Baseerat-e-Quran - An-Nahl : 111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
يَوْمَ : جس دن تَاْتِيْ : آئے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص تُجَادِلُ : جھگڑا کرتا عَنْ : سے نَّفْسِهَا : اپنی طرف وَتُوَفّٰى : اور پورا دیا جائیگا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کیا وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
(یاد کرو) وہ دن جب ہر شخص اپنی ہی طرف سے (اپنی طرف داری کرتے ہوئے) جھگڑتا آئے گا۔ ہر شخص کو اس کے اعمال کے سبب پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا
لغات القرآن آیت نمبر 111 تا 113 تاتی آئے گا۔ تجادل جھگڑتا ہے۔ توفی پورا دیا جائے گا۔ عملت عمل کیا۔ لایظلمون زیادتی نہ کیا جائے گا۔ ضرب اللہ اللہ نے بیان کیا۔ قریۃ بستی، شہر۔ کانت امنۃ مطمئن تھی۔ رغد سہولت سے، بافراغت۔ انعم اللہ اللہ کی نعمتیں۔ اذاق چکھایا۔ لباس الجوع بھوک کا لباس (بھوک مسلط ہوگئی) آ یصنعون وہ بناتے ہیں۔ کذبوا انہوں نے جھٹلایا۔ اخذ پکڑ لیا۔ تشریح : آیت نمبر 111 تا 113 قرآن کریم میں متعدد مقامات پر قیامت کے ہولناک دن کے متعلق بیان کرنے کے بعد یہ فرمایا ہے کہ اس دن کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔ ہر ایک طرح طرح کے عذر و معذرت پیش کر کے اپنی جان چھڑانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس دن ہر طرح کی معذرت کرنا بےکار ہوگی کیونکہ عمل کا وقت تو گذر گیا ہوگا۔ اب تو ہر ایک کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی۔ نہ عذاب میں کمی کی جائے گی اور نہ زیادتی کی جائے گی۔ سوائے اس کے کہ اللہ ہی کسی پر رحم فرما دے تو اور بات ہے ورنہ اللہ کے اصولوں کے مطابق ہر شخص کو اپنے کئے ہوئے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ جس نے اللہ کے دین اور نعمت کی قدر کی ہوگی اس دن وہ خوش اور مسرور ہوگا۔ لیکن جو اس دنیا میں اپنے گھر والوں اور بچوں میں تو بڑی خوشیاں مناتا ہوگا۔ اور اس کو فکر آخرت نہ ہوگی تو وہ اس دن بےچین اور بےقرار ہوگا ۔ اس آیت میں اشارہ اس طرف کیا گیا ہے کہ اس دن کے آنے سے پہلے ہی کفر و شرک سے توبہ کرلی جائے ورنہ جب وہ قیامت کا دن آجائے گا تو پھر عمل کا وقت نکل جائے گا۔ اس آیت کی مناسبت سے ایک پرسکون و اطمینان والی بستی کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے نافرمانی کی اور اللہ کی نعمت یعنی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی قدر نہ کی تو اللہ نے اسی دنیا میں دکھا دیا کہ ان پر سات سال تک اتنا شدید قحط پڑا کہ وہ گھاس پھونس، پتے اور غلاظت و گندگی تک کھانے پر مجبور ہوگئے۔ فرمایا کہ یہ تو دنیا میں نافرمانی کا نتیجہ ہے کہ کوئی کسی کو نہیں پوچھ رہا ہے۔ ابھی تو توبہ کرنے اور عمل کرنے کا وقت ہے لیکن جب نتیجہ کا وقت ہوگا۔ تو وہاں عمل کرنے کا موقع نہیں ملے گا۔ فرمایا کہ ایک ایسی بستی تھی جس میں امن، چین، سکون اور اطمینان تھا ہر طرف سے ہر طرح کا رزق پہنچ رہا تھا۔ کھانے پینے کی چیزوں کی کمی نہ تھی۔ لیکن امن و چین نے اس شہر کے لوگوں کو اس قدر مغرور اور متکبر بنا دیا تھا کہ وہ اللہ کو بالکل بھول گئے تھے اور انہوں نے ہر نصیحت کرنے والے کی ہر نصیحت کو برا محسوس کرنا شروع کردیا یہاں تک کہ اللہ کی سب سے بڑی نعمت انبیاء کرام ہیں ان کی بھی ناقدری کی گئی تو اللہ نے ان پر ایسا عذاب مسلط کیا جس نے ان کے اطمینان و سکون کو بےچینی، خوف اور ڈر سے تبدیل کردیا گیا۔ خوش حالی کی جگہ بھوک، قحط اور آپس کے جھگڑوں کا عذاب مسلط ہوگیا دشمن کے خوف، فقر و فاقہ اور بےسکونی کے ساتھ ساتھ قحط نے ان کی کمر دوہری کردی تھی۔ یہ کونسی بستی تھی اس کو متعین کر کے کچھ کہنا تو مشکل ہے۔ ہر ایک وہ بستی ہو سکتی ہے جہاں کے رہنے والوں نے اللہ کی نعمت کی ناشکری اور ناقدری کی جس کے نتیجے میں ان پر اللہ کا عذاب آیا۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن عباس کی روایت یہ ہے کہ اس آیت میں اگرچہ کسی بستی کا نام نہیں لیا گیا۔ لیکن نام لئے بغیر اس بستی سے مراد ” مکہ مکرمہ “ ہے اس صورت میں جس بھوک اور خوف کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد وہ قحط ہوگا۔ جو نبی کریم ﷺ کی بعثت کے وقت ایک مدت تک قحط کی شکل میں مکہ مکرمہ پر مسلط رہا۔ اس روایت کی تائید میں تفسیر مظہری کے مطابق یہ واقعہ بھی ہے کہ مکہ کے سرداروں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ کفر و نافرمانی تو ہم نے کی ہے۔ ہم قصور وار ہیں عورتیں اور بچے تو بےقصور ہیں۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ سے کھانے وغیرہ کا سامان بھجوایا۔ قرطبی میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ ابوسفیان نے بحالت کفر نبی کریم ﷺ سے درخواست کی کہ آپ تو صلہ رحمی اور عفو و درگزر کی تعلیم دیتے ہیں۔ آپ کی قوم (قحط سے) ہلاک ہوئی جا رہی ہے۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ یہ قحط ہم سے دور ہوجائے ۔ اس پر رسول اللہ نے ان کے لئے دعا فرمائی اور قحط دور ہوا۔ ان تمام حقائق و روایات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب نبی کریم ﷺ کفار مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرما گئے اور تمام صحابہ کرام بھی مدینہ منورہ پہنچ گئے تب مکہ مکرمہ میں مسلسل سات سال تک ایسا شدید قحط پڑا کہ لوگ کتے، بلی اور گندگی تک کھانے پر مجبور ہوگئے۔ جب قحط نہایت شدید ہوگیا جو ان کے برے اعمال اور نبی کریم ﷺ جیسی عظیم شخصیت و نعمت کی ناقدری کی وجہ سے ان پر مسلط کیا گیا تھا۔ اس وقت حضرت ابوسفیان جو اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے ان کی قیادت میں مکہ کا ایک وفد مدینہ منورہ آیا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کو ان حالات سے آگاہ کیا اور دعا کی درخواست کی تو آپ نے کفار مکہ کے سارے ظلم و ستم کو بھلا کر نہ صرف ان دشمنوں کے لئے بھلائی کی دعا کی بلکہ ان کی امداد بھی فرمائی۔ پیغمبر انسانیت حضرت محمد ﷺ کی سیرت کا یہ عظیم پہلو ہے کہ آپ کے سامنے جب بھی انسانوں کی ظاہری تکلیفوں کا ذکر کیا گیا تو آپ اپنے مخالفوں اور دشمنوں کے لئے بےچین ہوگئے اور آپ نے دشمنوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کر کے امت کے لئے یہ اسوہ حسنہ چھوڑا ہے کہ ایک مومن کو انسانیت کا سچا خادم ہونا چاہئے۔
Top