتے ہیں۔ اس لفظ کی حقیقی روح یقین، اعتماد اور اعتقاد ہے۔ جو یقین، خشیت، توکل اور اعتقاد کی خصوصیات کے ساتھ پایا جائے اس کو ایمان کہتے ہیں۔ جو شخص اللہ تعالیٰ پر، اس کی آیات پر، اس کے احکام پر ایمان لائے اور اپنا سب کچھ اس کے حوالے کر کے اس کے فیصلوں پر پوری طرح راضی اور مطمئن ہو جائے وہ مومن ہے۔ یہ لفظ جب اپنے مفعول کے ساتھ استعمال ہوتا ہے تو اس سے خاص اسی چیز پر ایمان لانا مراد ہوتا ہے جس کا اس کے مفعول کی حیثیت سے ذکر ہوتا ہے لیکن اگر مفعول کے بغیر آئے تو اس کے تحت وہ ساری ہی چیزیں آ سکتی ہیں جن پر ایمان لانے کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے۔ یا جن پر قرینہ دلیل بن سکتا ہے۔ “غیب”کا لفظ قرآن مجید میں مندرجہ ذیل معنوں میں آیا ہے۔ وہ جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو۔ اس کا مدمقابل لفظ شہادت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ عَالِمُ الغَیۡبِ وَالشَھَادَۃِ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان چیزوں سے بھی باخبر ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں اور ان چیزوں سے بھی باخبر ہے جو ہمارے سامنے ہیں۔ وہ چیز جس کے جاننے کا آدمی کے پاس کوئی ذریعہ نہ ہو – نبی ﷺ کی زبان سے قران میں نقل ہے وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْْرِ (۱۸۸۔ اعراف) اگر مجھے غیب کا پتہ ہوتا تو میں خیر میں بہت سا اضافہ کر لیتا۔ وہ جگہ جو آدمی کے سامنے نہ ہو یا وہ سمت جو متعین نہ ہو رہی ہو- ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَاءِ الْغَیْْبِ نُوْحِیْہِ اِلَیْْکَ وَمَا کُنْتَ لَدَیْْہِمْ اِذْ اَجْمَعُوْا اَمْرَہُمْ. (۱۰۲۔ یوسف) یہ غیب کے واقعات میں سے ہے جس کو ہم تمہاری طرف وحی کر رہے ہیں اور جب وہ اپنے فیصلہ پر متفق ہوئے تو تم ان کے پاس موجود نہ تھے۔ راز کے معنی میں بھی اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ مثلاً نیک بیبیوں کی تعریف میں آتا ہے۔ حٰفِظٰتُ لِلۡغَیۡبِ – (وہ راز کی حفاظت کرنے والیاں ہیں)۔ بِٱلْغَيْبِ کی“ب”کے بارے میں بھی دو رائیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ اس کو ظرف کے معنی میں لیا جائے یعنی وہ غیب میں ہوتے ہوئے ایمان لاتے ہیں۔ اس معنی کی متعدد مثالیں قرآن میں موجود ہیں۔ مثلاً الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَیْْبِ وَہُمْ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشْفِقُوْنَ. (۴۹۔ انبیاء) جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں غیب میں ہوتے ہوئے اور قیامت سے ڈرنے والے ہیں۔ اِنَّمَا تُنْذِرُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُم بِالغَیْْبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ. (۱۸۔ فاطر) تم انہی کو ڈرا سکتے ہو جو غیب میں ہوتے ہوئے اپنے رب سے ڈریں اور نماز قائم کریں۔ اس صورت میں“يُؤْمِنُونَ”عام رہے گا۔ اور وہی تمام چیزیں اس کے تحت آ سکیں گی جن پر ایمان لانا ضروری ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ایمان لانے کے لئے وہ اس بات کے منتظر نہیں ہیں کہ تمام حقائق کا آنکھوں سے مشاہدہ کر لیں، بلکہ وہ مشاہدہ کے بغیر محض عقل و فطرت کی شہادت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ سلم کی دعوت کی بنا پر ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جن پر ایمان لانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ سلف میں سے ربیع بن انس نے یہی تاویل اختیار کی ہے اور ہم نے بھی ترجمہ میں اسی کو ترجیح دی ہے۔ دوسری رائے یہ ہو سکتی ہے کہ اس کو صلہ کی“ب”مانا جائے اور“بِٱلْغَيْبِ”کو“يُؤْمِنُونَ”کا مفعول قرار دیا جائے۔ یہ رائے اگرچہ اکثریتی رائے ہے، اور زبان کے اعتبار سے اس میں کوئی بھی نقص نہیں ہے لیکن مندرجہ ذیل وجوہ سے ہمیں یہ رائے کچھ زیادہ قوی نہیں معلوم ہوتی۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس صورت میں ایمان صرف غیب کے ساتھ مخصوص ہو کر رہ جاتا ہے۔ غیب کے سوا بقیہ ساری چیزیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے، ایمان کے دائرہ سے باہر ہوجاتی ہیں۔ برعکس اس کے پہلی صورت میں وہ تمام چیزیں ایمان کے دائرہ میں آجاتی ہیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے اور جن کی قرآن نے دوسرے مواقع پر تفصیل بیان کر دی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لفظ غیب کا اطلاق چاہے ان تمام چیزوں پر ہوتا ہو جن پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن نبی اور کتاب پر تو اس کا اطلاق بہرحال نہیں ہوتا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ دونوں چیزیں جن پر اللہ تعالیٰ کے بعد ایمان لانا سب سے زیادہ ضروری ہے یہاں ایمان سے کیوں خارج کر دی گئیں؟ تیسری وجہ یہ ہے کہ غیب کا لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بھی نہیں بولا گیا ہے۔ غیب اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے نہیں ہے۔ اس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ ہوئے کہ یہاں اللہ تعالیٰ بھی ایمان کے اجزاء میں شامل نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ بھی ایمان کے اجزاء میں شامل نہیں ہے تو ایمان بالغیب کے تحت صرف آخرت اور فرشتوں پر ایمان لانا ضروری ٹھہرتا ہے یا زیادہ سے زیادہ مستقبل کے حوادث پر۔ آخر ایمان کے دائرہ کو اس قدر محدود کردینے کی کیا وجہ ہے؟ چوتھی وجہ یہ ہے کہ یہ دوسری تاویل لینے والے حضرات کہتے ہیں کہ غیب سے مراد احوال آخرت ہیں۔ اگر احوال آخرت ہی مراد ہیں تو آخرت کا ذکر تو آگے اسی سلسلہ میں مستقل طور پر آ رہا ہے۔ فرمایا ہے وَبِالۡاٰخِرَۃِ ھُمۡ یُوۡقِنُوۡنَ- اور آخرت پر یہی لوگ ایمان رکھتے ہیں۔ آخر ایک ہی سلسلہ میں ایک ہی بات کو اس طرح دہرانے کی کیا ضرورت تھی؟ پانچویں وجہ یہ ہے کہ پہلی تاویل سے ایک بہت بڑی حقیقت سامنے آتی ہے جس سے یہ دوسری تاویل بالکل خالی ہے۔ وہ یہ کہ ایمان یا خشیت وہی معتبر ہے جو بصیرت اور تقویٰ سے پیدا ہو۔ جو ایمان یا خشیت گناہوں کے نتائج سامنے آجانے کے بعد پیدا ہو خدا کے ہاں اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ جو لوگ خدا کا عذاب دیکھ کر ایمان لائے ان کے بارہ میں ارشاد یہ ہے۔ اَثُمَّ اِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُمْ بِہٖ آلْاٰنَ وَقَدْ کُنْتُمْ بِہٖ تَسْتَعْجِلُوْنَ. (۵۱۔ یونس) تو کیا پھر جب عذاب آ نازل ہی ہوگا تب ہی اس کو مانو گے، اس وقت ہم کہیں گے اب! حالانکہ اس کے لئے تم جلدی مچائے ہوئے تھے۔ ظرفیت کے مفہوم کے خلاف ایک بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ جہاں جہاں بھی، قرآن میں لفظ ایمان کے ساتھ“ب”آئی ہے کہیں بھی ظرفیت کے مفہوم میں نہیں آئی ہے۔ لیکن یہ بات کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ اس کے جواب میں بالکل اسی کے برابر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بالغیب کا لفظ قرآن میں جہاں جہاں بھی آیا ہے ظرف ہی کے طور پر آیا ہے، کہیں بھی مفعول کے طور پر نہیں آیا۔ اس وجہ سے جہاں تک قرآن کے نظائر کا تعلق ہے، وہ ظرفیت کے مفہوم کے حق میں زیادہ نمایاں ہیں۔ یقیمون الصلٰوۃ: اقامت کے معنی کسی چیز کے کھڑے کرنے یا اس طرح سیدھے کرنے کے ہیں کہ اس میں کوئی ٹیڑھ باقی نہ رہ جائے۔ فرمایا ہے وہ نماز قائم کرتے ہیں، یہ نہیں کہا ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں قرآن نے نماز کے لئے قائم کرنے کا لفظ استعمال کر کے ایک ہی ساتھ کئی حقیقتوں کی طرف توجہ دلا دی ہے۔ پہلی چیز جس کی طرف یہ لفظ متوجہ کرتا ہے وہ نماز میں اخلاص ہے یعنی نماز صرف اللہ ہی کے لئے پڑھی جائے کسی اور کو اس میں شریک نہ کیا جائے۔ اس کے اندر سیدھے کرنے کا جو مفہوم ہے اس کا تقاضا اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک پوری یکسوئی کے ساتھ اللہ ہی کے لئے نہ پڑھی جائے۔ دوسرے مقام پر یہ حقیقت واضح لفظوں میں بھی بیان کر دی ہے۔ وَاَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ۔ (۲۹ اعراف) اور اسی کی طرف اپنے رخ کرو ہر مسجد کے پاس اور اسی کو پکارو اسی کے لئے اطاعت کو خاص کرتے ہوئے۔ یہیں سے یہ بات بھی نکلی کہ نماز میں رخ قبلہ کی طرف ہونا چاہئے کیونکہ وہی توحید اور اخلاص کا مرکز ہے۔ دوسری چیز جس کی طرف یہ لفظ اشارہ کرتا ہے وہ نماز کے اصل مقصود پر دل کو پوری طرح جمانا ہے۔ نماز کا اصل مقصود ذکر الہٰی میں خشوع و خضوع ہے، اگر آدمی اس چیز سے غافل ہو کر نماز پڑھے تو یہ نماز کو قائم کرنے نہیں بلکہ محض چھدا اتارنا ہوا۔ اس حقیقت کی طرف بھی قران نے بعض مقامات پر توجہ دلائی ہے۔ مثلاً وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ. (۱۴ طٰہٰ) اور نماز کو میرے ذکر کے لئے قائم کرو۔ دوسری جگہ فرمایا ہے۔ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَ. (۱۔۲ مومنون) ان مومنوں نے فلاح پائی جو اپنی نمازیں خشوع و خضوع سے ادا کرتے ہیں۔ تیسری چیز یہ ہے کہ نماز بغیر کسی کمی بیشی کے اس طریقہ کے مطابق ادا کی جائے جس طریقہ پر اللہ تعالیٰ نے اس کو ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے: فَاِذَا اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ. (۲۳۹ بقرہ) پس جب تم امن میں ہو جاو تو اس طریقہ کو یاد کرو جو طریقہ اس نے تم کو سکھایا ہے۔ نماز کی صفوں کا ٹھیک کرنا اور ارکان نماز کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ اسی وجہ سے حدیث میں آیا ہے کہ تسویۃ الصفوف من اقامۃ الصلوۃ- صفوں کو برابر کرنا بھی اقامت صلوۃ کا ایک جزو ہے۔ چوتھی چیز نماز کی پوری پوری پابندی ہے۔ فرمایا ہے: اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ اللَّیْْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ. (۷۸ اسراء) اور نماز قائم کرو سورج کے زوال کے وقت سے لے کر رات کے تاریک ہونے تک اور صبح کے وقت کا قرآن پڑھنا۔ اسی چیز کو دوسرے مقامات میں “نمازوں کی نگرانی”سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ. (۲۳۸ بقرہ) پانچویں چیز نماز پر قائم رہنا ہے جیسا کہ فرمایا ہے- ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَاءِمُوْنَ. (۲۳ معارج) وہ اپنی نمازوں پر برابر قائم رہتے ہیں۔ چھٹی چیز جمعہ وجماعت کا قیام واہتمام ہے۔ خصوصیت کے ساتھ جب امت یا امام کی طرف سے اس کی نسبت کی جاتی ہے تب تو واضح طور پر جمعہ وجماعت کا قیام واہتمام ہی مدنظر ہوتا ہے۔ مثلاً ملاحظہ ہو: اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنَّاہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَآتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ . (۴۱ حج) اگر ہم ان کو زمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا جس میں انہوں نے اپنی ذریت کا مشن بتایا ہے، ان الفاظ میں نقل ہوئی ہے۔ رَّبَّنَا اِنِّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ. (۳۷ ابراہیم) اے ہمارے رب میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو اس کھیتی کی زمین میں تیرے محترم گھر کے پاس بسایا ہے، اے ہمارے رب، تاکہ یہ نماز قائم کریں۔ “صلوٰۃ”کا لفظ اصل لغت میں کسی شے کی طرف متوجہ ہونے کے لئے آیا ہے۔ پھر یہیں سے یہ لفظ رکوع کے معنی میں اور پھر تعظیم اور تضرع اور دعا کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ استاذ امام مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ علیہ کی تحقیق یہ ہے کہ یہ لفظ عبادت کے معنی میں بہت قدیم ہے۔ کلدانی میں دعا اور تضرع کے معنی میں اور عبرانی میں رکوع اور نماز کے معنی میں یہ استعمال ہوا ہے۔ قرآن میں یہ لفظ ایک اصطلاح کی حیثیت سے استعمال ہوا ہے جس کی وضاحت قرآن نے بھی کر دی ہے اور سنت نے بھی اس کی پوری وضاحت کی ہے۔ علاوہ ازیں امت کے قولی و عملی تواتر نے اس کی شکل و ہئیت اور اس کے اوقات بالکل محفوظ رکھے ہیں۔ اگر اس کے کسی جزو میں کوئی اختلاف ہے تو وہ محض فروعی قسم کا ہے جس سے اصل حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
Top