Tafseer-e-Madani - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
اور بلاشبہ ہم نے ثمود کی طرف بھی ان کے بھائی صالح کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ تم سب لوگ اللہ ہی کی بندگی کرو تو وہ لوگ یکایک دو گروہ بن کر آپس میں جھگڑنے لگے،
47 پیغمبر اپنی قوم کے بھائی : سو ارشاد فرمایا گیا " اور بلاشبہ ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا پیغمبر بناکر "۔ پہلے داؤد و سلیمنٰ کا ذکر تھا جن کا تعلق بنی اسرائیل سے تھا۔ اب یہ حضرت صالح کا ذکر فرمایا جاتا ہے جن کا تعلق عربوں سے تھا۔ تاکہ معلوم ہوجائے کہ انبیائے کرام خواہ عرب ہوں یا غیر عرب ان سب کی دعوت بہرحال ایک ہی رہی ہے۔ اور وہ ہے اللہ پاک کی وحدانیت کو اپنانا اور کفر و شرک سے بچنا کہ ان سب حضرات نے ہمیشہ یہی پیغام دیا۔ اور بھائی سے مراد ہے قومی اور نسبی بھائی۔ اور انبیائے کرام کی شان ہمیشہ یہی رہی ہے کہ وہ اپنی قوموں کے قومی اور نسلی ونسبی اعتبار سے بھائی ہی رہے ہیں۔ لہذا نبی کو اپنی امت کا بھائی کہنے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے۔ اور اسی بنا پر ان لوگوں نے حضرت شاہ اسماعیل شہید ۔ (رح) ۔ کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی بپا کیا۔ سو یہ سب کچھ ان لوگوں کی اپنی جہالت، حماقت اور عناد و ہٹ دھرمی کا ثبوت ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ ورنہ اصل حقیقت واضح اور بےغبار ہے۔ 48 دعوت حق کا نتیجہ وثمرہ حق وباطل کی تفریق وتمیز : سو دعوت حق کا نتیجہ وثمرہ تھا کہ وہ کافر و منکر قوم دو حصوں میں بٹ گئی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو پیغمبر بنا کر بھیجا " اور انہوں نے ان کو دعوت حق دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم سب لوگ ایک اللہ ہی کی بندگی کرو تو اس پر یکایک وہ لوگ گروہوں میں بٹ کر آپس میں جھگڑنے لگے۔ ایک وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہا۔ دوسرے وہ جو اپنے کفر پر رہے۔ اور یہ دونوں گروہ باہم برسر پیکار ہوگئے۔ حالانکہ حضرت صالح (علیہ السلام) کی دعوت بالکل صاف اور واضح تھی۔ مگر وہ لوگ باہمی عناد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر دو گروہوں میں بٹ گئے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو حضرت صالح کی دعوت سراسر حق تھی۔ جس میں کسی نزاع و اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اور حق و ہدایت کی اس دعوت صادقہ کا تقاضا یہ تھا کہ لوگ آگے بڑھ کر اس کا خیر مقدم کرتے اور صدق دل سے اس پر لبیک کہتے۔ لیکن ہوا یہ کہ اس پر وہ لوگ بٹ گیے۔ کچھ نے اس کو قبول کیا اور کچھ اس کی مخالفت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور پوری قوم دو گروہوں میں بٹ گئی۔
Top