Al-Qurtubi - An-Nahl : 111
یَوْمَ تَاْتِیْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا وَ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
يَوْمَ : جس دن تَاْتِيْ : آئے گا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص تُجَادِلُ : جھگڑا کرتا عَنْ : سے نَّفْسِهَا : اپنی طرف وَتُوَفّٰى : اور پورا دیا جائیگا كُلُّ : ہر نَفْسٍ : شخص مَّا : جو عَمِلَتْ : اس نے کیا وَهُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
جس دن ہر متنفس اپنی طرف سے جھگڑا کرنے آئے گا اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور کسی کا نقصان نہیں کیا جائے گا۔
آیت نمبر 111 قولہ تعالیٰ : یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا یعنی اس بارے میں بیشک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے یا ذکرھم یوم تاتی کل نفس تجادل عن نفسھا یعنی انہیں یاد دلاؤ اس دن کی جب ہر نفس صرف اپنے متعلق جھگڑا کرتے ہوئے آئے گا۔ حدیث میں آیا ہے کہ ہر کوئی قیامت کے دن کہے گا : فنسی نفسی (ہائے میری جان، ہائے میری جان) اور یہ قیامت کے دن کی ہولناکی کی شدت کی وجہ سے ہوگا، سوائے حضور نبی رحمت محمد مصطفیٰ ﷺ کے کیونکہ آپ تو اپنی امت کے بارے التجا کر رہے ہوں گے۔ اور حضرت عمر ؓ کی حدیث میں ہے کہ آپ نے حضرت کعب الاحبار ؓ کو فرمایا : اے کعب ! ہمیں ڈرائیے، ہمیں جوش دلائیے، ہمیں کچھ بیان کیجئے، ہمیں متنبہ کیجئے۔ تو حضرت کعب ؓ نے انہیں کہا : اے امیر المومنین ! قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر تم نے قیامت کے دن ستر انبیاء (علیہم السلام) کے عمل کی مثل بھی اجر پالیا تو پھر بھی تم پر کچھ مراحل ایسے آئیں گے جن میں تمہارے نفس کے سوا کوئی شی تمہیں پریشان اور بےچین نہیں کرے گی، اور بیشک جہنم ایک سانس نکالے گی اور کوئی مقرب فرشتہ اور کوئی منتخب نبی باقی نہیں رہے گا مگر وہ اپنے گھٹنوں کے بل گر پڑے گا، یہاں تک کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) اپنی خلت کا واسطہ دے کہ عرض کریں گے : اے میرے رب ! بیشک میں تیرا خلیل ابراہیم ہوں، میں آج کے دن سوائے اپنے نفس کے تیری بارگاہ میں کسی کی التجا نہیں کرتا ! حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اے کعب ! کتاب اللہ میں تو اسے کہاں پاتا ہے ؟ تو انہوں نے کہا : ارشاد باری تعالیٰ ہے : یوم تاتی کل نفس۔۔۔۔۔ وھم لا یظلمون اور حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت کے تحت فرمایا ہے : قیامت کے دن لوگوں کے ساتھ خصومت اور جھگڑا مسلسل رہے گا یہاں تک کہ روح اور جسم بھی آپس میں جھگڑنے لگیں گے، پس روح کہے گی : اے میرے پروردگار ! روح تجھ سے ہے تو نے اسے پیدا فرمایا ہے، میرا کوئی ہاتھ نہیں جس کے ساتھ میں پکڑ سکتی ہوں، میرا کوئی پاؤں نہیں جن کے ساتھ کچھ سمجھ سکتی ہوں، یہاں تک کہ میں آئی اور اس جسم میں داخل ہوگئی پس اس پر مختلف انواع کے عذاب کو دوگنا کر دے اور مجھے نجات عطا فرما دے ؛ اور جسم کہے گا : اے میرے رب ! تو نے مجھے اپنے دست قدرت سے تخلیق فرمایا ہے تو میں لکڑی کی مثل تھا، میرے لئے ہاتھ نہیں تھا جس کے ساتھ میں پکڑ سکتا، پاؤں نہیں تھے جن کے ساتھ دوڑ سکتا، آنکھیں نہ تھیں کہ ان کے ساتھ دیکھ سکتا، کان نہیں تھے کہ ان کے ساتھ سن سکتا پس یہ (روح) آئی نور کی شعاع کی مثل، پس اس کے سبب میری زبان بولنے لگی، اس کے ساتھ میری آنکھ دیکھنے لگی، اس کے ساتھ میرے پاؤں چلنے لگے اور اس کے ساتھ میرے کان سننے لگے، پس اس پر طرح طرح کے عذاب کو دوگنا کر دے اور مجھے اس سے نجات عطا فرما دے۔ راوی نے بیان کیا : پس اللہ تعالیٰ ان دونوں کیلئے ایک مثال بیان فرمائے گا کہ ایک نابینا اور ایک اپاہج آدمی دونوں ایک ایسے باغ میں داخل ہوئے جس میں طرح طرح کے پھل ہیں، پس اندھا پھل کو دیکھ نہیں سکتا اور اپاہج اسے پا نہیں سکتا، پھر اپاہج نے اندھے کو بلایا : میرے پاس آؤ اور مجھے اوپر اٹھاؤ میں خود بھی کھاؤں گا اور تجھے بھی کھلاؤں گا، پس وہ اس کے قریب آیا اور اسے اوپر اٹھا لیا، اور وہ پھل تک پہنچ گئے اور اسے پالیا، پس اب عذاب اور سزا کس پر ہوگی ؟ وہ دونوں کہیں گے : دونوں پر عذاب ہوگا تو رب کریم فرمائے گا : تو تم دونوں پر اکٹھا عذاب ہے ؛ اسے ثعلبی (رح) نے ذکر کیا ہے۔
Top