Jawahir-ul-Quran - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
اور ہم نے بھیجا تھا ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو39 کہ بندگی کرو اللہ کی پھر وہ تو دو فرقے ہو کر لگے جھگڑنے40
39:۔ یہ تیسرا قصہ ہے اور دوسرے دعوے سے متعلق ہے یعنی کارساز صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا اعبدو اللہ حاجات میں غائبانہ صرف اللہ کو پکارو اللہ کے سوا کوئی کارساز نہیں۔ اعبدوا اللہ ای وحدوہ ولا تشرکوا بہ شیئا (خازن ج 5 ص 126) ، قوم نے نہ مانا تو اللہ تعالیٰ نے ماننے والوں کو بچا لیا اور نہ ماننے والوں کو ہلاک کردیا۔ مومنوں کو بچانا اور نہ ماننے والوں کو ہلاک کردیا۔ مومنوں کو بچانا اور منکروں کو ہلاک کرنا اللہ کے اختیار میں تھا حضرت صالح (علیہ السلام) کو اس کا اختیار نہ تھا اس طرح اس واقعہ میں ہدایت بھی ہے اور بشارت بھی۔ 40:۔ جب حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے دعوت توحید پیش کی تو قوم دو گروہوں میں بٹ گئی کچھ لوگوں نے ان کی دعوت قبول کرلی اور کچھ لوگ کفر و شرک پر قائم رہے دونوں گروہ آپس میں جھگڑنے لگے اور ہر فریق اپنے حق پر اور فریق مخالف کے باطل پر ہونے کا دعویدار تھا۔ والمعنی فاذا قوم صالح فریقان مومن بہ و کافر بہ یختصمون فیقول کل فریق الحق مع الخ (مدارک ج 3 ص 164) اس سے معلوم ہوا کہ جب مسئلہ توحید بیان کیا جاتا ہے تو یہ گروہ بندی لازمی طور پر معرض وجود میں آجاتی ہے اس کو فتنہ انگیزی اور افتراق مذموم سے تعبیر کرنا سراسر غلطی اور نادانی ہے۔
Top