بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے ایمان والو ! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لئے چار پائے جانور ( جو چرنے والے ہیں) حلال کردیے گئے بجز انکے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔
1۔ مسند امام احمد اور طبرانی میں اسماء بنت یزید ؓ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے سفر میں سورة مائدہ کی یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ اس شان نزول کی روایت کی سند میں اسماء بنت یزید ؓ کا پردردہ شہر بن حوشب ایک راوی ہے جس کو بعض علماء نے ضعیف اور کثیر الارسال لکھا ہے۔ لیکن تقریب میں اس کو صدیق لکھا ہے 2 ؎۔ شہر بن حوشب کی یہ روایت اسماء بنت یزید سے ہے جو شہر بن حوشب کی پرورش کرنے والی ہیں اس لئے اس سند میں ارسال کا وہم بھی باقی نہیں رہتا۔ کیونکہ تابعی بغیر ذکر صحابی کے آنحضرت ﷺ سے کوئی روایت کرے تو اس کو ارسال اور اس کی حدیث کو مرسل کہتے ہیں اس سند میں وہ بات نہیں ہے۔ عقیدہ عہد کو کہتے ہیں۔ اس میں علماء مفسرین کا اختلاف ہے کہ ان آیتوں میں عقود کے معنی کون سے عہود کے ہیں۔ تفسیر ابن جریر میں علی بن ابی طلحہ ؓ کے واسطے حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے اس میں حرام و حلال چیزوں کے جو احکام عہد کے طور پر قرآن شریف میں ہیں انہی احکام کہ عقود کی تفسیر قرار دیا گیا ہے 3 ؎۔ یہ اوپر گزر چکا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی جو روایت علی بن ابی طلحہ کے واسطے سے تفسیر میں ہو وہ نہایت صحیح شمار کی جاتی ہے۔ اس لئے یہی تفسیر رفع اختلاف کے لئے کافی ہے آگے اللہ تعالیٰ نے حرام و حلال کا ذکر جو فرمایا ہے اس سے بھی حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے۔ بھیمۃ الانعام کے معنی چوپائے مویشی کے ہیں۔ ان معنی میں بستی کے اونٹ گائے بکری بھیڑ اور جنگلی شکار کر کے کھانے کے قابل جانور مثلاً نیل گائے۔ ہرن یہ سب داخل ہیں۔ انعام کے لفظ میں چوپائے درندے داخل نہیں ہیں۔ چونکہ عرب کے محاورے میں دونوں کے نام جداجدا ہیں اسی حکم شرعی کے جتلانے کے لئے اللہ کے رسول نے فرمایا کہ سب درندے چوپائے حرام ہیں۔ چناچہ صحیح مسلم میں حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور حضرت جابر ؓ سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت ﷺ نے درندے جانوروں کے حرام ہونے کا ارشاد فرمایا ہے۔ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ کا مطلب یہ ہے کہ آگے آیت حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ میں جن جانوروں کا ذکر ہے وہ حرام ہیں غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَاَنْتَمْ حَرَمٌ کا مطلب یہ ہے کہ حاجیوں کو احرام کی حالت میں خشکی کے جانوروں کا شکار حرام ہے ہاں دریائی جانوروں کا شکار حالت احرام میں روا ہے چناچہ اس کا ذکر آگے آتا ہے اب آگے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور ارادہ ازلی کے موافق جن جانوروں کے حلال یا حرام ہونے کا حکم فرمایا دیا ہے اس کی مصلحت کو وہی خوب جانتا ہے۔ اللہ کی مصلحت کے برخلاف اہل مکہ نے بعض جانوروں کہ بحیرہ ؔ سائبہؔ وغیرہ کے نام سے جو حرام ٹھہرا رکھا ہے یہ ملت ابراہیمی میں نہیں ہے۔ بلکہ یہ زمانہ کفر کی رسم ہے ہر ایماندار شخص کو اس سے پرہیز کرنا لازم ہے۔ بحیرہؔ سائبہؔ جانوروں کا ذکر اس سورة میں آگے آوے گا۔
Top