Tafseer-e-Haqqani - Al-A'raaf : 80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : جب قَالَ : کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ : کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو) مَا سَبَقَكُمْ : جو تم سے پہلے نہیں کی بِهَا : ایسی مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور لوط کو بھیجا جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا تم کیا وہ بےحیائی کا کام کرتے ہو کہ جس کو تم سے پہلے جہان بھر میں کسی نے نہیں کیا۔
ترکیب : اذ قال اس کا فاعل اذکر محذوف ما سبقکم جملہ حال ہے الفاحشۃ سے شہوۃ مفعول لہ ہے لتاتون کا یا مصدر موضع حال میں ہے۔ من دون النساء موضع حال میں ہے اے منفردین عن النسائ۔ بل اس جگہ ایک بیان سے دوسرے بیان کی طرف متوجہ ہونے کے لئے یا محذوف سے اضراب ہے ای ما عدلتم بل انتم مسرفون۔ جواب منصوب اس کا بیان آل عمران میں آچکا۔ تفسیر : حضرت لوط (علیہ السلام) کا تذکرہ : چوتھا قصہ حضرت لوط (علیہ السلام) کا ہے جو اپنے چچا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ حران میں آرہے تھے کہ کسدیوں کے ملک سے جو بابل میں تھا ٗ ان کے والد حاران ان کی صغر سنی میں مرگئے تھے۔ پھر حران سے کوچ کرکے ملک کنعان میں سکم یعنی ترابلس تک آئے اور بیت ایل کے پاس اپنا ڈیرا قائم کیا۔ جب اس ملک میں قحط پڑا تو یہ سب ملک مصر کو چلے گئے۔ وہاں جا کر لوط اور ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس مواشی اور نقد مال بہت کچھ جمع ہوا۔ تب پھر ملک کنعان میں واپس آئے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو دریائے یرون کی ترائی کا ملک رہنے کو ملا اور وہ شہر صدوم میں جا کر رہے۔ وہاں کے لوگ بت پرست اور نہایت بدکار تھے۔ مردوں سے بدفعلی کا ان میں رواج تھا۔ رستوں پر اور عام مجلسوں میں ناپاک اور گھنائونے کام بےباکانہ کرتے تھے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) ان کو وعظ و پند کرتے تھے مگر یہ کب مانتے تھے اور ان کے ساتھ عمورہ اور ضبیان اور رومہ کے لوگ بھی ایسے ہی بدکار تھے اور یہ بستیاں صدوم کے آس پاس تھیں وہاں کے بعض پہاڑوں میں گندھک کی کان تھی۔ جب حضرت لوط (علیہ السلام) ان سے عاجز آئے اور بجائے توبہ کے ان کی سرکشی حد سے بڑھ گئی تو تین فرشتے اول حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو امرد لڑکوں کی شکل میں دوپہر کے وقت جبکہ وہ خیمہ کے سامنے بیٹھے تھے نظر آئے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ان کی مہمانی کی روٹیاں اور ایک بچھڑا پکا کر لائے لیکن انہوں نے نہ کھایا۔ تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ڈر گئے کہ شاید دشمن ہوں کیونکہ دشمن اس عہد میں اپنے مخالف کا کھانا نہیں کھاتا تھا۔ تب انہوں نے کہا ٗ خوف نہ کرو۔ ہم خدا کے فرشتے ہیں۔ صدوم کو غارت کرنے آئے ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا وہاں تو لوط (علیہ السلام) بھی ہے اور نیک لوگ بھی ہوں گے۔ انہوں نے کہا ٗ لوط کو محفوظ رکھیں گے اور وہاں پانچ شخص بھی نیک ہوں گے تو ہم غارت نہ کریں گے پھر وہ وہاں سے چل کر صدوم میں شام کو شہر کے پھاٹک پر حضرت لوط (علیہ السلام) کو نظر آئے اور کہا ہم شب کو تیرے گھر مہمان رہیں گے۔ یہ خبر پا کر صدوم کے جوان سے بوڑھے تک حضرت لوط (علیہ السلام) کے گھر پر چڑھ آئے۔ حضرت نے منت کی اور کہا اگر تمہیں میری بیٹیاں درکار ہوں تو ان سے نکاح کرلو مگر میرے مہمانوں کو بےعزت نہ کرو۔ آخر نہ مانے اور کواڑ توڑنے لگے۔ فرشتوں نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اندر کھینچ لیا اور پر جھاڑے جس سے وہ لوگ اندھے ہوگئے۔ فرشتوں نے لوط سے کہہ دیا کہ علی الصباح یہ شہر غارت ہوگا تو اپنے کنبہ کو لے کر راتوں رات نکل جا۔ سو وہ نکل گئے مگر ان کی بیوی جو کافرہ تھی ٗ پیچھے رہ گئی۔ سو وہ نمک کا کھنبہ ہوگئی اور صبح کو فرشتوں نے شہر کو الٹ دیا اور پھر گندھک اور آگ برسائی جس کا دھواں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دور سے اٹھتے دیکھا۔ اس لئے ان بستیوں کو موتفکا (المنقلبات) کہتے ہیں۔
Top