Tafseer-e-Jalalain - Al-A'raaf : 80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : جب قَالَ : کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ : کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو) مَا سَبَقَكُمْ : جو تم سے پہلے نہیں کی بِهَا : ایسی مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور جب ہم نے لوط کو پیغمبر بنا کر بھیجا تو اس وقت انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم ایسی بےحیائی کا کام کیوں کرتے ہو کہ تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے اس طرح کا کام نہیں کیا ؟
قوم لوط کی مختصر تاریخ : ولوطا اذقال لقومہ (الآیۃ) یہ قوم اس علاقہ میں رہتی تھی جسے آجکل شرق اردن کہا جاتا ہے، اور عراق و فلسطین کے درمیان واقع ہے بائبل میں اس قوم کا صدر مقام سدوم بتایا گیا ہے جو یا تو بحیرہ مردار (بحر میت) کے قریب کہیں واقع تھا یا بحر میت میں غرق ہوچکا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے حضرت لوط (علیہ السلام) اپنے چچا ابراہیم (علیہ السلام) کے ساتھ عراق سے نکلے کچھ مدت تک شام و فلسطین و مصر میں گشت لگا کر دعوت و تبلیغ کے کام میں مصروف رہے، اس کے بعد مستقل منصب رسالت پر فائز ہو کر اسی بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح پر مامور ہوئے۔ یہودیوں کی تحریف کردہ بائبل میں حضرت لوط (علیہ السلام) کی سیرت پر جہاں اور بہت سے دھبے لگائے گئے ہیں ان میں سے ایک دھبہ یہ بھی ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے لڑ کر علاقہ سدوم میں چلے گئے تھے مگر قرآن اس غلط بیانی کی تردید کرتا ہے، قرآن کا کہنا ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) کو اسی علاقہ کے باشندوں کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا گیا تھا، اہل سدوم کو حضرت لوط (علیہ السلام) نے اپنی قوم، غالباً اس لئے کہا کہ ان کے ساتھ لوط (علیہ السلام) کا ازدواجی رشتہ قائم ہوگیا ہو۔ دوسرے مقامات پر اس قوم کے بعض اور اخلاقی جرائم کا بھی ذکر آتا ہے مگر یہاں اس کے سب سے بڑے جرم کے بیان پر اکتفاء کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان پر عذاب نازل ہوا، اور وہ ہم جنسی کا فعل تھا، یہ قابل نفرت فعل جس کی وجہ سے ان کو مذمت میں شہرت دوام حاصل ہوئی، اس کے ارتکاب سے تو بد کردار انسان کسی زمانہ میں باز نہیں آئے، لیکن یہ فخر یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفہ نے اس گھناؤ نے جرم کو اخلاقی خوبی کے مرتبہ تک اٹھانے کی کوشش کی، اور اس کے بعد کسر باقی رہ گئی تھی اسے جدید مغربی تہذیب نے پورا کردیا یہاں تک کہ بعض مغربی ملکوں کی مجالس قانون ساز نے اسے نہ صرف یہ کہ باقاعدہ جائز قرار دیدیا بلکہ آپس میں شادی کو بھی قانونی حیثیت دیدی، جبکہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ہم جنسی قطعی طور پر وضع فطری کے خلاف ہے اور یہ خلاف وضع عمل کرنے والا اپنی اور اپنے معمول کی طبعی ساخت اور نفسیاتی ترکیب کے خلاف جنگ کرتا ہے، اور ایسے مہلک ولا علاج ” ایڈز “ جیسے امراض میں مبتلا کرنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے جس کا کوئی علاج ہی نہیں ہے، فطرت صحیحہ سے انحراف اور حدود الہیٰ سے تجاوز کو مغرب کی مذہب قوموں نے انسانوں کا بنیادی حق قرار دیدیا ہے جس کی رو سے کسی کو روکنے کا حق حاصل نہیں ہے چناچہ اب مغرب میں لواطت کو قانونی رحفظ بھی حاصل ہے اب یہ سرے سے کوئی جرم نہیں رہا۔ لواطت کی سزا : یہاں صرف یہ بتایا گیا ہے کہ عمل قوم لوط ایک بدترین گناہ ہے جس کی وجہ سے ایک قوم اللہ کے غضب میں گرفتار ہوچکی ہے، اس کے بعد یہ بات ہمیں نبی ﷺ کی رہنمائی سے معلوم ہوئی کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس سے معاشرہ کو پاک رکھنے کی کوشش کرنا حکومت اسلامی کے فرائض میں ہے اور یہ کہ اس جرم کے مرتکبین کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے، حدیث میں جو مختلف روایات حضور ﷺ سے مروی ہیں ان میں سے کسی میں یہ الفاظ ملتے ہیں، ” اقتلوا الفاعل والمفعول بہ “ فاعل اور مفعول کو قتل کردو۔ کسی میں ان الفاظ کا اضافہ ہے، احصنا اولم یحصنا “ شادی شدہ ہوں یا نہ ہوں اور کسی میں یہ الفاظ ہیں، فارجعوا الاعلی والاسفل، اوپر والا اور نیچے والا دونوں سنگسار کئے جائیں، لیکن چونکہ آپ ﷺ نے زمانہ میں ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں ہوا، اسلئے قطعی طور پر یہ بات متعین نہ ہوسکی کہ اس کی سزا کس طرح دی جائے صحابہ کرام میں سے حضرت علی ؓ کی رائے یہ ہے کہ مجرم تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کے بجائے اس کی لاش جلا دی جائے اسی رائے سے حضرت ابوبکر ؓ نے اتفاق فرمایا ہے، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمان ؓ کی رائے یہ ہے کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کرکے وہ عمارت اس پر گرا دی جائے ابن عباس ؓ کا فتویٰ یہ ہے کہ بستی کی سب سے اوبچی عمارت سے اسے سر کے بل پھینک دیا جائے اور اوپر سے تھر برسائے جائیں، فقہاء میں سے امام شافعی (رح) تعالیٰ فرماتے ہیں کہ فاعل اور مفعول واجب القتل ہیں خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، شعبی (رح) تعالیٰ ، زہری (رح) تعالیٰ ، امام مالک (رح) تعالیٰ ، اور امام احمد (رح) تعالیٰ کہتے ہیں ان کی سزا رجم ہے سعید بن مسیب (رح) تعالیٰ ، عطاء۔ حسن بصری (رح) تعالیٰ ، ابراہیم نخعی (رح) تعالیٰ سفیان ثوری (رح) تعالیٰ اور اوزاعی (رح) تعالیٰ کی رائے یہ ہے کہ اس جرم میں وہی سزا دی جائے جو زنا کی سزا ہے یعنی شادی شدہ کو رجم اور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں، اور جلاوطن کردیا جائے اور مام ابوحنیفہ (رح) تعالیٰ کی رائے میں اس پر کوئی حد مقرر نہیں ہے بلکہ یہ فعل تعزیر کا مستحق ہے۔ جیسے حالات اور ضروریات ہوں ان کے لحاظ سے اس کو عبرت ناک سزا دی جائے، امام شافعی (رح) تعالیٰ کا بھی ایک قوم اسی کی تائید میں منقول ہے۔ یہ بات بھی معلوم رہنی چاہیے کہ شوہر کیلئے یہ قطعی حرام ہے کہ خود اپنی بیوی کے ساتھ عمل لوط کرے، ابو داؤد میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد منقول ہے ” ملعون من اتیٰ المرأۃ فی دبرھا “ عورت سے عمل لوط کرنے والا ملعون ہے، ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضور ﷺ کے یہ الفاظ منقول ہیں، لا ینظر اللہ الی رجل جامع امرأۃ فی دبرھا، اللہ اس مرد کی طرف ہرگز رحمت کی نظر سے نہ دیکھے گا جو عورت سے اس فعل کا ارتکاب کرے۔
Top