Tafseer-e-Saadi - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
اور ہم نے ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا کہ خدا کی عبادت کرو تو دو فریق ہو کر آپس میں جھگڑنے لگے
آیت 45 سے 53 اللہ تبارک و تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ اس نے معروف قبیلہ ثمود میں، ان کے نسبتی بھائی حضرت صالح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا۔ انہوں نے ان کو حکم دیا کہ وہ اکیلے اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور بتوں اور خود ساختہ معبودوں کی عبادت چھوڑ دیں۔ (فاذاھم فریقین یختصمون) ” پس وہ دو فریق ہو کر جھگڑنے لگے۔ “ ان میں ایک مومنوں کا گروہ تھا اور دوسرا کفار کا گروہ تھا جو بہت بڑا تھا۔ (قال یقوم لم تستعجلون بالسئیۃ قبل الحسنہۃ) ” انہوں (صالح (علیہ السلام) نے کہا، اے میری قوم ! تم نیکی سے پہلے برائی کے لئے کیوں جلدی مچاتے ہو ؟ ‘ یعنی تم برائیوں کے ارتکاب میں جلدی کیوں کرتے ہو ؟ اور نیکی سے بڑھ کر برائی کرنے کے حریص کیوں ہو جو نیکی تمہارے احوال کو درست اور تمہارے دینی اور دنیاوی امور کی اصلاح کرتی ہے حالانکہ کوئی ایسا امر نہیں جو تمہیں برائیوں کے ارتکاب پر مجبور کرتا ہو ؟ (لو لا تستغفرون اللہ) ” تم اللہ سے مغفرت کیوں نہیں طلب کرتے ؟ “ یعنی اپنے شرک اور نافرمانی سے توبہ کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں بخش دے۔ (لعلکم ترحمون) ” تاکہ تم پر رضم کیا جائے۔ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نیک لوگوں کے بہت قریب ہے اور گناہوں سے توبہ کرنے والا نیک لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ (قالو) انہوں نے اپنے نبی صالح (علیہ السلام) کی تکذیب اور آپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا : (اطیرنا بک وبمن معک) ” تم اور تمہارے ساتھی ہمرے لئے شکون بد ہیں۔ “ ان کا خیال تھا۔۔۔ اللہ ان کا برا کرے۔۔۔۔ کہ انہوں نے صالح (علیہ السلام) میں بھلائی کی کوئی بات نہیں دیکھی۔ انہیں جو دنیاوی مقاصد حاصل نہیں ہوتے تھے وہ اس کا سبب صالح (علیہ السلام) اور ان کے متبعین کو گردانتے تھے۔ اس لئے صالح (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : (طئرکم عند اللہ) ” تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کی پاداش میں تم پر مصائب نازل کرتا ہے (بل انتم قوم تفتنون) ” بلکہ تم ایسے لوگ ہو جنہیں (خوشحالی اور بدحالی، خیر اور شر کے ذریعے سے) آزمایا جاتا ہے “ تاکہ اللہ تعالیٰ دیکھے کہ آیا تم گناہوں سے باز آکر توبہ کرتے ہو یا نہیں ؟ اپنے نبی کو جھٹلانے اور اس کے ساتھ اسی طرح پیش آنے کی، ان کی یہ عادت تھی۔ (وکان فی المدینہ) ” اور شہر میں تھے۔ “ یعنی اسی شہر میں، جس میں صالح (علیہ السلام) اور ان کی اکثر قوم رہتی تھی۔ (تسعۃ رھط یفسدون فی الارض ولا یصلحون) ” نو شخص، جو ملک میں فساد برپا کرتے تھے اور اصلاح نہیں کرتے تھے “ یعنی زمین میں فساد برپا کرنا، ان کا وصف تھا اور وہ اصلاح کا کوئی کام کرتے تھے نہ اس کا وہ ارادہ رکھتے تھے وہ صالح کی دشمنی، آپ کے دین میں طعن وتشنیع اور اپنی قوم کو بھی اسی راہ پر چلانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (آیت) ” اللہ نے ڈرو اور میری اطاعت کرو اور حد سے تجاوز کرنے والوں کی اطاعت نہ کرو وہ زمین میں فساد برپا کرتے ہیں اور اصلاح کا کوئی کام نہیں کرتے۔ “ وہ اسی بری حالت میں رہے حتی کہ ان کی عداوت یہاں تک پہنچ گئی (تقاسموا) ” انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو سم دے کر کہا “ (لنبیتنہ واھلہ) ” ہم رات کو اس پر اور اس کے گھر والوں پر شب خون ماریں گے “ یعنی ہم رات کے وقت اس کے اور اس کے اہل خانہ کے پاس آئیں گے اور انہیں قتل کردیں گے (ثم لنقولن لولیہ) ” پھر ہم اس کے وارث کو کہہ دیں گے “ جب وہ کھڑا ہو کر ہمارے خلاف قتل کا دعوی کرے تو ہم حلف اٹھا کر اس کا انکار کردیں گے اور کہیں گے (ماشھد نامھلک اھلہ وانا لصدقون) ” ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہیں تھے اور ہم سچے ہیں “ پس انہوں نے اس پر ایکا کرلیا (ومکروا مکرا) ” اور انہوں نے مکر کیا “ انہوں نے خفیہ طور پر حضرت صالح اور اس کے گھر والوں کو قتل کرنے کے منصوبے کی پوری تدبیر کرلی حتی کہ انہوں نے حضرت صالح کے اولیاء کے خلوف سے اس بات کو اپن قوم سے بھی چھپاے رکھا (ومکرنا مکرا) ” اور ہم نے بھی ایک چال چلی “ ینی اپنے نبی صالح کی مدد ان کے معاملہ بگڑ گیا ؟ اس لئے فرمایا، (انا دمرنھم وقومھم اجمعین) ” ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو ہلاک کردیا (فتلک بیوتھم خاویۃ) ” اب ان کے یہ گھر خالی پڑے ہیں “ یعنی ان کی دیواریں چھتوں سمیت منہد مہو گئیں، گھر اجڑ گئے اور اپنے رہنے والوں سے خالی ہوگئے (بما ظلموا) ” بسبب اس کے جو انہوں نے ظلم کیا “ یعنی یہ تھا ان کے ظلم، اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے شرک اور زمین میں ان کی سرکشی کا انجام (ان فی ذلک لایۃ لقوم یعلمون) ” بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو (حقائق کو) جانتے ہیں “ وہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور اس کے دشمنوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی جو عادت رہی ہے اس میں غور و فکر کرتے ہیں اور اس سے عبرت حاصل کرتے ہیں، وہ خوب جانتے ہیں کہ ظلم کا انجام تباہی اور ہلاکت ہے ایمان اور عدل کا انجام نجات اور کامیابی ہے بنا بریں فرمایا (وانجینا الذین امنوا وکانوا یتقون) ” اور جو لوگ ایمان لائے اور ڈرتے تھے، ان کو ہم نے نجات دی “ یعنی ہم نے ان لوگوں کو نجات دی جو اللہ تعای، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، روز آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان رکھتے تھے، شرک اور گناہ سے بچتے تھے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے تھے۔
Top