Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں
الذین یؤ منون بالغیب ۔ ۔۔ ۔ سے ھم المفلحون تک : ترجمہ : وہ لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ اور ہم نے انہیں جو کچھ دیا ہے وہ خرچ کرتے ہیں اور جو لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ ﷺ پر نازل کیا گیا ہے جو کچھ آپ سے پہلے نازل کیا گیا ہے اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں یہی لوگ اپنے رب کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ اس بات کو نہایت تفصیل سے عرض کردیا گیا ہے کہ اللہ نے جو کتاب نازل کی ہے اس کی بنیاد یقین پر ہے شک پر نہیں ہے اور یہ کتاب ان لوگوں کے لئے راہ ہدایت ہے جو تقویٰ کی صفت رکھتے ہیں۔ اب یہ ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ وہ اہل تقویٰ کون لوگ ہیں ؟ اور ان کی کیا صفات ہیں۔ ۔۔ ۔ اس جگہ پانچ صفتیں بیان کی گئی ہیں۔ (1) وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ ایمان سے مراد دین اسلام کی تمام سچائیوں کو زبان سے ماننا، دل سے اس پر یقین رکھنا اور پھر اس یقین کے مطابق عمل کا ارادہ کرنا۔ غیب ۔ تمام وہ حقیقتیں جن کو انسان نہ تو اپنے پانچوں حواس (دیکھنا، سننا، چکھنا اور چھوٹا ) سے اس کا پتہ لگاسکتا ہے اور نہ ہی اس کا مشاہدہ اور تجربہ کرسکتا ہے جیسے اللہ کی ذات صفات، فرشتے، وحی اور اس کی کیفیت ، لوح و قلم قیامت، حساب کتاب، جزاو سزا اور جنت و جہنم وغیرہ ان تمام باتوں کا تعلق غیب سے ہے جس صرف اللہ کے نبی اور رسول ہی وحی کے ذریعہ بیان کرسکتے ہیں اور ہمیں ان تمام باتوں پر ایمان لانا ہے اسی کو ایمان بالغیب کہتے ہیں۔ (2) اور وہ صلوٰۃ کو قائم کرتے ہیں۔ اقامت ۔ قائم کرنا۔ ۔۔ ۔ اقامت صلوٰۃ نماز (کے نطام ) کو قائم کرنا۔ الصلوٰۃ۔ اس کے بہت سے معنی آتے ہیں، دعا، دعاء رحمت ، درود اور نماز وغیرہ اس جگہ نماز مراد ہے ۔ نماز وہ نہیں ہے جس کو میں اور آپ متعین کرلیں بلکہ نماز وہی نماز ہوگی جس طرح نبی مکرم ﷺ نے پڑھی، پڑھ کر دکھائی اور اس کو پڑھنے کا طریقہ سکھایا جس کو صحابہ کرام ؓ نے نقل کیا اور وہ ہم تک پہنچی اور انشاء اللہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ نماز ایک ایسی عبادت ہے جو ایمان لانے کے فوراً بعد شروع ہو کر زندگی کے آخری سانس تک جاری رہتی ہے اور یہ کسی حال میں کسی کو بھی معاف نہیں ہے۔ کھڑے ہو کر پڑھنا ضروری ہے ، اگر کسی شدید بیماری یا شدید عذر کی وجہ سے کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتا تو بیٹھ کر پڑھ لے، اگر بیٹھ کر پڑھنا ممکن نہ ہو تو لیٹ کر اشاروں سے پڑھ لے۔ اگر اشاروں سے پڑھنا بھی ممکن نہ رہے اور ایک دن رات سے زیادہ یہی حالت رہے تو جب تک پڑھنے کی طاقت نہ آجائے اس کے لئے معافی ہے۔ اسی طرح وضو کے ساتھ نماز پڑھنا لازمی ہے لیکن اگر کسی شدید بیماری یا کسی شدید عذر کی وجہ سے وضو نہ کرسکتا ہو تو وہ تیمم کرسکتا ہے۔ لیکن نماز کسی حال اور کیفیت میں معاف نہیں ہے۔ نماز مومنوں کی معراج ہے۔ نماز دین کا ستون ہے۔ نماز کو آپ ﷺ نے اپنے آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔ نماز اللہ کے سامنے جھکنے، اظہار بندگی کرنے ، اللہ سے گہرا تعلق پیدا کرنے اور امت میں نظم و ضبط پیدا کرنے کا سب سے موثر ذریعہ ہے۔ لیکن “ اقامت صلوٰۃ ” نماز کو قائم کرنا ان سب باتوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ قرآن و سنت سے یہی ثابت ہے کہ نماز کو مسجدوں میں جا کر ادا کرنا اقامت صلوٰۃ ہے اسی لیے مفسرین نے لکھا ہے کہ اقامت کے معنی محض نماز پڑھنے کے نہیں بلکہ نماز کو ہر جہت اور ہر حیثیت سے درست کرنے کا نام ہے گھروں میں نماز پڑھی جاتی ہے اور مسجدوں میں نماز پڑھنا اللہ اور اس کے پاک رسول ﷺ کے حکم کی اطاعت ، میں اقامت صلوٰۃ ہے ۔ خلاصہ مضمون یہ ہوا کہ متقین وہ لوگ ہیں جو قواعد شرعیہ کے مطابق نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ان کے پورے آداب بھی بجا لاتے ہیں۔ (3) اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس کو وہ خرچ کرتے ہیں۔ اہل تقویٰ کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کے دئیے ہوئے مال میں سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں، یعنی اللہ نے ان کو بھی مال دیا ہے اس پر وہ سانپ بن کر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ اپنے سے زیادہ ضرورت مندوں کی بھلائی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے جہاں بھی مناسب جائز اور ضروری موقع ہوتا ہے وہ اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ متعدد حدیثوں میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی بڑی فضیلتیں آئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اللہ کے بندوں پر خرچ کرنے سے دولت کم نہیں ہوتی بلکہ اس دنیا میں بڑھتی ہے اور آخرت میں تو اس سے کئی گنا زیادہ عطا کی جائے گی۔ بعض حضرات کا یہ خیال بھی مناسب ہے کہ اس آیت میں صرف مال ہی نہیں بلکہ اللہ نے مومن کو جو بھی صلاحتیں عطا کی ہیں ان سے بھی وہ دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ (4) اور وہ لوگ اس پر ایمان رکھتے ہیں جو آپ ﷺ پر نازل کیا گیا اور اس پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ ﷺ سے پہلے نازل کیا گیا ہے۔ اہل تقویٰ کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ قرآن کریم پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور ان کتابوں پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو آپ سے پہلے نازل کی گئی ہیں جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے صحیفے ، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر توریت، حضرت داؤد (علیہ السلام) پر زبور اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پر انجیل اتاری گئی ہے، ارشاد ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر نبی مکرم ﷺ تک جتنے بھی نبی اور رسول تشریف لائے وہ سب ایک ہی دین لے کر آئے اور ان سب کا ایک ہی پیغام تھا یہ اور بات ہے کہ قرآن کریم سے پہلے جتنی بھی کتابیں آئیں اس کے ماننے والوں نے ان کتابوں کی حفاظت نہیں کی، بلکہ ان کتابوں میں اپنی طرف سے بہت سی وہ باتیں شامل کردیں جو اللہ نے نازل نہیں کی تھیں۔ قرآن کریم نے ان میں سے بنیادی مقامات کو کھول کر بتا دیا ہے کہ انہوں نے کہاں کہاں اضافے کئے اور کہاں بہت چیزیں غائب کردیں۔ درحقیقت قرآن حکیم ان سب کتابوں کے لئے کسوٹی ہے، جس کو بھی یہ دیکھنا ہو کہ ان کتابوں میں اللہ کے احکامات کیا ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر وہ قرآن کے مطابق ہوں تو وہ اللہ کا کلام ہے اور اگر قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کے برعکس ہوں تو وہ اللہ کا کلام نہیں ہے، لہٰذا قرآن ہمیں یہ سکھا رہا ہے کہ اے مومنو تم اللہ کے کلام پر ایمان لاؤ۔ لہٰذا ہم اسی پر ایمان لاتے ہیں جو اللہ کا کلام ہے لیکن ان باتوں پر ایمان لانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو اللہ کا کلام نہیں ہے۔ اس مقام پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اللہ کی ان تمام کتابوں پر ایمان لاتے ہیں جو اللہ نے نازل کی ہیں لیکن جہاں انسانوں کے ہاتھوں نے بہت سی باتوں کو خود گھڑ لیا ہے ہم اس پر ایمان نہیں لاتے۔ ہم سچائیوں پر ایمان لاتے ہیں جھوٹ پر نہیں۔ (5) اور آخرت پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ اہل تقویٰ کی پانچویں صفت یہ ہے کہ وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔ مرنے کے بعد جب دوسری زندگی شروع ہوگی اس کو آخرت کہتے ہیں۔ اہل ایمان کو یہ بتایا گیا ہے کہ یہ دنیا اور اس کا نظام ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ ایک وقت آئے گا جب اس پورے نظام کو توڑ کر ایک اور جہان بنایا جائے گا جس میں کائنات کی ابتداء سے لے کر اس کے ختم ہونے تک جتنے بھی انسان ہوں گے ان کو اس جہان میں جمع کر کے ان سے ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا جس کے جیسے اعمال ہوں گے اس کے مطابق ان کو جنت یا جہنم میں بھیج دیا جائے گا۔ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اہل تقویٰ کی یہ پانچ صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ جو لوگ تقویٰ کی ان باتوں کے پیکر ہوں گے وہی اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں۔
Top