Tafseer-e-Haqqani - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
اور البتہ قوم ثمود کی طرف بھی ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجا (یہ حکم دے کر) کہ اللہ کی بندگی کیا کرو، پھر تو وہ دو فریق ہو کر باہم جھگڑنے لگے۔
ولقد ارسلنا الی ثمود اخاھم صالحًا یہ تیسرا قصہ حضرت صالح (علیہ السلام) کا ہے، اس کی شرح ہوچکی مگر اس جگہ عبارت کا حمل کرنا ضروری ہے۔ فاذا ھم الخ جب صالح (علیہ السلام) نے وعظ و دعوت اسلام شروع کی تو دو فریق ہوگئے، ایک اہل توحید کا دوسرا وہی گمراہوں کا اور باہم جھگڑنے لگے لم تستعجلون حضرت صالح نے فرمایا تھا کہ اگر تم نہ مانو گے تو عذاب الٰہی نازل ہوگا، وہ کہنے لگے عذاب کیوں نہیں آتا۔ اس پر صالح نے فرمایا، خدا سے بدی کیوں مانگتے ہو، بھلائی ‘ خیروبرکت مانگو، ایمان لاؤ استغفار کرو، قالوا طیرنا حضرت صالح ( علیہ السلام) کی دعوت کے بعد ان پر کچھ خشک سالی نمودار ہوئی تھی، اس پر وہ صالح سے کہنے لگے۔ یہ تو تجھ سے اور تیرے ساتھ والوں سے نحوست آئی ہے، صالح ( علیہ السلام) نے فرمایا، یہ تمہارے اعمال کی نحوست خدا کے ہاں مقدر تھی اور تم کو اس سے آزمایا جاتا ہے۔ بل انتم قوم تفتنون، شہر میں نو شخص بڑے بدمعاش تھے، باہم قسم کھائی کہ رات کو گھر میں گھس کر صالح ( علیہ السلام) اور اس کے کنبے کو قتل کرڈالو اور پھر اس کے وارثوں سے کہہ دینا کہ وہاں ہم موجود نہ تھے۔ آخر خدا نے صالح (علیہ السلام) کو محفوظ رکھا اور وہ تمام قوم آسمانی بلا سے ہلاک ہوئی اور ان کے گھر خالی ہوگئے، ان کا داؤ غلط ہوا، خدا کی تدبیر صادق ہوئی، ان کے مکر اور فریب کی پاداش کو مکروفریب سے تعبیر کرنا ایک محاورہ۔ عبدی رابدی سہل باشد جزا، حالانکہ بدی کی جزا بد نہیں مگر چونکہ دونوں فعل ایک قسم کے ہوتے ہیں، اس لیے علی سبیل المشاکلہ اس پر بھی وہی لفظ بولا جاتا ہے جو لوگ ایسے محاورات نہیں سمجھتے وہ قرآن پر الزام لگاتے ہیں کہ اس میں خدائے قدوس کو برے صفات سے متصف بنایا ہے، ولوطاً الخ یہ چوتھا قصہ حضرت لوط ( علیہ السلام) کا ہے، وانتم تبصرون یعنی تم جانتے ہو کہ یہ بےحیائی کا کام ہے، پھر اس کو کئے جاتے ہو، اس بات کا ان کی طرف سے یہی جواب تھا کہ لوط ( علیہ السلام) کو اپنے شہر سے نکال دو ، یہ بڑی پاکیزگی ظاہر کرتے ہیں۔ واتاکم لتاتون استفہام انکار میں ہے یعنی تم کو ایسا نہ کرنا چاہیے کہ عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے یعنی لڑکوں سے شہوت رانی کرو۔ قدرناھا من الغابرین حضرت لوط ( علیہ السلام) کو حکم ہوا تھا کہ بڑی رات سے شہر چھوڑ کر چلے جانا جو پیچھے رہے گا ہلاک ہوگا۔ بیوی پیچھے رہ گئی تو وہ ہلاک ہوئی، فرماتا ہے کہ ازل میں ٹھہر گیا تھا کہ وہ پیچھے رہے گی۔
Top