Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! دگنا چوگنا سود نہ کھاؤ اور خدا سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو
آیت نمبر 130۔ تا 132۔ قولی تعالیٰ (آیت) ” یایھا الذین امنوا لا تاکلوا الربوا اضعافا مضعفۃ “۔ سود کھانے سے یہ نہیں قصہ احد کے درمیان جملہ معترضہ ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : مجھے اس بارے میں روایت کردہ کوئی شے یاد نہیں۔ میں (مفسر) کہتا ہوں کہ حضرت مجاہد نے بیان کیا ہے : وہ ایک مدت تک بیع کرتے تھے اور جب مدت مقررہ گزر جاتی تو وہ اسے مؤخر کرنے کی شرط پر ثمن میں اضافہ کردیتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” یایھال الذین امنوا لا تاکلوا الربوا اضعافا مضعفۃ “۔ (میں کہتا ہوں) تمام گناہوں میں سے ربا کو خاص کیا گیا ہے، کیونکہ یہ وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں جنگ کی اجازت دی ہے : (آیت) ” فان لم تفعلوا فاذنوا بحرب من اللہ ورسولہ “۔ (البقرہ : 279) ترجمہ : اور تم نے ایسا نہ کیا تو اعلان جنگ سن لو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور جنگ قتل کی خبر دیتی ہے، گویا کہ وہ یہ کہہ رہا ہے : اگر تم سود سے نہ بچے تو تمہیں ہزیمت کا سامنا ہوگا اور تم قتل کردیئے جاؤ گے، پس اللہ تعالیٰ نے انہیں سود چھوڑنے کا حکم دیا، کیونکہ ان کے نزدیک اس پر عمل کیا جاتا تھا، واللہ اعلم، اور ” اضعافا “ حال ہونے کی بنا پر منصوب ہے اور ” مضعفۃ “ اس کی صفت ہے۔ اور اسے مضعفۃ بھی پڑھا گیا ہے، اور اس کا معنی ہے وہ سود جس میں عرب قرض کو دوگنا کرلیتے تھے اور طالب کہتا تھا : کیا تو ادا کرے گا یا سود دے گا ؟ جیسا کہ سورة البقرہ میں گزر چکا ہے، اور مضاعفۃ یہ ایک سال کے بعد دوسرے سال دوگنا کو چار گنا کرنے کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ وہ کرتے تھے، پس یہ عبارت موکدہ ان کے فعل کے انتہائی برا اور قبیح ہونے پر دلیل ہے، اسی لئے خاص طور پر تضعیف کی حالت ذکر کی گئی ہے۔ قولہ تعالیٰ : (آیت) ” واتقوا اللہ “ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو سود کے مالوں میں اور تم انہیں نہ کھاؤ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں خوفزدہ کیا (1) (معالم التنزیل، جلد 1، صفحہ 547) اور فرمایا : (آیت) ” واتقو النار التی اعدت للکفرین “۔ بہت سے مفسرین نے کہا ہے یہ وعید اس کے لئے ہے جس نے سود کو حلال سمجھا اور جس نے ربا کو حلال سمجھا وہ کفر کا ارتکاب کرتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے : اس کا معنی ہے ایسے عمل سے بچو جو تم سے ایمان کو چھین لیتا ہے کہ تم (اس کے سبب) آتش جہنم کو واجب کرلو گے، کیونکہ گناہوں میں سے بعض ایسے ہیں جنہیں کرنے والا ایمان کے چھن جانے کو واجب کرلیتا ہے اور اس پر کوکیا جانے لگتا ہے، انہیں میں سے والدین کی نافرمانی بھی ہے، اور اس بارے میں ایک روایت میں آیا ہے کہ ایک آدمی اپنے والدین کا نافرمانی تھا اسے علقمہ کیا جاتا تھا تو موت کے وقت اسے کہا گیا کہو ” لا الہ الا اللہ “ تو وہ اس پر قادر نہ ہوسکا یہاں تک کہ اس کی ماں اس کے پاس آئی اور وہ اس سے راضی ہوئی۔ اور ایسے ہی گناہوں میں سے قطع تعلقی، سود خوری اور امانت میں خیانت کرنا ہے، ابوبکر وراق نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : اکثر اوقات موت کے وقت بندے سے ایمان نکال لیا جاتا ہے، پھر ابوبکر نے بیان کیا : پس ہم ایسے گناہوں میں غور وفکر کرتے رہے جو ایمان کو نکال دیتے ہیں تو ہم نے بندوں پر ظلم سے بڑھ کر تیزی کے ساتھ کسی کو ایمان نکالنے والا نہیں پایا، اس آیت میں اس پر دلیل ہے کہ آگ (جہنم) کو پیدا کیا گیا ہے یہ جہمیہ کا رد ہے، کیونکہ معدوم تیار شدہ نہیں ہوتا، پھر فرمایا (آیت) ” واطیعوا اللہ “۔ یعنی فرائض میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو ”’ والرسول “ اور سنن میں (رسول اللہ ﷺ کی پیرو کرو) اور یہ قول بھی ہے کہ سود کی تحریم میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور تحریم کے بارے میں جو حکم رسول اللہ ﷺ نے تمہیں پہنچایا ہے (اس میں انک کی اطاعت کرو) (آیت) ” لعلکم ترحمون “ تاکہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ اور یہ بحث پہلے گزر چکی ہے۔
Top