Mualim-ul-Irfan - An-Naml : 45
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ : اور تحقیق ہم نے بھیجا اِلٰى : طرف ثَمُوْدَ : ثمود اَخَاهُمْ : ان کے بھائی صٰلِحًا : صالح اَنِ : کہ اعْبُدُوا اللّٰهَ : اللہ کی عبادت کرو فَاِذَا : پس ناگہاں هُمْ : وہ فَرِيْقٰنِ : دو فریق ہوگئے يَخْتَصِمُوْنَ : باہم جھگڑنے لگے وہ
اور البتہ تحقیق ہم نے بھیجا قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو ( کہ ان لوگوں سے کہو) عباد ت کرو اللہ تعالیٰ کی ، پھر وہ ہوگئے آپس میں دو فرقے اور جھگڑنے لگے
ربط آیات گزشتہ رکوع میں اللہ تعالیٰ نے سلیمان (علیہ السلام) اور ان پر کیے جانے والے انعامات کا ذکر کیا ۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے علم ، طاقت اور بےمثال سلطنت عطا فرمائی سلیمان (علیہ السلام) ان انعامات پر اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ شکر ادا کرتے تھے ۔ اب آج کے درس میں اللہ نے قوم ثمود کا حال بیان کیا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اہل عرب اور دوسری نافرمان اقوام ان واقعات سے عبرت حاصل کریں ۔ سلیمان (علیہ السلام) اور قوم ثمود کے واقعات میں کسی قدر مماثلت بھی پائی جاتی ہے ، جس کی وجہ سے دونوں اقوام کے حالات میں باہم ربط ہے ، مثلاً سلیمان (علیہ السلام) کے زمانے کی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اللہ نے ان کے لیے جنات ، پرندوں اور ہوا کو مسخر کردیا تھا اور آپ جیسے چاہتے ان سے کام لیتے تھے ، ادھر صالح (علیہ السلام) کے واقعات میں حیرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ قوم کی فرمائش پر اللہ نے چٹان میں سے ایک بہت بڑی اونٹنی نکالی ۔ ا س سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا ذکر بھی ہوا تھا ، وہاں بھی حیرت انگیز نشانیاں ظاہر ہوئیں۔ صالح (علیہ السلام) کی بعثت انبیاء (علیہم السلام) کے تذکرے کے سلسلے میں پہلے حضرت دائود اور سلیمان (علیہما السلام) کا ذکر ہوچکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو علم عطا کیا جس سے مراد نبوت ، رسالت اور وحی الٰہی ہے کہ صرف یہی یقینی علم ہے ۔ یہ دونوں باپ بیٹا اللہ کے نبی ، خلیفہ اور حاکم وقت تھے ۔ اب حضرت صالح (علیہ السلام) کے متعلق ارشاد ہوتا ہے ولقد ارسلنا الی ثمود اخاھم صلحا ً البتہ تحقیق ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا۔ آپ بھی عظیم المرتبت صاحب شریعت رسول اور نبی تھے ۔ آپ کا ذکر اس سے پہلے بھی کئی سورتوں میں آ چکا ہے اور آئندہ بھی آخری پارے تک آپ کا ذکر خیر آئے گا ، قوم ثمود وادی حجر میں اور تبوک کے درمیان آباد تھی ۔ حجر سے لے کر وادی قریٰ تک اس قوم کے سترہ سو قصبات اور بستیاں آباد تھیں جن میں حجر 1 ؎ بڑا متمدن اور مرکزی شہر تھا ، یہ عام طور پر تاجرپیشہ لوگ تھے ۔ صنعت و حرفت بھی کرتے تھے اور ان کے باغات بھی تھے جہاں یہ کھیتی باڑی کرتے تھے ۔ صالح ابن عبید علیہ السلا م بھی اسی قوم کے فرد تھے اس لیے آپ کی قوم کا بھائی کہا گیا ہے۔ بہر حال جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بنا کر قوم کی طرف بھیجا آپ نے سب سے 1 ؎۔ تفسیر عزیزی ص 742 پ 03 ( فیاض) پہلے قوم کو یہی پیغام پہنچایا ان اعبدو اللہ لوگو ! عبادت صرف اللہ کی کرو ، اسی کو وحدہٗ لا شریک مانو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو ، ان لوگوں نے اپنی مختلف حاجات کے لیے مختلف معبود بنا رکھے تھے۔ پھر جب صالح (علیہ السلام) نے ان کو پیغام حق سنایا فاذا ھم فریقن یختصمون تو وہ دو گرہ بن کر آپس میں جھگڑنے لگے ظاہر ہے کہ ایک گروہ ایمانداروں کا بن گیا جو صالح (علیہ السلام) پر ایمان لے آئے ، اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرلیا ، اور دوسرا گروہ کافروں اور نافرمانوں کا تھا ، جنہوں نے صالح (علیہ السلام) کی بات کو قبول نہ کیا ۔ یہ لوگ بڑے سر کش ، مجرم اور گناہ گار تھے ، لہٰذا ان دونوں کا آپس میں الجھائو۔ ایک قدرتی امر تھا ، البتہ اہل ایمان کمزور اور تعداد میں بھی کم تھے ۔ جب کہ نافرمان لوگ بڑے طاقتور ، مغرور اور نفری میں بھی بہت زیادہ تھے ۔ اس چیز کا اشارہ سورة اعراف میں بھی ہے قال الملا الذین استکبروا من قومہ للذین استضعفوا لمن امن منھم ( آیت : 57) مغرور اور سر کش لوگوں نے اہل ایمان مگر کمزور لوگوں سے کہا کہ کیا تم صالح (علیہ السلام) کی رسالت کی تصدیق کرتے ہو ؟ انہوں نے مثبت میں جواب دیا تو انہوں نے کہا کہ ہم تو نہیں مانتے بلکہ ہم تو انکار کرتے ہیں جب صالح (علیہ السلام) ان کو آنے والے عذاب سے ڈراتے تو وہ آگے سے دھمکیاں دینے لگتے اور کہتے یصلح ائتنا بما تعدنا ان کنت من الصدقین ( الاعراف : 77) اے صالح (علیہ السلام) ، اگر تو سچا ہے تو ہم پر وہ عذاب لے آ جس سے تو ہمیں ڈراتا رہتا ہے ۔ صالح (علیہ السلام) کی نصیحت اس کے جواب میں قال یقوم لم تستعجلون بالسیئۃ قیل الحسنۃ صالح (علیہ السلام) نے کہا ، اے میری قوم کے لوگو ! بھلائی سے پہلے برائی کے لیے کیوں جلدی کرتے ہو ، تم اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش طلب کرنے کی بجائے اپنے اوپر عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو ، یہ کس قدر حماقت کی بات ہے لو لا تستغفرون للہ تم اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی کیوں نہیں مانگتے لعلکم ترحمون تا کہ تم پر رحم کیا جائے ۔ اگر اللہ کی طرف رجوع کرو گے ، برائیوں سے باز آ جائو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرما کر تمہاری سابقہ کوتاہیاں معاف کر دیگا مگر تم الٹا عذاب کا مطالبہ کر رہے ہو ، کتنی عجیب اور نقصان دہ بات ہے ۔ اس قسم کی الٹ دماغی صرف قوم ثمود کا ہی حصہ نہیں تھا بلکہ دیگر نافرمانوں نے بھی ایسا ہی مطالبہ کیا ، چناچہ شعیب (علیہ السلام) کی قوم نے بھی آپ سے یہی مطالبہ کیا فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا کِسَفًا مِّنَ السَّمَآئِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ (الشعرائ : 781) اگر تو سچا ہے تو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے ، اور یہی بات حضور ﷺ کے زمانے کے مشرکوں نے بھی کی تھی۔ او تسقط السماء کما زعمت علینا کسفا ( بنی اسرائیل : 29) کہ ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا گرا دے اس قسم کی باتیں وہ اپنے غرورو تکبر کی بناء پر کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ ہمارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ اور ہم اسی طرح عیش و عشرت کرتے رہیں گے ، مگر جب کسی قوم پر عذاب آیا تو پھر ان کی جڑ بنیاد ہی اکھاڑ کر رکھ دی گئی۔ شگون بد اللہ کے ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کو محبت اور پیار کے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانے ، اللہ نے یہاں پر صالح (علیہ السلام) کی قوم کا ذکر کیا ہے کہ جب آپ نے نصیحت آموز باتیں کیں قالوا اطیرنا بک وبمن معک تو وہ کہنے لگے اے صالح (علیہ السلام) ہم تجھے اور تیرے ایماندار ساتھیوں کو منحوس سمجھتے ہیں ۔ تمہارے منحوس قدم پڑے ہیں ۔ تو ہمارے ہاں قحط پڑگیا ہے۔ بارش رک گئی ہے اور ہم پر طرح طرح کی مصیبتیں وارد ہو رہی ہیں ۔ گھر گھر میں لڑائی شروع ہوگئی ہے ، باپ بیٹے سے اور بھائی بھائی سے الجھ رہا ہے ۔ اسی طرح خاوند اور بیوی کے درمیان مخاصمت پیدا ہوچکی ہے ، یہ سارے فتنے تمہاری نحوست کی وجہ سے برپا ہو رہے ہیں ۔ جب سے تم نے ہمیں وعظ کرنا شروع کیا ہے ہمارا خانہ خراب ہوگیا ۔ اس کے جواب میں قال صالح (علیہ السلام) نے کہا طر کم عند اللہ تمہارا شگون یا بری قسمت تو اللہ کے پاس ہے ، اس میں کسی مخلوق کا کوئی اختیار نہیں ۔ یہ تکلیفیں میرے اور میرے ساتھیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ تمہاری بداعمالیوں ، کفر ، شرک اور معاصی کی وجہ سے آ رہی ہیں ۔ طیرۃ شگون کو کہتے ہیں ۔ یہ لفظ طیر کے مادہ سے ہے ۔ پہلے زمانے میں لوگ پرندوں کو اڑ کر شگون لیا کرتے تھے ، مثلاً پرندے کو اڑایا ، اگر وہ اڑ کر دائیں طرف گیا تو نیک شگون لیتے کہ مطلوبہ کام بن جائیگا ، اور اگر پرندہ بائیں طرف چلا جاتا تو شگون بد سمجھتے کہ ہمارا یہ کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے گا ، لہٰذا اس کو ترک کردیتے ۔ حدیث میں آتا ہے ، الطیرۃ من الشرک یعنی شگون لینا شرک کی ایک قسم ہے ۔ یہ بیماری آج بھی پائی جاتی ہے ۔ کہیں الو بیٹھا دیکھ لیا تو اسے ویرانی پر محمول کردیا ۔ گھر سے نکلتے وقت اگر کالی بلی نے راستہ کاٹ دیا تو برا شگون سمجھ لیا کہ اب کام نہیں ہوگا ، واپس چلو ، حدیث میں آتا ہے کہ حضرت معاویہ سلمی ؓ جب حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام لائے تو انہوں نے عرض کیا منا یتطیرون یعنی جاہلیت کے زمانے میں ہم پرندوں کو اڑا کر شگون لیا کرتے تھے ، یہ کیسا ہے ؟ حضور ﷺ نے فرمایا یہ محض وہم ہے ادارے کسی کام میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے بلکہ اپنا کام رکھو اور شگون کی بناء پر کسی کام کو ترک نہ کرو ، جو شخص شگون کو موثر سمجھتا ہے وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے ۔ تو صالح (علیہ السلام) نے قوم کے لوگوں سے کہا کہ تم ہماری موجودگی کو بدشگون قرار دیتے ہو ، حالانکہ تمہارا شگون تو اللہ کے پاس ہے ، وہ تمہاری شرارتوں کی وجہ سے قحط سالی اور دوسری مصیبتیں لاتا ہے ۔ یہ سب تمہارے شرک کی نحوست ہے جسے تم ہماری طرف منسوب کر رہے ہو ۔ فرمایا حقیقت یہ ہے بل انتم قوم تفتنون کہ تم لوگ فتنے میں ڈالے گئے ہو ۔ اللہ نے تمہیں آزمائش میں ڈال رکھا ہے مگر تم ناکام ہو رہے ہو۔ شہر کے نو غنڈے ارشاد ہوتا ہے وکان فی المدینۃ تسعۃ رھط شہر حجر میں غنڈہ قسم کے نو آدمی تھے ۔ دراصل رھمط تین سے مل کر نو تک کے گروہ کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ یہ بدقماش قسم کے نو اشخاص تھے یفسدون فی الارض جو زمین میں فساد کرتے تھے ، ان کا کام بھی مار دھاڑ ، لوٹ مار ، قتل و غارت اور غنڈہ گردی تھی ، دراصل یہ نو خاندان تھے جن میں سے ہر فیملی کا ایک ایک نمائندہ مل کر یہ گروہ بن گیا تھا اور انہوں نے غنڈہ گردی کا بازار گرم رکھا تھا ۔ آج کی اصطلاح میں انہیں بستہ ( ب) کے بدمعاش کہا جاسکتا ہے ۔ یہ لوگ نہ صرف معاشرتی طور پر بدقماش تھے بلکہ کفر و شرک میں بھی بڑے ہوئے تھے اور اللہ کے نبی صالح (علیہ السلام) کے بد ترین دشمن بھی یہی تھے ۔ صالح (علیہ السلام) کا سارا وعظ ان غنڈوں کے خلاف جاتا تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر لوگ ان پر ایمان لے آئے تو ان کی چودھراہٹ اور غنڈہ گردی ختم ہو کر رہ جائیگی ۔ پوری تاریخ عالم میں اسی طرح کے لوگ ہی نبیوں کے مخالف رہے ہیں اور آج بھی حق کے مقابلے کے لیے ایسے لوگ پیش پیش ہوتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جو نفاذ اسلام کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اسلامی قانون نافذ ہونے سے سب سے پہلی زدابنی پر پڑتی ہے اور ان کو اپنی بد معاشیاں ترک کرنا پڑتی ہیں ۔ بہر حال فرمایا کہ یہ نو بد معاش آدمی تھے جو زمین میں فساد کرتے تھے ولا یصلحون اور اصلاح نہیں کرتے تھے یعنی فتنہ و فساد کی بیخ کنی کر کے زمین کو اس کا گہوارہ نہیں بننے دیتے تھے۔ صالح (علیہ السلام) کی ہلاکت کا منصوبہ یہ بد قماش آدمی صالح (علیہ السلام) کو اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے چناچہ انہوں نے آپ کے خلاف منصوبہ بندی کی ۔ قالو تقاسم باللہ کہنے لگے کہ اللہ کے نام کی قسم اٹھائو لنبیتنہ واھلہ کہ ہم صالح (علیہ السلام) اور آپ کے گھر والوں کا رات کے وقت کا تمام کردیں گے ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ قتل ہوگئے تو پھر آپ کے خاندان والے آپ کے خون کا دعویٰ بھی کریں گے ۔ ایسی صورت میں ثم لنقولن لولیہ ہم آپ کے دعویدار سے کہہ دیں گے ما شھدت مھلک اھلہ کہ ہم تو آپ کے گھر والوں کی ہلاکت کے وقت موجود ہی نہیں تھے ہمیں کیا معلوم کہ کس نے شب خون مار کر ان کو ہلاک کردیا ہے اور ساتھ یقین دہانی کے لیے یہ بھی کہیں گے وانا لصدقون ہم اپنی بات میں بالکل سچے ہیں ۔ اللہ نے فرمایا ومکروامکر ان لوگوں نے بھی ایک تدبیر کی ۔ مگر مخفی تدبیر کو کہتے ہیں یعنی ایسی چال چلنا جس کو لوگ آسانی سے سمجھ نہ پائیں ۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ کسی طرح صالح (علیہ السلام) کو ہلاک کردیا جائے ۔ آپ رات اکثر مسجد میں گزارتے تھے اور وہاں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے تھے ۔ ان بد معاشوں کا خیال تھا کہ رات کو مسجد پر حملہ کر کے صالح (علیہ السلام) کا کام تمام کردیا جائے ۔ بعض کہتے ہیں کہ آپ کے گھر پر شب خون مارنے کا پروگرام بنایا تا کہ آپ کو اور آپ کے اہل خانہ کو بیک وقت ختم کردیا جائے ۔ تدبیر خداوندی اللہ نے فرمایا کہ انہوں نے بھی ایک تدبیر کی وم کرنا مکراً اور ہم نے بھی ایک تدبیر کی اور ہماری تدبیر ایسی تھی وھم لا یشعرون جس کا وہ شعور نہیں رکھتے تھے یعنی ہماری منصوبہ بندی کی وہ گرد تک بھی نہیں پہنچ سکتے تھے چناچہ جب یہ لوگ رات کے وقت حملہ کرنے کے لیے نکلے تو اللہ نے انہیں راستے میں ہی ہلاک کردیا اور یہ صالح (علیہ السلام) تک پہنچنے ہی نہ پائے ۔ ان لوگوں کی ہلاکت کے متعلق تین قسم کی تفسیری روایات ملتی ہیں ایک یہ کہ ان پر آسمان سے پتھر برسائے گئے ۔ دوسری یہ کہ ان پر اوپر سے ایسی چیخ مسلط کی گئی جس سے ان کے جگر پھٹ گئے ۔ اور ہلاک ہوگئے ۔ تیسری روایت یہ ہے کہ ان کو زمین میں دھنسا کر ہلاک کیا گیا ۔ یہ نو آدمی تو اس طرح مارے گئے اور باقی نافرمانوں کے متعلق سورة ہود میں ہے کہ اللہ نے ان سے فرمایا تمتعوا فی دارکم ثلثۃ ایام ذلک وعد غیر مکذوب ( آیت : 56) اپنے گھروں میں تین دن تک فائدہ اٹھالو ۔ یہ ایسا وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہوگا ، چناچہ پھر ایسا ہوا کہ تین دن کے بعد ساری قوم ہلاک ہوگئی ۔ ایک سخت کڑک اور زلزلے نے انہیں آنکھوں دیکھتے اس طرح الٹا کر رکھ دیاگویا وہ کبھی وہاں آباد ہی نہ تھے۔ فرمایا فانظر کیف کان عاقبۃ مکرھمہ پھر دیکھو ، ان کی تدبیر کا کیا انجام ہوا ۔ انا دمرنھم وقومھم اجمعین ہم نے ان کو اور ان کی قوم کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا ۔ کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑا ۔ ان کی بستیاں نشان عبرت بن چکی تھی فتلک بیوتھم خاویۃ بما ظلمو پس یہ ہیں ان کے گرے پڑے گھر ان کے ظلم کی وجہ سے ۔ یہ لوگ بڑے صناع اور سنگ تراش تھے ۔ پہاڑوں کو کھود کھود کر عالیشان نقش و نگار والے مکان بناتے تھے ۔ اللہ نے فرمایا کہ آج ان کے محلات کے کھنڈرات ہی باقی رہ گئے ہیں جو لوگ وادی تبوک سے گزرتے ہیں ، یہ کھنڈرات آج بھی ان کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ دیکھ لو ظلم و ستم کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔ نشان عبرت فرمایا ان فی ذلک لایۃ لقوم یعلمون بیشک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو علم اور سمجھ رکھتے ہیں۔ نصیحت کی یہی بات اللہ تعالیٰ مشرکین مکہ اور دیگر نافرمان اور مغرور لوگوں کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ اللہ کے نبی کی مخالفت اور اس کو ہلاک کرنے کی کوشش کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہلاکت کا منصوبہ بنانے والوں کو پہلے ہی ہلاک کردیا اور اس قوم کے کھنڈرات پوری ۔۔ انسانیت کے لئے درس عبرت بنے ہوئے ہیں ۔ فرمایا وانجینا الذین امنوا اور ہم نے اہل ایمان کو اس عذاب سے بچا لیا ۔ حضرت صالح (علیہ السلام) پر ایمان لانے والے بھی ہزاروں آدمی تھے جو اللہ کی گرفت سے محفوظ رہے۔ ایک تو وہ ایمان لانے کی وجہ سے بچ گئے اور ان کی دوسری صفت یہ تھی وکانوا یتقون کہ وہ کفر ، شرک اور عاصی سے بچتے تھے ۔ حدود شرع کی حفاظت کا نام ہی تقویٰ ہے ۔ انہوں نے ایمان لانے کے بعد تقویٰ کو اختیار کیا اور اس طرح عذاب الٰہی سے بچ گئے ۔ جب کہ باقی ساری قوم ہلاک کردی گئی۔
Top