Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے کتاب میں بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ تم زمین میں دو دفعہ فساد مچاؤ گے اور بڑی سرکشی کرو گے
بنی اسرائیل کے فساد فی الارض کا واقعہ 4۔” واقضیناالیٰ بنی اسرائیل فی الکتاب “ ربیع بن خراش حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب انہوں نے حد سے تجاوز کیا اور انبیاء علہیم السلام کو قتل کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان ی طرف فارس کے بادشاہ بخت نصر کو ان پر مسلط کیا اور وہ سات سال ان پر حکمرانی کرتا رہا اور وہ ان کی طرف چلا ۔ یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں داخل ہوگیا اور اس کا محاصرہ کیا اور اس کو فتح کردیا۔ یہاں تک کہ اس نے یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کے خون پر ستر ہزار افراد کا خون بہایا ۔ پھر بیت المقدس کے حواریوں کو انبیاء (علیہم السلام) کی اولاد کو قید کرلیا اور بیت المقدس کے زیورات وغیرہ چھین لیے ، یہاں تک کہ ستر ہزار جانورں کے بوجھ کے بقدر وہ لے گئے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ) بیت المقدس تو عظیم جگہ ہے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیوں نہیں ۔ اس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے سونا ، چاندی ، یاقوت اور زبر جد ( موتیوں) کے ساتھ تعمیر کیا ۔ اس کے ستون سونے کے تھے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان بن دائود (علیہ السلام) کو دیئے تھے اور شیاطین کو ان کے لانے پر مسخر کیا تھا، وہ ہر طرف سے ان چیزوں کو لے آتے تھے پھر یہ سب کچھ بخت نصر کے قبضہ میں چلا گیا۔ وہ اس مال کو لے کر بابل شہر چلا گیا اور وہ اس میں سو سال تک رہا اور وہ سب مجوسی بن گئے اور وہ سب مل کر اس کی عبادت کرنے لگے ، پھر ان میں انبیاء کرام (علیہم السلام) کی موجودگی نے ان پر رحم کھایا۔ ان پر ملک فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ کو ان پر مسلط کردیا جس کا نام کو رش تھا اور یہ مسلمان تھا تا کہ یہ بنی اسرائیل کو ان سے چھٹکارا دے سکے اور ان کو بت پرستی سے نجات دے دے ۔ کو رش بنی اسرائیل کے پاس پہنچا اور ان سے بیت المقدس کے تمام زیورات لے کر ان کو واپس کردیئے۔ پھر بنی اسرائیل سو سال تک اللہ کی فرمانبرداری میں رہے، پھر وہ گناہوں اور نا فرمانیوں کی طرف مائل ہونے لگے ۔ پھر اللہ نے ان پر ایک بادشاہ جس کا نام ائطیا نوس کہا جاتا ہے۔ اس نے بنی اسرائیل سے جنگ کی یہاں تک کہ وہ بیت المقدس تک پہنچ گیا ۔ بیت المقدس کے اہل والوں کو اس نے قید کرلیا اور بیت المقدس کو جلا دیا اور ان کو کہا کہ اے بنی اسرائیل کی جماعت ! جب تک تم نافرمانی میں برقرار ہو گے اس وقت تک تم قید میں رہو گے ، پھر وہ اس پر لوٹ آئے اور پھر ان پر فاقس بن استیانوس کو مسلط کردیا ۔ اس نے ان کے ساتھ خشکی اور سمندر میں جنگ کی ۔ اس نے ان سب کو قید کردیا اور بیت المقدس کے زیورات بھی اپنے قبضے میں لے لیے اور پھر بیت المقدس کو جلا دیا ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ قصہ ہے بیت المقدس کا ، پھر ایک زمانہ آئے گا کہ حضرت مہدی (علیہ السلام) ایک ہزار ستر کشتیوں کے ہمراہ آئیں گے اور بیت المقدس کی سر زمین کی طرف تیر پھینکیں گے ، پھر وہ بیت المقدس پر قبضہ کرلیں گے ، پھر وہ پچھلوں اور اگلوں سب کو ایک بیعت کے نیچے جمع کریں گے۔ بنی اسرائیل کے بادشاہ صدیقہ اور شعیاء (علیہ السلام) کا واقعہ اور سخاریب کی تباہی کا منظر محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ بنی اسرائیل برابر نافرمانیاں اور گناہ کرتے رہتے تھے اور اللہ ان سے در گزر فرماتا تھا اور اپنے انعامات و احسانات سے نوازتا تھا۔ ان کے گناہوں کے سبب جو ان پر سب سے پہلے مصیبت آئی جس کے بارے میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان سے کروا دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ ہوگا جس کا نام صدیقہ ہوگا ۔ اس زمانے میں اللہ کی طرف سے ضابطہ جاری تھا کہ بادشاہ کو ہدایت کرنے اور سیدھے راستے پر چلانے کے لیے اس کے ساتھ اللہ ایک پیغمبر کو بھی مبعوث فرما دیا کرتا تھا۔ ان پیغمبروں پر کوئی جدید کتاب نازل نہیں ہوتی تھی بلکہ تورات کے احکام پر چلنے کی ہدایت ہر پیغمبر کرتا تھا۔ صدیقہ بادشاہ ہوا تو اس کی رہنمائی کے لیے اللہ نے شعیاء بن اصفیاء کو پیغمبر بنا کر بھیجا ۔ شعیاء کی بعثت حضرت زکریا و یحییٰ (علیہما السلام) سے پہلے تھی ۔ شعیاء نے ہی حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد ﷺ کی بشارت دی تھی اور کہا تھا اے یروشلم ! تجھے بشارت ہو اب تیرے پاس ایک گدھے پر سوارہونے والا اور دوسرا شتر سوار آئے گا ۔ یہ ایک طویل زمانے تک بیت المقدس اور بنی اسرائیل کا بادشاہ رہا ۔ جب اس کا دور حکومت ختم ہونے کو آگیا تو اللہ نے سخاریب شاہ بابل کو بھیج دیا ۔ سخاریب کے ساتھ چھ لاکھ جھنڈے تھے ۔ سخاریب چلتا چلتا بیت المقدس کے اطراف تک پہنچ گیا ۔ اس زمانے میں صدقہ کی پنڈلی میں پھوڑا تھا۔ شعیاء نبی نے صدیقہ سے کہا اے شاہ اسرائیل ! سخاریب شاہ بابل چھ لاکھ پھریرے اڑاتا آپہنچا ، لوگ ڈر کے مارے بھاگ گئے تو ہوشیارہ و جا ۔ صدیقہ کو یہ بات سن کر بڑی فکر ہوئی ، کہنے لگا اے اللہ کے نبی ! کیا آپ کے پاس اللہ کی طرف سے اس کی کوئی وحی آئی ہے کہ ہمارا اور سخاریب کا فیصلہ کیا ہوگا ؟ حضرت شعیاء نے کہا کہ وحی تو کوئی نہیں آئی یہ کہہ ہی رہے تھے کہ شعیا کے پاس وحی آگئی اور حکم ملا کہ شاہ اسرائیل کے پاس جا کر اس کو حکم دیدو کہ تیرا وقت آگیا ، اب تو گھر والوں میں سے جس کو چاہے وصیت کر دے اور اپنا جانشین بنادے۔ حضرت شعیاء نے جا کر صدیقہ سے کہہ دیا کہ اللہ کی طرف سے میرے اوپر وحی آئی ہے جس میں مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تجھ سے کہہ دوں کہ تیرے مرنے کا وقت آگیا ہے اب تو جو وصیت کرنا چاہتا ہے کردے اور اپنے گھر والوں میں سے جس کو چاہے اپنی جگہ بادشاہ بنادے۔ صدیقہ یہ پیغام سن کر قبلہ رو ہو کر نماز کو کھڑا ہوگیا ۔ دعا کی اور اللہ کے سامنے رویا اور زاری کی اور خلوص قلب سے گڑ گڑا کر عرض کیا : اے اللہ ! رب الارباب ! اے تمام معبودوں کے معبود ! اے وہ ذات جو تمام عیوب سے پاک اور تمام نقائص سے مبرا ہے، اے رحمن اے مہربانی کرنے والے جس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ، اے اللہ جو کام میں نے کیے اور جو اعمال کیے اور بنی اسرائیل پر انصاف کے ساتھ جو حکومت کی وہ سب کچھ تیری توفیق سے ہوا تو مجھ سے زیادہ اس سے واقف ہے۔ میرا ظاہر اور باطن تیرے سامنے ہے ( مجھ پر رحم فرما) یہ اللہ کا نیک بندہ تھا، اللہ نے اس کی دعاق قبول فرما لی اور شعیاء کے پاس وحی بھیج کہ جا کر صدیقہ سے کہہ دو اللہ نے تیری دعا قبول کرلی ، تجھ پر رحم فرمایا ، تجھے تیرے دشمن سخاریب سے نجات دے دی اور تیری میعاد زندگی پندرہ سال بڑھا دی ۔ شعیاء نے آ کر یہ پیغام پہنچا دیا، یہ سنتے ہی صدیقہ کے دل میں دشمن کا خوف جاتا رہا ۔ رنج و فکر دور ہوگیا اور سجدے میں گر کر اس نے دعا کی اے میرے اور میرے باپ دادا کے معبود ! میں تجھے ہی سجدہ کرتا ہوں ، تیری پاکی کا اقرار کرتا ہوں ، تجھے بڑا جانتا ہوں ، تیری تعظیم کرتا ہوں ، تو ہی جس کو چاہتا ہے حکومت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے نکال لیتا ہے تو ظاہر اور باطن کو جانتا ہے تو ہی اول تو ہی آخر تو ہی ظاہر اور تو ہی پوشیدہ ہے تو ہی رحم کرتا ہے اور بے قراروں کی دعاقبول کرتا ہے ، تو نے ہی میری دعا قبول فرمائی اور میری زاری پر رحم کیا ، جب سر اٹھایا تو اللہ نے شعیاء نبی کے پاس وحی بھیجی کہ بادشاہ صدیقہ کو کہہ دو کہ اپنے خادموں میں سے کسی کو حکم دے کہ انجیر کا پانی منگوا کر اپنے پھوڑے پر لگائے، اللہ صبح تک شفاء دے دے گا ، صدیقہ نے حکم کی تعمیل کی اور اللہ نے ان کو تندرست کردیا ۔ بادشاہ نے حضرت شعیاء سے عرض کیا اپنے رب سے یہ دعا کر دیجئے کہ اللہ ہم کو بتادے کہ ہمارے دشمن کا کیا ہوگا ؟ اللہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کرے گا ؟ اللہ نے حضرت شعیاء کو وحی بھیج کہ بادشاہ کو کہہ دو کہ میں نے تمہارے دشمن کو تم سے روک دیا اور تم کو اس سے بچا لیا ، صبح تک سب مرجائیں گے صرف سخاریب اور اس کے پانچ اہلکار بچ جائیں گے۔ ( تم ان کو پکڑ لینا) صبح ہوئی تو کسی پکارنے والے نے چیخ کر شہر کے دروازے پر کہا اے بنی اسرائیل کے بادشاہ ! اللہ نے تیرا کا پوراکر دیا ، تیرے دشمن کو تباہ کردیا، باہر نکل کر دیکھ لے سخاریب اپنے ساتھیوں سمیت ہلاک ہوگیا ۔ بادشاہ باہر نکلا ، مردوں میں سخاریب کو تلاش کروایا گیا مگر اس کی لاش نہیں ملی ، بادشاہ نے ا س کی طلب میں آدمی دوڑائے ، آخر کار انہوں نے اس کو ایک غار میں پناہ لیتے ہوئے اس کو اس کے پانچ اہلکاروں سمیت گرفتار کرلیا۔ اس میں بخت نصر بھی تھا، سب کو زنجیروں میں باندھ کر صدیقہ کے پاس لے آئے ، فوراً بادشاہ سجدے میں گرپڑا اور طلوع آفتاب سے عصر تک سجدے میں پڑا رہا ، پھر سخاریب سے کہا تم نے دیکھا کہ ہمارے رب نے تمہارے ساتھ کیا کیا ؟ تم بیخبر تھے اس نے اپنی طاقت سے تم کو قتل کیا ، سخاریب نے کہا کہ مجھے پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا کہ تمہارا رب تمہاری مد د کرے گا اور تم پر رحمت فرمائے گا ، اپنے ملک سے نکلنے سے پہلے ہی مجھے اس کی خبر مل چکی تھی مگر میں نے صحیح رہنما کا کہنا نہیں مانا ، میری کم عقلی نے مجھے اس بدبختی اور بدبختی میں مبتلا کردیا ، اگر میں رہنما کی بات سن لیتا یا سمجھ سے کام لے لیتا تو تم سے جنگ ہی نہ کرتا ۔ صدیقہ نے کہا کہ اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ اس نے جس سے چاہا تمہیں تباہ کردیا، اس نے تجھے اور تیرے ساتھیوں کو اس لیے زندہ رکھا کہ دنیا میں تمہاری بدنصیبی اور آخرت میں تمہارا عذاب اور بڑھ جائے اور ہمارے رب نے جو تمہارے ساتھ کیا ہے اس کی اطلاع ان لوگوں کو بھی جا کر دیدو جو تمہارے ساتھ یہاں نہیں آئے اور اپنے پیچھے والوں کو بھی ڈرا دو ، اگر یہ بات نہ ہوتی تو میں تم سب کو قتل کروا دیتا ۔ تیرا اور تیرے ساتھیوں کا خون اللہ کے نزدیک چیچڑی کے خون سے بھی حقیر ہے۔ اگر میں تجھے قتل کروادیتا ، پھر کو توال نے شاہ اسرائیل کے حکم سے ان لوگوں کی گردنوں میں زنجیریں ڈال کر ستر روز تک بیت المقدس اور ایلیا کے گرد اگر د پھرایا ، ان میں سے ہر شخص کو روزانہ جو کی دوروٹیاں کھانے کی دی جاتی تھیں ، سخاریب نے شاہ اسرائیل سے کہا تم جو سلوک ہمارے ساتھ کر رہے ہو اس سے تو قتل ہوجانا ہی بہتر ہے ۔ شاہ اسرائیل نے ان کو قتل خانہ کو بھیجوا دیا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیاء کے پاس وحی بھیج کہ بادشاہ سے جا کر کہہ دو کہ سخاریب کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ رہا کر دو تا کہ وہ ان لوگوں کو جو ان سے پرے ہیں جا کر ڈرائیں ، بادشاہ کو چاہیے کہ سخاریب اور اس کے ساتھیوں کی عزت کرے اور عزت کے ساتھ سوارکر کے ان کے ملک بھیج دے۔ شعیاء نے بادشاہ کو اللہ کا حکم پہنچا دیا اور بادشاہ نے حکم کی تعمیل کی ۔ سخاریب ساتھیوں سمیت بابل پہنچ گیا اور لوگوں کو جمع کر کے اپنے لشکر کی حالت بتلائی ۔ کاہنوں اور نجومیوں نے کہا بادشاہ سلامت ہم تو آپ کو پہلے بنی اسرائیل کے خدا کی طرف سے وحی آنے والی تھی اس کی اطلاع دے چکے تھے مگر آپ نے ہمارا کہنا نہیں مانا ، بنی اسرائیل ایسی امت ہے کہ ان کا رب ان کے ساتھ ہے اور ان کے رب کی موجودگی میں کوئی ان سے نہیں لڑ سکتا ۔ سخاریب کا واقعہ اس کی قوم کو ڈرانے کے لیے ہوا تھا، اللہ نے اس واقعہ سے ان کو کافی نصیحت کردی ۔ اس کے بعد سخاریب سات برس زندہ رہا ، پھر مرگیا اور مرنے سے پہلے اس نے اپنا جانشین اپنے پوتے بخت نصر کو بنادیا ۔ بخت نصر اپنے دادا کے راستہ پر چلا اور وہی کام کیے جو اس کے داد ا نے کیے تھے اور سترہ سال حکومت کی ۔ صدیقہ کے مرنے کے بعد بنی اسرائیل کی حکومت بگڑ گئی ، قوم میں گڑ بڑ ہوگئی ، باہم حکومت کے لیے دوڑ شروع ہوگئی اور آپس میں خوب کشت و خون ہوا ۔ شعیاء موجود تھے مگر ان کی نصیحت کوئی نہیں مانتا تھا۔ جب قوم کی ابتری یہاں تک پہنچ گئی تو اللہ نے شعیاء کے پاس وحی بھیجی تم اپنی قوم کے سامنے کھڑے ہو کر خطبہ دو ، میں تمہاری زبان پر اپنی وحی جاری کردوں گا ۔ شعیاء قوم کو خطاب کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اللہ نے ان کی زبان پر وحی کے الفاظ جار ی کردیئے۔ اے آسمان سن لے اور اے زمین تو بھی اپنے کان دھر لے ، اللہ بنی اسرائیل کی حالت بیان کرنا چاہتا ہے ان کو اللہ نے اپنی نعمتیں دے کر پرورش کیا ان کو اپنے لیے منتخب کیا ، اپنی طرف سے خصوصی عزت عطا کی اور سب لوگوں پر ان کی برتری عنایت فرمائی ۔ یہ لوگ بھٹکی ہوئی بکریوں کی طرح تھے جن کا کوئی نگران و نگہبان نہیں تھا، اللہ نے ان منتشر بکریوں کو یکجا جمع کیا اور شکستہ کو جوڑا ، بیمار کو تندرست کردیا ، لاغرکو فربہ کردیا اور فربہی کی حفاظت کی ۔ اللہ نے جب ان کے ساتھ یہ سلوک کیا تو یہ مغرور ہوگئے اور آپس میں ٹکرانے اور ایک دوسرے کو سینگ مارنے لگے ۔ ایک نے دوسرے کو قتل کردیا ، یہاں تک کہ ان میں کوئی بھی صحیح الحال شخص نہ رہا کہ کوئی شکستہ اعضاء والا اس کی پناہ میں آجاتا، ہلاکت ہو اس خطا کار امت کے لیے جس کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کی موت کہاں سے آرہی ہے مقدر کردیا ، اونٹ کو اپنا وطن یاد آتا ہے تو وہ وطن کو لوٹ آتا ہے، گدھے کو اپنی خویدیاد آتی ہے جس سے وہ پیٹ بھرا کرتا ہے تو وہ خوید کی طرف لوٹ آتا ہے، بیل کو سبزہ زار یاد آتا ہے جس کو کھا کر وہ موٹا ہوا تھا۔ تو وہ سبزہ زار کی طرف آجاتا ہے لیکن یہ قوم جو عقل و دانش والے ہیں ، بیل نہیں ہیں ، گدھے نہیں ہیں ، اس کے باوجود ان کو معلوم نہیں کہ ان کی موت کہاں سے آرہی ہے ان کی ایک مثال بیان کرتا ہوں ، تم ان سے کہہ دو کہ ایک ویران زمین تھی جو مدت تک ویران پڑی رہی ، بےآب وگیاہ تھی اس میں کوئی عمارت نہ تھی لیکن اس کا مالک ایک صاحب قدرت اور حکمت والا شخص تھا۔ مالک نے اس زمین کو آباد کرنے کی طرف توجہ کی ، اس نے پسند نہیں کیا کہ لوگ کہیں کہ اس زمین کا مالک قوت رکھتا ہے، پھر بھی اس نے زمین کو ویران رکھ چھوڑا ہے یا کہیں کہ اس کا مالک حکمت و دانش والا ہے۔ اس کے باوجود اس نے زمین کو برباد کردیا ۔ یہ خیال کر کے اس نے زمین کی چاردیواری بنائی ، اندر ایک مضبوط محل تیار کیا، نہریں جاری کیں ، زیتون ، انار، کھجور اور رنگ برنگ کے پھلوں کے درخت بوئے اور ایک عقل مند باسمت طاقتور امانت دار محافظ کی نگرانی میں اس زمین کو دے دیا ۔ جب درختوں میں شگوفے نکلے تو ناکارہ شگوفے نکلے ، لوگ کہنے لگے یہ زمین خراب ہے مناسب یہ ہے کہ اس کی دیواریں گرا دی جائیں ، محل کو ڈھا دیا جائے نہریں پاٹ دی جائیں ، نہروں کے دہانے بند کردیئے جائیں ، درختوں کو جلا دیا جائے اور جیسے زمین پہلے ہی بنجر تھی ویسے ہی کردیا جائے ، تم ان سے کہہ دو کہ دیوار میرا دین ہے محل میری شریعت ہے نہر میری کتاب ہے نگران زمین میرا پیغمبر ہے اور درخت تم لوگ ہو اور ناکارہ شگوفے جو درختوں سے برآمد ہو رہے ہیں وہ تمہارے ناپاک اعمال ہیں جو فیصلہ تم نے اپنے لیے کیا ہے وہی فیصلہ میں نے تمہارے لیے جاری کردیا ہے۔ یہ ایک مثال ہے جو میں نے ان کے لیے بیان کی ہے۔ یہ گائے ، بکریاں ذبح کر کے میرے قربت چاہتے ہیں حالانکہ یہ گوشت نہ مجھے پہنچتا ہے کہ نہ میں اسے کھاتا ہوں ان کو اس بات کی دعوت دی جا رہی ہے کہ تقویٰ اختیار کریں اور جس کو قتل کرنا میں نے حرام کردیا اس کو قتل کرنے سے باز رہیں اور اس طرح میرا تقرب حاصل کریں مگر ان کے ہاتھ ناحق خون سے رنگین ہیں اور کپڑے نا جائزخون ریزی سے آلود ہ ہیں ، یہ لوگ میرے لیے مکان یعنی مسجدیں پختہ بناتے ہیں اور ان کے اندرونی حصوں کو بھی پاک رکھتے ہیں مگر اپنے دلوں کو نا پاک اور جسموں کو گند ا اور میلا رکھتے ہیں ۔ مسجدوں میں پردے لگاتے اور ان کو آراستہ کرتے ہیں مگر اپنی عقلوں کو ویران اور اخلاق کو تباہ کرتے ہیں ، مجھے ان مسجدوں کے پختہ کرنے کی کیا حاجت ہے، میں تو ان میں رہتا نہیں اور ان میں پردے لٹکانے کی مجھے کیا ضرورت ہے میں تو ان کے اندر آتا نہیں ، میں نے مسجدیں بلند کرنے کا حکم اس لیے دیا ہے کہ وہاں میری یاد کی جائے۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم روزے رکھتے ہیں لیکن ہمارے روزے اوپر نہیں اٹھائے جاتے ، ہم نمازیں پڑھتے ہیں لیکن ہماری نمازیں نور پیدا نہیں کرتیں ، ہم خیرات کرتے ہیں مگر ہمارے صدقات ہم کو پاک نہیں کرتے ، ہم گدھوں کی آوازوں کی طرح چیخ چیخ کر دعا کرتے ہیں اور بھیڑوں کی آوازوں کی طرح دھاڑیں مار مار کر روتے ہیں مگر ہماری کوئی چیز قبول نہیں کی جاتی ، تم ان سے دریافت کرو، دعا قبول کرنے سے مجھے کون سی چیز روکتی ہے کیا میں سب سے زیادہ سننے والا سب سے بڑھ کر دیکھنے والا اور قریب ترین جواب دینے والا اور ارحم الراحمین نہیں ہوں ، میں ان کے روزوں کو کس طرح اوپر اٹھائوں جب کہ روزوں میں یہ جھوٹ بولتے ہیں اور لقمہ حرام کھاتے ہیں ، میں ان کی نمازوں میں نور کیسے پیدا کروں جب کہ ان کے دل میرے دشمنوں اور میرے مخالفوں اور میری قائم کی ہوئی حدود کو توڑنے والوں کی طرف جھکے ہوئے ہیں ان کے صدقات میرے ہاں کیسے بار آور ہوں وہ تو پرایا مال صدقہ میں دیتے ہیں ، میں تو خیرات کا اجر ان لوگوں کو دیتا ہوں جو معصوم اہل خیر ہوں ، میں ان کی دعا کیسے قبول کرسکتا ہوں ، ان کی دعا تو صرف قول بےعمل کی ہوتی ہے ان کا عمل قول سے بہت دور ہوتا ہے میں تو دعا اس کی قبول کرتا ہوں جو صاحب اطمینان اور نرم دل ہو اور میں اس کی بات سنتا ہوں جو سوال سے بچنے والا مسکین ہو، میری رضامندی کی نشانی مسکینوں کی رضا مندی ہے ، جب یہ لوگ میرا کلام سنتے ہیں اور میرا پیغام تم کو پہنچاتے ہیں تو کہتے ہیں یہ بنائی ہوئی باتیں اور وہی پرانے قصے ہیں جو باپ داد ا سے ہم سنتے چلے آئے ہیں اور جادوگر کاہن جیسے جوڑ لگاتے ہیں ، ویسا ہی یہ بھی جوڑا ہواکلام ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر ہم چاہیں تو ایسا کلام ہم بھی پیش کرسکتے ہیں ، شیطان ہمارے پاس بھی وحی لاتے ہیں اگر ہم چاہیں تو شیطانوں کی وحی کی وجہ سے ہم بھی غیب سے واقف ہوجائیں ۔ سنو ! میں نے جس روز زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا اسی روز ایک فیصلہ ( قیامت) کا کردیا تھا اور اپنے اوپر اس فیصلے کو لازمی اور قطعی کرلیا تھا اور اس سے پہلے ایک مقر ر میعاد بنادی تھی وہ فیصلہ ضرور واقعہ ہوگا ۔ اگر یہ لوگ غیب دانی کے دعوے میں سچے ہیں تو تم کو بتادیں کہ اس فیصلہ کو میں کب جاری کروں گا یا وہ کس زمانے میں ہوگا ۔ اگر ان میں اس امر کی قدرت ہے کہ جو کچھ چاہیں پیش کردیں تو ایسی قدرت کا مظاہرہ کریں کہ جس سے میں اس فیصلے کو نافذ کروں گا ، میں بہر حال اس فیصلہ کو تمام مذاہب پر غالب کروں گا ، خواہ شرک کرنے والوں کو پسند نہ ہو اور اگر وہ جیسا چاہیں جوڑ سکتے ہیں اور ایسی حکومت کے ساتھ تالیف کریں جس حکمت سے میں امر قضا کو تدبیر کرتا ہوں اور میں نے آسمان و زمین کو پیدا کرنے کے دن ہی یہ طے کردیا تھا کہ نبوت جاری کروں گا اور حکومت نچلے طبقہ کے عوام کو دوں گا اور بےعزتوں کو عزت ، کمزوروں کو قوت ، محتاجوں کو دولت ، جاہلوں کو علم اور بے پڑھے لکھوں کو حکمت عطا کروں گا۔ تم ان سے دریافت کرو کہ اگر وہ جانتے ہوں تو بتائیں ایسا کب ہوگا اور یہ کام کون کرے گا اور کون لوگ ان چیزوں کے کارگزار اور مدد گار ہوں گے ، یہ یقینی امر ہے کہ میں ان کاموں کے لیے ایک نبی امی بھیجوں گا جن میں بڑاپن اور درشت مزاج نہ ہوگا ، با زاروں میں چیختا نہ پھرے گا ، فحش بات زبان پر نہ لائے گا اور بےحیائی کی باتیں نہ کرے گا ۔ میں اس کو سیدھا چلائوں گا، تمام عمدہ اخلاق عطا کروں گا ، وقار کو اس کا لباس بنائوں گا ، نیکی اور بھلائی کو اس کا شعار ( اندرونی لباس) تقویٰ کو اس کا ضمیر حکمت کو اس کا علم ، سچائی اور وفا عہد کا اس کا خمیر ، عفو و خیر کو اس کی عادت ، انصاف کو اس کی سیرت ، حق کو اس کی شریعت ، ہدایت کو اس کا امام اور اسلام کو اس کا مذہب بنائوں گا ۔ اس کا نام احمد ہوگا ، میں اس کے ذریعے سے گمراہوں کو ہدایت ، جاہلوں کو علم ، گم ناموں کو بلندی ذکر اور غیر معروف لوگوں کو شہرت عطا کروں گا ۔ میں اس کے ذریعے سے قلیل کو کثیر ، ناداروں کو زردار بنائوں گا ۔ پراگندہ لوگوں کو معیت منتشر دلوں میں ملاپ متفرق خواہشات رکھنے والوں میں باہم الفت اور متفرق جماعتوں میں اتحاد عنایت کروں گا ، میں اس کی امت کو خیر الامم بنائوں گا جو لوگوں کی ہدایت کے لیے پیدا کی جائے گی، بھلائی کا حکم دے گی ، برائی سے روکے گی ۔ وہ مجھے واحد مانے گی ، مجھ پر ایمان لائے گی اور میرے لیے ( اپنے افکار و اعمال کو) خالص کرے گی ، وہ نماز پڑھے گی ( نماز میں) قیام کرے گی ، قعود و رکوع اور سجودکرے گی ، وہ میری راہ میں صف در صف ( یعنی صف بستہ ہو کر) لڑے گی اور دشمنوں پر ہجوم کرے گی ، وہ اپنے گھروں اور مالوں کو چھوڑ کر میری رضا مندی کی طلب میں نکلے گی۔ میں ان کے دلوں میں ڈال دوں گا تکبیر توحید ، تسبیح ، تمحید ، مدح تمحید، مدح تحمید ( یعنی اپنی بزرگی ، یکتائی ، پاکی ، حمد وثناء ، اور بزرگی) کا اعتراف و اقرار اور اظہار ، سفر میں بھی ان کی مجلسوں میں بھی ، خواب گاہوں میں بھی ، آمدو رفت کے راستوں میں بھی اور قیام گاہوں میں بھی ۔ وہ تکبیریں کہیں گے ، تنہا میری الوہیت کا اظہار کریں گے اور میری پاکی بیان کریں گے ، ٹیلوں کی بلندیوں پر ( چڑھ کر) چہروں اور ہاتھ اور پائوں کو میرے لیے پاک کریں گے اور کمر پر کپڑے باندھیں گے ، ان کے خون ان کی قربانیاں ہوں گے، ان کے سینے ان کی انجیلیں ( یعنی وہ قرآنی آیات کے مخزن) ہوں گے ، وہ راتوں میں راہب ( اللہ سے ڈرنے والے شب زندہ دار) اور دن میں ( دشمنوں کے مقابلے میں) شیر ہوں گے اور یہ میرا فضل ہے میں جس کو چاہتا ہوں دیتا ہوں اور بڑے فضل والا ہوں۔ جب حضرت شعیاء اپنے خطبہ سے فارغ ہوئے تو آپ کو قتل کرنے کے لیے بنی اسرائیل نے آپ کے اوپر حملہ کردیا۔ آپ بھاگ پڑے، راستہ میں ایک درخت ملا ( درخت سے آواز آئی اے اللہ کے نبی ! میرے اندر آ جایئے) اور وہ درخت پھٹ گیا ، حضرت شعیاء اس کے اندر داخل ہوگئے مگر شیطان نے پیچھے سے آپ کے کپڑے کا کونہ پکڑ لیا (آپ کے اندر داخل ہوجانے کے بعد درخت جڑ کر ہموار ہوگیا مگر کپڑے کا کونہ باہر رہ گیا) شیطان نے لوگوں کو وہ کونہ دکھادیا ( اور کہا شعیاء اس کے اندر ہیں ، ثبوت یہ ہے کہ ان کے لباس کا یہ کونہ باہر رہ گیا ہے) لوگوں نے آرے سے درخت کے دو ٹکڑے کردیئے اور حضرت شعیاء کو بھی چیر ڈالا ۔ اس کے بعد اللہ نے ایک شخص کو جس کا نام ناشیہ بن آموص تھا، بنی اسرائیل کا بادشاہ بنایا اور اس کی رفاقت و ہدایت کے لیے حضرت ہارون بن عمران کی اولاد میں سے ارمیا بن حلفیا کو نبی بنا کر مبعوث فرمایا ۔ ابن اسحاق نے بیان کیا کہ یہ ہی خضر (علیہ السلام) تھے جن کا نام ارمیا تھا اور خضر لقب کیونکہ آپ ( ایک بار) خشک گھاس پر بیٹھے تھے اور اٹھے تو وہ سرسبز ہو کر لہلہانے لگی تھی ، اللہ نے حضرت ارمیا کو بادشاہ کو بادشاہ کی ہدایت اور سیدھے راستے پر چلانے کے لیے مامور فرمایا۔ بنی اسرائیلیوں کی نا فرمانیاں اور بخت نصر کا ان پر مسلط ہونا کچھ مدت کے بعد بنی اسرائیل میں بڑی بڑی بدعتیں پیدا ہوگئیں ۔ معاصی کی کثرت ہوگئی اور ممنوعات کو انہوں نے حلال قرار دے لیا ۔ اللہ نے حضرت ارمیا (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی قوم بنی اسرائیل کے پاس جائو ۔ میں تم کو جو حکم دے رہا ہوں وہ ان سے بیان کرو ، میرے احسانات یاد دلاء اور جو بدعتیں ان کے اندر پیدا ہوگئی ہیں ، وہ بتائو ، ارمیا (علیہ السلام) نے عرض کیا ، اے میرے رب ! اگر تیری طرف سے مجھے قوت عطا نہ ہو تو میں ( بجائے خود) کمزور ہوں ، اگر تو مجھے ( مقصد تک) نہ پہنچائے تو میں عاجز ہوں اور اگر تو میری مدد نہ کرے تو ( میری مدد کہیں سے نہ ہوگی) میں بےیارو مدد گار ہوں ، اللہ نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ تمام امور میری مشیت سے ہوتے ہیں ، تمام دل اور زبانیں میرے ہاتھ میں ہیں ، میں جس طرح چاہتا ہوں ان کو موڑ دیتا ہوں ، میں تمہارے ساتھ ہوں اور میری موجودگی میں کوئی دکھ تم کو نہیں پہنچ سکتا ۔ الغرض ارمیا بنی اسرائیل کو خطاب کرنے کھڑے ہوگئے لیکن ان کو کچھ علم نہ تھا کہ کیا کہنا ہے اور کیا کہیں ، فوراً اللہ نے ان کے دل میں ایک بلیغ خطبہ القاء کردیا ۔ آپ نے لوگوں کو طاعت کا ثواب اور نافرمانی کا عذاب کھول کر بتایا اور آخر میں ( استغراقی حالت میں) اللہ کی زبان سے کہا ، میں نے اپنی عزت کی قسم کھائی ہے کہ ان ( بنی اسرائیل) پر ایک بڑا فتنہ مسلط کروں گا جس کے اندر دانش مند بھی حیران ہوجائے گا ( کوئی خلاصی کا راستہ سمجھ میں نہیں آئے گا) ایک اور ظالم سنگدل کو ان پر غالب کردوں گا جس کو میں ہیبت کا لباس پہنا دوں گا ( یعنی بڑا ہولناک ظالم ہوگا) اور اس کے سینے سے رحم کو نکال لوں گا ، اس کے ساتھ ایک لشکر ہوگا ، تاریک رات کی سیاہی کی طرح ( ہر طرف ہر چیز پر چھا جانے والا) اس کے بعد اللہ نے ارمیا (علیہ السلام) کو وحی بھیجی کہ میں یافث سے بنی اسرائیل کو تباہ کر ائوں گا ۔ یافث باشندگان اہل بابل تھے ( شاید اہل بابل یافث بن نوح کی نسل میں سے ہوں) چناچہ اللہ نے بنی اسرائیل پر بخت نصر (بابلی) کو مسلط کردیا ، بخت نصر چھ لاکھ فوج لے کر نکلا اور مع لشکر بیت المقدس میں داخل ہوگیا ۔ شام کو روند ڈالا ، بنی اسرائیل کو اتنا قتل کیا کہ فنا کردیا ، بیت المقدس کو تباہ کردیا اور ہر فوجی کو حکم دیا کہ اپنی ڈھال بھر کر مٹی بیت المقدس پر ڈال دے۔ اس طرح بیت المقدس کو سپاہیوں نے خاک سے پاٹ دیا ۔ پھر بخت نصر نے حکم دیا کہ بلا دبیت المقدس کے تمام باشندوں کو یکجا جمع کرلیا جائے ، چناچہ سب لوگوں کو فوج والے پکڑ کرلے گئے۔ بنی اسرائیل کے سب بچے بڑے بخت نصر کے سامنے یکجا جمع کردیئے گئے۔ بخت نصر نے ان میں سے ستر ہزار بچے چھانٹ لیے ( یعنی اپنی غلامی اور خدمت گاری کے لیے منتخب کرلیے) اور مال غنیمت فوج کو تقسیم کردینے کا حکم دے دیا ۔ سواروں نے کہا مال غنیمت توکل آپ کا ہے آپ اتنا ہی خزانہ میں داخل کرا دیجئے ۔ بنی اسرائیل کے یہ بچے جو آپ نے منتخب کیے ہیں یہ فوج کو تقسیم کر دیجئے۔ بخت نصر نے یہ بات مان لی اور بچوں کو بطور غلام سرداران فوج کو تقسیم کردیا، ہر شخص کے حصے میں چار غلام آئے ، پھر باقی لوگوں کی تین جماعتیں کردیں ۔ بنی اسرائیل کی ایک تہائی جماعت کو تو شام میں ہی قائم رکھا گیا ، ایک تہائی کو قیدی بنا لیا گیا اور تہائی کو قتل کردیا گیا ۔ ناشیہ کو اور ستر ہزار بچوں کو بخت نصر بابل لے گیا ۔ بنی اسرائیل کی یہ پہلی تباہی تھی جو خود انہی کی بد اعمالی کی وجہ سے ان پر آئی ۔ آیت ” فاذا جاء وعد اولاھما بعثنا علیکم عبادا ً لنا اولی باس شدید “ میں یہ ہی تباہی مراد ہے اور عباد سے مراد بخت نصر اور اس کے ساتھی ہیں۔ ایک مدت کے بعد بخت نصر نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ کوئی چیز خواب میں دیکھی تھی لیکن اس کو یاد نہیں رہا کہ کیا دیکھا تھا۔ دانیال ، حنانیا ، عزاریا اور میشائیل قیدیوں میں موجود ہی تھے۔ یہ سب انبیاء کی نسل سے تھے، بخت نصر نے ان لوگوں کو بلوایا اور خواب دریافت کیا ۔ ان بزرگوں نے کہا آپ خواب بیان کیجئے تو ہم اس کو تعبیر دیں ، بخت نصر نے کہا مجھے تو خواب یاد نہیں رہا ، تم ہی میرا خواب بتائو اور تم ہی اس کی تعبیر بیان کرو ، اگر ایسا نہ کرو گے تو میں شانوں سے تمارے ہاتھ اکھڑ والوں گا ۔ یہ بےچارے ( یہ ظالمانہ حکم سن کر) دربار سے باہر آئے اور اللہ کے سامنے بہت گریہ وزاری کی۔ اللہ نے ان کو بادشاہ کے سوال کا جواب بتادیا ، جواب کا علم ہونے کے بعد یہ حضرات بادشاہ کے پاس پہنچے اور کہا آپ نے ایک مورت دیکھی تھی جس کے دونوں پائوں اور پنڈلیاں پختہ مٹی کی تھیں اور زانو اور رانیں تانبے کی اور پیٹ چاندی کا اور سینہ سونے کا اور سر و گردن لوہے کے۔ بادشاہ نے کہا تم نے سچ کہا ان حضرات نے کہا آپ یہ دیکھ ہی رہے تھے اور آپ کو تعجب ہو رہا تھا کہ اللہ نے آسمان سے ایک پتھر اتارا ، پتھر نے مورتی کو ریزہ ریزہ کردیا، یہ ہی وہ چیز ہے جو آپ بھول گئے تھے ۔ بخت نصر نے کہا تم نے سچ کہا اب اس کی تعبیر دو ۔ انہوں نے جواب دیا آپ کو چند بادشاہوں کی حکومت دکھائی گئی ہے کسی کی حکومت تو نرم ( کمزور) اور کسی کی اس سے سخت اور کسی کی بہت ہی حسین اور کسی کی سب سے زیادہ سخت اور سی کی پختہ مٹی ( ٹھیکرے) سب سے کمزور حکومت ہے پھر اس کے اوپر تانبا پہلی حکومت سے زیادہ سخت حکومت ہے ، پھر تانبے سے خوبصورت اور اعلیٰ چاندی ہے اور سونا چاندی سے زیادہ حسین اور برتر ہے ، سب کے اوپر لوہا آپ کی حکومت ہے جو پہلی حکومتوں سے زیادہ سخت اور مضبوط ہے اور وہ پتھر جو آسمان سے اترتا ہوا آپ نے دیکھا وہ اللہ کا غیبی حکم ہے جو اللہ کی طرف سے آ کر اس ساری مورتی کو چکنا چور کر دے گا اور حکومت صرف اللہ کی رہ جائے گی۔ بنی اسرائیل کو اہل بابل کی خدمت میں رہتے رہتے جب مدت ہوگئی تو ایک روز بابل والوں نے بخت نصر سے کہا یہ غلام جو ہماری درخواست پر آپ نے ہم کو عنایت کیے تھے جب سے ہمارے ساتھ رہے ہیں ہم اپنی عورتوں کو کچھ بدلا ہوا پاتے ہیں ، عورتوں کے رخ ہماری طرف سے پھر کر ان کی طرف ہوگئے ہیں ۔ آپ ان کو یہاں سے نکال دیجئے یا قتل کرا دیجئے۔ بخت نصر نے کہا تم کو اختیار ہے چاہو ان کو قتل کر دو ، چاہو نکال دو ۔ جب لوگوں نے ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے اللہ سے گریہ وزاری کی عرض کیا اے الٰہی ہم پر یہ مصیبت دوسروں کے گناہوں کی پاداش میں پڑی ہے ( تو ہم پر رحم فرما) اللہ نے ان سے وعدہ فرمایا کہ تم کو زندہ رکھوں گا ۔ آخر کچھ لوگ تو مارے گئے اور بخت نصر نے جن کو جیتا چھوڑ دیا وہ رہ گئے انہی میں سے دانیال ، حنا نیا ، عزاریا اور میشائیل بھی تھے۔ بالآخر جب اللہ نے بخت نصر کو ہلاک اور غارت کردینے کا ارادہ کیا تو وہ خود ہی اپنی تباہی کا سبب بن گیا جو بنی اسرائیل اس کے قبضے میں تھے ان سے ایک روز کہنے لگا ۔ بتائو جو مکان میں نے تباہ کردیا وہ مکان کیسا تھا ؟ اور جن لوگوں کو میں نے وہاں قتل کیا وہ کون تھے ؟ بنی اسرائیل نے جواب دیا وہ اللہ کا گھر تھا اور وہ مقتول اس گھر کو آباد کرنے والے تھے۔ یہ لوگ نسل انبیاء (علیہم السلام) سے تھے لیکن جب انہوں نے مظالم اور زیادتیاں کیں تو اللہ نے ان کی خطا ر کاریوں کی سزا میں آپ کو ان پر مسلط کردیا۔ ان کے رب نے جو سارے جہان کا رب ہے ان کو عزت عطا فرمائی تھی اور معزز بنایا تھا لیکن جب انہوں نے وہ کام کیے جو نہایت برے تھے ( یعنی مظالم اور نا فرمانیاں) تو اللہ نے ان کو غارت کردیا اور دوسروں کو ان پر مسلط کردیا لیکن غالب آنے والا مغرور ہوگیا ۔ اس نے خیال کیا کہ میں نے بنی اسرائیل کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اپنے بل بوتہ پر کیا ۔ بخت نصر نے کہا اچھا تو تم لوگ مجھے ایسی تدبیر بتائو کہ میں اونچے آسمان پرچڑھ جائوں او جو بھی وہاں ہو اس کو قتل کر کے اپنی حکومت وہاں قائم کرلوں ، زمین کی حکومت سے تو میں اب فارغ ہوگیا ہوں ۔ بنی اسرائیل نے کہا کوئی مخلوق بھی ایسا نہیں کرسکتی ، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہنے لگا تم کو ایسا کرنا تو ہوگا ( آسمان پر چڑھنے اور اس کو فتح کرنے کی تدبیر بتانی ہوگی ورنہ میں تم سب کو قتل کر دوں گا ، یہ بات سن کر سب لوگ اللہ کے سامنے روئے اور گڑگڑائے اور عاجزی کے ساتھ دعا کی ، اللہ نے ( ان کی مدد کی اور) اپنی قدرت سے ایک مچھر بھیج دیا جو بخت نصر کی ناک کے سوراخ میں گھس کر دماغ تک پہنچ گیا اور دماغ کی جھلی پر اس نے ڈنک مارا۔ بخت نصر بےتاب ہوگیا ، اس کو قرار ہی نہیں آتا تھا، جب تک سر پر ضربیں نہ لگتی تھیں ۔ آخر اسی حالت میں مرگیا ۔ مرنے کے بعد لوگوں نے سر چیر کر دیکھا تو ایک مچھر دماغ کی جھلی پر ڈنک مارتا نظر آیا جو بنی اسرائیل اس کے قبضہ میں باقی تھے ، اللہ نے ان کو نجات دی اور وہ شام کو چلے گئے وہاں پہنچ کر انہوں نے عمارتیں بنائیں ، ان کی تعداد بھی بہت ہوگئی اور جو حالت ان کی پہلے تھی اس سے بھی بہتر حالت ہوگئی ۔ لوگ کہتے ہیں کہ جو بنی اسرائیل قتل کردیئے گئے تھے اللہ نے ان کو بھی زندہ کردیا اور وہ بھی ان میں آ کر شامل ہوگئے۔ جب بنی اسرائیل ملک شام میں آئے تو ان کے پاس اللہ کی کتاب باقی نہیں تھی ۔ تورات جلا دی گئی تھی ، حضرت عزیر (علیہ السلام) بھی بابل کے قیدیوں میں تھے اور چھوٹ کر شام کو آئے تھے۔ آپ تمام لوگوں سے الگ ( کہیں جنگل میں جا کر) دن رات ( تورات کے غم میں) روتے رہتے تھے۔ ایک روز کسی شخص نے ان سے پوچھ آپ اتنا روتے کیوں ہیں ، فرمایا اللہ کی کتاب کو روتا ہوں ، اللہ کا وہ احکام نامہ جو ہمارے پاس تھا ( جلا دیا گیا) نہ رہا ۔ اس کے بغیر نہ ہماری دنیا درست ہوسکتی ہے نہ آخرت ، اس شخص نے کہا اگر آپ چاہتے ہیں کہ تورات آپ کو دوبارہ مل جائے تو روزے رکھئے ( نفس کو) پاک کیجئے اور کپڑے بھی پاک رکھئے اور کل کو اسی جگہ میں آپ سے ملوں گا ۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) نے روزہ بھی رکھا، جسم اور کپڑوں کو بھی پاک کیا اور اسی مقررہ مقام پر اس شخص کا انتظار کرنے لگے۔ حسب وعدہ وہ شخص پانی سے بھرا ہوا ایک برتن لے کر آیا ، یہ شخص فرشتہ تھا، اللہ نے اس کو بھیجا تھا۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو اس نے کچھ پانی پلایا ۔ پانی پیتے ہی تورات آپ کے سینے میں منقش ہوگئی ۔ جب بنی اسرائیل کے پاس لوٹ کر آئے اور تورات پیش کی تو بنی اسرائیل کو آپ سے اتنی محبت ہوگئی کہ کسی چیز سے ایسی محبت نہیں ہوئی تھی ، آپ مجبوب قوم بن گئے ، پھر کچھ مدت کے بعد اللہ نے آپ کو بلا لیا اور بنی اسرائیل کسی پیغمبر کی تو ( صرف) تکذیب کرتے تھے اور کسی کو قتل کردیتے تھے ( تصدیق نہیں کرتے تھے) سب کے آخر میں اللہ نے حضرت زکریا ، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہم السلام) کو بھیجا ۔ یہ تینوں حضرت دائود (علیہ السلام) کی نسل سے تھے۔ حضرت زکریا (علیہ السلام) اپنی موت سے مرگئے ۔ بعض نے کہا کہ آپ (علیہ السلام) کو شہید کردیا گیا۔ حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو شہید رنے کے جرم میں بنی اسرائیلیوں پر عذاب کا تسلط جب بنی اسرائیل نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کو شہید کردیا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو اٹھا لیا گیا تو بابل کے ایک بادشاہ کو جس کو خروش کہا جاتا تھا بنی اسرائیل پر مسلط کردیا ، خردوش نے بابل کو لشکر لے کر شام پر چڑھائی کی ، ملک میں داخل ہو کر تمام بنی اسرائیل پر مسلط ہوگیا ۔ جب کامل تسلط پا لیا تو اپنے ایک فوجی سردار سے جس کا نام یبورزاذان تھا کہا ، میں نے اپنے معبود کی قسم کھائی تھی کہ بیت المقدس والوں پر جب مجھے فتح حاصل ہوگی تو میں ان کو اتنا قتل کر دوں گا کہ ان کا خون بہہ بہہ کر میرے لشکر کے وسطیٰ حصہ تک آجائے ، ہاں اگر قتل کرنے کے لیے کوئی شخص باقی ہی نہ رہے تو مجبوری ہے تم میری اس قسم کو پورا کرو۔ یبورزاذان اس حکم کی تعمیل کے لیے کھڑا ہوگیا اور بیت المقدس میں داخل ہو کر قربان گاہ تک پہنچ گیا ۔ وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ کچھ خون زمین سے ابل رہا ہے ، پوچھا یہ کیا بات ہے، یہ خون کیسا ابل رہا ہے ؟ بنی اسرائیل نے کہا اس جگہ ہم نے ایک قربانی ذبح کی تھی ، قربانی قبول نہیں ہوئی اور اس وقت سے برابر یہ خون ابل رہا ہے ۔ ویسے آٹھ سو برس سے ہم قربانیاں کرتے چلے آئے ہیں اور سب کی سب قبول ہوتی رہی ہیں صرف یہ ہی قربانی قبول نہیں۔ اس کے بعد اسی مقام پر یبورزاذان نے بنی اسرائیل کے سرداروں کے سات سو ستر جوڑے ذبح کر ڈالے مگر خون جب بھی نہیں تھما ، یبورزاذان نے بنی اسرائیل کے ساتھ سو لڑکے اور قتل کر ا دیئے پھر بھی خون ٹھنڈا نہ ہوا ، یبورز اذان نے جب دیکھا کہ خون تھمتا ہی نہیں ہے تو بنی اسرائیل سے کہا کہ کم بختو مجھے سچ سچ بتادو اور اپنے رب کے حکم پر صبر کرو۔ ایک طویل مدت تک اس زمین پر تمہاری حکومت رہی ہے ، تم جو چاہتے تھے کرتے تھے ، میں تم میں سے کسی آگ پھونکنے والے مرد کو چھوڑوں گا نہ عورت کو ، سبھی کو قتل کر دوں گا ۔ یہ وقت آنے سے پہلے مجھے سچ سچ بتادو ۔ جب بنی اسرائیل نے قتل کی یہ شدت اور ناقابل برداشت مصیبت دیکھی تو سچی بات کہہ د ی ۔ کہنے لگے حقیقت میں یہ ایک پیغمبر کا خون ہے وہ ہم کو بہت سی باتوں سے منع کرتے تھے اور اللہ کے غضب سے ڈراتے تھے، اگر ہم ان کا کہا مان لیتے تو یقینا وہ راستہ ہمارے لیے بہت سیدھا راستہ تھا۔ انہوں نے ہم کو تمہارے متعلق بھی اطلاع دی تھی مگر ہم نے ان کو سچا نہ جانا اور بجائے تصدیق کے ان کو قتل کردیا یہ خون انہی کا ہے ۔ یبورزاذان نے پوچھا ان کا نام کیا تھا ؟ بنی اسرائیل نے کہا یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) ۔ بیورزاذان نے کہا اب تم نے سچی بات بتادی ، تم سے تمہارا رب اسی کا انتقام لے رہا ہے اس کے بعد یبورز اذان سجدے میں گرپڑا اور جو لوگ اس کے گرد ا گرد تھے ان کو حکم دیا کہ خردوش کے لشکر کے جو آدمی یہاں ہیں ان کو باہر کر دو اور شہر کے دروازے بند کر دو ۔ جب بنی اسرائیل کے ساتھ تنہا رہ گیا تو کہا اے یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) آپ کے قتل کی وجہ سے جس مصیبت میں آپ کی قوم گرفتار ہوئی اور جتنے مارے گئے اس کو میرا اور آپ کا رب جانتا ہے۔ اب آپ اپنے رب کے حکم سے ٹھہر جائیں ، بل اس کے کہ آپ کی قوم کے کسی شخص کو میں زندہ نہ چھوڑوں ، فوراً اللہ کے حکم سے خون تھم گیا اور یبورزاذان نے بنی اسرائیل کو قتل کرنے کا حکم منسوخ کردیا اور بولابنی اسرائیل جس پر ایمان لائے ہیں میں بھی اس پر ایمان لایا اور مجھے یقین ہوگیا کہ اس کے سوا کوئی دوسرا رب نہیں ، پھر بنی اسرائیل سے کہا خردوش نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں تم کو اتنا قتل کروں کہ تمہارا خون بہہ بہہ کر اس کے لشکر کے وسطی حصہ تک پہنچ جائے اور میں اس کے حکم عدولی کی طاقت نہیں رکھتا۔ بنی اسرائیل نے کہا خردوش نے جو تم کو حکم دیا ہے اس کی تعمیل کرو۔ یبورزا اذان نے ایک خندق کھودنے کا حکم دیا ، خندق تیار ہوگئی تو حکم دیا کہ بنی اسرائیل کے جتنے گھوڑے ، گدھے ، خچر ، اونٹ ، گائیں ، بھینسیں اور بکریاں ، بھیڑیں ہیں سب کو ذبح کر کے خندق میں ڈال دیا جائے ، اس کی تعمیل بھی کردی گئی۔ یہاں تک کہ ان جانوروں کا خون لشکر گاہ کے وسط تک بہہ کر پہنچ گیا اور ان جانوروں کے اوپر ان متقولوں کی لاشوں کو ڈلوا دیا جن کو پہلے قتل کرا چکا تھا، خردوش سمجھا کہ خندق کے اندر صرف لاشیں ہی بھری پڑی ہیں ، خون تو لشکر لگاہ تک پہنچ ہی چکا تھا اس لیے خردوش نے یبورزاذان کو قتل بندے کردینے کا حکم دے دیا ، پھر بابل کو واپس چلا گیا ۔ اس حادثے میں سارے بنی اسرائیل فنا ہوگئے یا فنا ہونے کے قریب پہنچ گئے۔ یہی وہ دوسرا واقعہ ہے جس کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے : ” لتفسدن فی الارض مرتین “ پہلا واقعہ تو بخت نصر اور اس کے لشکر کا ہوا اور دوسرا واقعہ خردوش اور اس کی فوج کا ۔ دوسرا واقعہ پہلے سے زیادہ سنگین تھا اس کے بعد بنی اسرائیل کو استقلال نصیب نہیں ہوا ، شام اور علاقہ شام کی حکومت رومیوں اور یونانیوں کے ہاتھ میں پہنچ گئی ۔ ہاں جو بنی اسرائیل بچ گئے تھے ان کی نسل بکثرت ہوگئی اور بیت المقدس اور اس کے علاقہ میں ان کی ریاست قائم ہوگئی، مستقل حکومت نہ بن سکی ۔ پھر بھی اللہ کی بڑی نعمتیں ان کو حاصل ہوئیں اور آسائش و آرام سے بسر کرنے لگے ، لیکن پھر انہوں نے طرح طرح کے جرائم کیے اور نا فرمانیاں کیں تو اللہ نے ان پر ٹیٹس بن اسیانش رومی کو مسلط کردیا ۔ ٹیٹس نے ان کو بستیوں کو تباہ کردیا اور بیت المقدس سے ان کو نکال باہر کیا ۔ ریاست ان سے چھین لی اور ایسی ذلت کو ماردی کہ آئندہ جس قوم میں یہ رہے ذلت کے ساتھ اور جزیہ ادا کر کے رہے اور بیت المقدس اجڑ پڑا رہا ۔ یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ کا دور خلافت آیا تو آپ کے حکم سے مسلمانوں نے اس کو آباد کیا ۔ قتادہ نے کہا پہلی مرتبہ اللہ نے جالوت کو مسلط کیا ، جالوت نے ان کو قید کیا اور آبادیوں کو تباہ کردیا ۔ ” ثم رددنا لکم لکرۃ “ یعنی پھر حضرت دائود (علیہ السلام) کے زمانہ میں اللہ نے ان کی باری پھیر دی ۔” فاذا جاء وعد الاخرۃ “ یعنی جب دوسری تباہی کا وقت آیا تو بخت نصر کو اللہ نے ان پر مسلط کیا ۔ بخت نصر نے ان کو قیدی بنایا اور بستیوں کو اجاڑا ۔ ” غسیٰ ربکم ان یرحمکم “ یعنی امید رکھو کہ آئندہ اللہ تم پر رحم فرمائے گا، چناچہ اللہ نے ان پر دوبارہ رحم فرمایا لیکن بنی اسرائیل نے پھر مختلف زمانوں میں شرارتیں کیں اور اللہ نے بھی سزا اور عقوبت ان کو دی ۔ آخر کار عرب کو ان پر مسلط فرمایا۔ اللہ نے خود فرمایا ” واذ تاذن ربک لیبعثن علیھم الی یوم القیامۃ من یسومھم سوء العذاب “ اور جب آپ کے رب نے آگاہی دے دی تھی کہ قیامت کے دن تک ان ( یہودیوں پر) ایسے لوگوں کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو برا عذاب دیتے رہیں گے۔ لہٰذا یہودی ہمیشہ عربوں کے ہاتھوں سے عذاب میں رہیں گے۔ سدی نے ذکر کیا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ بیت المقدس کی ویرانی ایک یتیم لڑکے کے ہاتھوں سے ہوگی جو بابل کی ایک بیوہ کا لڑکا ہوگا اور اس کا نام بخت نصر ہوگا ( اس زمانہ میں) بنی اسرائیل چونکہ سچ بولتے تھے اس لیے ان کا خواب بھی سچا ہوتا تھا۔ یہ شخص خواب دیکھنے کے بعد بخت نصر کی جستجو میں نکلا ۔ یہاں تک کہ اس کی ماں کے پاس پہنچ گیا ۔ بخت نصر لکڑ ہارا تھا ، اس شخص نے دیکھا کہ وہ سر پر لکڑیوں کو گٹھا ابھائے آیا ، گٹھے کو سر سے ڈالنے کے بعد بیٹھ گیا ، اس آدمی نے بخت نصر سے کچھ باتیں کیں ، پھر اس کو تین درہم دیئے اور کہا جا کر اس کی کچھ کھانے پینے کی چیز لے آئو ، بخت نصر نے جا کر ایک درہم کا گوشت ، ایک درہم کی روٹی اور ایک درہم کی شراب خرید لی اور لے آیا ۔ سب نے مل کر کھانا کھایا اور شراب پی۔ اس آدمی نے دوسرے اور تیسرے رو ز بھی ایسا ہی کیا ( روزانہ تین درہم کی کھانے پینے کی چیزیں منگوائیں اور سب نے کھایا) پھر بخت نصر سے کہا میں چاہتا ہوں کہ اگر کبھی کسی دن تم بادشاہ ہو جائو تو میرے لیے پروانہ امان ابھی سے لکھ دو ( تا کہ تمہاری حکومت کے وقت میرے کام آئے) بخت نصر نے کہا ، کیا تو مجھ سے مذاق کر رہا ہے، اس شخص نے کہا میں مذاق نہیں کرتا ، تمہارا کیا حرج کہ پروانہ امان لکھ کر مجھے منت کش بنادو ۔ بخت نصر نے پر انہ امن لکھ دیا ، اس شخص نے کہا جب تمہارے گرد اگر د لوگ جمع ہوں اور میں اس وقت پہنچوں تو تمہارے پاس تک میری رسائی کیسے ہوگی ۔ بخت نصر نے کہا کسی بانس میں اس تحریر کو باندھ کر بلند کرنا میں پہچان لوں گا ۔ غرض بخت نصر نے تحریر لکھ کر اس شخص کودے دی۔ حضرت یحییٰ بن زکریا کو شہید کرنے کا پلان اور بدلے میں بنی اسرائیلیوں کا برا انجام قتادہ نے کہا بنی اسرائیل کا بادشاہ حضرت یحییٰ زکریا (علیہ السلام) کی بڑی عزت کرتا تھا، آپ کو اس نے اپنا مقرب بنا رکھا تھا ( اتفاقا ً ) باداشاہ کو اپنی بیوی کی بیٹی اور بقول حضرت ابن عباس ؓ اپنی بھانجی سے گہری محبت ہوگئی ۔ حضرت یحییٰ سے اس نے مسئلہ پوچھا ، آپ نے نکاح کی اجازت نہ دی ( بیوی کی بیٹی یا بھانجی سے نکاح شریعت یہود میں بھی حرام تھا) اس لڑکی کی ماں کو حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے فتوے کی خبر پہنچی تو اس کے دل میں حضرت کی طرف سے کینہ پیدا ہوگیا ۔ ایک روز جب بادشاہ نے محفل شراب منعقد کی تو اس عورت نے اپنی بیٹی کو باریک سرخ رنگ کے کپڑے پہنائے ، خوشبو سے مہکایا ، زیور سے آراستہ کیا اور بنا سجا کر بادشاہ کے پاس بھیج دیا اور یہ کہہ دیا کہ تو بادشاہ کو شراب پلانا اور جب تیری طرف کو مائل ہو تو اول تو اس سے شرط کرا لینا کہ میرا ایک سوال آپ کو پورا کرنا ہوگا ، جب وہ زبان دے دے تو اس سے کہنا مجھے یحییٰ بن زکریا کا سرطشت میں رکھا ہوا درکار ہے، پھر وہ جو کچھ تجھ سے چاہے اسے کی تعمیل کرنا ۔ لڑکی نے ایسا ہی کیا ۔ بادشاہ جب اس کی طرف مائل ہوا تو اس نے حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے سر کی شرط پیش کی ، بادشاہ نے کہا کم بخت کچھ اور سوال کرلے۔ میں تیرا سوال پورا کردوں گا ۔ یحییٰ کے سرط کی طلب گار نہ ہو ۔ لڑکی نے اصرار کیا ، آخر یحییٰ کا سر بادشاہ نے منگوا دیا ، سر لا کر رکھ دیا گیا تو سر سے آواز آرہی تھی یہ عورت تیرے لیے حلال نہیں ہے۔ جب صبح ہوئی تب بھی سر سے خون ابلتا رہا ۔ بادشاہ نے اس پر مٹی ڈالنے کا حکم دیا تب بھی خون نہ تھما اور مٹی ڈلوائی تب بھی خون ابلتا ہی رہا ۔ یہاں تک کہ شہر کی فصیل تک اس طشت کو لے جایا گیا اور خون جوش مارتا رہا ۔ اسی دوران میں بابل کے بادشاہ صحابین نے بخت نصر کی زیر قیادت بنی اسرائیل پر حملہ کرنے کے لیے ایک لشکر بھیج دیا ۔ جب یہ فوج حدود بیت المقدس میں پہنچی تو لوگ قلعہ بند ہوگئے ، انہوں نے بستیوں کے دروازے بند کرلیے ، بخت نصر محاصرہ کیے پڑا رہا ۔ آخر طویل محاصرہ سے تنگ آ کر اس نے ناکام واپسی کا ارادہ کرلیا ۔ بنی اسرائیل کی نسل کی ایک بڑھیا نکل کر آئی اور اس نے بخت نصر سے کہا آپ شہر فتح کیے بغیر واپس جانا چاہتے ہیں ۔ بخت نصر نے کہاہاں ، میرا یہاں قیام طویل ہوگیا اور ساتھ والوں کو کچھ کھانے کو مل نہیں رہا ہے۔ کہنے لگی تدبیر میں بتاتی ہوں مگر ایک بات میری آپ کو مانتی ہوگی جس کو قتل کرنے کا میں آپ کو مشورہ دوں اس کو آپ قتل کردیں اور جب قتل کرنے سے روک دوں آپ رک جائیں۔ بخت نصر نے کہا اچھا ، بڑھیا نے کہا صبح کو آپ اپنے لشکر کے چار حصے کردیں ، ہر گوشہ پر لشکر کا ایک حصہ مقرر کردیں ، پھر سب مل کر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہیں یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کے خون کے عوض ہم تجھ سے فتح کے طلب گار ہیں ، امید ہے کہ دعا مانگتے ہی ( شہر کی) دیواریں گرپڑیں گی ، بخت نصر اور اس کے لشکر نے ایسا ہی کیا ، دیواریں فوراً گرپڑیں اور تمام اطراف سے فوج اندر داخل ہوگئی ۔ بڑھیا نے بخت نصر سے کہا اب اپنا ہاتھ روک لو ، پھر بخت نصرکو لے کر یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کے خون کے پاس پہنچی اور کہا ( لوگوں کو گرفتار کر ا کے) اس خون پر قتل عام اس وقت تک کرو کہ اس کا خون ابلنا بلند ہوجائے۔ بخت نصر نے وہاں ستر ہزار آدمیوں کو قتل کیا ، آخر وہ خون تھم گیا ۔ خون رک گیا تو بڑھیا نے کہا اب قتل موقوف کرو۔ جب کوئی نبی قتل کیا جاتا ہے تو اللہ اس وقت تک راضی نہیں ہوتا جب تک قاتلوں کو اور قتل پر رضا مند ہونے والوں کو قتل نہ کردیا جائے ۔ اتنے میں پروانہ امن و الا پروانہ امان لے کر آگیا ۔ بخت نصر نے اس کو اور اس کے گھر والوں کو امان دے دی اور بیت المقدس کھنڈر کردیا اور اس میں مردار جانورڈالو دیئے۔ بیت المقدس کی بربادی میں رومیوں نے بھی بخت نصر کی مدد کی کیونکہ بنی اسرائیل نے یحییٰ (علیہ السلام) کو قتل کیا تھا ( اور یحییٰ (علیہ السلام) نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بشارت دی تھی) بخت نصر اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے کچھ سرداروں کو لے گیا جن میں حضرت دانیاں اور دوسرے انبیاء زادے تھے اور جالوت کے سر کو بھی ساتھ لے گیا ۔ بابل میں پہنچا تو چونکہ صحابین مرچکا تھا، لوگوں نے صحابین کی جگہ اسی کو بادشاہ بنادیا ، بخت نصر حضرت دانیال اور آپ کے ساتھیوں کو بڑی عزت کرتا تھا۔ مجوسیوں کو اس بات سے جلن ہوئی اور انہوں نے بخت نصر سے دانیال کی چغلیاں کھائیں اور کہا دانیال اور ان کے ساتھی آپ کے معبود کو نہیں مانتے اور آپ کے ہاتھ ککا ذبیحہ ( یعنی آپ کا عقیدہ رکھنے والے مشرکوں کا ذبیحہ) بھی نہیں کھاتے۔ بخت نصر نے دانیال اور ان کے ساتھیوں سے یہ بات دریافت کی ، انہوں نے جواب دیا۔ ہاں ہمارا ابک رب ہے اور ہم آپ لوگوں کا ذبیحہ نہیں کھاتے۔ بخت نصر نے ایک خندق کھدوائی اور ان سب کو جن کی تعدادچھ تھی ان میں ڈلوا دیا اور ایک شکاری شیر کو بھی خندق میں چھوڑ دیا تا کہ شیر ان لوگوں کو پھاڑ کھائے لیکن دن گزرنے کے بعد شام کو جا کر دیکھا تو سب کو ( صحیح سالم) بیٹھا ہوا پایا ۔ شیر بھی پائوں پھیلائے ان کے پاس ہی پڑا ہوا تھا اور اس نے کسی کے خراش بھی نہیں لگائی تھی۔ اس کے علاوہ ایک ساتواں آدمی اور بھی ان کے ساتھ موجود تھا۔ حقیقت میں وہ ایک بادشاہ تھا جس کی سات سال تک اللہ ( برابر ہر سال) صورت مسخ کرتا رہا۔ وہب نے اس کی یوں تفصیل کی ہے کہ بخت نصر کو اللہ نے ( ایک سال) بشکل گدھ رکھا، پھر ( ایک برس تک) بیل کی شکل پر کردیا ، پھر شیر کی صورت پر کردیا۔ اسی طرح سال تک صورت بگڑتی اور بدلتی رہی لیکن دل ہر صورت میں انسان ہی کا رہا۔ آخر میں پھر اس کی حکومت اس کو عطا فرما دی اور وہ مؤمن ہوگیا ۔ وہب سے دریافت کیا گیا ، کیا بخت نصر مؤمن تھا ؟ وہب نے جواب دیا ، اس کے بارے میں میں نے اہل کتاب کے اقوال مختلف پائے ، کوئی تو قائل ہے کہ اس کی موت ایمان پر ہوئی اور کوئی کہتا ہے اس نے بیت المقدس کو جلایا جو خانہ خدا تھا۔ اللہ کی کتابوں کو سوختہ کیا اور انبیاء (علیہم السلام) کو قتل کیا اس پر اللہ کا غضب پڑا اور توبہ قبول نہیں ہوئی ۔ سدی کا بیان ہے کہ مسخ شکل کے بعد اللہ نے جب بخت نصر کو اس کی اصلی شکل پر کردیا اور حکومت بھی اس کو دوبارہ عطا فرما دی تو دانیال اور اس کے ساتھیوں نے اس کی بڑی عزت و تعظیم کی ، مجوسیوں کو اس بات پر حسد ہوا ، انہوں نے بخت نصر سے کہا دانیال شراب پی لیتا ہے تو پیشاب ضرو ر کرتا ہے۔ یہ بات ان لوگوں کی سوسائٹی میں بہت بری مانی جاتی تھی ۔ اس پر بخت نصر نے حضرت دانیال اور ان کے ساتھیوں کو کھانا اور شراب بھیجی اور دربانوں سے کہہ دیا ، دیکھو جو شخص پیشاب کے لیے سب سے پہلے نکل کر جائے اس کو تیر سے مارنا خواہ وہ یہ بھی کہے کہ میں بخت نصرہوں تب بھی تم یقین نہ کرنا اور ضرور مارنا اور کہہ دینا کہ تو بخت نصر نہیں جھوٹا ہے۔ بخت نصر نے تو ہم کو حکم دے رکھا ہے کہ جو شخص باہر نکلے اس کو مارنا ( اتفاق کی بات ہے کہ) سب سے پہلے پیشاب کے لیے بخت نصر ہی گیا اور دربان نے اس پر حملہ کردیا ، بخت نصر نے ہرچند کہا میں بخت نصر ہوں مگر دربان نے اس کو جھوٹا قرار دیا اور مارتے مارتے مار ہی ڈالا۔ ارباب تاریخ کے نزدیک حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کے قتل کے بعد بخت نصر کا بنی اسرائیل پر چڑھائی کرنا ثابت نہیں بلکہ اہل تاریخ اس امر پر متفق ہیں کہ بنی اسرائیل نے جب حضرت شعیاء کو قتل کردیا تو اس کے بعد بخت نصر نے حضرت ارمیا (علیہ السلام) کے زمانہ میں بنی اسرائیل کو قتل و غارت کیا ۔ حضرت ارمیا (علیہ السلام) ولادت یحییٰ بن زکریا (علیہ السلام) کے درمیان چار سوا کسٹھ برس کا فصل ہے۔ بہمن بن اسفند یار ( شاہ ایران) کی طرف سے کیرش بن اخشورش بن اصبہبد بابل کا نواب تھا، اس کے زمانے میں ہی دوبارہ بیت المقدس کی تعمیر ہوئی ۔ یہ وہ وقت تھا جب بخت نصر کے ہاتھوں سے بیت المقدس کو برباد ہوئے ستر سال گزر چکے تھے۔ پھر تعمیربیت المقدس سے اٹھاسی سال بعد سکندر نے بیت المقدس پر تسلط کیا اور عہد سکندر سے تین سوتریسٹھ سال بعد حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی پیدائش ہوئی ( اس حساب سے تو بخت نصر کے ہاتھوں سے جو تخریب ہوئی اس سے 521 برس بعد حضرت یحییٰ (علیہ السلام) کی ولادت ہوئی ، 461 کی میزان مذکورہ تفصیل کے لحاظ سے غلط ہے، مترجم) بغوی نے لکھا ہے صحیح وہی ہے جو ابن اسحاق نے بیان کیا ہے۔ 4۔” وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتاب “ ہم نے ان کو اس بات کی خبر دی جو ہم نے ان کو دیا یعنی کتاب کہ وہ زمین پر فساد برپا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا اس بارے میں فیصلہ کرنا ان کے فساد اور فتنہ برپا کرنے کی وجہ سے ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ” وقضیٰ ربک “ اور ہم نے ان کو حاکم بنایا اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا ” ان ربک یقضی بینھم “ تمہیں پیدا کرنے کا۔” فقضاھن سبع سموات “ ابن عباس ؓ اور قتادہ کا قول ہے ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا ہے۔ الی بمعنی علی کے ہوگا ۔ یہاں کتاب سے مراد لوح محفوظ ہے۔ ” لتفسدن “ لام قسم عبارت یہ ہوئی ” واللہ لتفسدن “ ۔۔۔۔ ” فی الارض مرتین “ اس سے مراد معاصی ہے ۔ ارض سے مراد شام کی سر زمین اور بیت المقدس ہے۔” ولتعلن “ اللہ کی اطاعت سے سرکشی کرنا اور لوگوں پر ظلم کرنا ۔ ” علوا ً کبیرا “۔
Top