Asrar-ut-Tanzil - Al-An'aam : 3
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے ایمان والو ! (اپنے) عہدوں کو پورا کرو تمہارے لئے چرانے والے جانور حلال کردیئے گئے ہیں سوائے ان کے جن کا تم سے ذکر کیا گیا مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا بیشک اللہ جیسا چاہتے ہیں حکم دیتے ہیں
رکوع نمبر 1 آیات 1 تا 5 ۔ اسرار و معارف : ایفائے عہد : ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ جو عہد کرو اسے پورا کرو ، عقد کا معنی معاہدہ ہے جو ہمیشہ دو انسانوں دو جماعتوں دو ملکوں کے درمیان ہوسکتا ہے۔ عہد تو یکطرفہ بھی ہوسکتا ہے یہاں مفسرین کرام نے مختلف معانی مراد لئے ہیں مگر نتیجے کے اعتبار سے سب ایک ہیں اور سارے معاہدے اس میں آجاتے ہیں۔ وہ عہد جہالت اور قبل اسلام کے ہوں یا ظہور اسلام کے بعد کے نکاح کو بھی عقد اسی لیے کہتے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان اللہ کے نام پر معاہدہ ہوتا ہے اس لے کر تجارت کے متعلق ہوں یا لین دین کے بارے جنگ اور صلح کا معاہدہ ہو یا کسی بھی موضوع پر اسے اپنی طرف سے پورا کرنے کی پوری کوشش کرو ! ہاں قبل اسلام کے وہ معاہدے جو شرعاً حرام قرار پاگئے یا ختم ہوگئے یا اسلام کے بعد مسلمان کوئی ایسا معاہدہ کرے جس پر عمل شرعاً جائز نہیں تو یہ معاہدہ ہی منعقد نہ ہوگا۔ باقی تمام معاہدے جن کو تین اقسام میں ذکر کیا گیا ہے۔ معاہدہ کی صورتیں۔ اول اللہ اور بندے کے درمیان یہ عقائد اور اتباع کا معاہدہ ہے۔ دوم بندے کا اپنے ساتھ یعنی اپنے لیے آنیوالے وقت کے لیے دیانتدار سے اور سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ تیسرے انسان کا انسان کے ساتھ یہ نکاح سے لے کر حکومت کی حد تک تمام امور کو شامل ہے یعنی خوب سوچ سمجھ کر معاملہ کرو اور معاہدہ کرتے وقت عقل سے کام لو مگر جب کرچکے تو اب ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اسے پورا کرو تم نے اسی کے عظیم نام پر معاہدہ کیا ہے جس کے نام پر اس کی مخلوق تم پر حلال کردی گئی اور مویشی اور چوپائے تم ذبح کرکے کھاتے ہو کیا وہ مخلوق نہیں ہیں اونٹ بکری گائے بھینس وغیرہ یا ان کے مشابہ جنگلی جانور ہرن اڑیال نیل گائے وغیرہ یہ صرف اللہ کے نام پر حلال ہوتے ہیں اور سب حلال ہیں سوائے ان کے جن کے بارے تمہیں روک دیا گیا ہے یعنی اصل شے میں اباحت ہے جب تک شرعاً اس کی حرمت ثابت نہ ہو حرام نہ ہوگی ہاں اگر احرام باندھے ہوئے ہوگے حج کا ہو یا عمرے کا۔ تو شکار کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ ایفائے عہد کے ساتھ ایمان کا ذکر اور فوراً بعد حلال و حرام کی بحث اس بات پہ بھی دلالت کرتی ہے کہ معاہدہ چھوٹا ہو یا بڑا دو انسانوں کے درمیان ہو یا دو حکومتوں کے درمیان ، تجارتی ہو یا سیاسی اسے نباہنے کے لیے ایمان شرط ہے اور جب تک کافر کی طرف سے عہد شکنی نہ ہو مومن اسے پورا کرنے کا پابند ہے پھر ایمان کی قوت کا مدار اکل حلال پر ہے یعنی حلال کھانے پر اگر دعوائے ایمان کے ساتھ رزق حلال نہیں ہوگا تو وہ قوت ایمانی جو ایفائے عہد کے لیے چاہئے حرام کھا کر پیدا ہونے سے رہی۔ اب حلال و حرام کا اختیار صرف اللہ کو ہے جس نے تم پر بہائم یعنی وہ جانور چارپایوں میں سے بھی جیسے گدھا خچر وغیرہ جو قرآن یا حدیث سے تو حرام ثابت ہوچکے اور یا پھر ایسے جانور جن کا ذکر آگے آئے گا ان سے منع کیا ہے یہ بھی تو ایک معاہدہ ہے رب اور بندے کے درمیان اور وہ مالک ہے جیسے چاہے کرے جو جانور اللہ نے حلال کردئیے ہیں انہیں ذبح کرکے یا شکار کرکے کھانا کوئی حرج نہیں کہ اسکا حکم ہے اجازت ہے اس نے مٹی کو درختوں اور سبزے کی ، سبزے اور درختوں کو جانوروں کو انسانوں اور درندوں کی غذا بنا دیا تو وہ خود ہر چیز کا بنانے والا مالک ہے کس کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا ہے ؟ سو حلال کھاؤ کہ ایمان پختہ نصیب ہو اور معاہدے نبھا سکو۔ اور شعائر اللہ یعنی ایسی چیزیں ایسی جگہیں ایسے احکام جو اللہ کی یاد دلاتے ہوں سب شعائر اللہ میں داخل ہوں گے۔ یعنی ایسی چیزیں یا اعمال جنہیں دیکھ کر کسی کو مسلمان کہا جائے یا جو اسلام کی نشانی بن جائے جیسے حرم بیت اللہ ، کوہ صفا ومروہ ، منی و عرفات۔ حرم نبوی ، اذان مسجد نماز اور سنت کے مطابق داڑھی یہ سب شعائر میں داخل ہوں گے۔ تو ان کی توہین کی دو صورتیں ہیں یا سرے سے مانا ہی نہ جائے جیسے داڑھی منڈا دی جاتی ہے حتی کہ علمانے ختنہ تک کو اس میں شمار کیا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ کوئی قوم نہیں کرتی یا پھر ادھورا کیا جائے اور یہ آیات فتح مکہ مکرمہ کے وقت نازل ہوئی تھیں۔ جب مسلمانوں کے دل کافروں سے سخت جلے ہوئے تھے یہاں ان پر مظالم ڈھائے گئے پھر مدینہ منورہ میں چین سے رہنے نہ دیا گیا یہود کی سازشیں اور مشرکین کا ظلم مل کر بدر و احد اور خندق کی جنگوں کی صورت اختیار کر گیا پھر انہیں حدیبیہ سے لوٹا دیا۔ آج وہ لوگ فاتح ہیں اور یہ ظالم مفتوح۔ وہ حق پر ہیں اور ان کی چند رسومات ہیں جن کی یہ پیروی کرتے ہیں اب قدرتی بات ہے ایسے لوگوں کو جب اللہ ان پر قابو دے تو کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے مگر ارشاد ہوا نہیں وہ مشرک تھے کافر تھے تم مومن ہو انہوں نے ظلم کیے تم انصاف کرو اور یہ واحد مذہب اسلام ہے جو انصاف میں دوست اور دشمن دونوں کو محروم نہیں کرتا ظلم کا بدلہ ظلم سے نہیں انصاف دیاجائے گا۔ اگر انہوں نے حرم کی اور حرمت والے مہینے کی پرواہ نہیں کی تو تم تو مسلمان ہو تمہارے لئے تو شعائر اللہ کی حرمت اور احترام ضروری ہے ایسے ہی حرمت والے مہینے کا بھی مگر تب سے اب تک یہود کی ایجاد کردہ شیعہ نامی تحریک بارہا اس ظلم کی مرتکب ہوچکی ہے ورنہ مسلمان کبھی اس کا حوصلہ نہیں کرتے اور نہ حرمت والے مہینوں کی بےحرمتی ہونے پائے جو چار تھے۔ شوال۔ ذی قعدہ۔ ذی الحجہ اور رجب۔ ان میں جنگ وجدال حرام تھا یہ صورت بھی قبل الام سے آ رہی تھی جسے ابتداء اسلام نے بحال رکھا مگر بعد میں جمہور علماء کے نزدیک یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ نیز حرم میں قربانی کے لیے لئے لائے جانے والے جانور یا جن کے گلے میں بطور نشانی پٹہ ڈال دیا جاتا ہے کہ یہ قربانی ہے ان کی حرمت و احترام کا خیال رہے حالانکہ ان میں ایسے جانور بھی تھے جو مشرکین نے صحابہ سے چھینے تھے مگر وہ موقع مداخلت کا نہ تھا کہ وہ لوگ بھی تو اللہ کے گھر کو نکلے ہیں امن اور رزق کے طالب بن کر نیز اپنے رب کی خوشنودی تلاش کرنے کے لیے اس لیے مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا کہ جب تک خود اللہ نہیں روک دیتے انہیں روکیں یا ان کے لیے تکالیف پیدا کریں اور انہیں پریشان کریں ، ہاں ! جب تم احرام کھول دو تو پھر حد جرم سے باہر شکار کرسکتے ہو۔ اور جس قوم نے تم پر زیادتی کی تھی حتی کہ عمرہ تک سے روک دیا تھا آج اگر اللہ سے قدرت پائی ہے تو اس غصہ میں انہیں حج وعمرہ سے منع نہ کرو کہ یہ زیادتی ہوگی اور تمہیں زیادتی زیب دیتی ہے نہ اللہ کو پسند ہے بلکہ ایک اصول اپنا لو کہ نیکی اور ہر پرہیزگاری ک کام میں تعاون کروگے۔ اور گناہ کے کام میں یا جس میں کسی پر زیادتی ہو رہی ہو ہرگز تعاون نہ کروگے اور یہ بہت ہی قیمتی اصول ہے کہ انسان طبعاً اور خلقاً ایک دوسرے کا مھتاج ہے غریب کو امیر سے غرض ہے تو امیر کا کام بھی غریب کے تعاون کے بغیر نہیں چل سکتا سو اس طرح سے ہر انسان کو ایک خاص مزاج دے کر پیدا فرمایا ہے اور اس آدمی نے اسی طرح کا کام اپنا لیا۔ اب کوئی زمینداری و کاشتکاری کرتا ہے تو دوسرا جوتے بنا کر خوش ہے کوئی اگر مکان بناتا ہے تو کوئی برتن بنانے کا فن سیکھ لیتا ہے حتی کہ دنیا کا ہر کام کرنے کے لیے انسان میسر آجاتے ہیں اور یہ سب مل جل کر ہی کام کرتے ہیں تو یہ نظام چل رہا ہے سوشلسٹوں نے کوشش کرکے دیکھ لیا کہ کام کی تقسیم حکومت کے ہاتھ میں ہو جسے چاہے جو کام دے اول تو لاکھوں انسان قتل ہوئے اور جو بچ کر اس سانچے میں ڈھلے ان سے انسانیت اور انسانی خصوصیات یکسر رخصت ہوگئیں اور ان میں محبت رہی نہ وہ نفرت کے اظہار کے قابل رہے جذبات ہی ختم ہوگئے باقی کیا بچا اگر کسی پہلو پہ کوئی تھوڑی بہت کامیابی ہوئی بھی تو لاکھوں انسانوں کو انسانی جذبات سے عاری کرکے یہ تو بہت ہی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑی اب وہ لوگ خود بخود پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ سو عرض یہ کر رہا تھا کہ نظام عالم کی بنیاد انسان کا انسان کے ساتھ تعاون ہے جو تب بھی ضروری تھا جب زمین پر صرف چند انسان تھے اور آج بھی جبکہ اربوں انسان آباد ہیں الملل والنحل میں قوموں کا تصور کچھ اس طرح سے دیا گیا ہے کہ سمتوں کی نسبت سے مشرقی مغربی وغیرہ قومیں وجود میں آگئیں اور پھر جوں جوں آبادیاں بڑھتی گئیں تو قومیت بھی نسب اور خاندان کے ساتھ منسلک ہونے لگی اور اس طرح قوموں کا اشتراک عمل ہونے لگا۔ مگر خدا غارت کرے یورپ کی جدید نسل کو جو نسب تو قائم رکھ نہ سکے انہوں نے ملکی اور علاقائی تقسیم شروع کی پھر زبانوں اور صوبوں کی حد تک لوگ تقسیم در تقسیم ہوتے چلے گئے حتی کہ مسلمان بھی اس طوفان کے سامنے ٹھہر نہ سکے اور آج مختلف ملکی ناموں سے یا صوبائی ناموں سے بٹے ہوئے ہیں حالانکہ اسلام کی رو سے دنیا میں صرف دو قومیں ہیں ایک مسلمان دوسرے کافر اسی حقیقت کا یہاں بیان ہورہا ہے کہ نیکی اور پرہیزگاری کا کام کوئی بھی کرنا چاہے تو اس میں تعاون کرو جس قدر ممکن ہو اس کی مدد کرو مگر گناہ اور ظلم پر عاون مت کرو ، ڈاکؤں چوروں اور لٹیروں سے تعاون نہ کرو مسلمان بھی برائی کرنا چاہے تو اس کے ساتھ تعاون یہ ہے کہ اسے برائی سے روکو۔ اس کے کرنے میں شریک مت ہوجاؤ اگر لوگ یہ شعار اپنا لیں تو آج بھی دنیا پہ امن قائم ہوسکتا ہے ظلم مٹ سکتا ہے اگر اس کے ساتھ تعاون نہ کیا جائے ، نیکی پھیل سکتی ہے۔ اگر اس کے ساتھ تعاون کیا جائے اور یہ سب کچھ تب ممکن ہوگا جب تم میں خوف خدا ہوگا اللہ سے تعلق ہوگا اللہ سے دل کا رشتہ ہوگا اور اسی کے لیے یہ سب کرو کہ اس کے عذاب بھی تو بہت سخت ہیں برائی میں تعاون کرنے والے بھی ان ظالموں کے ظلم میں شریک ہو کر ان کے ساتھ سزا بھگتیں گے اور نیکی پہ تعاون کرنے والے نیک اجر پائیں گے۔ حلال و حرام کی تعیین : اب جانوروں میں حرام کون کونسے ہیں ؟ ذرا یہ بھی سن لو اور یہ اس لئے حرام ہیں کہ بعض ان میں تمہاری جسمانی صحت کے خلاف ہیں اور بعض روحانی صحت کے خلاف ہیں بعض ایسے ہیں جن میں دونوں خطرات موجود ہیں اس لیے انہیں خبائث قرار دیا جبکہ حلال جانور کو طیب کہا گیا ہے۔ اول مردار۔ یعنی جو بغیر ذبح کے طبع موت مرے۔ یا کسی حادثاتی موت سے مر جائے البتہ حدیث پاک میں مچھلی کو مستثنے قرار دیا گیا ہے اور ٹڈی کو بھی ۔ دوم ، بہتا ہوا خون ، خواہ بوقت ذبح خارج ہو یا ویسے زخم سے آ رہا ہو۔ تیسری چیز ، لحم خنزیر۔ جس سے پورا خنزیر مراد ہے کھال بال چربی ہڈی وغیرہ اور چوتھے وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی کے نام پر بھی نامزد کردیا جائے اور پھر اگر ذبح کے وقت بھی اس پر غیر اللہ کا نام لیا جائے تو نہ صرف جانور حرام ہوگا بلکہ یہ تو قطعی طور پر شرک ہے جیسا کہ عرب میں ایک رواج یہ بھی تھا کہ جس بت کے نام پر نامزد کرتے اسی کے نام پر ذبح بھی کرتے تھے اور دوسرے یہ کہ جانور کسی نام مختص ہوجاتا اس سے کسی نفع کی امید پر یا کوئی دکھ دور کرنے کی امدی پر اور ذبح اللہ کے نام پر ہوتا جیسا کہ جاہل مسلمان بھی کرتے ہیں تو یہ بالاتفاق علماء حرام ہے پہلی صورت میں شرک بھی ہے جانور بھی مردار ہے۔ دوسری صورت میں شرک صریح نہیں مگر جانور مردار ہے ہاں ! یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ بزرگوں کو ایصال ثواب کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے ثواب کمایا جائے چیز اللہ کے نام پر خیرات کی جائے مال ہو یا جانور پھر اس کا ثواب آپ کسی زندہ کے لیے عرض کردیں یا فوت شدہ کے لیے برابر ہے کہ آپ نے اللہ سے دعا کرنا ہے کہ اس کا ثواب فلاں شخص کے حساب میں ڈال دے اور بس۔ پانچویں منخنقہ وہ جانور جو دم گھٹ کر مر جائے خواہ جال وغیرہ میں پھنس کر یا کسی اور وجہ سے وہ بھی حرام ہے اور چھٹے موقوذۃ یعنی وہ جانور جو ضرب شدید سے ہلاک ہوجائے جیسے لاٹھی یا پتھر وغیرہ یہ بھی یاد رہے کہ بندوق کی گولی بھی پتھر کا حکم رکھتی ہے یہ الگ بات ہے کہ زور سے لگتی ہے اور جسم کو توڑ کر نکل جاتی ہے مگر توڑتی ہے کاٹتی پھر بھی نہیں اس لئے جن علما نے تکبیر پڑ کر فائر کرنے سے مرنے والا شکار خواہ ذبح سے پہلے مر جائے حلال قرار دیا انہیں غلطی لگی ہے کہ ذبح کے لیے دھار شرط ہے جو کاٹتی ہو تکبیر پڑھ کر تیر مارا ، جانور مر گیا۔ آپ کے پہنچنے سے پہلے مر گیا حلال ہے لیکن اگر تیر کا پھل نہیں لگا۔ ہوا وغیرہ سے اسکا رخ بدل گیا۔ ویسے تیر کی ضرب لگی اور مرگیا حرام ہوگا کہ یہ موقوذہ میں داخل ہے اور ساتویں المتردیہ ایسا جانور جو بلندی وغیرہ سے یا کسی کنویں وغیرہ میں گرنے سے مر جائے اور آٹھویں النطیحہ ایسا جانور جو کسی جانور یا دوسری کسی چیز کی ٹکر سے مر گیا مثلاً موٹر وغیرہ سے اور نویں وہ جانور جسے کسی درندے وغیرہ نے پھاڑ دیا ہو اور مرگیا۔ ہاں ان مذکورہ صورتوں میں اگر جانور ابھی مرا نہ تھا اور آپ نے تکبیر پڑھ کر ذبح کرلیا تو آپ نے پاک کرلیا اس کی صورت دوسری ہے ورنہ حرام ہیں اور دسویں وہ جانور بھی حرام ہیں ، جو استھان پر ذبح کئے گئے ہوں یہ استھان بیت اللہ کے گرد بتوں کی جگہیں تھیں جہاں ان کے نام کی قربانی دی جاتی تھی قبل اسلام یہ چیزیں متبرک سمجھ کر کھائی جاتی تھیں جنہیں اسلام نے حرام قرار دیا اور گیارھویں تیروں سے قسمت کا حال معلوم کرنا یا فال نکالنا یہ بھی ایک طریقہ تھا موجودہ لاٹری کی طرز پر کہ کچھ تیروں پر مختلف الفاظ ہاں نہ وغیرہ لکھ رکھے تھے جو خادم کعبہ کے پاس ہوتے تھے پھر آئندہ کے لیے نذرانہ دے کر فال نکلواتے وہ کوئی ایک تیر نکالتا تو اس کے مطابق آئندہ کام کرتے یا اسے مفید و مضر جانتے ایسے ہی کئی آدمی مل کر اونٹ ذبح کرتے پھر فال نکلواتے یہ موجودہ دور کی لاٹری تھی کسی کو بہت زیادہ مل جاتا کسی کو تھوڑا اور کوئی بالکل محروم رہ جاتا۔ چنانچہ سیدھی سی بات تو یہ ہے کہ آئندہ کے حالات معلوم کرنے کے ک سارے طریقے خواہ وہ ہاتھ کی لکیریں دیکھ کر ہوں یا زائچہ بنا کر علم الاعداد کے واسطے سے ہوں یا کسی اور طرح سے بطور پیشہ اپنانا حرام ہیں۔ ان پر اعتبار کرنا درست نہیں اور مختلف مفسرین نے ان پر متعدد شدید قسم کے الفاظ لکھے ہیں جواز کا کوئی بھی قائل نہیں ہاں ایسے علوم کا رد کرنے کے لیے ان سے واقفیت کا ہونا برا نہیں مگر بغرض دفاع ہو۔ اور کسی امید پر نہ ہو کہ آج کے دن کافروں کی امیدوں پر پانی پھر گیا ہے اور تمہارے دین کو ختم کردینے سے ہمیشہ کے لیے ناامید ہوچکے ہیں سو ان سے ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہاں میری رضامندی اور خوشنودی کا خیال ہر حال میں لازم ہے میرے غضب سے ڈرتے رہو کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں تو حجۃ الوداع کا موقعہ تھا جمعہ کا دن تھا یوم عرفہ تھا اور نبی رحمت ﷺ اپنی ناقہ پر سوار جبل رحمت کے نیچے عصر کے بعد کی دعاء میں مشغول تھے اس اونٹنی کا نام عضباء تھا کہ وحی کا نزول شروع ہوا جس کے بوجھ سے اونٹنی بالآخر بیٹھ گئی حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں یہ تقریباً آخری آیات ہیں بس ترغیب و ترہیب کی چند آیات ان کے بعد نازل ہوئیں ورنہ یہ آخری عظیم الشان اجتماع تھا جو حج اکبر کے موقع پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کی حاضری سے منعقد ہوا اور اس دن کے صرف اکیاسی روز بعد نبی رحمت ﷺ کا وصال ہوگیا فرمایا آج تمہارا دین مکمل کردیا گیا یہ وہ انعام ہے جو اس