Tafseer-e-Jalalain - An-Nahl : 111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
يَوْمَ : جس دن تَاْتِيْ : آئے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص تُجَادِلُ : جھگڑا کرتا عَنْ : سے نَّفْسِهَا : اپنی طرف وَتُوَفّٰى : اور پورا دیا جائیگا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کیا وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
جس دن ہر متنفس اپنی طرف سے جھگڑا کرنے آئے گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کا نقصان نہیں کیا جائے گا۔
آیت نمبر 111 تا 119 ترجمہ : اس دن کو یاد کرو جس دن ہر شخص اپنے ہی لئے دلیل و حجت کرتا ہوا آئیگا، اسے کسی دوسرے کا کچھ غم نہ ہوگا اور وہ قیامت کا دن ہوگا، اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائیگا اور ان پر مطلقًا ظلم نہ کیا جائیگا اور اللہ تعالیٰ ایک بستی والوں کی حالت عجیبہ بیان فرماتے ہیں قریۃً ، مثلاً سے بدل ہے (اور) وہ بستی مکہ ہے اور مراد مکہ کے رہنے والے ہیں، کہ وہ تاخت و تاراج سے مامون و مطمئن تھے کسی تنگی یا خوف کی وجہ سے ان کو وہاں سے منتقل ہونے کی ضرورت نہیں تھی اس بستی والوں کا رزق با فراغت ہر جگہ سے چلا آرہا تھا پھر انہوں نے آپ ﷺ کی تکذیب کرکے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بھوک کا محیط عذاب کہ سات سال تک قحط میں مبتلا کئے گئے اور آپ ﷺ کے سرایا کے خوف کا مزا چکھایا یہ سب کچھ ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ہوا، ان کے پاس انہی میں کا ایک رسول محمد ﷺ پہنچا، پھر بھی انہوں نے اسے جھٹلایا تو انھیں بھوک اور خوف کے عذاب نے آدبوچا، اور وہ تھے ہی ظالم اے ایمان والو اللہ نے جو تمہیں حلال طیب روزی دے رکھی ہے اس میں سے کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکرادا کرو اگر تم اسی کی بندگی کرتے ہو، تم پر صرف مرد اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا جائے حرام کیا گیا ہے پھر جو شخص (فاقہ کی وجہ سے) بالکل ہی بےقرار ہوجائے بشرطیکہ طالب لذت نہ ہو اور نہ (حد) ضرورت سے تجاوز کرنے والا ہو (تو ان کے اس کھانے کو) اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور کسی چیز کو جو تمہاری زبان سے نکلتا ہے جھوٹ موٹ نہ کہد یا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے اسلئے کہ اللہ نے نہ اس کو حلال کیا ہے اور نہ اس کو حرام کہ اس (حلت و حرمت) کی نسبت اس کی طرف کرکے اللہ پر بہتان بازی کرو، یقیناً وہ لوگ جو اللہ پر بہتان تراشی کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاتے ان کے لئے دنیا میں چند روزہ عیش ہے اور ان کے لئے آخرت میں دردناک عذاب ہے اور یہودیوں پر ہم نے وہ چیزیں حرام کردی تھیں جن کا بیان ہم آپ سے اس سے پہلے کرچکے ہیں ” وعلی الذین ھادوا حرّمنا کل ذی ظفر “ (الی آخر الآیۃ) میں یعنی ہم نے یہودیوں پر ہر ناخون والے جانور کو حرام کردیا تھا، ان چیزوں کو حرام کرکے ہم نے ان پر ظلم کیا بلکہ ان معاصی کا ارتکاب کرکے جو اس سزا کی موجب تھیں خود ہی انہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا، پھر آپ کا رب ایسے لوگوں کے لئے جنہوں نے نادانی کی وجہ سے شرک کیا پھر انہوں نے اس کے بعد توبہ کرلی اور اپنے اعمال کی اصلاح کرلی تو آپ کا رب (ان کی) جہالت یا توبہ کے بعد بڑی مغفرت والا اور بڑی رحمت والا ہے۔ تحقیق و ترکیب وتسہیل وتفسیری فوائد قولہ : تحاجُّ ، تجادل کا صلہ چونکہ عن نہیں آتا اسلئے مفسر علام نے اشارہ کردیا کہ تجادلُ ، تحاجّ کے معنی میں ہے۔ قولہ : لا یھمُّھا غیر ھا، یعنی کسی کو کسی کا کوئی غم نہ ہوگا، بلکہ ہر شخص نفسی نفسی پکاررہا ہوگا۔ قولہ : جزاء اسمیں حذف مضاف کیطرف اشارہ ہے اسلئے کہ توفی عمل کے کوئی معنی نہیں ہیں چونکہ اعراض کا انتقال نہیں ہوا کرتا قولہ : لاتھاج، یہ اَھَاجَ الغبارَ سے ماخوذ ہے یعنی غبار اڑایا، (اور فارسی میں) بمعنی تاراج شد۔ قولہ : لباس الجوع، بھوک اور خوف کو لباس کے ساتھ تشبیہ دی ہے، دونوں میں وجہ تشبیہ یہ ہے کہ جس طرح بھوک اور خوف جسم انسانی کو چاروں طرف سے گھیر لیتا ہے اس لئے کہ ان دونوں کا اثر پورے جسم پر ہوتا ہے اسی طرح لباس بھی پورے جسم کو گھیر لیتا ہے اسی وجہ سے بھوک اور خوف کے اثر کو لباس سے تشبیہ دی ہے، ادراک کو چکھنے سے اس لئے تعبیر کیا ہے کہ چکھنے سے بھی بعض چیزوں کا ادراک ہوتا ہے۔ قولہ : لو صفِ السنتکم اس میں اشارہ ہے کہ لما تصف میں ما، مصدریہ ہے۔ قولہ : الکذبَ ، لا تقولوا کی وجہ سے منصوب ہے۔ قولہ : ھذا حلال و ھذا حرام یہ الکذب سے بدل ہے۔ قولہ : لَھُمْ ، متاعٌ، متاعٌ قلیل مبتداء مؤخر اور لھم مقدم ہے۔ سوال : یوم تاتی کل نفسٍ تجادل عن نفسھا، یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عن نفسِھا میں نفس کی اضافت نفس کیجانب ہورہی ہے حالانکہ مضاف اور مصاف الیہ کے درمیان تغایر ضروری ہے ورنہ تو اضافۃ الشئ الی نفسہ لازم آئے گی۔ جواب : اول نفس سے پورا جسم انسانی مراد ہے اور ثانی نفس سے ذات عبارت ہے کل انسانٍ یجادل عن ذاتِہٖ ولا یھم غیرھا، مجادلۃ کے معنی عذر خواہی کے ہیں۔ تفسیر وتشریح یوم۔۔۔ نفسھا، یعنی ہر شخص اپنی فکر میں ہوگا اس وقت نہ کوئی کسی کی حمایت کرے گا اور نہ سفارش بلکہ آپس میں تعارف اور جان پہچان اور نسبی و صہری رشتہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے بھاگیں گے، بھائی بھائی سے، بیٹے ماں باپ سے، شوہر بیوی سے بھاگے گا کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہوگا، اور لکلٌ امریٌ منھم یومئذٍ شان یغنیہ ہر شخص کو اس دن اپنی پڑی ہوگی، وَضَرَبَ اللہ مثلا قریۃ الخ اکثر مریں اس قریہ سے مراد مکہ لیا ہے یعنی اس میں اہل مکہ کا حال بیان کیا گیا ہے اور یہ اس وقت ہوا جب اللہ کے رسول نے ان کے لئے یہ بددعا فرمائی اللھُمَّ اشددُ وطأتکَ علی مُضَرَ واجعلھا علیھم سنین کسنی یوسفَ ، (بخاری شریف) اے اللہ مضر قبیلہ پر اپنی سخت گرفت فرما اور ان پر اس طرح قحط سالی مسلط فرما جس طرح حضرت یوسف علیہ الصلاۃ السلام کے زمانہ میں ہوئی تھی، چناچہ اللہ نے مکہ کے