بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 1
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ١ؕ۬ اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَوْفُوْا : پورا کرو بِالْعُقُوْدِ : عہد۔ قول اُحِلَّتْ لَكُمْ : حلال کیے گئے تمہارے لیے بَهِيْمَةُ : چوپائے الْاَنْعَامِ : مویشی اِلَّا : سوائے مَا : جو يُتْلٰى عَلَيْكُمْ : پڑھے جائینگے (سنائے جائینگے تمہیں غَيْرَ : مگر مُحِلِّي الصَّيْدِ : حلال جانے ہوئے شکار وَاَنْتُمْ : جبکہ تم حُرُمٌ : احرام میں ہو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يَحْكُمُ : حکم کرتا ہے مَا يُرِيْدُ : جو چاہے
اے ایمان والو ! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔ تمہارے لئے چار پائے جانور ( جو چرنے والے ہیں) حلال کردیے گئے بجز انکے جو تمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں۔ مگر احرام (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا۔ خدا جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔
قال تعالی، یا ایھا الذین آمنوا وفو بالعقود۔ اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ پورا کرو ان عہدوں کو جو تم نے التزام احکام کے بارے میں اللہ سے باندھے ہیں خواہ وہ براہ راست اللہ سے متعلق ہوں یا بندوں سے متعلق ہوں یا دنیا سے متعلق ہوں یا آخرت سے متعلق ہوں اس لیے کہ ایمان درحقیقت ایک معاہدہ التزام ہے کہ میں دل وجان سے اللہ اور اس کے رسول کی تمام احکام کو صحیح او صادق سمجھ کر ان کو واجب الالتزام او لازم العمل تسلیم کرتا ہوں اور عہد کرتا ہوں کہ دل وجان سے ان احکام کی تعمیل کروں گا پس یہ عہد التزام ایمان کی حقیقت ہے جس میں تمام احکام آگئے اور یہ ایمان درحقیقت عہد الست کی تجدید ہے جس میں حق ربوبیت ادا کرنے کا عہد لیا گیا تھا اسی طرح ایمان جملہ حقوق ادا کرنے کا ایک مضبوط عہد اور اقرار ہے اس لیے حکم یہ دیتے ہیں کہ اے ایمان والو تم نے ایمان لاکر التزام احکام کا اجمالی طور پر جو عہد اور پیمان کیا ہے اس کو پورا کرو پھر اس حکم اجمالی کے بعد خاص خاص عہدوں اور خاص خاص حکموں کے پورا کرنے کی تاکید فرماتے ہیں عقود جمع عقد کی ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہیں ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ ملا کر خوب باندہ دیا جائے اس جگہ عقود سے تکالیف شرعیہ ور احکام دینیہ مراد ہیں جن میں اللہ نے بندوں کو باندھ دیا ہے اور بندہ ان میں جکڑا ہوا ہے بندہ پر ان کی پابندی اور التزام ضروری ہے پس یہ معلوم ہوگیا کہ ایمان درحقیقت التزام اطاعت کا اجمالی معاہدہ ہے جسے آج کل کی اصطلاح میں حلف وفاداری کہتے ہیں یہ اجمالی معاہدہ تو ایک امر بسیط ہے لیکن تمام احکام شرعیہ اس معاہدہ کی دفعات ہیں اسی وجہ سے امام اعظم ابوحنیفہ فرمات ہیں کہ ایمان میں کمی زیادتی نہیں اس لیے کہ ایمان درحقیقت التزام طاعت خداوندی کے معاہدہ کا نام ہے جو ایک مربسیط ہے اس میں فی حد ذاتہ تجزی اور تبعض اور کمی اور زیادتی جاری نہیں ہوتی جیسے عقد نکاح حقوق زوجیت کے