Dure-Mansoor - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
اور بلاشبہ ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ تم اللہ کی عبادت کرو سواچانک ان میں دو جماعتیں ہوگئی جو آپس میں جھگڑا کر رہے تھے
1۔ الفریابی وابن ابی شیبہ وعبد بن حمید وابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ آیت ’ فاذا ہم فریقن یختصمون “ میں فریقان سے مراد مومن اور کافر ہے مومن کہتے کہ صالح (علیہ السلام) بھیجے ہوئے ہیں اپنے رب کی طرف سے اور کافر کہتے کہ وہ بھیجے ہوئے نہیں ہیں ” لم تستعجلون بالسیءۃ “ (یعنی تم کیوں جلدی کرتے ہوئے) عذاب کی آیت ” قبل الحسنہ “ یعنی رحمہ سے پہلے آیت ” قالو الطیرنا بک “ انہوں نے کہا کہ ہم نے آپ سے بدفالی کی آیت ” وکان فی المدینۃ تسعۃ رہط “ یعنی شہر میں صالح (علیہ السلام) کی قوم کے افراد تھے آیت ” تقاسموا باللہ “ انہوں نے باہم یہ قسم اٹھائی تھی کہ وہ اس کو ہلاک کردیں گے لیکن وہ صالح (علیہ السلام) تک نہیں پہنچے تھے یہاں تک کہ ان کو اور ان کی ساری قوم کو ہلاک کردیا گیا۔ آپس کے جھگڑے 2۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید وابن المنذر وابن ابی حاتم نے قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” فاذا ہم فریقن یختصمون “ یعنی قوم میں حضرت صالح (علیہ السلام) کی تصدیق کرنے والے اور جھٹلانے والے بھی تھے، حق کو ماننے والے اور ان کی خدمت میں حاضر ہونے والے تھے اور حق کو جھٹلانے والے اور اس کو چھوڑنے والے تھے۔ اس بارے میں قوم کا جھگڑا تھا۔ آیت ” قالوا اطیرنا بک “ انہوں نے بد فالی لیتے ہوئے کہا کہ جو ہیں کوئی مصیبت پہنچے وہ تیری اور تیرے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ آیت ” قال طائرکم عنداللہ “ یعنی تمہارے اعمال کا علم اللہ کے پاس ہے آیت ” بل انتم قوم تفتنون “ کہ تم مبتلا کیے گئے ہو اللہ کی اطاعت اس کی نافرمانی میں آیت ” وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط “ یعنی صالح کی قوم میں سے نو آدمیوں کی ایک جماعت تھی۔ آیت ” قالوا تقاسموا باللہ لنبیتنہ واہلہ “ جنہوں نے آپس میں قسم اٹھائی کہ وہ صالح (علیہ السلام) کی طرف جارہے تھے۔ تاکہ وہ ان کو قتل کردیں توا للہ تعالیٰ نے ان پر ایک چٹان کو گرادیا جس نے ان سب کو ہلاک کردیا۔ آیت ” ثم لنقولون لولیہ “ پھر ہم اس کے ولی سے کہیں گے یعنی صالح (علیہ السلام) کے قبیلہ سے کہیں گے آیت ” ومکروا مکرا “ یعنی انہوں نے صالح (علیہ السلام) کے ساتھ مکر کیا تھا آیت ” ومکرنا مکروا “ یعنی اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے ساتھ خفیہ تدبیر کی کہ ان پر ایک چٹان گرادی جس نے سب کو ہلاک کردیا آیت ” فانظر کیف کان “ یعنی دیکھو کیسے انجام ہوا ان کے مکر کا یعنی ان کے شر کا اللہ قسم آیت ” کان عاقبۃ مکرہم “ ان کے مکر کا انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کی تمام قوم کو ہلاک کردیا پھر ان کا پہنچنا ہوگا آگ کی طرف۔ 3۔ ابن جریر وابن المنذر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” طائرکم “ سے مراد ہے تمہارے مصائب۔ 4۔ ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط “ (یعنی نو آدمیوں کی ایک جماعت اور ان کے نام یہ تھے۔ زعمی، زعیم، ہر می ہریم، داب اور ہو اب ریاب او سیطع اور قدار بن سالف جس نے اونٹنی کے پاؤں کاٹے تھے۔ 5۔ ابن جریر وابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ آیت ” وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط “ سے مراد ہے کہ ان نو افراد نے ہی اونٹنی کی کونچیں کاٹی تھیں جب انہوں نے اونٹنی کی کو چنیں کاٹیں تو انہوں نے کہا کہ ہم رات کے وقت صالح (علیہ السلام) اور ان کے گھروالوں پر ضرور حملہ کریں گے اور ہم ان سب کو قتل کردیں گے۔ پھر صالح (علیہ السلام) کے اولیاء سے کہہ دیں گے ہم حاضر نہیں تھے اس معاملے میں ذرا بھی اور ہم کو اس کا کوئی علم نہیں سو اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ہلاک کردیا۔ 6۔ عبدالرزاق وعبد بن حمید نے عطاء بن ابی رباح (رح) سے روایت کیا کہ آیت ” وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط یفسدون فی الارض ولا یصلحون “ کہ وہ لوگ دراہم کو دیتے تھے واللہ اعلم۔
Top