Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : جب قَالَ : کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ : کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو) مَا سَبَقَكُمْ : جو تم سے پہلے نہیں کی بِهَا : ایسی مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایک ایسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا
ارشاد فرمایا جا رہا ہے : وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُمْ بِھَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ ۔ اِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَۃً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآئِ ط بَلْ اَنْتُمْ قَوْْمٌ مُّسْرِفُوْنَ ۔ (الاعراف : 80، 81) ” اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایک ایسی کھلی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے شہوت رانی کرتے ہو حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو “۔ اس آیت کریمہ میں متعدد چیزیں وضاحت طلب ہیں۔ حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کی تاریخ 1 لوط (علیہ السلام) کون تھے ؟ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ آپ نے نبوت ملنے کے بعد جب لوگوں کے سامنے اللہ کی دعوت پیش کی تو پوری قوم نے آپ کو جھٹلایا۔ آپ کے والد تک نے آپ کو برداشت کرنے سے انکار کردیا۔ آپ پر صرف دو شخص ایمان لائے ایک آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ اور دوسرے آپ کے بھتیجے حضرت لوط۔ انھوں نے اپنے عظیم چچا کے ساتھ گھر اور وطن چھوڑا ان کے ساتھ مل کر پردیس کی صعوبتیں اٹھائیں ‘ مختلف ملکوں میں توحید کی دعوت کو عام کرنے کے لیے سفر کیا اور اسی سلسلے میں آپ کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی نگرانی میں تبلیغ و دعوت کا فرض انجام دینے کی تربیت حاصل کرنے کا موقع بھی ملا۔ جب آپ نبوت کی عمر کو پہنچے تو اللہ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا۔ 2 آپ کس علاقے کی طرف مبعوث ہوئے ؟ تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ آپ جس قوم کی طرف مبعوث ہوئے وہ شام کے جنوبی علاقہ میں دریائے اردن کے ارد گرد آباد تھی بلکہ عراق اور فلسطین کے درمیان جو علاقہ آج کل شرق اردن کہلاتا ہے یہی علاقہ اس قوم کا مسکن تھا۔ بائیبل میں اس قوم کے صدر مقام کا نام سدوم بتایا گیا ہے۔ اس سدوم کے ساتھ اس قوم کے چار اور بھی بڑے بڑے شہر آباد تھے جنھیں عمورہ ‘ ارمہ ‘ صبوبیم اور بالع یا صوغر ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے مجموعہ کو قرآن کریم نے مؤتفکہ اور مؤتفکات کہا ہے۔ یہ تمام شہر یا تو بحیرہ مردار کے قریب کسی جگہ واقع تھے اور یا اس جگہ واقع تھے جہاں اب بحیرہ مردار موجود ہے۔ تل موت میں لکھا ہے کہ ان شہروں کے درمیان کا علاقہ ایسا گلزار بنا ہوا تھا کہ میلوں تک بس ایک باغ ہی باغ تھا جس کے جمال کو دیکھ کر انسان پر مستی طاری ہونے لگتی تھی مگر آج اس قوم کا نام و نشان دنیا سے بالکل ناپید ہوچکا ہے اور یہ بھی متعین نہیں ہے کہ اس کی بستیاں ٹھیک کسی مقام پر واقع تھیں۔ اب صرف بحیرہ مردار ہی اس کی ایک یادگار باقی رہ گیا ہے جسے آج تک بحر لوط کہا جاتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کو قوم کا بھائی قرار نہیں دیا گیا۔ کیوں ؟ 3 گزشتہ آیات میں حضرت نوح ‘ حضرت ہود اور حضرت صالح (علیہم السلام) کا تذکرہ فرمایا گیا ہے اور ان تینوں کو اپنی قوم کا بھائی قرار دیا گیا ہے لیکن حضرت لوط (علیہ السلام) کے سلسلے میں یہ اسلوب بدل گیا ہے یہاں آپ کو ان کا بھائی کہہ کر ذکر نہیں فرمایا صرف اس قوم کو آپ کی قوم تو قرار دیا گیا ہے لیکن اس قوم کا بھائی آپ کو قرار نہیں دیا گیا ہے اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ نسبی اور نسلی طور پر اس قوم کے فرد نہیں تھے البتہ آپ کا کوئی نہ کوئی رشتہ ان سے ضرور تھا جس کی وجہ سے اس قوم کو آپ کی قوم قرار دیا گیا ہے۔ اب وہ رشتہ کیا تھا اس کو صراحت سے متعین کرنا مشکل ہے البتہ یہ بات تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ اس قوم سے آپ کا سسرالی رشتہ تھا یعنی آپ نے اس قوم میں شادی کی تھی اور آپ کی اہلیہ اس قوم کی بیٹی تھی ممکن ہے اس وجہ سے اس قوم کو آپ کی قوم قرار دیا گیا ہو۔ یہاں ذہن میں ایک اعتراض پید اہو سکتا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قانون اس کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جب بھی کوئی پیغمبر بھیجتا ہے تو اس کی اپنی قوم میں سے بھیجتا ہے جس سے اس کا نسب اور نسل کا تعلق ہوتا ہے وہ قوم اس کے آبائو اجداد کو جانتی اور خود اسے بچپن سے لے کر نبوت کے دعوے تک پہچانتی ہے اس کی زندگی کا ایک ایک دور قوم کے سامنے ہوتا ہے اس لیے جب وہ نبوت کا دعویٰ کرتا ہے تو چونکہ دونوں میں اجنبیت کی کوئی دیوار نہیں ہوتی تو عموماً اجنبیت میں مخالفین اس طرح کی بےسروپا باتیں کیا کرتے ہیں۔ وقت کا پیغمبر ان سے محفوظ رہتا ہے پھر نسل اور نسب کے لحاظ سے زبان کی یکسانی کے اعتبار سے ‘ وطن کے حوالے سے چونکہ جانبین میں ایک اپنائیت موجود ہوتی ہے اس لیے بات کو سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی رہتی ہے جو لوگ ایمان لاتے ہیں پورے اعتماد کے ساتھ لاتے ہیں اور جو لوگ مخالفت کرتے ہیں وہ اپنی مخالفت میں مخلص نہیں ہوتے کیونکہ ان کا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ پاکیزہ اطوار شخص یقینا جھوٹ نہیں بولتالیکن پھر بھی اگر وہ مخالفت سے باز نہیں آتے تو ان پر اتمام حجت ہوجاتا ہے جس کے بعد فیصلے کی گھڑی قریب آجاتی ہے۔ اللہ کے اس قانون کو دیکھتے ہوئے یہ بات عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو اجنبی قوم میں مبعوث کیوں فرمایا گیا ؟ لیکن جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس اعتراض میں کوئی گہرائی نہیں۔ اپنی قوم کی طرف مبعوث کیے جانے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ اجنبیت افہام و تفہیم میں رکاوٹ نہ بن سکے جس طرح یہ رکاوٹ رنگ ونسل کے رشتے سے اور وطن اور زبان کی یکجائی سے دور ہوتی ہے اسی طرح کسی قوم میں پیغمبر کا زیادہ عرصہ تک قیام اور اس قوم کے ساتھ رشتہ داری اور پھر زبان کا ایک ہونا یہ باتیں بھی اجنبیت کو دور کردیتی ہیں۔ چناچہ لوط (علیہ السلام) کی قوم اگرچہ آپ کا اپنا خاندان نہیں تھا لیکن آپ کی ان کے ساتھ رشتہ داری ‘ آپ کا ان کے اندر طویل قیام اور پھر زبان کی یکسانی یہ اس مقصد کو آسانی سے پورا کردیتی ہے جس کی وجہ سے پیغمبر اپنوں میں مبعوث ہوتا ہے۔ چناچہ ہم حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھتے ہیں کہ انھیں آل فرعون کی طرف بھیجا گیا تھا جبکہ آپ اس خاندان میں سے نہیں تھے لیکن چونکہ آپ کا خاندان بنی اسرائیل ایک طویل عرصے سے ان کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا اور آپ کا بچپن اور جوانی بھی فرعون کے گھر اور آل فرعون میں گزری تھی اس لحاظ سے آپ ان کے لیے قطعاً اجنبی نہیں تھے۔ دعوت و تبلیغ کے لیے جس حد تک تعارف اور اپنائیت ضروری ہے وہ چونکہ آپ کو میسر تھی اس لیے آپ کو آل فرعون کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا۔ یہی حال حضرت لوط (علیہ السلام) کا بھی ہے اس لیے اس اعتراض میں کوئی وزن باقی نہیں رہ جاتا کہ آپ کو ایک اجنبی قوم کی طرف کیوں بھیجا گیا۔ 4 تمام انبیاء کرام کے بارے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی دعوت ایک ہی رہی ہے وہ ہے توحید اور اللہ کی بندگی کی دعوت ہر پیغمبر نے مبعوث ہونے کے بعد اسی دعوت سے اپنے مشن کا آغاز کیا لیکن یہاں حضرت لوط (علیہ السلام) کے سلسلے میں اس بنیادی دعوت کا تذکرہ نہیں فرمایا گیا۔ آخر یہ اسلوب کلام کیوں بدلا گیا اس سلسلے میں دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہئیں۔ 1 قرآن کریم نے دوسری جگہ اصولی طور پر یہ بات واضح فرما دی ہے کہ ہم نے ہر امت کی طرف رسول بھیجا ہے اور ہر رسول نے آکر یہ دعوت دی ہے کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت سے بچو یعنی تمہیں اللہ کی بندگی کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں۔ تم کسی اور طاغوت کے سامنے نہ سر جھکا سکتے ہو نہ اس کی اطاعت مطلقہ کا دم بھر سکتے ہو ‘ نہ اپنے سینوں کو صرف اسی کی محبت سے آباد کرسکتے ہو ‘ نہ اس کی قدرتوں پر آخری حد تک اعتماد کرسکتے ہو۔ یہ حقوق صرف اللہ کریم کے ہیں اس کی ذات ‘ اس کی صفات ‘ اس کے حقوق اور اس کے اختیارات میں کسی اور کو شریک کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ وہ اصولی بات ہے جو قرآن کریم میں وضاحت سے کہہ دی گئی ہے اس اصولی بات کو سامنے رکھیں تو یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ یہاں اگرچہ کسی مصلحت کے باعث اس بنیادی دعوت سے قوم لوط کا تذکرہ نہیں فرمایا جا رہا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے یہ دعوت ضرور پیش کی ہوگی۔ اسلوبِ دعوت کے سلسلے میں ایک اہم نکتہ 2 بعض قباحتیں اور برائیاں جو چاہیں کتنی عظیم ہوں ایسی ہوتی ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانی زندگی میں ان کے در آنے کا امکان موجود ہوتا ہے اور اسی وجہ سے قرآن کریم بار بار اس پر تنبہ بھی کرتا ہے کہ دیکھنا تمہاری زندگی میں یہ قباحتیں کہیں داخل نہ ہوجائیں۔ ان قباحتوں میں سب سے بڑی قباحت شرک ہے جس کی طرف قرآن کریم بار بار توجہ دلاتا ہے کیونکہ اس برائی کے پیدا ہوجانے کے بعد دین سے بیگانگی اور سیرت و کردار میں خرابی ایک لازمہ کی حیثیت رکھتی ہے جنھیں کسی طور پیدا ہونے سے روکا نہیں جاسکتا لیکن جیسا کہ عرض کیا گیا ہے انسانی طبیعت میں ہر وقت اس بات کا امکان موجود رہتا ہے کہ آدمی کبھی نہ کبھی شرک کی کسی نہ کسی صورت کا ارتکاب کر بیٹھے۔ انسان اپنی ذات میں کیسا بھی عظیم سہی لیکن اس کی فطرت میں ایک ان دیکھی ذات کی جو طلب رکھی گئی ہے اور اس کی ذات کی تکمیل کے لیے جس طرح خالق ومالک کی محبت کا جذبہ مضمر کیا گیا ہے اسے اگر صحیح راہنمائی نہ دی جائے تو اس کا غلط رخ اختیار کر جانا ہر وقت ممکن ہوتا ہے۔ توحید یقینا مذہب کی بنیاد ہے لیکن شرک کے لیے ایک سے زیادہ امکانات موجود رہتے ہیں اس لیے انبیاء کرام نے انسانوں کو اس کمزوری سے بچانے کے لیے ہمیشہ اپنی دعوت کا اسے موضوع بنایا ہے لیکن اگر کسی شخص یا کسی قوم کو کسی ایسی برائی میں ملوث دیکھا جائے جس کے لیے اس کی زندگی میں کوئی امکانی اپیل موجود نہ ہو جس کی طرف اس کی فطرت کبھی میلان نہ رکھتی ہو۔ جس کا انسان کی سرشت سے کوئی تعلق نہ ہو تو یقینا ایک داعی اور مبلغ اصل دعوت کی بجائے سب سے پہلے وہ اس پر تنقید کرتا ہے۔ اسے اس بات پر شدید دکھ ہوتا ہے کہ یہ شخص یا یہ قوم تو سرے سے اپنی فطرت اور اپنی سرشت بگاڑ چکی ہے اس لیے خلاف فطرت امور اس سے سرانجام پا رہے ہیں اگر اسے اس سے نہ روکا گیا تو اصل دعوت کے پیش کرنے کا کبھی موقع نہیں آئے گا۔ اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ آپ کسی کے پاس بلند اخلاقی کی دعوت لے کر جائیں۔ آپ یہ چاہیں کہ آپ اس کو مکارم اخلاق سمجھائیں لیکن جب آپ اس کے پاس پہنچیں تو آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں کہ وہ بچوں کو ذبح کر رہا ہے ‘ عورتوں کی چھاتیاں کاٹ رہا ہے ‘ دودھ پیتے بچوں کو مائوں سے چھین کر نیزوں پر اچھال رہا ہے ‘ عورتوں کی عزتیں سب کے سامنے پامال کر رہا ہے تو آپ اس کے سامنے مکارم اخلاق کی دعوت نہیں رکھیں گے بلکہ اسے سب سے پہلے اس بات سے روکنے کی کوشش کریں گے یا آپ کسی شخص کو دیکھیں کہ وہ نجاست کھا رہا ہے اور کسی دماغی فتور میں مبتلا بھی نہیں تو یقینا آپ اس کے سامنے توحید کی دعوت پیش کرنے سے پہلے اس کے اس گندے طرز عمل پر اسے توجہ دلائیں گے۔ یہاں بھی قرآن کریم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کے سلسلے میں یہی اسلوب اختیار فرمایا کہ دعوت تو حضرت لوط (علیہ السلام) کی بھی وہی ہے جو باقی انبیاء کرام کی تھی لیکن آپ نے جب انھیں ایک فاحشہ میں مبتلا دیکھا جس میں انسان کم کم مبتلا ہوتے ہیں اور جو سراسر خلاف فطرت ہے تو آپ نے سب سے پہلے اپنی اصلاحی کاوشوں کا اسے موضوع بنایا۔ جس طرح ایک شرابی کو شراب کے نشے میں کوئی عقل کی بات نہیں سمجھائی جاسکتی اسی طرح خلاف فطرت امور میں مبتلا شخص کو کوئی فطری ‘ عقلی ‘ اخلاقی اور دینی بات نہیں سمجھائی جاسکتی۔ اس لیے جہاں اصل پانی مر رہا تھا آپ نے وہیں سے اصلاح کا آغاز فرمایا اور انھیں شرم دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم الفاحشہ کا ارتکاب کر رہے ہو۔ فاحشہ عربی زبان میں ایسی کھلی بےحیائی کو کہتے ہیں جس کے بےحیائی ہونے میں کسی حیادار کو شبہ نہ ہو اور پھر یہاں فاحشہ نہیں فرمایا بلکہ الفاحشہ فرمایا جبکہ سورة بنی اسرائیل میں زنا ‘ جو سب سے بڑی اخلاقی برائی ہے اسے فاحشہ قرار دیا گیا ہے اس لیے کہ زنا کتنی بڑی بےحیائی بھی ہو انسانی زندگی میں بہرحال اس کا امکان موجود رہتا ہے۔ مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے لیے جنسی طلب رکھتے ہیں اور جیسے ہی اللہ کا خوف آدمی سے الگ ہوتا ہے تو جنسی طلب اسے اپنی طرف کھینچتی ہے تو پھر کسی وقت بھی اس بےحیائی کا ارتکاب ناممکن نہیں رہتا۔ قوم لوط کی جس بےحیائی کا تذکرہ ہو رہا ہے وہ اگرچہ اپنے نتائج کے اعتبار سے زنا کے برابر کی برائی نہیں لیکن چونکہ وہ اپنے اندر فطری طلب نہیں رکھتی بلکہ وہ فطرت سے ایک طرح کی بغاوت معلوم ہوتی ہے اس لیے جب کوئی آدمی اس کا ارتکاب کرتا ہے تو گویا وہ فطرت سے جنگ کرتا ہے اس لیے یہاں اسے الفاحشہ قرار دیا گیا ہے یعنی ایک ایسی جانی پہچانی بےحیائی ‘ کہ جس میں ذرہ برابر بھی شرم و حیا موجود ہے وہ اس سے کراہت محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے فرمایا کہ تم ایک ایسی بےحیائی کا ارتکاب کر رہے ہو جس کا اس سے پہلے کبھی کسی نے ارتکاب نہیں کیا۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ قوم لوط سے پہلے دنیا میں اس برائی کا کوئی تصور نہیں تھا یہ وہ انتہائی بگڑی ہوئی قوم ہے جس نے سب سے پہلے اس برائی کو وجود دیا اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ برائی تو دنیا میں افراد کی حد تک ضرور موجود تھی اور آج بھی موجود ہے لیکن قومی سطح پر اس برائی کا ارتکاب اس سے پہلی کبھی کسی نے نہیں کیا یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ پوری قوم کی قوم اس میں ملوث ہوجائے اور ان کے سوچنے سمجھنے والے دماغ بھی بجائے اس کی مخالفت کرنے کے خاموش ہوجائیں یا حوصلہ افزائی کرنے لگیں۔ دنیا میں یہ پہلی قوم ہے جس نے انتہائی قابل کراہت اس برائی کو اجتماعی سطح پر قبول کیا اور رفتہ رفتہ یہ حال ہوگیا کہ نہ صرف اس برائی کا برائی ہونا ان کی نگاہوں میں ختم ہوگیا بلکہ وہ اپنی مجلسوں میں اس برائی پر فخر بھی کرنے لگے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک ایسی قابل نفرت برائی جس کی وجہ سے پوری قوم تباہ کردی گئی آج کے روشنی کے زمانہ میں جبکہ علم وہنر اپنی معراج کو پہنچ چکے اور مغربی قومیں اپنی تہذیب پر ناز کرتے ہوئے نہیں شرماتیں نہ صرف کہ ان میں یہ برائی موجود ہے بلکہ انھوں نے قوم لوط اور یونانیوں کی طرح سرے سے اسے برائی ہی نہیں رہنے دیا برطانیہ کی پارلیمنٹ میں باقاعدہ تالیوں کی گونج میں اس مکروہ فعل کو سند جواز عطا کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہاں کے بگڑے ہوئے ادیبوں اور فلسفیوں نے اس برائی کی تائید اور سپورٹ میں لٹریچر کا ایک ذخیرہ فراہم کردیا۔ آپ کسی بڑی لائبریری میں چلے جائیے وہاں آپ کو (Gay Style of Life) کے عنوان سے الگ سیکشن ملیں گے جس میں اس انتہائی گھنائونے جرم کی افادیت اور اہمیت کو ثابت کیا گیا ہے۔ امریکہ میں اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر اسے (Human Urge) قرار دیا گیا ہے۔ چند سال پہلے خلیج کی امریکی فوج میں سے ایک ہزار آدمی نکالے گئے تھے جو اس برائی میں ملوث تھے چناچہ جب وہ امریکہ میں پہنچے تو وہاں کے پریس نے اس پر شدید احتجاج کیا کہ یہ کونسا جرم ہے جس کی بنیاد پر ان کو وہاں سے نکالا گیا یعنی اس کو جرم ماننے سے انکار تو ایک طرف رہا وہ تو اسے انسانی فطرت کی آواز قرار دے رہے ہیں۔ باقاعدہ اس کے کلب وجود میں آچکے ہیں اور بعض گھروں میں ایسے جوڑے میاں بیوی کی طرح زندگی گزار رہے ہیں جو مرد اور عورت پر مشتمل نہیں بلکہ مردوں پر مشتمل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یورپ نے اپنے طور پر اللہ کے غضب کو دعوت دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ لیکن ان پر اللہ کا عذاب صرف اس لیے نہیں آرہا کہ امت مسلمہ کی جانب سے ان پر اتمام حجت نہیں کیا گیا اور جب تک اتمام حجت نہ ہو اللہ کبھی کسی قوم کو عذاب نہیں دیتا۔ قومِ لوط کی برائی کا صراحت سے ذکر اور اس کی وضاحت اگلی آیت کریمہ میں اس برائی کو صراحت سے بیان کردیا گیا ہے کہ تمہارے بگاڑ کی انتہاء یہ ہے کہ عورتیں تمہاری جنسی ضرورت کے لیے پیدا کی گئی ہیں لیکن تم انھیں چھوڑ کر مردوں سے اپنی ضرورت پوری کرتے ہو اور پھر الرجال کا لفظ قابل توجہ ہے۔ رجال پختہ سن و سال کے مردوں کو کہتے ہیں اس لفظ کے استعمال سے ایک تو اس فعل کے گھنائونے پن کا اظہار ہو رہا ہے۔ دوسرے اس سے اس دیوثیت کا اظہار ہو رہا ہے جو کسی قوم میں اس مرض خبیث کے عام ہوجانے کی صورت میں لازماً پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے عام ہوجانے کی صورت میں سن و سال کی تمیز بالکل اٹھ جاتی ہے پھر ہر عمر کے دیوث قوم میں پھیل جاتے ہیں اور ان کے لیے یہ لعنت عادت اور پیشہ بن جاتی ہے۔ من دون النسائ کے الفاظ اس قلب ماہیت کو ظاہر کر رہے ہیں جو اس فسادِ طبیعت کا لازمی نتیجہ ہے کیونکہ یہ ایک صریح حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ذی حیات انواع میں نر و مادہ کا فرق محض تناسل اور بقائے نوع کے لیے رکھا ہے اور نوع انسانی کے اندر اس کی مزید غرض یہ بھی ہے کہ دونوں صنفوں کے افراد مل کر ایک خاندان وجود میں لائیں اور اس سے تمدن کی بنیاد پڑے۔ اسی مقصد کے لیے مرد اور عورت کی دو الگ الگ صنفیں بنائی گئی ہیں ‘ ان میں ایک دوسرے کے لیے صنفی کشش پیدا کی گئی ہے ‘ ان کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب ایک دوسرے کے جواب میں مقاصدِ زوجیت کے لیے عین مناسب بنائی گئی ہے اور ان کے جذب و انجذاب میں وہ لذت رکھی گئی ہے جو فطرت کے منشاء کو پورا کرنے کے لیے بیک وقت داعی و محرک بھی ہے اور اس خدمت کا صلہ بھی۔ مگر جو شخص فطرت کی اس اسکیم کے خلاف عمل کر کے اپنے ہم جنس سے شہوانی لذت حاصل کرتا ہے وہ ایک ہی وقت میں متعددجرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اولاً وہ اپنی اور اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب سے جنگ کرتا ہے اور اس میں خلل عظیم برپا کردیتا ہے جس سے دونوں کے جسم ‘ نفس اور اخلاق پر نہایت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ثانیاً وہ فطرت کے ساتھ غداری و خیانت کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ فطرت نے جس لذت کو نوع اور تمدن کی خدمت کا صلہ بنایا تھا اور جس کے حصول کو فرائض اور ذمہ داریوں اور حقوق کے ساتھ وابستہ کیا تھا وہ اسے کسی خدمت کی بجاآوری اور کسی فرض اور حق کی ادائیگی اور کسی ذمہ داری کے التزام کے بغیر چرا لیتا ہے۔ ثالثاً وہ انسانی اجتماع کے ساتھ کھلی بددیانتی کرتا ہے کہ جماعت کے قائم کیے ہوئے تمدنی اداروں سے فائدہ تو اٹھا لیتا ہے مگر جب اس کی اپنی باری آتی ہے تو حقوق اور فرائض اور ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی بجائے اپنی قوتوں کو پوری خود غرضی کے ساتھ ایسے طریقہ پر استعمال کرتا ہے جو اجتماعی تمدن و اخلاق کے لیے صرف غیر مفید ہی نہیں بلکہ ایجاباً مضرت رساں ہے۔ وہ اپنے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت کے لیے نااہل بناتا ہے اپنے ساتھ کم از کم ایک مرد کو غیر طبعی زنانہ پن میں مبتلا کرتا ہے اور کم از کم دو عورتوں کے لیے بھی صنفی بےراہ روی اور اخلاقی پستی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس جرم کی اسی شناعت اور ہلاکت آفرینی کے باعث اسلام نے اگرچہ اس پر حد جاری تو نہیں کی کیونکہ مسلمانوں کا اسلامی مزاج اسے کسی طرح بھی قبول نہیں کرسکتا لیکن اس کی ہولناکی کے باعث آنحضرت ﷺ نے تعزیر کے طور پر اس کی سخت سزا مقرر فرمائی۔ آپ نے فرمایا کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے دونوں کو قتل کردو اور کبھی آپ نے فرمایا فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردو۔ مسلمانوں کے مجموعی مزاج کے اسے قبول نہ کرنے کے باعث آنحضرت ﷺ کے زمانے میں کوئی ایک واقعہ بھی اس طرح کا پیش نہ آیا اس لیے اس کی کوئی سزا متعین نہ ہوسکی۔ اگر اس کی حیثیت حد کی ہوتی تو وہ تو بہرصورت متعین ہوتی۔ صحابہ کرام نے بھی اسے چونکہ تعزیر ہی جانا اس لیے ان میں اس سزا کے تعین میں اختلاف ہوا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا : کہ ایسا جرم کرنے والوں کو قتل کردیا جائے اور ان کی لاشیں جلا دی جائیں۔ حضرت عثمان غنی ( رض) نے غالباً یہ کہا کہ ایسے شخص کو کسی بلند عمارت یا پہاڑ پر کھڑا کر کے نیچے گرا دیا جائے اور اس پر وہ عمارت گرا دی جائے یا اس پر پتھر برسائے جائیں۔ امام ابوحنیفہ ( رح) نے صراحتہً اسے تعزیر قرار دیتے ہیں اور حالات کے مطابق اس کی سزا کے تعین کے قائل ہیں۔ اس تفسیر سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اہل علم کی نگاہ میں یہ ایک بدترین برائی ہے جس کا مسلمانوں میں کبھی چلن نہیں ہونا چاہیے اور اگر کہیں اس کے آثار نظر آئیں تو حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ممکن طریق سے اس برائی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کیونکہ جس برائی کے باعث اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا اسے کسی طرح بھی ہلکے انداز میں لینا ہرگز مناسب نہیں۔ اگلی آیت کریمہ میں اس جرم کی مزید شناعت اور اخلاقی تباہی اور اس کے نتائج کو بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئی قوم اس عادت بد کا شکار ہوتی ہے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ہر طرح کے اخلاقی مکارم سے محروم ہوگئی ہے اور اس کے نتیجے میں اس کی جبلت اور سرشت اس حد تک تبدیل ہوگئی ہے جس کا ایک نقشہ اس آیت کریمہ میں کھینچا جا رہا ہے۔
Top