Taiseer-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! دگنا چوگنا کر کے سود 118 مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم (آخرت میں) نجات پاسکو
118 اللہ کی مغفرت کی طرف دوڑ کر جانے کا مطلب یہ ہے کہ ایسے کام بلا تاخیر کئے جائیں، جو اللہ کی مغفرت کا سبب بن سکتے ہیں اور وہ تمام اعمال صالحہ ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنا بذات خود اللہ کی بخشش کا بہت بڑا سبب ہے۔ استغفار کے لیے کتاب و سنت میں بہت سی دعائیں منقول ہیں اور ایک دعائے استغفار کو تو رسول اللہ ﷺ نے سید الاستغفار فرمایا : آپ نے یہ استغفار صحابہ کرام ؓ کو سکھلایا اور صبح و شام نمازوں کے بعد یہ استغفار پڑھا کرتے تھے۔ اس استغفار کے الفاظ یہ ہیں : (اَللّٰھُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لاَاِلَہَ الاَّاَنْتَ خَلَقْتَنِی وَاَنَا عَبْدُکَ وَاَنَا عَلٰی عَھْدِکَ وَوَعْدِکَ مَااسْتَطَعْتُ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعتُ اَبُوْء لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَاَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لیْ فِاِنَّہُ لاَیَغْفِرُ الذُّنُوْبَ الاَّ اَنْتَ ) ترجمہ : اے اللہ تو ہی میرا پروردگار ہے۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ اور غلام ہوں اور جہاں تک مجھ سے ہوسکتا ہے۔ میں تیرے عہد اور تیرے وعدے پر قائم ہوں اور جو کچھ میں کرتا ہوں اس کے برے پہلو سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ میں اپنے آپ پر تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں۔ لہذا تو مجھے معاف فرما دے کیونکہ تیرے بغیر کوئی بھی گناہ معاف نہیں کرسکتا اور جنت کی طرف دوڑ کر آنے کا بھی یہی مقصد ہے کہ ایسے کام کئے جائیں جن سے جنت کا حصول ممکن ہوجائے اور جنت کی صفت یہ بیان فرمائی کہ اس کا عرض آسمانوں اور زمین جیسا ہے اور عرض کا ایک معنی تو چوڑائی ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جب آسمانوں اور زمین کی وسعت کا اندازہ کرنا انسان کی بساط سے باہر ہے تو پھر وہ جنت کی وسعت کا کیا اندازہ کرسکے گا۔ جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے گویا اس سے مقصود جنت کی ایسی لامحدود وسعت کا اظہار ہے جو انسان کے سان و گمان میں بھی نہیں آسکتی۔ اور عرض کا دوسرا معنی قدر و قیمت ہے۔ کہتے ہیں اشتریت المتاع بعرض اور ان معنوں میں یہ لفظ قرآن میں بھی مستعمل ہے۔ جب دنیا کی بےثباتی کا اظہار مقصود ہو تو دنیوی سازو سامان کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا معنی یہ ہوگا کہ اس جنت کی طرف دوڑ کر آؤ جس کے مقابلہ میں یہ سارے آسمان اور زمین ہیچ ہیں اور جنت کی قدر و قیمت ان سب سے بڑھ کر ہے۔ ضمناً ایسی آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنت اور دوزخ تیار کی جاچکی ہے اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے جو اس بات کے قائل نہیں۔
Top