Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا
: اور لوط
اِذْ
: جب
قَالَ
: کہا
لِقَوْمِهٖٓ
: اپنی قوم سے
اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ
: کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو)
مَا سَبَقَكُمْ
: جو تم سے پہلے نہیں کی
بِهَا
: ایسی
مِنْ اَحَدٍ
: کسی نے
مِّنَ
: سے
الْعٰلَمِيْنَ
: سارے جہان
اور (ہم نے) لوط (علیہ السلام) (کو رسول بنا کر بھیجا) ۔ جب کہا انہوں نے اپنی قوم سے (اے لوگو ! ) کیا تم بےحیائی کا ایسا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا جہان والوں میں سے
ربط آیات اس سے پہلے اللہ تعالیٰ حضرات نوح ، ہود اور صالح علیہ (علیہم السلام) کے تاریخی واقعات بیان کرچکے ہیں جن کے ذریعے اہل ایمان کو جرات دلائی جارہی ہے کہ دیکھو ! اللہ کے انبیاء نے کتنے نامساعد حالات میں بھی دین کی خدمت کی اور خدا کا پیغام اپنی اپنی قوموں تک پہنچایا۔ یہ واقعات اگرچہ اجالاً بیان کیے گئے ہیں تاہم مقصد یہ ہے کہ امت آخر الزمان کو بھی یہ واقعات پیش نظر رکھ کر دین کے کام کو آگے بڑھانا ہے اس سورة میں حضرت صالح (علیہ السلام) کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا حال بیان فرمایا ہے ولوطاً اس کا عطف بھی لقد ارسلنا نوحاً پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو رسول بناکر بھیجا تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تقریر اور قوم کے جواب کا تذکرہ فرمایا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے آپ کا تعلق کلدانی خاندان سے ہے آپ اور ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن مالوف بابل ہے جو موجودہ بغداد سے ساٹھ ستر میل دور تقریباً سو مربع میل پر پھیلا ہوا بہت بڑا شہر تھا شہر کلدانیوں اور آشوریوں کا دارالخلافہ رہا ہے بڑا متمدن شہر تھا ابراہیم (علیہ السلام) اسی شہر میں پیدا ہوئے جوان ہوئے تو اللہ کی طرف سے نبوت عطا ہوئی انہوں نے لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچایا مگر آپ کی بیوی سارہ اور بھتیجے لوط (علیہ السلام) (جو اس وقت بچے تھے) کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فامن لہ لوط (العنکبوت) مردوں میں صرف لوط (علیہ السلام) آپ پر ایمان لائے پھر اللہ تعالیٰ ے ہجرت کرجانے کا اشارہ فرمایا تو ابراہیم (علیہ السلام) اپنی بیوی اور لوط (علیہ السلام) کے ساتھ بابل نے نکل کھڑے ہوئے پہلے مصر پہنچے وہاں سے ایک خادمہ ہاجرہ بھی مل گئی جس کے ساتھ آپ نے بعد میں نکاح کرلیا پھر راستے میں کسی مقام پر حضرت لوط (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی اور حکم ہوا کہ شرق اردن میں پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچائو ، یہ بھی اس زمانے میں بڑا متمدن علاقہ تھا امام ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے کہ اس علاقے میں چار بڑے بڑے شہر تھے جن کی آبادی چار لاکھ سے کم نہ تھی یہ شہر سدوم ، عامورہ ، دواما اور صعودا تھے سدوم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور یہ دارالخلافہ تھا بڑا سرسبز علاقہ تھا کھیتی باڑی اور باغات عام تھے تجارت بھی وسیع پیمانے پر ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اہل سدوم کی طرف رسول بناکر بھیجا آپ کا سلسلہ نسب لوط بن ہارن بن تارخ یا آزر ہے۔ مشترک اور متفقر جرائم جن جن اقوام کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء مبعوث فرمائے ان میں بعض مشترک جرائم تھے اور بعض مختلف ، کفر اور شرک تمام اقوام کا مشترک جرم ہے اس میں سب لوگ ہی مبتلا رہے ہیں چناچہ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ہر نبی کی پہلی دعوت یہی ہوتی تھی یقوم اعبدواللہ مالکم من اللہ غیرہ اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ کی عادت کرو اس کے سوا کوئی معبود نہیں بعض جرائم مختلف اقوام میں مختلف رہے ہیں مثلاً شعیب (علیہ السلام) کی قوم تجارتی بددیانتی کا شکار تھی وہ ماپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے ہود (علیہ السلام) کی قوم میں غرور وتکبر کی فراوانی تھی صالح (علیہ السلام) کی قوم اسراف و تبذیر کا شکار تھی بےجا عمارتیں بناتے تھے اور لہود لہب میں مصروف