سے پہلے کسی امت کو نصیب نہ ہوا کہ انبیاء (علیہ السلام) مسلسل تشریف لاتے رہے کتابیں اور صحیفے نازل ہوتے رہے مگر اے انسانو ! اور خصوصاً اے مسلمانوً آج تمہارا دین مکمل ہوگیا اب اس میں کوئی زیادتی کبھی نہیں ہوگی اور جو نزول نعمت اللہ کی طرف سے انسانیت پہ ہوتا تھا بعثت انبیاء اور نزول کتب کی صورت میں کہ اغذیہ جسمانی اور مادی تو ہر جاندار کو مل رہی ہیں انسانوں پہ زاید یا بہت بڑا انعام نعم روحانی نزول انبیاء اور نزول کتب سماوی تھا فرمایا وہ اپنے تمام اور کمال کو پہنچ گیا اب اس سے زیادہ کا تصور بھی انسان کے لیے ممکن نہیں۔ اتممت علیکم نعمتی۔ میں نے اپنی نعمت تم پر تمام کردی ، تمہارے لیے دین اسلام کو پسند فرما لیا۔ یعنی دین مکم ہوگیا اب اس میں کوئی کمی بیشی جائز نہ ہوگی اور کوئی تاریخی واقعہ اس کو تبدیل نہ کرسکے گا دوسرے اتمام نعمت کہ اب کوئی کمال ایسا باقی نہیں رہا جو اسلام سے باہر ہر کر حاصل کیا جاسکے اور امت مرحومہ کے لیے دین اسلام کو پسند فرمایا جو مدار نجات ہے اس سے باہر کسی طرح کی نجات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہاں مفتی محمد شفیع مرحوم نے معارف القرآن میں عید اور تہوار کی بحث لکھی ہے جو واقعی بہت مزیدار ہے بلکہ علیحدہ کتابچے کی صورت میں چھپنی چاہیے۔ میں بخوف طوالت نقل نہیں کر رہا ، ویسے وہ دیکھنے کی چیز ہے۔ اب اگر کوئی شخص بھوک سے قریب المرگ ہوجائے اور لذت کام و دہن کا خیال نہ ہو بلکہ بات زندگی اور موت تک جا پہنچے تو مذکورہ بالا حرام جانوروں میں سے بھی کچھ میسر ہو تو اس قدر کھالے کہ حالت اضطرار نہ رہے پیٹ بھرنا مقصود ہو نہ لذت حاصل کرنا بلکہ حالت اضطرار سے بچ جائے اور گناہ کا ارادہ نہ رکھتا ہو یعنی حصول لذت کے لیے نہ کھائے تو اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے یعنی یہ چیزیں حلال نہیں ہوجاتیں ان کے کھانے سے جو گناہ ہوا۔ امید ہے اللہ پاک معاف فرمائیں گے۔ سوال یہ ہے پھر حلال کیا ہے ؟ کون کونسی چیز حلال ہے۔ فرما دیجیے تمام طیب اور ستھری چیزیں یعنی ماسوائے ان چیزوں یا جانوروں کے جن کو اللہ نے نجس یا ناپاک یا حرام قرار دے دیا ہے باقی تو سب جانور بھی اور اشیاء بھی صاف ستھرے ہیں یعنی اصل شے میں اباحت ہے اصلاً ہر شے حلال ہے جب تک شرعاً اس کا حرام ہونا ثابت نہ ہوجائے بلکہ شکاری جانور جو سھدائے ہوئے ہوں کتے ہوں یا بازو وغیرہ تو ان کا شکار بھی حلال ہے جبکہ خود شکار پر چھوڑے جائیں ازخود نہ پکڑلیں اور پھر پکڑ کر مالک کے پاس لائیں کھانا شروع نہ کردیں۔ یعنی سدھائے ہوئے ہوں اور بسم اللہ پڑھ کر بھی چھوڑے جائیں تو مالک تک پہنچنے سے پہلے اگر شکار مر بھی گیا تو حلال ہے مزید ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہاں جبکہ شکار کو زخمی بھی کیا ہو یعنی خون بھی نکلا ہو اور یہ ان وحشی جانوروں کے لیے ہے جو جنگل میں ہوں خود پکڑے ہوئے خرگوش پہ کتے آزمائے جائیں تو وہ حلال نہ ہوگا اور شکار پر چھوڑتے وقت یا تیر چلاتے وقت خنجر پھینکتے وقت اللہ کا نام لیا جائے پھر شکار ذبح سے قبل مر جائے تو بھی حلال ہے نیز شکار ایک ضرورت کی حد تک تو درست ہے مثلاً بعض جگہ لوگوں کا گذارہ شکار پر ہوتا ہے یا غریب لوگ جو بازار سے گوشت خریدنے کی ہمت نہیں رکھتے شکار کرلیتے ہیں یا پھر ایک بہت بڑا فائدہ ورزش اور نشانہ بازی کا ہے کہ میرے خیال کے مطابق تو تقریبا ساری جنگی چالیں اور لڑائی کے داؤ شکار میں آزمائے جاتے ہیں اور نشانہ بازی کی مشق بھی ہوتی ہے مگر اس میں بھی یہ خیال ضرور رہنا چاہئے کہ ضرورت سے زیادہ جانور نہ مارے جائیں۔ اور محض شوق پورا کرنے کے لیے اور وقت صرف کرنے کے لیے بطور شغل تو اسراف میں داخل ہو کر ناجائز ہوگا۔ نیز ارشاد ہوتا ہے کہ تمام ستھری چیزیں تم پر حلال کی جاتی ہیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی ایسے ہی تمہارا کھانا ان پر حلال کیا جاتا ہے یہاں علماء کرام میں بہت طویل بحثیں ہیں اور ایک بات پہ سب متفق ہیں کہ کھانے سے مراد ذبیحہ ہے ورنہ دال آٹا شکر نمک مرچ وغیرہ میں تو ویسے بھی کوئی قید نہیں کہ مسلم سے غیر مسلم خرید سکتا ہے اور غیر مسلم سے مسلمان۔ اس میں تو صرف حاصل کرنے کا طریقہ جو اپنایا جائے اس کا درست ہونا ضروری ہے پھر یہاں بات بھی ذبیحہ پہ چل رہی ہے تو اس کے لیے سب بحثوں کا ماحصل یہ ہے کہ سوائے یہودی اور نصرانی کے کوئی دوسرا فرقہ اہل کتاب ثابت نہیں ہوتا ہندو ہوں یا سکھ آ ریہ سماجی ہوں یا بدھ ایک فرقہ صائبین کہلاتا ہے جن کو کہا جاتا ہے کہ وہ زبور کے پیروکار ہیں لیکن نہ ان کے پاس زبور ہے نہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے ایسے ہی باقی تمام مذاہب کی کتابوں کا حال ہے مثلاً ہندوؤں کے وید وغیرہ کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ کہ کسی آسمانی کتاب کی بگڑی ہوئی صورت ہوں اس لیے صرف یہ دو فرقے اہل کتاب قرار پائے اب رہی بات ان کے ذبیحہ کی تو پہلی بات تو یہ ہے کہ اگرچہ یہ شرک میں مبتلا ہوچکے تھے اور نزول قرآن کے وقت تھے مگر ذبح اللہ ہی کے نام پہ کرتے تھے اب ان میں دو خرابیاں مزید در آئی ہیں ایک تو اب ان کا عقیدہ وہ نہیں رہا یعنی سرے سے خدا اور آخرت پہ یقین ہی نہیں رکھتے لیکن مردم شماری میں یہودی یا نصرانی ہیں ایسوں کا ذبیحہ حلال نہ ہوگا کہ وہ خود اہل کتاب ہی نہیں رہے دوسرے انہوں نے بہت سے حرام کھانے شروع کردئیے جن میں سرفہرست خنزیر ہے جو ان کی شریعت میں بھی حلال نہ تھا سو اب اسے خواہ کوئی ذبح بھی کرے تو خود ذبح کرنے والا کافر ہوگا کہ حرام کو حلال بنا رہا ہے جو کفر ہے۔ تیسری خرابی یہ ہے کہ ان میں بعض جہلاء نے اللہ کے نام کی جگہ عزیر (علیہ السلام) یامسیح (علیہ السلام) کا نام لے کر ذبح کرنا شروع کردیا تو جب مسلمان غیر اللہ کے نام پر ذبح کرے حرام ہوجاتا ہے اہل کتاب کا غیر اللہ کے نام پر ذبح کیسے حلال ہوگا ؟ اسی طرح ان کی ایماندار اور پاکدامن عورتیں مسلمانوں پہ حلال ہیں جبکہ انہیں حق مہر ادا کرکے باقاعدہ نکاح کریں اور محض وقتی طور پر شہوت رانی مقصود نہ ہو اور نہ چوری چھپے کی دوستی کی اجازت ہے یہاں بھی دو طرح کی قید لگا دی کہ اول تو پاکدامن ہوں جو مغربی اور یہودی و نصرانی موجودہ معاشرے میں تصور بھی محال ہے پھر کم ازکم اپنی کتاب پر تو ایمان ہو آجکل یہ وہ بھی چھوڑ چکے اور پھر کلبوں کی دوستی کی اجازت نہیں جو ان کی زندگی کا شیوہ بن چکی ہے غالباً یہ اجازت بھی اسی لیے دی گئی کہ اہل کتاب میں وہی عورتیں نکاح میں حلال تھیں جو اسلام میں تھیں اور طیرقہ نکاح بھی وہی تھا کہ ایجاب و قبول بھی ہو گواہ بھی ہوں اعلان بھی مگر اب اول تو پاکدامنی کا قصہ جانے دیجئے اور اس موضوع پر بات ہی نہ کریں دوم عقائد بھی بہت کم لوگوں میں باقی ہیں باقی صرف مردم شماری میں شامل ہیں سو ایسے لوگوں سے بھی اجازت نہ ہوگی پھر باقاعدہ شادی ہو متعہ کرنے کی اجازت نہیں یعنی وقتی طور پر شہوت رانی کرلی اور فارغ ہوگئے یہ سرے سے حرام ہے اسی لئے یہود کی پروردہ شیعہ تنظیم نے اس پر بہت زور دیا ہے اور اب ایران میں ہر امام باڑے کے ساتھ کمرے بنا دئیے گئے ہیں جو یہ مقصد فوری طور پر پورا کرتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ذبیحہ کے معاملہ میں تو فرمایا کہ ان کا ذبیحہ تمہارے لیے اور تمہارا ان کے لیے حلال ہے مگر نکاح بارے صرف مسلمان مرد کو کتابی عورت سے شادی کی اجازت دی مسلمان عورت کتابی مرد سے نکاح نہیں کرسکتی یہ بہت لمبی لمبی بحثوں کا خلاصہ میں نے یہاں عرض کردیا ہے اس کے علاوہ دور جدید کے فتوے کہ اہل کتاب کے ساتھ کھانا پینا نکاح وغیرہ میں کوئی حرج نہیں یہ ان لوگوں کی باتیں ہیں جو اپنی مرضی کو اسلام کے نام پر اور اپنی پسند اور عیاشی کو ثواب کے نام پر رواج دینا چاہتے ہیں ورنہ اس دور میں بھی سیدنا فاروق اعظم ؓ کے گورنر نے کتابی عورت سے شادی کی تو فرمایا طلاق دے د و ! انہوں نے لکھا۔ یا امیر ! کیا یہ میرے لیے حرام ہے ؟ فرمایا۔ نہیں ! مگر درست بھی نہیں کہ اول تو خطرہ ہے ، کہ ان کی راہ سے مسلمان گھروں میں بےراہ روی آجائے گی کہ یہ نہ سہی اس کی ملنے والیاں تو بےراہ رو ہوں گی ان کا معاشرہ ہی ایسا ہے دوسرے اگر انہیں حسین سمجھ کر مسلمان شادیاں کرنے لگیں اور انہیں مسلمان خواتین پہ ترجیح دینے لگیں تو کیا یہ اچھا ہوگا ؟ ہرگز نہیں اور اب تو انہوں نے مرد کا مرد سے نکاح جائز کردیا۔ داماد کس ساس کے ساتھ اور سسر کا بہو کے ساتھ کلیسا کی اجازت سے جائز ہوگیا کھانے پینے میں جزو اعظم خنزیر قرار پایا اب تو نہ نکاح کی گنجائش رہ گئی ہے اور نہ ذبیحہ کھانے کی پھر بھی قرآن کا حکم منسوخ نہیں ہے ہاں ! اگر اہل کتاب میں سے کوئی اس حد تک رہے جو جو قرآن کے نزول کے وقت تھی تو درست ہے ورنہ آجکل کی اباحت سے تو یہ کافر ٹھہرے اہل کتاب بھی ثابت نہیں ہوتے نیز اگر کوئی مسلمان یہودی یا نصرانی بن جائے تو وہ اہل کتاب میں شمار نہ ہوگا بلکہ مرتد ہوگا ہاں دیگر مذاہب سے کوئی ان میں داخل ہو تو اہل کتاب قرار پائے گا۔ سو تعمیل احکام میں یہ بھی یاد رکھو کہ اللہ کریم بہت جلد حساب لینے والے ہیں اور یہ اصول بھی کبھی مت بھولو کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد کافر ہوا یعنی حرام کو حلال سمجھنا اور حلال کو حرام شمار کرنا بھی تو کفر ہے اور ایمان لانے کے بعد یہ ہرگز زیب نہیں دیتا اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس نے اپنی آخرت تباہ کرلی ، اور سخت نقصان میں چلا گیا۔
Top