Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
پھر ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر بھی متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھائو گے۔
وقضینا الی بنی اسرائیل فی الکتب لتفسدون فی الارض مرتین ولتعلن علوا کبیرا (71 : 4) ” پھر ہم اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر بھی متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھائو گے “۔ یہ تنبیہ ان کو دراصل اس بات کی پیشگی اطلاع تھی کہ تمہارے ساتھ یہ یہ ہونے والا ہے۔ کیونکہ اللہ ان کے ہونے والے انجام سے پیشگی باخبر تھا۔ یہ اطلاع محض پیشگی علم کی وجہ سے تھی۔ اس میں ان کے لئے جبر کا کوئی پہلو نہ تھا۔ یا یہ کہ ان کے اندر جو فساد بعد میں پیدا ہوا ، وہ محض اس پیشگی اطلاع کی وجہ سے پیدا ہوا ، کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کسی کو فساد پر مجبور کرے۔ قل ان اللہ لا یا مر بالفحشاء ” کہہ دو ، اللہ فحاشی پھیلانے کا حکم نہیں دیتا “۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ جانتا ہے کہ وہ کیا کرنے والے تھے۔ اللہ کے علم میں جو بات ہوتی ہے ، اگرچہ بشر کو اس کا علم نہیں ہوتا اور پردہ تب اٹھتا ہے جو بشر اس کام کو کر بیٹھتا ہے۔ اللہ کا فیصلہ یہ تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب میں بتا بھی دیا تھا کہ بنی اسرائیل اپنی تاریخ میں دو مرتبہ فساد برپا کریں گے۔ اور اس طرح وہ زمین میں سرکشی اختیار کرلیں گے۔ بیت المقدس پر ان کا غلبہ ہوگا۔ لیکن اپنے اس غلبے کو دوہ ذریعہ فساد بتائیں گے۔ جن لوگوں پر ان کو برتری حاصل ہوگی ان کی جان اور آبرو کے نزدیک مباح ہوجائے گی اور یہ لوگوں کو تباہ کردیں گے۔
Top