Mazhar-ul-Quran - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
ہم1 نے ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو پس ناگہاں وہ دو فریق ہوگئے (جو دین کے بارے میں) باہم جھگڑنے لگے۔
(ف 1) ان آیتوں میں قریش کے لیے تنبیہ ہے کہ نبی وقت کی اطاعت کا انجام تو یہ ہوتا ہے کہ جو بلقیس کا ہوا کہ دنیا کی بادشاہت بھی قائم رہی اور عاقبت بھی سدھرگئی اگر قریش نبی وقت کی مخالفت کریں گے تو ایسے لوگوں کا انجام آخر وہی ہونے والا ہے جو ثمود اور قوم لوط کا ہوا اور یہاں صالح (علیہ السلام) کے قصے اور ان آیتوں میں خاص کر قریش کو تنبیہ مقصود تھی اس لیے حضرت صالح کے قصے سے یہاں کلام کا سلسلہ شروع فرمایا ہے کہ ہم نے قوم ثمود کی طرف سے ان کے بھائی حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھیجا، یہ حکم دے کر اللہ کی عبادت کرو پھر وہ دوفریق ہوگئے۔ ایک اہل توحید کا۔ دوسراوہی گمراہوں کا۔ اور دین کے بارے میں باہم جھگڑنے لگے اس پر حضرت صالح نے فرمایا کہ اگر تم نہ مانوگے تو عذاب الہی نازل ہوگا وہ کہنے لگے کہ پھر کیوں نہیں آتا، اس پر حضرت صالح نے اپنی قوم سے فرمایا، اللہ سے توبہ استغفار کرو عذاب کی خواہش کیوں کرتے ہو، کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ تم پر معافی اور بخشش مانگنے پر رحم کرے اور عذاب سے چھوڑ دے۔
Top