Ahsan-ut-Tafaseer - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ خدا کی عبادت کرو تو دو فریق ہو کر آپس میں جھگڑنے لگے
45 تا 59۔ سورة اعراف میں یہ قصہ پورا گزر چکا ہے حضرت سلیمان اور بلقیس کے قصہ کے بعد مختصر طور پر اللہ تعالیٰ حضرت صالح اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کا قصہ اس تنبیہ کے لیے ذکر فرمایا ہے کہ قریش کو ذرا عبرت ہوجاوے کہ نبی وقت کی اطاعت کا انجام تو یہ ہوتا ہے جو بلقیس کا ہوا کہ دنیا کی بادشاہت بھی قائم رہی اور عاقبت بھی سدھر گئی اور جو لوگ رسول سے مخالفت کریں جس طرح مخالفت پر قریش آمادہ ہیں ایسے لوگوں کا انجام آخر وہی ہونے والا ہے جو ثمود اور قوم لوط کا ہوا ملک شام کے سفر میں قوم لوط اور قوم ثمود کی اجڑی ہوئی بستیاں اہل مکہ کو نظر آیا کرتی تھیں علاوہ اس کے صالح (علیہ السلام) اہل عرب کے انبیاء میں سے شمار کئے جاتے ہیں اور یہاں خاص کر قریش کی تنبیہ مقصود تھی اس لیے حضرت صالح کے قصہ سے یہاں کلام کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے شروع فرمایا اور سورة اعراف میں عام انبیاء ( علیہ السلام) صاحب شریعت کا ذکر ہے اس واسطے وہاں حضرت نوح ( علیہ السلام) سے سلسلہ کلام کا شروع فرمایا ہے کہ حضرت نوح ( علیہ السلام) سب سے پہلے صاحب شریعت نبی ہیں اور ان کے بعد حضرت ہود ( علیہ السلام) ہیں اور ان کے بعد حضرت صالح ( علیہ السلام) ہیں حضرت صالح ( علیہ السلام) کی امت نے جب حضرت صالح ( علیہ السلام) سے اونٹنی کا معجزہ چاہا اور ان کی خواہش کے موافق وہ اونٹنی پیدا ہوگئی تو سورة اعراف اور سورة ہود میں یہ گزر چکا ہے کہ حضرت صالح ( علیہ السلام) نے اپنی امت کے لوگوں سے یہ فرما دیا تھا کہ تم لوگ جس روز اس اونٹنی کو کسی طرح کی ایذا پہنچاؤ گے تو تم پر اللہ کا عذاب آجاوے گا پھر جب اس قوم کے سرداروں کی اولاد میں سے نو شخصوں نے صلاح مشورہ کر کے اس اونٹنی کو مار ڈالا تو حضرت صالح ( علیہ السلام) کو تنگ کرنے کے لیے حضرت صالح ( علیہ السلام) سے یہ کہنے لگے کہ وائتنا بما تعدنا جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ تم نے تو کہا تھا کہ اونٹنی کی ایذا سے اللہ کا عذاب آوے گا اب ہم نے تو اس اونٹنی کو مار ڈالا پھر اگر تم اللہ کے سچے نبی ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب کیوں نہیں لاتے ان کے اس بات کا جواب حضرت صالح نے یہ دیا ہے جس کا ذکر ان آیتوں میں ہے کہ اللہ سے توبہ استغفار کرو عذاب کی خواہش اور عذاب کی جلدی کیوں کرتے ہو اس نصیحت سے حضرت صالح کی مراد یہ تھی کہ اونٹنی کے مار ڈالنے کے بعد بھی اگر ان کی توبہ استغفار سے اس عذاب کا ٹل جانا علم الٰہی میں قرار پاچکا ہو تو ان کے سر سے یہ بلا رفع ہوجاوے جب ان لوگوں نے عذاب کی خواہش سے حضرت صالح ( علیہ السلام) کو بہت تنگ کیا تو حضرت صالح ( علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق آخر کو فرمایا کہ تین روز کے اندر تم پر عذاب آوے گا پھر اس پر ان نوشریر لوگوں نے یہ قصد کیا کہ رات کو جب اپنی مسجد میں حضرت صالح ( علیہ السلام) اکیلے نماز کو جاویں تو تین دن سے پہلے ہی ان کو شہید کر ڈالیں اور اپنے اس ارادہ کے پورا کرنے کے خیال سے مسجد کے پاس ایک غار تھا اس میں تلواریں لے کر چھپے اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتوں نے ان پر اسی غار کے پتھر ایسے برسائے کہ ان کے سر کچلے گئے اور انہی پتھروں کے نیچے دب کر رہ گئے اسی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کے نبی سے فریب کرنا چاہا تھا مگر اللہ کے حکم کے آگے ان کا فریب کچھ چل نہ سکایہ تو قوم صالح کے ان نو شریر شخصوں کا حال ہوا جن کی صلاح سے اونٹنی ہلاک کی گئی تھی باقی قوم کے سرکش لوگوں پر زلزلہ اور چنگھاڑ کا عذاب آیا جس کا ذکر سورة اعراف اور سورة شعرا میں گذر چکا ہے غرض ثمود میں کے حضرت صالح کے مخالف لوگ دو طرح کے تھے ایک تو سرداروں کی اولاد میں کے نو شخص شریر تھے دوسرے یہ نو شخص سرگروہ تھے اور عام لوگ ساتھی تھے اور الگ الگ ان دونوں فریقوں کی ہلاکت ہوئی اس لیے اللہ نے ان آیتوں میں یہ فرمایا ہے کہ ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو سب کو ہلاک کر ڈالا جس سے مطلب یہ ہے کہ وہ نوشخص سرگروہ اور قوم بھر میں جو ان کے ساتھ تھے وہ سب ہلاک ہوگئے صرف اللہ کے نبی حضرت صالح اور چار ہزار کے قریب لوگ جو حضرت صالح پر ایمان لائے تھے وہی عذاب الٰہی سے بچ گئے قوم لوط کا قصہ سورة الا عراف سورة ہود اور سورة الشعرا میں گزر چکا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ کہ اس قوم نے عورتوں کو چھوڑ کر لڑکوں سے بدفعلی کرنے کی عادت دنیا میں نئی نکالی تھی ان سے پہلے کسی قوم میں یہ عادت نہ تھی۔ لوط (علیہ السلام) نے ایک عرصہ تک ان لوگوں کو سمجھایا مگر انہوں نے نہ مانا آخر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ان کی بستی کو جبرئیل (علیہ السلام) نے الٹ دیا اور ان پر پتھروں کا مینہ بھی بر سا۔ قوم ثمود کے قصہ میں صحیح بخاری کے حوالہ سے عبداللہ بن عمر ؓ کی روایت گزر چکی ہے ہے کہ قوم لوط نے عذاب سے پہلے لوط (علیہ السلام) کو یہاں تک تنگ کیا کہ لوط (علیہ السلام) اپنی تنہائی پر بہت افسوس کرتے تھے۔ یہ اوپر گزر چکا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور لوط (علیہ السلام) کا اصل وطن ملک عراق ہے حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کے ساتھ اپنے وطن سے ہجرت کرکے ملک شام کو آئے تھے اور ملک شام کی الٹی ہوئی بستی سدوم میں بالکل تنہا تھے اسی واسطے قوم کی زیادتی کے وقت اپنی تنہائی پر افسوس کرتے تھے ان قصوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ تم مخالفوں کی ہلاکت اور رسول کی آمد پر اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرو اور مکہ کے مشرکوں سے پوچھو کہ اس اللہ کی عبادت بہتر ہے جس کو اپنے نافرمانوں کو برباد کرنے اور فرما نبرداروں کو بچانے کی قدرت ہے یا ان پتھر کی مورتوں کی تعظیم بہتر ہے جن میں کسی طرح کی کوئی قدرت نہیں۔ “
Top