امن کو خوف سے اور خوشحالی کو بھوک سے بدل دیا حتی کہ اس کا یہ حال ہوگیا کہ ہڈیاں، درختوں کے پتے کھانے پڑے اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ غیر معین بستی ہے اور تمثیل کے طور پر یہ بات بیان کی گئی ہے کہ کفران نعمت کرنے والوں کا یہ حال ہوگا جہاں بھی ہوں، نزول کا سبب اگر خاص بھی ہو تب بھی جمہور مفسرین کو عموم سے انکار نہیں، العبرۃُ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب . انما۔۔۔ بہ الخ یہ آیت اس سے پہلے تین مرتبہ گذر چکی ہے، سورة بقرہ میں، سورة انعام میں، سورة مائدہ میں، یہ چوتھا مقام ہے اس میں لفظ اِنّما حصر کے لئے ہے لیکن یہ حصر حقیقی نہیں بلکہ اضافی ہے یعنی مخاطبین کے عقیدے اور خیال کے مطابق حصر لایا گیا ہے ورنہ دوسرے جانور اور درندے وغیرہ بھی حرام ہیں، البتہ ان آیات سے واضح ہے کہ ان میں چار محرمات کا ذکر ہے ان سے مسلمانوں کو نہایت تاکید کے ساتھ بچانا چاہتا ہے۔ وما۔۔۔ بہ، جو جانور غیر اللہ کے نام زد کردیا جائے۔ اس کی مختلف صوتیں ہیں ایک صورت یہ ہے کہ غیر اللہ کے تقریب اور اس کی خوشنودی کے لئے اسے ذبح کیا جائے اور بوقت ذبح اسی غیر اللہ کا نام لیا جائے جس کی خوشنودی حاصل کرنا مقصود ہے دوسری صورت یہ ہے کہ مقصود تو غیر اللہ کا تقریب ہی ہو لیکن ذبح اللہ کے نام پر ہی کیا جائے جیسا کہ بعض جاہل، جانور کو بزرگوں کے لئے نام زد کرتے ہیں مثلاً یہ کہ یہ فلاں پیر کا بکرا گیارہوں شریف کا ہے وغیرہ وغیرہ اور ان کو وہ بسم اللہ پڑھ کر ہی ذبح کرتے ہیں، اس لئے وہ کہتے ہیں کہ پہلی صورت تو یقیناً حرام ہے لیکن یہ دوسری صورت حرام نہیں ہے بلکہ جائز ہے کیونکہ یہ غیر اللہ کے نام پر ذبح نہیں کیا گیا، حالانکہ دفقہاء نے اس صورت کو بھی حرام قرار دیا ہے، اس لئے کہ یہ ” مااُھِلَّ لغیر اللہ بہ “ میں داخل ہے چناچہ حاشیہ بیضاوی میں ہے، ہر وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے حرام ہے اگرچہ ذبح کرتے وقت اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو، اس لئے کہ علماء کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی مسلمان غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی غرض سے جانور ذبح کرے گا تو وہ مرتد ہوجائیگا، اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ ہوگا درمحتار میں ہے کسی حاکم یا کسی بڑے کی آمد پر (حسن خلق یا شرعی ضیافت کی نیت سے نہیں بلکہ اس کی رضا مندی اور اس کی تعظیم کے طور پر) جانور ذبح کیا جائے تو وہ حرام ہوگا، اس لئے وہ ” ما اھل لغیر اللہ بہ “ میں داخل ہے اگرچہ بوقت ذبح اس پر اللہ ہی کا نام لیا گیا ہو، اور علامہ شامی نے اس کی تائید کی ہے (کتاب الذبائح) ، البتہ بعض فقہاء اس دوسری صورت کو ” وما اُھِلّ لغیر اللہ بہ “ کا مدلول نہیں مانتے اور اشتراک علت (تقرب بغیر اللہ) کی وجہ سے اسے حرام سمجھتے ہیں گویا حرمت میں کوئی اختلاف نہیں صرف استدلال کی طریقہ میں اختلاف ہے باقی تفصیل سورة مائدہ میں ” وَمَا ذبح علی النصب “ کے تحت ملا حظہ فرمائیں
Top