Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ
: اور تحقیق ہم نے بھیجا
اِلٰى
: طرف
ثَمُوْدَ
: ثمود
اَخَاهُمْ
: ان کے بھائی
صٰلِحًا
: صالح
اَنِ
: کہ
اعْبُدُوا اللّٰهَ
: اللہ کی عبادت کرو
فَاِذَا
: پس ناگہاں
هُمْ
: وہ
فَرِيْقٰنِ
: دو فریق ہوگئے
يَخْتَصِمُوْنَ
: باہم جھگڑنے لگے وہ
اور البتہ تحقیق ہم نے بھیجا قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو ( کہ ان لوگوں سے کہو) عباد ت کرو اللہ تعالیٰ کی ، پھر وہ ہوگئے آپس میں دو فرقے اور جھگڑنے لگے
ربط آیات گزشتہ رکوع میں اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) اور ان پر کیے جانے والے انعامات کا ذکر کیا ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے علم ، طاقت اور بےمثال سلطنت عطا فرمائی سلیمان (علیہ السلام) ان انعامات پر اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ شکر ادا کرتے تھے ۔ اب آج کے درس میں اللہ نے قوم ثمود کا حال بیان کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اہل عرب اور دوسری نافرمان اقوام ان واقعات سے عبرت حاصل کریں ۔ سلیمان (علیہ السلام) اور قوم ثمود کے واقعات میں کسی قدر مماثلت بھی پائی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے دونوں اقوام کے حالات میں باہم ربط ہے ، مثلاً سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اللہ نے ان کے لیے جنات ، پرندوں اور ہوا کو مسخر کردیا تھا اور آپ جیسے چاہتے ان سے کام لیتے تھے ، ادھر صالح (علیہ السلام) کے واقعات میں حیرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ قوم کی فرمائش پر اللہ نے چٹان میں سے ایک بہت بڑی اونٹنی نکالی ۔ ا س سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا ذکر بھی ہوا تھا ، وہاں بھی حیرت انگیز نشانیاں ظاہر ہوئیں۔ صالح (علیہ السلام) کی بعثت انبیاء (علیہم السلام) کے تذکرے کے سلسلے میں پہلے حضرت دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کا ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو علم عطا کیا جس سے مراد نبوت ، رسالت اور وحی الٰہی ہے کہ صرف یہی یقینی علم ہے ۔ یہ دونوں باپ بیٹا اللہ کے نبی ، خلیفہ اور حاکم وقت تھے ۔ اب حضرت صالح (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ولقد ارسلنا الی ثمود اخاھم صلحا ً البتہ تحقیق ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا۔ آپ بھی عظیم المرتبت صاحب شریعت رسول اور نبی تھے ۔ آپ کا ذکر اس سے پہلے بھی کئی سورتوں میں آ چکا ہے اور آئندہ بھی آخری پارے تک آپ کا ذکر خیر آئے گا ، قوم ثمود وادی حجر میں اور تبوک کے درمیان آباد تھی ۔ حجر سے لے کر وادی قریٰ تک اس قوم کے سترہ سو قصبات اور بستیاں آباد تھیں جن میں حجر 1 ؎ بڑا متمدن اور مرکزی شہر تھا ، یہ عام طور پر تاجرپیشہ لوگ تھے ۔ صنعت و حرفت بھی کرتے تھے اور ان کے باغات بھی تھے جہاں یہ کھیتی باڑی کرتے تھے ۔ صالح ابن عبید علیہ السلا م بھی اسی قوم کے فرد تھے اس لیے آپ کی قوم کا بھائی کہا گیا ہے۔ بہر حال جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر قوم کی طرف بھیجا آپ نے سب سے 1 ؎۔ تفسیر عزیزی ص 742 پ 03 ( فیاض) پہلے قوم کو یہی پیغام پہنچایا ان اعبدو اللہ لوگو ! عبادت صرف اللہ کی کرو ، اسی کو وحدہٗ لا شریک مانو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو ، ان لوگوں نے اپنی مختلف حاجات کے لیے مختلف معبود بنا رکھے تھے۔ پھر جب صالح (علیہ السلام) نے ان کو پیغام حق سنایا فاذا ھم فریقن یختصمون تو وہ دو گرہ بن کر آپس میں جھگڑنے لگے ظاہر ہے کہ ایک گروہ ایمانداروں کا بن گیا جو صالح (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے ، اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرلیا ، اور دوسرا گروہ کافروں اور نافرمانوں کا تھا ، جنہوں نے صالح (علیہ السلام) کی بات کو قبول نہ کیا ۔ یہ لوگ بڑے سر کش ، مجرم اور گناہ گار تھے ، لہٰذا ان دونوں کا آپس میں الجھائو۔ ایک قدرتی امر تھا ، البتہ اہل ایمان کمزور اور تعداد میں بھی کم تھے ۔ جب کہ نافرمان لوگ بڑے طاقتور ، مغرور اور نفری میں بھی بہت زیادہ تھے ۔ اس چیز کا اشارہ سورة اعراف میں بھی ہے قال الملا الذین استکبروا من قومہ للذین استضعفوا لمن امن منھم ( آیت : 57) مغرور اور سر کش لوگوں نے اہل ایمان مگر کمزور لوگوں سے کہا کہ کیا تم صالح (علیہ السلام) کی رسالت کی تصدیق کرتے ہو ؟ انہوں نے مثبت میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو نہیں مانتے بلکہ ہم تو انکار کرتے ہیں جب صالح (علیہ السلام) ان کو آنے والے عذاب سے ڈراتے تو وہ آگے سے دھمکیاں دینے لگتے اور کہتے یصلح ائتنا بما تعدنا ان کنت من الصدقین ( الاعراف : 77) اے صالح (علیہ السلام) ، اگر تو سچا ہے تو ہم پر وہ عذاب لے آ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے ۔ صالح (علیہ السلام) کی نصیحت اس کے جواب میں قال یقوم لم تستعجلون بالسیئۃ قیل الحسنۃ صالح (علیہ السلام) نے کہا ، اے میری قوم کے لوگو ! بھلائی سے پہلے برائی کے لیے کیوں جلدی کرتے ہو ، تم اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش طلب کرنے کی بجائے اپنے اوپر عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو ، یہ کس قدر حماقت کی بات ہے لو لا تستغفرون للہ تم اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کیوں نہیں مانگتے لعلکم ترحمون تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔ اگر اللہ کی طرف رجوع کرو گے ، برائیوں سے باز آ جائو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرما کر تمہاری سابقہ کوتاہیاں معاف کر دیگا مگر تم الٹا عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو ، کتنی عجیب اور نقصان دہ بات ہے ۔ اس قسم کی الٹ دماغی صرف قوم ثمود کا ہی حصہ نہیں تھا بلکہ دیگر نافرمانوں نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا ، چناچہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے بھی آپ سے یہی مطالبہ کیا فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآئِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ (الشعرائ : 781) اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے ، اور یہی بات حضور ﷺ کے زمانے کے مشرکوں نے بھی کی تھی۔ او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفا ( بنی اسرائیل : 29) کہ ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے اس قسم کی باتیں وہ اپنے غرورو تکبر کی بناء پر کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ اور ہم اسی طرح عیش و عشرت کرتے رہیں گے ، مگر جب کسی قوم پر عذاب آیا تو پھر ان کی جڑ بنیاد ہی اکھاڑ کر رکھ دی گئی۔ شگون بد اللہ کے ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کو محبت اور پیار کے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانے ، اللہ نے یہاں پر صالح (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر کیا ہے کہ جب آپ نے نصیحت آموز باتیں کیں قالوا اطیرنا بک وبمن معک تو وہ کہنے لگے اے صالح (علیہ السلام) ہم تجھے اور تیرے ایماندار ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں ۔ تمہارے منحوس قدم پڑے ہیں ۔ تو ہمارے ہاں قحط پڑگیا ہے۔ بارش رک گئی ہے اور ہم پر طرح طرح کی مصیبتیں وارد ہو رہی ہیں ۔ گھر گھر میں لڑائی شروع ہوگئی ہے ، باپ بیٹے سے اور بھائی بھائی سے الجھ رہا ہے ۔ اسی طرح خاوند اور بیوی کے درمیان مخاصمت پیدا ہوچکی ہے ، یہ سارے فتنے تمہاری نحوست کی وجہ سے برپا ہو رہے ہیں ۔ جب سے تم نے ہمیں وعظ کرنا شروع کیا ہے ہمارا خانہ خراب ہوگیا ۔ اس کے جواب میں قال صالح (علیہ السلام) نے کہا طر کم عند اللہ تمہارا شگون یا بری قسمت تو اللہ کے پاس ہے ، اس میں کسی مخلوق کا کوئی اختیار نہیں ۔ یہ تکلیفیں میرے اور میرے ساتھیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ تمہاری بداعمالیوں ، کفر ، شرک اور معاصی کی وجہ سے آ رہی ہیں ۔ طیرۃ شگون کو کہتے ہیں ۔ یہ لفظ طیر کے مادہ سے ہے ۔ پہلے زمانے میں لوگ پرندوں کو اڑ کر شگون لیا کرتے تھے ، مثلاً پرندے کو اڑایا ، اگر وہ اڑ کر دائیں طرف گیا تو نیک شگون لیتے کہ مطلوبہ کام بن جائیگا ، اور اگر پرندہ بائیں طرف چلا جاتا تو شگون بد سمجھتے کہ ہمارا یہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گا ، لہٰذا اس کو ترک کردیتے ۔ حدیث میں آتا ہے ، الطیرۃ من الشرک یعنی شگون لینا شرک کی ایک قسم ہے ۔ یہ بیماری آج بھی پائی جاتی ہے ۔ کہیں الو بیٹھا دیکھ لیا تو اسے ویرانی پر محمول کردیا ۔ گھر سے نکلتے وقت اگر کالی بلی نے راستہ کاٹ دیا تو برا شگون سمجھ لیا کہ اب کام نہیں ہوگا ، واپس چلو ، حدیث میں آتا ہے کہ حضرت معاویہ سلمی ؓ جب حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لائے تو انہوں نے عرض کیا منا یتطیرون یعنی جاہلیت کے زمانے میں ہم پرندوں کو اڑا کر شگون لیا کرتے تھے ، یہ کیسا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا یہ محض وہم ہے ادارے کسی کام میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے بلکہ اپنا کام رکھو اور شگون کی بناء پر کسی کام کو ترک نہ کرو ، جو شخص شگون کو موثر سمجھتا ہے وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے ۔ تو صالح (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم ہماری موجودگی کو بدشگون قرار دیتے ہو ، حالانکہ تمہارا شگون تو اللہ کے پاس ہے ، وہ تمہاری شرارتوں کی وجہ سے قحط سالی اور دوسری مصیبتیں لاتا ہے ۔ یہ سب تمہارے شرک کی نحوست ہے جسے تم ہماری طرف منسوب کر رہے ہو ۔ فرمایا حقیقت یہ ہے بل انتم قوم تفتنون کہ تم لوگ فتنے میں ڈالے گئے ہو ۔ اللہ نے تمہیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے مگر تم ناکام ہو رہے ہو۔ شہر کے نو غنڈے ارشاد ہوتا ہے وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط شہر حجر میں غنڈہ قسم کے نو آدمی تھے ۔ دراصل رھمط تین سے مل کر نو تک کے گروہ کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ یہ بدقماش قسم کے نو اشخاص تھے یفسدون فی الارض جو زمین میں فساد کرتے تھے ، ان کا کام بھی مار دھاڑ ، لوٹ مار ، قتل و غارت اور غنڈہ گردی تھی ، دراصل یہ نو خاندان تھے جن میں سے ہر فیملی کا ایک ایک نمائندہ مل کر یہ گروہ بن گیا تھا اور انہوں نے غنڈہ گردی کا بازار گرم رکھا تھا ۔ آج کی اصطلاح میں انہیں بستہ ( ب) کے بدمعاش کہا جاسکتا ہے ۔ یہ لوگ نہ صرف معاشرتی طور پر بدقماش تھے بلکہ کفر و شرک میں بھی بڑے ہوئے تھے اور اللہ کے نبی صالح (علیہ السلام) کے بد ترین دشمن بھی یہی تھے ۔ صالح (علیہ السلام) کا سارا وعظ ان غنڈوں کے خلاف جاتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر لوگ ان پر ایمان لے آئے تو ان کی چودھراہٹ اور غنڈہ گردی ختم ہو کر رہ جائیگی ۔ پوری تاریخ عالم میں اسی طرح کے لوگ ہی نبیوں کے مخالف رہے ہیں اور آج بھی حق کے مقابلے کے لیے ایسے لوگ پیش پیش ہوتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو نفاذ اسلام کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اسلامی قانون نافذ ہونے سے سب سے پہلی زدابنی پر پڑتی ہے اور ان کو اپنی بد معاشیاں ترک کرنا پڑتی ہیں ۔ بہر حال فرمایا کہ یہ نو بد معاش آدمی تھے جو زمین میں فساد کرتے تھے ولا یصلحون اور اصلاح نہیں کرتے تھے یعنی فتنہ و فساد کی بیخ کنی کر کے زمین کو اس کا گہوارہ نہیں بننے دیتے تھے۔ صالح (علیہ السلام) کی ہلاکت کا منصوبہ یہ بد قماش آدمی صالح (علیہ السلام) کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے چناچہ انہوں نے آپ کے خلاف منصوبہ بندی کی ۔ قالو تقاسم باللہ کہنے لگے کہ اللہ کے نام کی قسم اٹھائو لنبیتنہ واھلہ کہ ہم صالح (علیہ السلام) اور آپ کے گھر والوں کا رات کے وقت کا تمام کردیں گے ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ قتل ہوگئے تو پھر آپ کے خاندان والے آپ کے خون کا دعویٰ بھی کریں گے ۔ ایسی صورت میں ثم لنقولن لولیہ ہم آپ کے دعویدار سے کہہ دیں گے ما شھدت مھلک اھلہ کہ ہم تو آپ کے گھر والوں کی ہلاکت کے وقت موجود ہی نہیں تھے ہمیں کیا معلوم کہ کس نے شب خون مار کر ان کو ہلاک کردیا ہے اور ساتھ یقین دہانی کے لیے یہ بھی کہیں گے وانا لصدقون ہم اپنی بات میں بالکل سچے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا ومکروامکر ان لوگوں نے بھی ایک تدبیر کی ۔ مگر مخفی تدبیر کو کہتے ہیں یعنی ایسی چال چلنا جس کو لوگ آسانی سے سمجھ نہ پائیں ۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ کسی طرح صالح (علیہ السلام) کو ہلاک کردیا جائے ۔ آپ رات اکثر مسجد میں گزارتے تھے اور وہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے ۔ ان بد معاشوں کا خیال تھا کہ رات کو مسجد پر حملہ کر کے صالح (علیہ السلام) کا کام تمام کردیا جائے ۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ کے گھر پر شب خون مارنے کا پروگرام بنایا تا کہ آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو بیک وقت ختم کردیا جائے ۔ تدبیر خداوندی اللہ نے فرمایا کہ انہوں نے بھی ایک تدبیر کی وم کرنا مکراً اور ہم نے بھی ایک تدبیر کی اور ہماری تدبیر ایسی تھی وھم لا یشعرون جس کا وہ شعور نہیں رکھتے تھے یعنی ہماری منصوبہ بندی کی وہ گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتے تھے چناچہ جب یہ لوگ رات کے وقت حملہ کرنے کے لیے نکلے تو اللہ نے انہیں راستے میں ہی ہلاک کردیا اور یہ صالح (علیہ السلام) تک پہنچنے ہی نہ پائے ۔ ان لوگوں کی ہلاکت کے متعلق تین قسم کی تفسیری روایات ملتی ہیں ایک یہ کہ ان پر آسمان سے پتھر برسائے گئے ۔ دوسری یہ کہ ان پر اوپر سے ایسی چیخ مسلط کی گئی جس سے ان کے جگر پھٹ گئے ۔ اور ہلاک ہوگئے ۔ تیسری روایت یہ ہے کہ ان کو زمین میں دھنسا کر ہلاک کیا گیا ۔ یہ نو آدمی تو اس طرح مارے گئے اور باقی نافرمانوں کے متعلق سورة ہود میں ہے کہ اللہ نے ان سے فرمایا تمتعوا فی دارکم ثلثۃ ایام ذلک وعد غیر مکذوب ( آیت : 56) اپنے گھروں میں تین دن تک فائدہ اٹھالو ۔ یہ ایسا وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہوگا ، چناچہ پھر ایسا ہوا کہ تین دن کے بعد ساری قوم ہلاک ہوگئی ۔ ایک سخت کڑک اور زلزلے نے انہیں آنکھوں دیکھتے اس طرح الٹا کر رکھ دیاگویا وہ کبھی وہاں آباد ہی نہ تھے۔ فرمایا فانظر کیف کان عاقبۃ مکرھمہ پھر دیکھو ، ان کی تدبیر کا کیا انجام ہوا ۔ انا دمرنھم وقومھم اجمعین ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ۔ کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑا ۔ ان کی بستیاں نشان عبرت بن چکی تھی فتلک بیوتھم خاویۃ بما ظلمو پس یہ ہیں ان کے گرے پڑے گھر ان کے ظلم کی وجہ سے ۔ یہ لوگ بڑے صناع اور سنگ تراش تھے ۔ پہاڑوں کو کھود کھود کر عالیشان نقش و نگار والے مکان بناتے تھے ۔ اللہ نے فرمایا کہ آج ان کے محلات کے کھنڈرات ہی باقی رہ گئے ہیں جو لوگ وادی تبوک سے گزرتے ہیں ، یہ کھنڈرات آج بھی ان کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ دیکھ لو ظلم و ستم کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ نشان عبرت فرمایا ان فی ذلک لایۃ لقوم یعلمون بیشک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو علم اور سمجھ رکھتے ہیں۔ نصیحت کی یہی بات اللہ تعالیٰ مشرکین مکہ اور دیگر نافرمان اور مغرور لوگوں کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کی مخالفت اور اس کو ہلاک کرنے کی کوشش کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہلاکت کا منصوبہ بنانے والوں کو پہلے ہی ہلاک کردیا اور اس قوم کے کھنڈرات پوری ۔۔ انسانیت کے لئے درس عبرت بنے ہوئے ہیں ۔ فرمایا وانجینا الذین امنوا اور ہم نے اہل ایمان کو اس عذاب سے بچا لیا ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے بھی ہزاروں آدمی تھے جو اللہ کی گرفت سے محفوظ رہے۔ ایک تو وہ ایمان لانے کی وجہ سے بچ گئے اور ان کی دوسری صفت یہ تھی وکانوا یتقون کہ وہ کفر ، شرک اور عاصی سے بچتے تھے ۔ حدود شرع کی حفاظت کا نام ہی تقویٰ ہے ۔ انہوں نے ایمان لانے کے بعد تقویٰ کو اختیار کیا اور اس طرح عذاب الٰہی سے بچ گئے ۔ جب کہ باقی ساری قوم ہلاک کردی گئی۔
Top