Maarif-ul-Quran - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ خدا کی عبادت کرو تو دو فریق ہو کر آپس میں جھگڑنے لگے
قصہء چہارم حضرت صالح (علیہ السلام) با قوم او قال اللہ تعالیٰ ولقد ارسلنا الی ثمود اخاہم صلحا۔۔۔ الی۔۔۔ وانجینا الذین امنوا وکانوا یتقون۔ (ربط) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد حضرت صالح (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کرتے ہیں۔ اشارہ اس طرف ہے کہ ملکہء بلقیس باوجود ایک عورت تھی مگر اس کو ایک چھوٹے جانور یعنی ہد ہد سے ہدایت ہوگئی اور قوم ثمود کو باجود مرد ہونے کے ناقہ جیسے بڑے حیوان سے ہدایت نہ ہوئی کہ چند مفسدوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) پر شبخون مارا اور سب کے سب ہلاک ہوگئے اس قصہ کی تفصیل پہلے گذر چکی ہے اب آئندہ آیات میں لوگوں کی عبرت اور نصیحت کے لئے صالح (علیہ السلام) کا قصہ بیان کرتے ہیں اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے برادری کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر اور یہ پیغام دے کر بھیجا کہ تم لوگ صرف ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ سو چاہئے تو یہ تھا کہ سب کے سب ایمان لے آتے مگر خلاف توقع اچانک ان میں دو فریق ہوگئے جو دین کے بارہ جھگڑنے لگے ایک فریق کہتا تھا کہ صالح (علیہ السلام) اللہ کے رسول ہیں ان پر ایمان لے آنا چاہئے اور دوسرا فریق یہ کہتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے بہرحال ایک فریق ایمان لے آیا اور دوسرے فریق نے تکذیب کی۔ صالح (علیہ السلام) نے منکرین اور مکذبین کو عذاب الٰہی سے ڈرایا۔ سرکشوں نے کہا کہ وہ عذاب کہاں ہے جس سے تم ہم کو ڈراتے ہو جیسا کہ سورة اعراف میں گزرا۔ قالوا یا صالح ائتنا بما تعدنا ان کنت من المرسلین صالح (علیہ السلام) نے فریق مکذب سے کہا اے میری قوم بھلائی سے پہلے عذاب کے مانگنے میں کیوں جلدی کرتے ہو عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ تم اللہ سے رحمت مانگو۔ بلا اور عذاب کیوں مانگتے ہو۔ استعجال عذاب کی بجائے استعجال رحمت کیوں نہیں کرتے تم لوگ اپنے کفر سے بارگاہ خداوندی میں توبہ اور استغفار کیوں نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے اور تمہاری توبہ قبول ہو اور تم پر عذاب نازل نہ ہو۔ صالح (علیہ السلام) ان کو نصیحت کرتے جاتے تھے مگر وہ گمراہی میں بڑھتے جاتے تھے یہاں تک کہ وہ بولے کہ اے صالح ہم نے تجھ کو اور تیرے ساتھیوں کو منحوس پایا جب سے یہ مذہب نکلا ہے اس وقت سے قوم میں تفرقہ پڑگیا اور قوم میں نا اتفاقی ہوگئی جس کا اصل سبب تم ہو۔ تمہاری وجہ سے قوم میں پھوٹ پڑگئی یا یہ معنی ہیں کہ تمہاری نحوست سے ہم قحط میں مبتلا ہوگئے۔ صالح (علیہ السلام) نے کہا تمہاری نحوست کا اصل سبب تو اللہ ہی کے علم میں ہے میں تو اللہ کی طرف سے حق اور ہدایت لے کر آیا ہوں اور ظاہر ہے کہ حق اور ہدایت تو سراسر موجب خیروبرکت ہے۔ البتہ حق اور ہدایت سے انحراف اور حق کی تکذیب اور اس کی مخالفت نحوست کا سبب ہے لہٰذا نحوست کا الزام مجھ پر اور اہل ایمان پر غلط ہے۔ نا اتفاقی وہ مذموم ہے کہ جو حق اور ہدایت کی مخالفت سے پیدا ہو۔ تمہاری ساری نحوست اور قحط کی مصیبت تمہارے اعمال کفریہ وشرکیہ کی وجہ سے ہے جو ایمان اور توبہ اور استغفار سے دور ہوسکتی ہے۔ ایمان اور ہدایت نحوست کا سبب نہیں بلکہ تم لوگ آزمائش میں ڈال دئیے گئے ہو کہ دیکھیں کہ تم توحید کو اختیار کرتے ہو یا شرک کو۔ بیشک مصائب تقدیر الٰہی کے موافق جاری ہوتے ہیں لیکن ان سے مقصود بندوں کی آزمائش اور امتحان ہوتا ہے۔ اور اس شہر میں کافر اور منکر تو بہت تھے لیکن کافروں کے سر غنہ اور سردار نو شخص تھے جو ملک میں فساد ڈالتے تھے اور ذرا بھی اصلاح نہیں کرتے تھے۔ اگر فساد کے ساتھ کچھ اصلاح بھی ملی ہوئی ہو تو کچھ امید کی جاسکتی ہے مگر یہ لوگ تو خالص مفسد تھے آپس میں کہنے لگے تم سب اللہ کی قسم کھا کر عہد کرو کہ ہم ضرور بالضرور رات میں صالح پر اور اس کے متعلقین اور متوسلین پر چھاپہ ماریں گے اور سب کو قتل کر ڈالیں گے پھر جب مقتول کا ولی اور وارث ہم سے خون کا مطالبہ کرے گا تو ہم اس سے یہ کہہ دیں گے کہ ہم وہاں موجود ہی نہ تھے اور قسم کھا کر یہ کہ دیں گے کہ ہم بالکل سچے ہیں اور ان مفسدوں نے اس طرح سے ایک مکر کیا۔ یعنی صالح (علیہ السلام) کے قتل کرنے کی ایک خفیہ سازش کی اور ہم نے بھی ان کے مقابلہ میں ایک تدبیر کی اور وہ ایسی خفیہ تھی کہ وہ بالکل اس سے آگاہی نہیں رکھتے تھے۔ ” مکر “ کے معنی لغت میں تدبیر خفی کے ہیں انہوں نے حضرت صالح (علیہ السلام) کے قتل کی تدبیر کی اور ہم نے اس کے برعکس ان کے ہلاک کرنے کی تدبیر کی۔ پس دیکھ لو کہ ان کے مکر اور تدبیر کا کیا انجام نکلا اور ان کی توقع کے بالکل خلاف نتیجہ نکلا کہ ہم نے ان کو اور تمام قوم کو ہلاک اور برباد کردیا۔ یہ نو آدمی جو صالح (علیہ السلام) کی گھات میں بیٹھے تھے ان پر تو پہاڑ سے ایک پتھرآکر گرا جس سے وہ سب ہلاک ہوگئے اور باقی قوم آسمانی عذاب سے یعنی فرشتہ کی چنگھاڑ سے ہلاک ہوئی۔ کما قال تعالیٰ فاخذتہم الرجفۃ۔ واخذ الذین ظلموا الصیحۃ پس دیکھ لو کہ یہ ان کے گھر ہیں جو ان کے کفر اور شرک کی نحوست کی وجہ سے خالی پڑے ہیں۔ بیشک اس واقعہ میں ان لوگوں کے لئے بڑی عبرت ہے جو ہماری قدرت کو کچھ نہیں جانتے ہیں اور ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو صالح (علیہ السلام) پر ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ چار ہزار تھے۔
Top