Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو بن دیکھے (سچا پکا) ایمان رکھتے ہیں (غیبی حقائق پر) اور وہ قائم کرتے ہیں نماز کو اور خرچ کرتے ہیں (ہماری رضا کے لئے) اس میں سے جو کہ ہم نے ان کو دیا (بخشا) ہوتا ہے3
6 ایمان بالغیب ہی مدار صلاح و فلاح ہے : سو غیبی حقائق پر ایمان رکھنا، قرآن حکیم سے استفادہ کیلئے اولین تقاضا ہے۔ پس ہدایت وغوایت کے لئے یہی ایک بنیادی اور مرکزی نقطہ ہے کہ غیبی حقائق جیسے حضرت حق جل جلالہ کی ذات وصفات، جنت و دوزخ اور ملائکہ وغیرہ پر، دین حق کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق بن دیکھے سچے دل سے ایمان لایا جائے، ورنہ کل قیامت کے دن جب پردہ ہٹ جانے کے بعد یہ حقائق منکشف ہو کر سب کے سامنے آجائیں گے، تو اس وقت سب ہی ان کو مانیں گے، اور خوب مانیں گے، مگر وہ ماننا نہ تو کسی درجے میں معتبر ہوگا اور نہ ہی اس سے آج کے ان منکرین کو کسی بھی درجہ میں کوئی فائدہ پہنچ سکے گا۔ کیونکہ دیکھنے کے بعد کا وہ ماننا ایمان بالمشاھدہ ہوگا۔ جبکہ مطلوب ایمان بالغیب ہے یعنی بن دیکھے ماننا، قرآن پاک میں اس بنیادی نقطہ کو بار بار اور طرح طرح سے اجاگر کیا گیا ہے مثلاً سورة مریم میں ارشاد ہوتا ہے۔ { اَسْمِعْ بِہِمْ وَ اَبْصِرْ یَوْمَ یَاْتُوْنَنَا لکِن الظَّالِمُوْنَ الْیَوْمَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ } ۔۔ (مریم : 38) " کیا ہی خوب سنتے اور دیکھتے ہوں گے یہ لوگ اس دن جبکہ یہ آپہنچیں گے ہمارے پاس، لیکن آج یہ ظالم کھلی گمراہی میں (ڈوبے) پڑے ہیں " سو ایمان بالغیب دارین کی فوز و فلاح اور اصلاح و نجاح کی اصل اساس و بنیاد ہے ۔ اَللّٰہُمَّ زِدْنَا مِنْہُ وَ ثَبِّتْنَا عَلَیْہ بِمَحْض مَنِّکَ وَکَرَمِکَ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْن ۔ بہرکیف متقی اور پرہیزگار لوگوں کی صفات میں سب سے اہم اور بنیادی صفت ایمان بالغیب کی صفت ہے، جو کہ باقی صفات کیلئے اساس اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے یہاں سب سے پہلے اسی کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ اس سے استفادے کے لیے اولین شرط یہی ہے۔ اور جس درجے کا تقویٰ ہوگا اسی درجے کی سرفرازی ہوگی۔ 7 اِقامت صلوٰۃ اور اس کی اہمیت : یعنی اس کو اس کے پورے حقوق و آداب کی رعایت و پاسداری کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ایمان و عقیدہ کے بعد سب سے پہلا فریضہ اور اہم کام جو مومن کے ذمے عائد ہوتا ہے وہ ہے فریضہ صلوٰۃ کی ادائیگی، اسی لئے نماز کو ایمان و کفر کے درمیان فارق و فاصل قراردیا گیا ہے۔ " یُقِیْمُوْنَ "، " اِقَامَۃ " سے بنا ہے جس کے معنی بالکل سیدھا رکھنے کے ہیں، یعنی وہ اس کے حقوق، اور ارکان و واجبات وغیرہ کو پوری طرح ادا کرتے ہیں " اَی یَاْتُوْنَ بِہَا بِحُقُوْقِہَا " (جلالین، ابن کثیر، محاسن التاویل، وغیرہ) ۔ سو صرف نماز پڑھنا مقصود نہیں بلکہ اس کو قائم کرنا مقصود ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں نماز کے بارے میں جہاں بھی حکم وارشاد ہوا ہے وہاں پر نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ نماز قائم کرنے ہی کا حکم و ارشاد فرمایا گیا ہے۔ مثلا سورة ہود میں ارشاد فرمایا گیا ۔۔ { اَقِم الصَّلَاۃَ طَرَفَی النَّہَار وَ زُلَفًا مِّنَ اللَّیِلِ } ۔۔ ( ہود : 1 14) ۔ یعنی " نماز قائم کرو دن کے دونوں کناروں پر اور رات کے کچھ حصوں میں بھی "۔ نیز سورة بنی اسرائیل میں فرمایا گیا ۔۔ { اَقِم الصَّلَاۃَ لِدُلُوْک الشَّمْس اِلٰی غَسَق اللَّیِل } ۔۔ ( بنی اسرائیل : 78) یعنی " نماز قائم کرو سورج ڈھلنے سے لے کر رات کے اندھیرے تک "۔ اور اسی طرح دوسری مختلف آیات کریمات میں بھی اقامت صلاۃ ہی کا ذکر ہے۔ سو اصل مقصد اقامت صلاۃ ہے نہ کہ محض ظاہری طور پر نماز پڑھ لینا اور بس ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔۔ 8 " ما رزقنا " کا مفہوم اور اس کا عموم و شمول : " ما رزقنا " سے اگرچہ عموماً مال و دولت ہی مراد لیا جاتا ہے لیکن کلمہ " ما " کا عموم اللہ پاک کی بخشی ہوئی سب ہی نعمتوں کو محیط اور شامل ہے، خواہ وہ مال و دولت اور روپیہ پیسہ ہو، یا علم و فضل اور زبان وبیان کی قوت، یا حکومت و اقتدار کا زور اور غلبہ ہو، یا جسمانی طاقت و استطاعت، یا دین و ھدایت کی دولت جو ان سب نعمتوں سے بڑھ کر ہے، سو یہ لوگ ایسی تمام ہی نعمتوں سے مخلوق کی بہتری اور بھلائی و خیرخواہی کا سامان کرتے، اور اپنے خالق ومالک کی رضا و خوشنودی چاہتے ہیں، کیونکہ رزق کے اصل معنی صرف روزی ہی کے نہیں، جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے، بلکہ رزق کے معنی اصل لغت میں بخشش وعطاء کے ہیں، چناچہ مفسر مراغی مرحوم لکھتے ہیں " الرِّزْقُ ہُوَ الْعَطَائُ " اور عطاء کا مفہوم ان سب ہی امور کو شامل ہے۔ پس ان تمام نعمتوں کا وجوہ خیر میں صرف کرنا، اور ان کو حضرت حق جل مجدہ کی رضا و خوشنودی کا ذریعہ بنانا اصل مطلوب و مقصود ہے ۔ فَاِیَّاکَ نَسْال اللّٰہُمَّ التَّوْفِیْقَ لِذَالِکَ وَالسَّدَادَ وَالثَّبَاتَ عَلَیْہ ۔ سو انسان کو ملنے والی ہر نعمت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اور اسی کا عطیہ و احسان ہوتی ہے، اس لیے اس کا حق یہ ہے کہ انسان اس کو اللہ تعالیٰ کا عطیہ و احسان سمجھ کر اسی کی راہ میں اور اسی کی رضا کیلئے صرف کرے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔۔ 9 " اِنفاق فی سبیل اللہ " کیلئے بنیادی شرائط اور اہل بدعت کے ایک مغالطے کا جواب : اس میں نفقات واجبہ و نافلہ کی وہ سب ہی صورتیں آجاتی ہیں، جو شریعت کی تعلیمات مقدسہ کی رو سے ایک مومن صادق سے مطلوب و مقصود ہوتی ہیں، مگر اس ضمن میں تین بنیادی شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ ایک یہ کہ وہ مال حلال کا ہو، کیونکہ حرام مال سے کیا جانے والا صدقہ صحیح اور صریح احادیث نبویہ کی رو سے اللہ تعالیٰ کے یہاں شرف قبولیت حاصل نہیں کرسکتا۔ دوسرا یہ کہ اس انفاق میں نیت صحیح ہو کہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو، ریاء و نمود کے شوائب کے شامل ہوجانے سے نیک عمل اللہ پاک کے یہاں قابل قبول نہیں ہوتا ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور تیسری بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ عمل سنت کے مطابق ہو، اس کے لئے کوئی بدعی طریقہ نہ اپنایا گیا ہو، کیونکہ ہر بدعی عمل صاف وصریح احادیث کی رو سے مردود ہے، پس اہل بدعت کے جن لوگوں نے اس آیت کریمہ کے عموم سے ان مختلف بدعات اور رسوم و رواج کے لئے دلیل کشید کرنے کی کوشش کی، جو کہ برصغیر کے بعض ملکوں میں مختلف ناموں سے پائی جاتی ہیں وہ سراسر باطل و مردود ہے، کیونکہ یہ وہ بدعات ہیں جن کا قرآن وسنت اور خیرالقرون میں کوئی ثبوت و وجود ہے ہی نہیں، نہ پیغمبر کے عمل سے ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے، نہ صحابہ وتابعین کے دور میں ان کا کوئی وجود ہے، اور نہ ائمہ مجتہدین کے یہاں ان کا کوئی اتہ پتہ ہے، اور نہ ہی ارض حرمین شریفین اور دیار مقدسہ میں ان کا آج تک کوئی نام ونشان ہے، یہ برصغیر ہند و پاک وغیرہ کے کچھ عجمی ملکوں کی پیداوار ہے، یہاں تک کہ ان کے نام بھی عربی نہیں، بلکہ ان میں استعمال ہونے والے بعض حروف جیسے حرف " گ " اور حرف " چ " وغیرہ سرے سے عربی زبان ہی میں نہیں پائے جاتے، اس سب کے باوجود ان بدعی اعمال کو قرآنی آیت کا مصداق قرار دینا تحریف اور صریح ظلم نہیں تو اور کیا ہے ؟ والْعِیَاذ باللّٰہ جل وعلا ۔۔
Top