Mutaliya-e-Quran - Al-A'raaf : 80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : جب قَالَ : کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ : کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو) مَا سَبَقَكُمْ : جو تم سے پہلے نہیں کی بِهَا : ایسی مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اُس نے اپنی قوم سے کہا "کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو، کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟
وَلُوْطًا [ اور (بیشک ہم بھیج چکے ہیں) لوط کو ] اِذْ [ جب ] قَالَ [ انہوں نے کہا ] لِقَوْمِهٖٓ [ اپنی قوم سے ] اَ [ کیا ] تَاْتُوْنَ [ تم لوگ آتے ہو ] الْفَاحِشَةَ [ اس بےحیائی کے پاس ] مَا سَبَقَكُمْ [ نہیں سبقت کی تم پر ] بِهَا [ جس میں ] مِنْ اَحَدٍ [ کسی ایک نے (بھی ) ] مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ [ تمام جہانوں میں سے ] غ ب ر : (ن) ۔ غبورا (1) ٹھہر جانا ۔ پیچھے رہ جانا ۔ (2) غبار آلود ہونا۔ غابر ۔ اسم الفاعل ہے ۔ پیچھے رہ جانے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۔ 83 ۔ غبرۃ ۔ اسم ذات ہے ۔ گرد ۔ غبار ۔ وَ وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ [ اور کچھ چہرے ہوں گے اس دن جن پر گرد ہوگی ] 80:40 ۔ ترکیب : ترکیب میں کوئی خاص بات نہیں ہے ۔ نوٹ ۔ 1: حضرت لوط (علیہ السلام) ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے ہیں ۔ ان کا وطن بصرہ کے قریب ارض بابل کا علاقہ تھا ۔ اس میں بت پرستی عام تھی ۔ ان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نبوت و رسالت عطا کی ۔ قوم نے مخالفت کی اور ان کے گھرانہ میں سے صرف بی بی سارہ اور حضرت لوط (علیہ السلام) ایمان لائے ۔ ان دونوں کو ساتھ لے کر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ملک شام کی طرف ہجرت فرمائی اور کنعان کے علاقہ میں مقیم ہوئے جو بیت المقدس کے قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو نبوت عطا فرما کر اردن اور بیت المقدس کے درمیان ایک مقام سدوم کے لوگوں کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا ۔ یہ علاقہ پانچ بڑے شہروں پر مشتمل تھا اور سدوم کا شہر ان کا دارالحکومت تھا ۔ شہروں کے اس مجموعہ کو قرآن کریم نے مؤتفکہ اور مؤتفکات کے الفاظ میں کئی جگہ بیان کیا ہے ۔ یہ علاقہ سرسبز اور شاداب تھا ۔ ہر طرح کے غلے اور پھلوں کی کثرت تھی ۔ اللہ نے ان پر اپنی نعمتوں کے دروازے کھول دیے تھے ۔ عام انسانی عادت کے تحت دولت و ثروت کے نشہ میں مبتلا ہوکر عیش و عشرت کے اس کنارے پر پہنچ گئے کہ خلاف فطرت فواحش کو بھی اختیار کرلیا ۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کی نصیحتوں کا انکار کیا اور انہوں نے اپنی بستی سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا تو ان پر عذاب نازل ہوا۔ زیر مطالعہ آیت نمبر۔ 84 میں مختصرا صرف اتنا ذکر کیا گیا ہے کہ ان پر ایک قسم کی بارش بھیجی گئی ۔ البتہ سورة ہود کی آیات ۔ 82 ۔ 83 میں عذاب کی وضاحت کی گئی ہے ۔ جس سے معلوم ہوا کہ ان پر پتھروں کی بارش بھی ہوئی تھی اور نیچے سے اس سرزمین کے طبقہ کو اوندھا پلٹ دیا گیا تھا ۔ سورة الحجر کی آیات 72 ۔ 73 سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب آنے سے پہلے آسمان سے کوئی سخت آواز چنگھاڑ کی صورت میں آئی تھی ۔ یہ پانچوں الٹی ہوئی بستیاں آج بھی موجود ہیں ۔ جواب بحرمیت (Dead Sea) کے نام سے موسوم ہے۔ اس کی تہہ میں ان بستیوں کے کھنڈرات ہیں ۔ اور اس کے پانی میں کوئی بھی جاندار جیسے مچھلی ، مینڈک وغیرہ زندہ نہیں رہ سکتے ۔
Top