Tafseer-e-Haqqani - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
مسلمانو ! دو گنا تگنا کرکے سود نہ کھایا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم فلاح پائو
ترکیب : اضعافا حال ہے الربوا سے عرضہا جملہ موضع جر میں ہے تقدیر الکلام عرضہا مثل عرض السٰمٰوت۔ اعدت صفت جنت کی ہے اور حال بھی ہوسکتا ہے الذین ینفقون اور اسی طرح والذین اذا فعلوا اور الکاظمین اور العافین سب متقین کی صفت میں واقع ہے۔ ذکروا اللّٰہ جواب ہے اذا کا ‘ ومن مبتداء خبر ‘ وھم یعلمون حال ہے ضمیر لم یصروا سے۔ تفسیر : پہلی آیت میں خدا نے اپنی مغفرت اور رحمت کا ذکر کیا تھا اور یہ فرمایا تھا کہ زمین و آسمان ہمارے قبضہ میں ہیں ہم جس کو چاہتے ہیں معاف کرتے ہیں جس کو چاہتے ہیں عذاب دیتے ہیں۔ اس لئے یہاں پیشتر سود خوری سے منع کیا کیونکہ جب خدا تمہیں بخشتا اور تم پر رحم کرتا ہے تو تم بھی اپنے زیر دستوں پر رحم کرکے ان کے سود معاف کر دو ۔ دوم جو کچھ ہے خدا کا ہے پھر تم کیوں اس کے دیے ہوئے مال کا شکریہ ادا نہیں کرتے ٗ کیوں ناحق معاوضہ لیتے ہو یا یوں کہو دنیا دار سود خوری وغیرہ مکاسب میں ایسے مستغرق رہتے ہیں کہ گویا ان کو سدا یہیں رہنا ہے حالانکہ یہ مسافر خانہ ہے جہاں پھر کبھی آنا ہی نہیں اور پیشتر جہاد اور نزول ملائکہ وغیرہ ان باتوں کا ذکر تھا جو دار آخرت کا وسیلہ ہے۔ اس لئے یہاں فرمایا کس واہیات کمائی میں پڑے ہو۔ اس کو چھوڑ دو اور خدا کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑو اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ دنیا کی ترقی کیا سود میں ڈھونڈھتے ہو۔ اس کو چھوڑو اور خدا کے لشکر میں داخل ہو کر جہاد کرو جس سے دنیا کی سلطنتیں تمہارے پائوں پر آپڑیں اور آخرت میں بھی بادشاہت ملے اور چونکہ پہلے جہاد کا ذکر تھا اور سود خوری بزدلی پیدا کرتی ہے اس لئے اس کے ذکر میں اس کی ممانعت کرنا بھی عین حکمت ہوا۔ عرب میں دستور تھا کہ جب مدت معین پر قرضدار روپیہ ادا نہیں کرتا تھا تو قرضخواہ سود کو اصل میں شامل کرکے مہلت دیتا تھا۔ پھر اگلی قسط پر سود اور بڑھاتا تھا جس طرح یہاں سود خور سود کو اصل میں جمع کرکے سود لگا کر دگنے تگنے کرلیتے ہیں۔ ایسا ہی وہ بھی کرتے تھے اس لئے اضعافا مضاعفۃ 1 ؎ سے منع کیا اور فرما دیا کہ اللہ سے ڈرو۔ پھر فرمایا اس آگ سے ڈرو کہ جو کافروں کے لئے تیار ہوئی ہے یعنی جہنم اس میں اشارہ ہے کہ انجام کار سود خوری اور اس پر بےپروائی کا کفر ہے سو جو سزا کافروں کو ملے گی وہی سود خواروں کو پھر فرمایا اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اس کے بعد کنایہ کے طور پر اپنی اطاعت کے ثمرہ کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ اللہ کی مغفرت اور جنت کی طرف دوڑو یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا گویا مفغرت اور جنت کی طرف دوڑنا ہے۔ مفسرین کہتے ہیں مفغرت سے مراد وہ امور ہیں کہ جن سے مفغرت حاصل ہو اور اسی طرح جنت سے مراد وہ امور ہیں کہ جن سے جنت حاصل ہو۔ پھر اس کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں مراد اسلام ہے حضرت علی ؓ سے منقول ہے کہ ادائے فرض اور حضرت عثمان ؓ کہتے ہیں اخلاص ابو العالیہ کے نزدیک ہجرت کرنا۔ سعید بن جبیر کے نزدیک تکبیر اولیٰ مراد ہے۔ فرض ترک منکرات و ادائے واجبات بھی اس میں سب کچھ آجاتا ہے۔ جنت کی صفت میں دو باتیں ذکر فرمائیں۔ اول یہ کہ اس کا چوڑان آسمان و زمین کے برابر ہے۔ ابو مسلم کہتے ہیں کہ عرض سے مراد قیمت ہے۔ عرب بولتے ہیں اذا بعث الشیء بالشی الاخر عرضۃ علیہ عارضۃ یعنی جنت کی قیمت آسمانوں اور زمین کی عمدہ چیزوں سے بھی زائد ہے۔ ع نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز دراصل یہ ایک سِرِّروحانی کی طرف اشارہ ہے وہ یہ کہ جنت عالم قدس ہے۔ اس عالم حسی سے کچھ علاقہ ہی نہیں نہ وہ شہر عدن میں ہے نہ ملک شام میں ہے نہ آسمان میں ہے نہ کسی کوہ ہمالیہ کی چوٹی پر ہے بلکہ یہ تمام آسمان و زمین اس کی وسعت کے آگے کچھ بھی نہیں کس لئے کہ اس کا چوڑان اتنا ہے پھر طول کا تو کیا ٹھکانا ہے۔ پھر وہ آسمان یا زمین میں کیونکر سما سکے۔ ہاں سماوات اور عرش چونکہ لطافت میں عالم قدس کے مشابہ ہیں اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ جنت آسمانوں پر دوزخ زمین کے نیچے ہے۔ پھر سارعوا کے لفظ میں اشارہ ہے کہ وہ عالم ارواح طیبات کا حیز اصلی ہے جو جسمانی عوائق ہیں ان کو توڑ اور چھوڑ کر اس طرح دوڑو کہ جس طرح قفس سے طائرِ خوش الحان اڑ کر اپنے باغ میں جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ کے فیض صحبت سے یہ بات ہر صحابی کو میسر آگئی تھی۔ چناچہ بدر کے روز آنحضرت ﷺ مشرکین سے مقابل ہوئے تو صحابہ سے فرمایا ‘ قوموا الی جنۃ عرضہا السموات والارض کہ ” اس جنت کے لئے اٹھو جس کا چوڑان زمین و آسمان کے 1 ؎ اضعاف جمع ضعف لما کان جمع قلۃ والمقصود والکثرۃ اتبعہ مما یدل علی ذلک وھوالوصف بمضاعفۃ عرضہا والمراد وسعتہا بطریق الاستعارۃ۔ 12 منہ اس سے کم سود کھانے کی اجازت نہیں نکلتی ہے کیونکہ قید ایک امر واقعی کے لئے ہے۔ 12 منہ برابر ہے “۔ یہ سنتے ہی عمیر بن حمام صحابی ؓ نے کہا ٗآہا آہا اس کے بعد وہ اپنے توشہ دان سے چھوارے کھانے لگا۔ پھر کہا اتنی دیر میں چھوارے کھائوں گا۔ یہ تو بڑا عرصہ ہے لو جنت ہی میں چل کر کھاویں گے۔ پھر یہاں تک لڑا کہ شہید ہوگیا (رواہ مسلم) اسی طرح جنگ احد میں صحابہ کو حالت وجد پیش آئی۔ جہاد کے موقع پر سارعوا کہنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جہاد میں تلوار سے اس طائرِ روح کے بند کٹ جاتے ہیں پھر جس کے بعد روحانی سلطنت اور بڑی سیرگاہ اور وسعت اور عالم سرور اور نور ہے اور شمشیر محبت الٰہی بھی یہی کام کرتی ہے۔ دوسرا وصف اعدت للمتقین کہ وہ پہلے ہی سے تیار کی گئی ہے وہاں کے لوگ اور احباب منتظر ہیں پھر للمتقین میں اشارہ ہے کہ وہ پرہیزگاروں کا گھر ہے جو دولت اور حسب اور نسب سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے بعد متقین کے چند اوصاف بیان فرماتا ہے تاکہ حقیقی متقی اور ادعائی متقیوں میں فرق ہوجائے۔ متقین کی دو قسم ہیں ایک محسنین دوسرے تابعین اور احسان کبھی تو دوسرے کو نفع پہنچانے سے ہوتا ہے اور کبھی ضرر نہ دینے سے ہوتا ہے اس لئے (1) الذین ینفقون فی السراء والضراء فرمایا جس میں نہ مال کی قید ہے نہ جس کو دیا جاوے اس کا ذکر ہے بلکہ عام رکھا ہے خواہ اپنے کو خواہ بیگانے کو خواہ زکوٰۃ ‘ خواہ صدقہ نافلہ ‘ خواہ ہدیہ دیتے ہیں تنگی میں تھوڑا اور فراخ دستی میں بہت ‘ خواہ علم و حکمت صرف کرتے ہیں۔ (2) والکاظمین الغیظ فرمایا کہ اپنے غصہ کو مارتے ہیں کسی سے بدلہ بھی لینا نہیں چاہتے خواہ اپنا ہو خواہ بیگانہ اس لئے آنحضرت ﷺ اور صحابہ ؓ نے اقتدار پا کر بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ نیک سلوک کیا ہے۔ (3) والعافین عن الناس یعنی اپنے حقوق کا بھی کسی سے مطالبہ نہیں رکھتے بلکہ درگزر کرتے ہیں۔ اس لئے ان تینوں وصفوں کے بعد واللہ یحب المحسنین فرمایا اس کے بعد (4) وصف توبہ ہے یعنی اگر ان سے کوئی گناہ از قسم زنا یا اور کوئی کبیرہ صغیرہ بشریت سے ہوجاتا ہے تو وہ تین باتیں کرتے ہیں (1) خدا کو یاد کرتے ہیں اس کی تجلی سے جو کچھ کثافت روح پر آگئی ہے دور ہوجاتی ہے۔ (2) اپنے گناہوں سے استغفار کرتے ہیں خدا سے معافی مانگتے ہیں (3) جو کچھ ہوگیا ہے اس پر اڑتے نہیں بلکہ ندامت کرتے اور آیندہ کو باز آتے ہیں۔ آگے ان کی جزا جنت فرما کر کلام کو اول اسلوب پر لایا گیا۔
Top