التزام کا ایک اجمالی معاہد ہے اور وہ ایک امربسیط ہے جس میں کمی اور زیادتی نہیں ایجاب و قبول سے پورا ہوجاتا ہے اور نان فقہ اور سکنی وغیرہ تمام امور عقد نکاح کے اجزاء ترکیبہ نہیں بلکہ اس کے دفعات اور لوازم ہیں اسی طرح اعمال صالحہ عقد ایمان کے لوازم اور اس کی دفعات ہیں جن کی بجاآواری لازم اور ضروری ہے معاہدہ ایمان کے اجزاء ترکیبیہ نہیں حضرت شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں یعنی جب آدمی مسلمان ہوا تو سب حکم اللہ کے قبول کرنے ٹھہراچکا اب آگے حکم فرمات ہیں کہ ان کو قبول کرو یعنی حسب عہد ان احکام کو بجالاؤ جن کے التزام کا تم نے عہد کیا ہے خلاف عہد کوئی کام نہ کرو بےوفائی اور عہد شکنی بہت بری چیز ہے۔ تفصیل بعد از جمال یعنی عقود وعہود کی تفصیل۔ عقد اول۔ تحلیل بہیمۃ الانعام۔ قال تعالی، احلت لکم بھیمۃ الانعام۔۔۔ الی۔۔۔ مایرید۔ ربط) ۔ گذشتہ آیت میں یا ایھا الذین آمنوا وفو ا بالعقود میں اجمالی طور پر وفاء عقود کا حکم تھا اب اس اجمال کی تفصیل شروع ہوتی ہے سب سے پہلے عقد حلت و حرمت کو بیان فرمایا کہ حلال و حرام کے بارے میں اللہ نے تم سے عہد لیا ہے اس کو پورا کرو سورة نساء کے اخیر میں گذرچکا ہے یہود پر ظلم اور بدعہدی کی سزا میں بعض حلال اور طیب چیزیں حرام کردی گئیں کما قال تعالی، فبظلم من الذین۔۔۔ الی۔۔ لھم۔ جن کی تفصیل سورة انعام میں ہے اب اس آیت میں امت محمدیہ کو ایفاء عہد کی ہدایت کی جاتی ہے کہ جو چیزیں ہم نے تم پر اپنی رحمت سے حلال کردی ہیں صرف ان کو استعمال کرو اور جو چیزیں تم پر حرام کردی ہیں ان سے پرہیز کرو اور اشارہ اس طرف بھی ہے کہ اے مسلمانوں تم نصاری کی طرح حلال و حرام کی تقسیم کو ختم نہ کردینا بہائم اور حیوانات کے نزدیک حلال و حرام کی کوئی تقسیم نہیں جہاں چاہا منہ مارا اور کھالیا یہی حال آج کل متمدن قوموں کا ہے یہ مذہب انسانوں کا نہیں بلکہ یہ مذہب حیوانوں کا ہے چناچہ فرماتے ہیں حلال کردیے گئے تمہارے لیے تمام چوپائے مویشی مگر وہ جانور جن کی حرمت آئندہ تمہارے سامنے بیان کیے گئے تمہارے تمام چوپائے مویشی مگر وہ جانور جن کی حرمت آئندہ تمہارے سامنے بیان کی جائے گی وہ تمہارے لیے حلال نہیں یعنی وہ جانور جن کا آئندہ آیت حرمت علیکم المیتۃ الخ۔ آیت۔ میں ذکر ہے وہ باوجود بہمۃ الانعام میں داخل ہونے کے حلت کے حکم سے مستثنی ہیں باقی ان کے علاوہ سب جانروں کا کھانا اور شکار کرنا تمہارے لیے ہر حال میں حلال ہے مگر حالت احرام میں تم شکار کو حلال نہ سمجھو لہذا بحالت احرام اور حدود حرم کے اندر کسی جانور کا شکار نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے کسی کی مجال نہیں کہ اس احکم الحاکمین سے یہ دریافت کرسکے یہ حکم کیوں دیا نیز اللہ حاکم مطلق ہونے کے علاوہ حکیم مطلق بھی ہیں اسی نے اپنی حکمت بالغہ سے ہر جانور میں ایک خاص صفت اور خاص کیفیت اور خاص استعداد رکھی ہے جس جانوروں کو بندوں کے لیے مفید جانا اس کو اپنی رحمت سے حلال کردیا اور جس کو مضر جانا اس کو حرام کردیا پس اس نے اپنے علم و حکمت سے جو حکم دیا اس کا اتباع کرو۔
Top