Tafseer-e-Madani - Aal-i-Imraan : 130
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً١۪ وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو ایمان لائے (ایمان والے) لَا تَاْ كُلُوا : نہ کھاؤ الرِّبٰٓوا : سود اَضْعَافًا : دوگنا مُّضٰعَفَةً : دوگنا ہوا (چوگنا) وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تُفْلِحُوْنَ : فلاح پاؤ
اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، مت کھاؤ تم سود بڑھتا چڑھتا1 اور ڈرو تم لوگ اللہ (کی پکڑ) سے، تاکہ تم فلاح (کی حقیقی اور ابدی سعادت) پاسکو
267 بڑھتا چڑھتا سود کھانے کی ممانعت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " تم لوگ بڑھتا چڑھتا سود مت کھاؤ "۔ جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ہوتا تھا اور جیسا کہ سود مرکب یعنی سود درسود کی خاصیت ہے، اور { اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً } یعنی بڑھتے چڑھتے سود کی یہ قید احترازی اور بیان شرط کے طور پر نہیں، بلکہ بیان واقع اور تقبیح مزید کیلئے ہے۔ ( ابن کثیر، روح، کبیر، صفوۃ البیان، صفوۃ التفاسیر وغیرہ) اور غزوہ احد کے احوال کے بیان کے درمیان سود کی اس حرمت و ممانعت، اور مکارم اخلاق کے ذکر میں یہ درس ہے، کہ ایمان وتقویٰ ہی کے ذریعے مومن جہاد کے قابل ہوسکتا ہے، اور اپنے دشمن پر فتح و غلبہ پا کر اس کو زیر کرسکتا ہے، جبکہ دنیا پرستی اور سود خوری اس کی معنویات اور اخلاقی قوت کو تباہ کردیتی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ پس ایمان والوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے رب کی معصیت و نافرمانی کی ہر شکل سے بچیں۔ اور خاص کر سود خوری اور دنیا پرستی سے۔ اور اس کے برعکس وہ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کیلئے خرچ کرنے کی خصلت کو اپنائیں تاکہ اس کی رحمت و عنایت سے سرشار ہوں۔ سو { اَضْعَافًا مُّضَاعَفَۃً } کی قید ایسے ہی ہے جیسے سورة بقرہ میں { لَا یَسْأَ لُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا } کی قید ہے، یا جیسے سورة نور میں { اِنْ اَرَدْ نَ تَحَصُّنًا } کی قید ہے وغیرہ وغیرہ۔ سو سود کے ساتھ بڑھنے چڑھنے کی یہ قید احترازی نہیں واقعی ہے۔ جو سود خوری کی لعنت کی قباحت و شناعت کو ظاہر کرنے کے لئے ذکر فرمائی گئی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top