Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے کتاب میں (یعنی توراۃ میں) بنی اسرائیل کو اس فیصلہ کی خبر دے دی تھی کہ تم ضرور ملک میں دو مرتبہ خرابی پھیلاؤ گے اور بڑی ہی (زبردست) سرکشی کرو گے
6۔ قضینا اے اعلمنا واخبرنا (قرطبی) فرمایا ہم نے بنی اسرائیل کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ ان مناجات بےپایاں پر سجدہ ریز ہونے کے بجائے تم شر و فساد کی راہ اختیار کرو گے اور تم کو اس کی پاداش میں دردناک عذاب میں مبتلا کردیا جائے گا اور جس طرح آج ہم ایک قوم کو تمہاری آنکھوں کے سامنے عذاب دے رہے ہیں بالکل دوسروں کی آنکھوں کے سامنے تم بھی اپنے کئے کی سزا پاؤ گے گوش ہوش سے سن لو اور یاد رکھو کہ ہم سارے مفسدوں کو ایک ہی طرح کسی نہ کسی سزا میں مبتلا کردیتے ہیں اور اس طرح اس وقت بنی اسرائیل کا ذکر کرکے قوم مسلم کی متنبہ کیا جا رہا ہے کہ اللہ کی سنت کبھی بدلا نہیں کرتی ، آنکھوں سے دیکھ لو کہ آج اگر بنی اسرائیل عذاب الہی کی زد میں ہیں تو اپنے اعمال کے نتیجہ میں ہیں اور کل اگر تم نے وہی کام کئے جو وہ کر رہے ہیں تو تمہارے ساتھ بھی وہ کچھ ہوگا اور آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ قوم مسلم کی وہی حالت ہو رہی ہے جو اس وقت قوم بنی اسرائیل کی تھی ۔ قرآن کریم کے اس معجزانہ کلام پر غور کرو کہ جس بات کی بنی اسرائیل کو اطلاع دی فی الواقعہ وہ بیانات آج بھی تورات میں موجود ہیں اور جو بات مسلمانوں کو سمجھائی گئی اس بات میں آج مسلمان من حیث القوم مبتلا ہیں اور جن وجوہ کے باعث بیت المقدس کی پاسبانی یہود کے ہاتھ سے لے کر قوم مسلم کے ہاتھ میں دی گئی تھی آج انہیں وجوہات کے باعث بیت المقدس کی پاسبانی واپس لوٹائی جا رہی ہے اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ بڑے پر فریب انداز سے بیت اللہ کی پاسبانی سے مسلمانوں کو ہٹانے کی کوششیں جاری ہیں لیکن مسلمان ہیں کہ وہ من حیث القوم ایسی گہری نیند میں مبتلا ہیں کہ ان مکاریوں اور فریب کاریوں کی بھنک بھی ان کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی ہم اللہ ملتجی ہیں کہ اے اللہ ! اے ہمارے رب ! قوم مسلم کے ان شاہوں اور مملکتوں کے سربراہوں کو اس گہری نیند سے جگا دے اور ان سب کو عقل وفکر سے کام لینے کی توفیق عطا فرما اور ان کی مدد کے لئے کوئی غیبی طاقت نازل فرما۔ اب تورات میں اس قرآنی دعوے میں سے چند ایک کو بگوش ہوش سن لو اور عبرت حاصل کرو ، موسیٰ (علیہ السلام) احکام شریعت کی تبلیغ اور ان پر عمل پیرا ہونے کی تاکید کرنے کے بعد قوم سے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر تم نے سرکشی کی اور میری حکم عدولی کی تو تم پر سکت عذاب آئے گا چناچہ تورات میں ہے کہ : ” اگر تم ان سب باتوں پر بھی میری نہ سنو اور میرے خلاف ہی چلتے رہو تو میں اپنے غضب سے تمہارے برخلاف چلوں گا اور تمہارے گناہوں کے باعث تم کو سات گنی سزا بھی دوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ اور میں تمہاری پرستش کے بلند مقاموں کو ڈھا دوں گا اور تمہاری سورج کی مورتوں کو کاٹ ڈالوں گا اور تمہاری لاشیں تمہارے شکستہ بتوں پر ڈال دوں گا اور میں تمہارے شہروں کو ویران کر ڈالوں گا اور تمہارے مقدسوں کو اجاڑ بنا دوں گا ۔ “ (احبار 26 : 27 تا 31) ” اور جو تم میں سے بچ جائیں گے اور دشمن کے ملکوں میں ہوں گے ان کے دل کے اندر میں بےہمتی پیدا کر دوں گا اور اور اڑتی ہوئی پتی کی آواز ان کو کھدیڑے گی اور وہ ایسے جاگیں گے جیسے کوئی تلوار سے بھاگتاہو اور حالانکہ کوئی پیچھا بھی نہ کرتا ہوگا تو بھی وہ گر پڑیں گے اور وہ تلوار کے خوف سے ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا جائیں گے باوجود اس کے کوئی کھلا پڑتا نہ ہوگا اور تم کو اپنے دشمنوں کے مقابلہ کی تاب نہ ہوگی اور تم غیر قوموں کے درمیان پراگندہ ہو کر ہلاک ہوجاؤ گے اور تمہارے دشمنوں کی زمین تم کو کھا جائے گی اور تم میں سے جو باقی بچیں گے وہ اپنی بدکاری کے سبب ہلاک ہو جاؤگے اور تمہارے دشمنوں کے ملکوں میں گھلتے رہیں گے اور اپنے باپ دادا کی بدکاری کے سبب سے بھی اور انہی کی طرح گھلتے جائیں گے ۔ “ (احبار 46 : 37 تا 40) ” خداوند دور سے بلکہ زمین کے کنارے سے ایک قوم کو تجھ پر چڑھا لائے گا جیسے عقاب ٹوٹ کر آتا ہے اس قوم کی زبان کو تو نہیں سمجھے گا اس قوم کے لوگ ترش رو ہو گے جو نہ بڈھوں کا لحاظ کریں گے نہ نوجوانوں پر ترس کھائیں گے اور وہ تیرے چوپایوں کے بچوں اور تیری زمین کی پیداوار کو کھاتے رہیں گے ۔ “ (استثناء 28 : 49 ‘ 50) ایک جگہ ان کے نافرمان ہونے کی پیش گوئی اس طرح کی گئی : ” تم اپنے قبیلے کے سب بزرگوں اور منصب داروں کو میرے پاس جمع کرو تاکہ میں یہ باتیں ان کانوں میں ڈال دوں اور آسمانوں اور زمین کو ان کے خلاف گواہ بناؤں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد تم اپنے کو بگاڑ لو گے اور اس طریق کو جس کا میں نے تم کو حکم دیا ہے پھر جاؤ گے ۔ “ (استثناء 31 : 28 تا 29) ” اور تم یہ گیت اپنے لئے لکھ لو اور تو اسے بنی اسرائیل کو سکھانا اور ان کو حفظ کرا دینا تاکہ یہ گیت بنی اسرائیل کے خلاف میرا گواہ رہے اس لئے کہ جب میں ان کو اس ملک میں جس کی قسم میں نے ان کے باپ دادا سے کھائی اور جہاں دودھ اور شہد بہتا ہے پہنچا دوں گا اور وہ خوب کھا کھا کر موٹے ہوجائیں گے تب وہ اور معبودوں کی طرف پھرجائیں گے اور انکی عبادت کریں گے اور مجھے حقیر جانیں گے اور میرے عہد کو توڑ ڈالیں گے ۔ “ (استثناء 31 : 20 تا 21) یہ باتیں تو خود موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم بنی اسرائیل سے کہیں لیکن موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد جتنے نبی بھی آئے انہوں نے بڑے اثر انگیز پیرایہ میں انہیں آنے والے عذاب سے ڈرایا کبھی حضرت یسعیاعلیہ السلام کے صحیفہ کو دیکھنے کا اتفاق ہو تو بھی اور اگر حضرت یرسیاہ نبی کے صحیفہ پر نظر پڑے تو بھی اس درد وسوز کے گیت آپ کو نظر آئیں گے بلکہ جوں جوں زمانہ قریب آتا گیا ان کے سچے رہنما بےچین اور مضطرب ہوتے گئے ان کے بیانات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ اس خوف ناک ہلاکت و بربادی کا وقت قریب آپہنچا ہے ۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا لیکن قوم بنی اسرائیل کو جو کچھ کہا گیا وہ عبرت کا باعث ہے خصوصا باب 106 آیت 34 تا 41 تورات میں ایک جگہ اس طرح بیان ہے کہ ” سن اے آسمان اور کان لگا اے زمین ! کہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ میں نے لڑکوں کو پالا اور پوسا پر انہوں نے مجھ سے سرکشی کی ۔ بیل اپنے مالک کو پہچانتا ہے اور گدھا اپنے صاحب کی چرنی کو لیکن بنی اسرائیل نہیں جانتے ، میرے لوگ کچھ نہیں سوچتے ، آہ خطا کار گروہ ۔ بدکرداری سے لدی ہوئی قوم ‘ بدکرداروں کی نسل ، مکار اولاد جنہوں نے خداوند کو ترک کیا ، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ وبرگشتہ ہوگئے۔ “ (یسعیاہ باب اول : 2 تا 5) ” وفادار بستی کیسی بدکار ہوگئی ! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راست بازی اس میں بستی تھی لیکن اب خونی رہتے ہیں ، تیری چاندی میلی ہوگئی ، تیری قے میں پانی مل گیا ، تیرے سردار گردن کش اور چوروں کے ساتھی ہیں ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام کا طالب ہے ۔ وہ یتیموں کا انصاف نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی ۔ “ (یسعیاہ باب اول : 21 تا 23) یہ قوم بنی اسرائیل کے لوگوں کے اس وقت کے حالات بیان کئے گئے ہیں جب ابھی نبی اعظم وآخر ﷺ کی بعثت بھی نہیں ہوئی تھی اس کے بعد بنی اسرائیل پر عذاب پر عذاب آیا اور پوری قوم کو اس نے تہ وبالا کر کے رکھ دیا لیکن ذرا غور کرو کہ آج اتنی بڑی مدت کے بعد قوم مسلم کے افراد کا کیا حال ہے کیا وہی کچھ آج وہ نہیں کر رہے جو اس وقت قوم بنی اسرائیل کے لوگ کر رہے تھے اگر جواب ہاں میں ہو تو اس بات پر غور کرو کہ آج ہماری قومی پستی کا کیا حال ہے ؟ اور ہمارے مذہبی رہنما اور سیاسی لیڈر کیا کر رہے ہیں ؟ بنی اسرائیل کی اس وقت کی حالت دکھانے کے لئے ہم مزید کوشش کرتے ہیں آپ تورات کے حوالہ جات سمجھ کر ناک بھوں نہ چڑھا دیں کہ اہل حدیث کہلا کر کن حوالہ جات پر اکتفا کرلیا بلکہ بنی اسرائیل کی اس وقت کی حالت کے ساتھ اپنی آج کی قوم مسلم کا موازنہ کرتے جائیے اور جو کچھ سمجھ میں آئے اس کو سمجھ لینے کے بعد اگر چاہیں تو ہماری گوشمالی کرلیں کہ یہ ہم نے کیا غضب ڈھایا تورات واناجیل کے حوالے دینے شروع کردیئے ۔ ” اے یعقوب کے گھرانے آؤ ہم خداوند کی روشنی میں چلیں تو نے اپنے لوگوں یعنی یعقوب کے گھرانے کو ترک اس لئے کہ وہ اہل مشرق کی رسوم سے پر ہیں اور فلسفیوں کی مانند شگون لیتے اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں اور ان کا ملک سونے چاندی سے مالا مال ہے اور ان کے خزانوں کی کچھ انتہا نہیں اور ان کا ملک گھوڑوں سے بھرا ہوا ہے اور ان کے رقبوں کا کچھ شمار نہیں اور ان کی سرزمین بتوں سے بھی پر ہے وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاری گری کو سجدہ کرتے ہیں۔ اسی سبب سے چھوٹا آدمی پست کیا جاتا ہے اور بڑا آدمی ذلیل ہوتا ہے اور تو ان کو ہرگز معاف نہیں کرے گا ۔ “ (یسعیاہ : 2 : 5 تا 10) ” کیونکہ یہ باغی لوگ اور جھوٹے فرزند ہیں جو خداوند کی شریعت کو سننے سے انکار کرتے ہیں ، جو غیب بینوں سے کہتے ہیں غیب بنی نہ کرو اور نبیوں سے کہ ہم پر سچی نبوتیں ظاہر نہ کرو ۔ ہم کو خوشگوار باتیں سناؤ اور ہم سے جھوٹی نبوت کرو ۔ راہ سے باہر جاؤ ، راستہ سے برگشتہ ہو اور اسرائیل کے قدوس کو ہمارے درمیان سے موقوف کرو ، پس اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے چونکہ تم اس کلام کو حقیر جانتے اور ظلم اور کج روی پر بھروسہ رکھتے اور اس پر قائم ہو اس لئے یہ بدکرداری تمہارے لئے ایسی ہوگی جیسے پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے ۔ “ (یسعیاہ 30 : 9 تا 13) ان اقتباسات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضھ اور عیاں ہے کہ مرور وقت کے ساتھ بنی اسرائیل نے شریعت موسوی سے اپنا رشتہ بالکل منقطع کرلیا تھا اور اس کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا تھا وہ بنی اسرائیل کہلاتے تھے اور شریعت موسوی کے دعویدار تھے لیکن احکام الہی کی پابندی ‘ اخلاق کی بلندی ‘ معاملات میں دیانت وصداقت جس کی تعلیم کلیم اللہ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہی دی تھی اور سب سے بڑھ کر اہم عقیدہ توحید جو سارے انبیاء کرام (علیہم السلام) کی بعثت کا مقصد اولین تھا ان تمام امور کو انہوں نے یکسر فراموش کردیا تھا اس کا اصل سبب کیا تھا ؟ قوم بنی اسرائیل کے مذہبی راہنما جنہوں نے اپنے پیٹ کی خاطر سارے کا سارا دین بدل کر رکھ دیا اور اخروی نجات کے خود ٹھیکہ دار بن گئے دین میں انہوں نے ایسی ایسی رسومات جاری کردیں جن کی بجا آوری کا نام مذہب رکھ دیا اور آہستہ آہستہ ان شیرازہ بکھرتا ہی گیا ۔
Top