Madarik-ut-Tanzil - An-Nahl : 111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
يَوْمَ : جس دن تَاْتِيْ : آئے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص تُجَادِلُ : جھگڑا کرتا عَنْ : سے نَّفْسِهَا : اپنی طرف وَتُوَفّٰى : اور پورا دیا جائیگا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کیا وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
جس دن ہر متنفس اپنی طرف سے جھگڑا کرنے آئے گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کا نقصان نہیں کیا جائے گا۔
قیامت میں ہر ایک اپنی طرفداری کرے گا : 111: یَوْ مَ تَاْ تِیْ (جس دن آئے گا) ۔ : یہ رحیم کی وجہ سے منصوب ہے نمبر 2۔ اذکر محذوف کی وجہ سیکُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِھَا (ہر شخص وہ اپنی طرفداری میں بات کرے گا) یہاں نفس کی اضافت نفس کی طرف کی گئی ہے کیونکہ عین شئی کو ذاتہٖ ونفسہٖ کہہ دیتے ہیں۔ اور کہتے ہیں فی نقیضہٖ وغیرہ بولتے ہیں۔ والنفسؔ وہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے پورا اور کامل ہے۔ پس پہلا نفسؔ وہ بھی کامل اور دوسرا اس کا عین اور ذات۔ گویا اس طرح فرمایا۔ یوم تاتی کل انسان یجادل عن ذاتہٖ لایھمہ شان غیرہ کل یقول نفسی نفسی ہر انسان اپنے نفس کی طرفداری کریگا۔ دوسرے کی حالت کو کوئی اہمیت نہ دیگا اور ہر ایک یہ کہہ رہا ہوگا۔ مجھے بچا لے مجھے بچا لے۔ المجادلۃ عنہا ؔ کا مطلب نفس کی طرف سے معذرت خواہی ہے۔ جیسا کہ کہتے ہیں ربنا ھٰؤُلاء اضلُّونا ] الاعراف : 38[ دوسری آیت میں ربنا انا اطعنا سادتنا و کبراء نا ] الاحزاب : 67[ ایک اور مقام پر فرمایا واللّٰہ ربنا ماکنا مشرکین ] الانعام : 23[ وغیرہ آیات۔ وَتُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَھُمْ لَایُظْلَمُوْنَ (اور ہر نفس کو پورا پورا دیدیا جائے گا۔ جو اس نے عمل کیا اور ان پر ظلم نہ ہوگا) توفّٰیکا معنی ہے کہ اس کے عمل کی پوری پوری جزاء دی جائے گی۔ اور اس سلسلہ میں ان کے حق میں کمی نہ کی جائے گی۔
Top