Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے)
اَوْفُوْا
: پورا کرو
بِالْعُقُوْدِ
: عہد۔ قول
اُحِلَّتْ لَكُمْ
: حلال کیے گئے تمہارے لیے
بَهِيْمَةُ
: چوپائے
الْاَنْعَامِ
: مویشی
اِلَّا
: سوائے
مَا
: جو
يُتْلٰى عَلَيْكُمْ
: پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں
غَيْرَ
: مگر
مُحِلِّي الصَّيْدِ
: حلال جانے ہوئے شکار
وَاَنْتُمْ
: جبکہ تم
حُرُمٌ
: احرام میں ہو
اِنَّ اللّٰهَ
: بیشک اللہ
يَحْكُمُ
: حکم کرتا ہے
مَا يُرِيْدُ
: جو چاہے
اے ایمان والو! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لیے چارپائے جانور (جو چرنے والے ہیں) حلال کر دیئے گئے ہیں۔ بجز ان کے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے
یا ایہا الذین امنوا اوفوا بالعقود . اے ایمان والو ! وعدوں کو پورا کرو۔ عقد مضبوط عہد۔ اصل میں دو چیزوں کا اتنا مضبوط اتصال ہے کہ دونوں کا الگ الگ ہونا دشوار ہو عقد کہلاتا ہے۔ زجاج نے کہا کہ عقد مضبوط ترین عہد کو کہتے ہیں۔ ” وفاء اور ایفاء “ وعدہ کے تقاضے کو ادا کرنا۔ وفاء سے زیادہ لفظ ایفاء میں قوت ہے کذا قال التفتازانی اللہ نے روز میثاق سے اب تک جن عہود کا پابند بندوں کو بنایا ہے وہ سب العقود میں داخل ہیں خواہ اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام اور حلال کی ہوئی چیزوں کو حلال قرار دینے کی صورت میں ہوں یا وہ وعدے ہوں جو محمد ﷺ پر ایمان لانے اور اوصاف محمدی کو ظاہر کرنے سے متعلق اہل کتاب سے لئے گئے ہیں یا انسانوں کے باہم وہ معاہدات ہوں جن کا تعلق آپس کے معاملات اور امانتوں وغیرہ سے ہو جس کو پورا کرنا شرعاً واجب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی معاہدہ شکنی کو بھی قرار دیا تھا۔ رواہ الشیخان من حدیث عبداللہ بن عمر ؓ ۔ تحلیل حلال بھی چونکہ ان عقود میں داخل ہے جن کا مکلف اللہ نے بندوں کو کیا ہے اس لئے ایفاء عقود کا حکم دینے کے بعد آگے فرمایا۔ احلت لکم بہیمۃ الانعام حلال کردیئے گئے ہیں تمہارے لئے چوپائے۔ بہیمہ وہ جاندار جس میں قوت تمییز نہ ہو۔ انعام چوپائے۔ یا بہیمۃ چوپائے اور انعام اونٹ گائے بکریاں۔ بہرحال دونوں صورتوں میں بہیمۃ الانعام میں عام کی اضافت خاص کی جانب ہے اور اہل نحو کے نزدیک ایسی اضافت میں لام مقدر ہوتا ہے۔ بیضاوی اور صاحب کشاف کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اضافت بتقدیر من ہے حالانکہ اضافت بتقدیر من اس جگہ ہوتی ہے جہاں مضاف مضاف الیہ کی جنس سے ہو جیسے : خَاتَمُ فِضَّۃٍچاندی کی انگوٹھی اور دونوں کے ہم جنس ہونے کا یہ معنی ہے کہ مضاف اور مضاف الیہ میں سے ہر ایک دوسرے سے بعض اعتبار سے عام ہو (دیکھو خاتم ‘ فضہ سے عام ہے لوہے اور پتیل کی بھی انگوٹھی ہوتی ہے اور فضہ خاتم سے عام ہے چاندی کا دوسرا زیور بھی ہوتا ہے لیکن بہیمۃ الانعام میں بہمیہ اگرچہ الانعام سے عام ہے مگر الانعام بہمیہ سے عام نہیں ہے تمام انعام بہمیہ ہی ہوتے ہیں) بہرحال دونوں تاویلوں کی صورتوں میں آیت کا مقصد ان چوپایوں کو حلال بنا دینا ہے جو اہل جاہلیت نے اپنے لئے حرام قررا دے دیئے تھے جیسے بحیرہ اور سائبہ۔ کلبی نے کہا بہمیۃ الانعام سے وہ جنگلی چوپائے مراد ہیں جو شہری چوپایوں کی طرح جگالی کرتے ہیں اور ان کے منہ میں نوکیلے کیلے نہیں ہوتے جیسے ہرن نیل گائے وغیرہ۔ اس وقت بہمیہ کی الانعام کی طرف اضافت علاقہ ‘ مشابہت کی وجہ سے ہوگی جیسے : لجین الماء (یعنی پگھلی ہوئی چاندی جو پانی کی طرح ہو پس بہمیۃ الانعام کا معنی ہوا و بہائم جو انعام کی طرح ہوتے ہیں) ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ ابو ظبیان نے حضرت ابن عباس کا قول بیان کیا ہے کہ بہمیۃ الانعام سے مراد ہیں ‘ حلوان یعنی جانوروں کے پیٹ سے برآمد ہونے والے بچے۔ شعبی کا قول بھی اسی طرح آیا ہے۔ اس تفسیر پر آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اگر کسی مادہ کو ذبح کرنے کے بعد اس کے پیٹ سے مردہ بچہ برآمد ہو اور جسم کی بناوٹ پوری ہوگئی ہو تو بغیر ذبح کے اس کو کھانا حلال ہے۔ امام شافعی (رح) ‘ امام احمد (رح) اور ابو یوسف اور امام محمد کا یہی قول ہے۔ امام مالک نے یہ شرط مزید لگائی ہے کہ بچہ کے بال نکل آئے ہوں۔ بغوی نے حضرت ابن عمر ؓ کا قول نقل کیا ہے کہ ماں کو ذبح کرنا ہی پیٹ کے بچہ کا ذبح کرنا ہے بشرطیکہ اس کی جسمانی بناوٹ پوری ہوگئی ہو اور بال نکل آئے ہوں۔ سعید بن مسیب کا قول بھی اسی طرح مروی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا پیٹ کے بچہ کو بغیر مستقل ذبح کرنے کے کھانا درست نہیں۔ اس کے بال نکل آئے ہوں یا نہ نکلے ہوں۔ امام شافعی اور ان کے ساتھیوں نے حضرت ابو سعید خدری ؓ کی روایت سے استدلال کیا ہے ابو سعید ؓ کا بیان ہے کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم اونٹنی کو گائے کو اور بکری کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ کے اندر سے بچہ نکلتا ہے کیا ہم بچہ کو پھینک دیں یا کھا لیں ؟ فرمایا دل چاہے تو کھالو۔ اس کی ماں کو ذبح کرنا اس کو ذبح کرنا ہے (جدید ذبح کی ضرورت نہیں) رواہ ابو داؤد و احمد۔ حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا پیٹ کے بچہ کی ماں کو ذبح کرنا۔ اس بچہ کا ذبح کرنا ہے۔ رواہ ابو داؤد والدارمی۔ دارقطنی نے حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے پیٹ کے بچہ کے متعلق فرمایا اس کی ماں کو ذبح کرنا ہی اس کو ذبح کرنا ہے اس کے بال نکل آئے ہوں یا نہ نکلے ہوں دارقطنی نے کہا صحیح یہ ہے کہ یہ (آخری فقرہ) حضرت ابن عمر ؓ کا قول ہے۔ امام شافعی (رح) نے (عقلی استدلال کے طور پر) فرمایا کہ پیٹ کا بچہ حقیقت میں ماں کا جزء ہے ماں سے جڑا ہوا ہوتا ہے یہاں تک کہ بغیر قینچی سے کاٹنے کے ماں سے جدا نہیں ہوتا۔ ماں کی ہی غذا سے اس کو غذا پہنچتی ہے اور ماں کے ہی تنفس سے وہ سانس لیتا ہے اور جب بہمہ حیثیات جز ہے تو ماں کا زخم ہی اس کو ذبح کرتا ہے اگر اس کو بحالت زندگی ذبح کرنا ناممکن ہو جیسے شکار اور امام ابوحنیفہ (رح) نے فرمایا پیٹ کا بچہ مستقل زندگی رکھتا ہے۔ ماں کے مرنے کے بعد بچہ کی زندگی کا امکان ہے اور بچہ خون رکھنے والا جاندار بھی ہے اور ذبح کرنے کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ گوشت کو خون سے علیحدہ کردیا جائے اور یہ بات تنہا ماں کو ذبح کرنے سے حاصل نہیں ہوتی۔ ماں کو ذبح کرنے سے بچہ کے بدن سے خون نہیں نکل جاتا۔ شکار کو زخمی کرنے پر قیاس نہیں کیا جاسکتا وہاں زخمی ہوجانے سے کچھ خون نکل ہی جاتا ہے اور ناقص خروج کو پورے خروج کے قائم مقام مان لیا جاتا ہے (بچہ کے بدن سے تو ماں کو ذبح کرنے سے بالکل خون نہیں نکلتا) اور بچہ کا گوشت خون سے جدا نہ ہوا تو وہ مردار ہوا اور مردار کی حرمت قرآن میں موجود ہے جو قطعی ہے اور احادیث آحاد مفید ظن ہیں لہٰذا (حکم کتاب کے خلاف) جنین کی حلت احادیث آحاد سے ثابت نہیں کی جاسکتی اور اس آیت میں بہمیۃ الانعام کی تفسیر جنین سے کرنا تقاضائے مقام کے خلاف ہے کیونکہ آگے بطور استثناء آیا ہے۔ الا ما یتلی علیکم سوائے ان کے جن کی تمہارے سامنے (آگے) تلاوت کی جا رہی ہے۔ جن چیزوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے اور ان کا حکم سنایا گیا ہے وہ مندرجۂ ذیل ہیں۔ مردار جن کو ذبح کرنے کے وقت اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ جن جانوروں کو بتوں کی بھینٹ کے طور پر ذبح کیا گیا ہو گلا گھونٹ کر مارے ہوئے جانور ‘ چوٹ کے صدمہ سے مرے ہوئے جانور ‘ کسی اونچی جگہ سے لڑھک کر گر کر مرے ہوئے جانور اور وہ چوپائے جن کا کچھ حصہ درندوں نے کھالیا ہو۔ یہ تمام جانور بہمیۃ الانعام میں داخل تھے اسی لئے تو استثناء کیا گیا (اگر بہمیۃ الانعام سے مراد جنین ہو تو ان جانوروں کے استثناء سے پہلے مستثنیٰ کا مستثنیٰ منہ میں داخل ہونا ضروری ہے اور ان جانوروں کو لفظ جنین میں شامل نہیں ہے) ان جانوروں کی حرمت کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہ جانور خود اپنی موت سے یا دوسرے عوارض سے مرتے ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک استثناء منقطع ہے۔ تلاوت کی نسبت المیتۃ وغیرہ کی طرف مجازی ہے (حقیقت میں میتہ اور اس کے بعد ذکر کی جانے والی چیزیں بذات خود ناقابل تلاوت ہیں ‘ تلاوت تو حقیقت میں الفاظ کی ہوتی ہے) یا یوں کہا جائے کہ مضاف محذوف ہے یعنی سوائے ان جانوروں کے جن کی حرمت کی آیت تلاوت کی جا رہی ہے۔ اس صورت میں (مجاز فی الاسناد نہ ہوگا) مجاز بالحذف ہوگا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما یتلی میں ما سے مراد آیت ہو اور اس سے پہلے مضاف محذوف ہو۔ یعنی الا محرم ما یتلی علیکم۔ غیر محلی الصید (لیکن) شکار کو حلال مت سمجھنا۔ صید مصدر بھی ہوسکتا ہے (شکار کرنا) اور اسم مفعول بھی (شکار کیا ہوا ہے) لفظ غَیْرَحال ہے یعنی انعام جیسے چوپائے تمہارے لئے حلال کر دئیے گئے ہیں لیکن تمہارے لئے یہ حلت ایسی حالت میں ہے کہ بحالت احرام تم شکار کو حلال نہ سمجھو چونکہ حلت انعام کو اس شرط سے مشروط کرنا کہ حالت احرام میں شکار کو حلال نہ سمجھا جائے ایک بےربط سی بات تھی اسلئے صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ غیر محلی الصید سے مراد ہے شکار سے باز رہنا گویا یوں فرمایا کہ جب شکار کی ممانعت کی حالت ہو تو اس وقت (بھی) تمہارے لئے بعض چوپائے حلال کردیئے گئے ہیں تاکہ تمہارے لئے کچھ دشوار نہ ہو۔ یہ تفسیر قابل اعتراض ہے کیونکہ چوپایوں کی حلت حالت احرام کے ساتھ مقید نہیں جبکہ شکار کرنا حرام ہوتا ہے بلکہ چوپایوں کی حلت ہر حال میں ہے۔ احرامی حالت ہو یا نہ ہو اس لئے یہ تقیید اس وقت درست ہوگی جب بہمیۃ سے مراد عام بہائم ہوں جنگلی ہوں یا شہری۔ یہ مراد اول تفسیر کی ہوگی اور تیسری صورت پر بہمیہ سے مراد خصوصیت کے ساتھ جنگلی چوپائے ہوں گے اس وقت شکار کی حلت ‘ عدم احرام کے ساتھ مشروط ہوگی۔ مطلب اس طرح ہوگا کہ بہمیۃ الانعام جنگلی ہوں یا شہری۔ سوائے میتہ اور دوسرے ممنوعات کے تمہارے لئے حلال کردیئے گئے ہیں مگر تم احرام کی حالت میں شکار کی حلت کا اعتقاد نہ رکھو۔ یہ بھی جائز ہے کہ محلی سے مراد حق تعالیٰ کی ذات ہو اور جمع کا صیغہ تعظیماً استعمال کیا گیا ہو یعنی ہم نے تمہارے لئے بہمیۃ الانعام کو حلال کیا۔ مگر احرام کی حالت میں ہم نے شکار حلال نہیں کیا۔ وانتم حرم اس حال میں کہ تم احرام باندھے ہو۔ ان اللہ یحکم ما یرید کوئی شک نہیں کہ اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے چاہے وہ کسی چیز کو حلال بنا دے چاہے حرام اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ ابن جریر نے عکرمہ اور سدی وغیرہ کی روایت سے لکھا ہے کہ حکم بن ہند بکری کچھ اونٹ غلہ سے لدے ہوئے لے کر مدینہ میں آیا اور غلہ فروخت کرنے کے بعد رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی اور مسلمان ہوگیا جب واپسی میں پشت پھیر کر جانے لگا تو حضور ﷺ اقدس نے اس کی طرف دیکھا اور ان لوگوں سے جو حضور ﷺ کے پاس موجود تھے فرمایا یہ شخص میرے سامنے کافر چہرہ لے کر آیا اور دغا باز پشت پھیر کر واپس چل دیا۔ چناچہ حکم یمامہ پہنچ کر مرتد ہوگیا (اور حضور ﷺ کی پیشین گوئی پوری ہوئی) پھر اونٹوں پر کچھ لاد کر ماہ ذی قعدہ میں مکہ کو جانے کے ارادہ سے نکلا صحابہ ؓ نے جب یہ خبر سنی تو مہاجرین وانصار کے کچھ آدمیوں نے اس کے قافلہ کو لوٹنے کے ارادہ سے جانے کا ارادہ کرلیا اس پر آئندہ آیت نازل ہوئی۔ بغوی نے لکھا کہ آئندہ آیت کا نزول حطم کے متعلق ہوا تھا جس کا نام شریح بن صبعیہ بکری تھا یہ مدینہ میں آیا اور اپنے سواروں کو پیچھے چھوڑ کر تنہا رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ لوگوں کو کس بات کی طرف بلاتے ہیں۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا میں دعوت دیتا ہوں لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے اقرار کی۔ نماز پابندی کے ساتھ ادا کرنے اور زکوٰۃ دینے کی کہنے لگا بہتر ہے مگر میرے ساتھ کچھ سردار اور بھی ہیں ‘ جن (کی رائے) کے بغیر میں کسی کام کو طے نہیں کرسکتا۔ امید ہے کہ میں مسلمان ہوجاؤں گا اور ان کو ساتھ لے کر آؤں گا۔ شریح کے آنے سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ صحابہ ؓ سے فرما چکے تھے کہ تمہارے پاس قبیلۂ ربیعہ کا ایک شخص آئے گا جو شیطان کی زبان سے کلام کرے گا۔ غرض شریح حضور کے پاس سے نکل کر چلا گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کافر منہ لے کر آیا تھا اور عہد شکن پشت کے ساتھ چلا گیا۔ شریح مدینہ سے نکل کر (جنگل میں) مدینہ والوں کے اونٹوں کی طرف سے گزرا اور گلہ کو ہنکا کرلے گیا لوگوں نے اس کا پیچھا کیا مگر گرفتار نہ کرسکے پھر جب دوسرا سال ہوا تو یہ بنی بکر کے حاجیوں کے ساتھ حج کرنے کے لئے یمامہ سے روانہ ہوا ‘ اس وقت اس کے ساتھ بڑا تجارتی مال بھی تھا اور اونٹوں کی گردنوں میں اس نے قلادہ بھی ڈال رکھا تھا۔ مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں عرض کیا حضور ﷺ یہ حطم حج کے لئے نکلا ہے آپ ہم کو اجازت دے دیجئے ہم اس سے نمٹ لیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا اس نے تو قربانی کے جانوروں کے گلے میں قلادے ڈال رکھے ہیں۔ مسلمانوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ حرکت تو ہم جاہلیت کے زمانہ میں کیا کرتے تھے مگر رسول اللہ ﷺ نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ واحدی نے بیان کیا ہے کہ حطم یمامہ سے رسول اللہ ﷺ : کی خدمت میں مدینہ میں آیا حضور ﷺ نے اس کو اسلام کی دعوت دی لیکن اس نے قبول نہیں کی جب حطم مدینہ سے نکلا تو اثناء راہ میں مدینہ والوں کے اونٹوں کو ہنکاتا لے گیا۔ پھر جب حضور ﷺ قضاء عمرہ کے لئے مدینہ سے نکلے تو آپ نے یمامہ کے حاجیوں کے لبیک پڑھنے کی آواز سنی۔ صحابہ ؓ نے فرمایا یہ حطم اور اس کے ساتھی ہیں۔ حطم نے جو اونٹ لوٹے تھے ان کی گردنوں میں قلادے پہنائے تھے اور کعبہ کو قربانی کے لئے بھیجے تھے اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
Top