رہتے تھے اسی طرح قوم لوط فعل خلاف وضع فطری یعنی اغلام بازی میں ملوث تھی حضرت لوط (علیہ السلام) کے تذکرے میں ان کی قوم کی اس قبیح بیماری لواطت یا سدومت کا ذکر بھی آتا ہے زنا اور لواطت ملتے جلتے جرائم ہیں مگر لواطت زنا سے بھی شدید تر جرم ہے صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ یہ فعل طبعاً عقلاً اور شرعاً ہر لحاظ سے قبیح ہے زنا قطعاً حرام ہے اگرچہ وہ طبعی محل میں ہوتا ہے مگر لواطت کا تعلق تو غیر طبعی محل سے ہے لہٰذا یہ تو زنا سے بھی بڑا جرم ہے کہتے ہیں کہ اس علاقے میں باغات عام تھے لوگ ان کا پھل توڑ لیتے تھے جن میں بچے بھی ہوتے تھے شیطان نے ان کو پٹی پڑھائی کہ بچوں سے یہ فعل کرو تو وہ پھل توڑنے سے باز آجائیں گے انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس طرح اس فعل بد کی ابتداء ہوئی قوم لوط سے پہلے یہ بیماری کسی قوم میں نہ تھی یہ لوگ آہستہ آہتہ حادی ہوگئے حتیٰ کہ ان کی فطرت سلیمہ ہی مسخ ہو کر رہ گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عورتوں کی طرف التفات ختم ہوگیا اور شہوت رانی مردوں کے ذریعے ہونے لگی۔ فحاشی کا ارتکاب نیکی کا حکم اور برائی سے امتناع ہر نبی کے فرائض منصبی میں شامل رہا ہے تمام نبی لوگوں کو برائیوں سے روکتے رہے کفر شرک کے علاوہ مخصوص برائیوں کے خلاف بھی انبیائے کرام آواز اٹھاتے رہے حضرت لوط (علیہ السلام) نے بھی اپنا فرض ادا کیا اذقال لقومہ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا اتالون الفاحشۃ کیا تم ایسی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو ماسبقکم بھا من احد من العلمین کہ تم سے پہلے جہان بھر میں یہ کام کسی نے نہیں کیا یہاں پر لواطت کو بےحیائی کہا گیا ہے جب کہ زنا کو بھی اسی لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ولا تقربو لزنی انہ کان فاحشۃ (بنی اسرائیل) زنا کے قریب نہ جائو کے بیشک یہ بےحیائی ہے قرآن پاک میں بخل کو بھی فحش کیا گیا ہے کیونکہ ذہنی طور پر وہ بھی فحاشی ہوتی ہے عملی طور پر زنا بھی فحش ہے اور لواطت اس سے بڑھ کر مولانا عبیداللہ سندھی (رح) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ لواطت اتنی خلاف طبع بات ہے کہ جانوروں میں بھی نہیں پائی جاتی ماسوائے بندر کے یہی وجہ ہے کہ جن قوموں کی اللہ نے سزا کے طور پر شکلیں بدل دیں انہیں بندر اور خنزیر بنا دیا بندر اور خنزیر دونوں غلیظ جانور ہیں اللہ تعالیٰ نے شہوانی خواہش کی تکمیل کے لیے مرد کے مقابلے میں عورت کو پیدا کیا ہے مگر اس بدترین فعل کے اولین مرتکبین قوم لوط ٹھہری چناچہ لوط (علیہ السلام) نے صریح لفظوں میں اپنی قوم سے فرمایا انکم لتاتون الرجال شھوۃ من دون النساء تم مردوں پر شہوت رانی کرتے ہوئے دوڑتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر دوسری جگہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے عورتیں پیدا کی ہیں تاکہ نکاح کرکے اپنے طبعی تقاضے پورے کرو فرمایا تم نے جائز ذریعہ چھوڑ کر غیر فطری طریقہ اختیار کیا بل انتم قوم مسرفون تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہوں۔ شہوت رانی کے جائز ذرائع اللہ تعالیٰ نے انسان میں میلان شہوانی دو مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے ایک تو نفسانی خواہش کی تکمیل ہے اور دوسرے نسل انسانی کا بقا ہے شہوانی مادہ انسان کو برائی پر آمادہ کرتا ہے اسی لیے دعا میں سکھایا گیا ہے الھم انی اعوذبک من شرمنی اے اللہ ! میں مادہ شہوت سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اللہ تعالیٰ نے اس طبعی خواہش کو پورا کرنے کے لیے عورتوں سے نکاح کا حکم دیا ہے فانکحوا ماطاب لکم من النساء (النسائ) منکوحہ عورتوں کے علاوہ اوما ملکت ایمانکم کے مطابق لونڈیوں سے بھی طبعی خواہش پوری کی جاسکتی ہے اس زمانے میں چونکہ لونڈیوں کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اس لیے نکاح ہی واحد ذریعہ ہے جس سے انسان طبعی تقاضے پورے کرسکتا ہے فرمایا فمن ابتغی ورآء ذلک فاولیک ھم العدون (المعارج) اس کے علاوہ اگر کوئی دیگر راستہ اختیار کرے گا تو وہ تعدی کرنے والا ہوگا۔ اغلام بازی کی طرح جانوروں کے ساتھ خلاف وضع فطری فعل کا ارتکاب بھی قطعاً حرام ہے اسی طرح مشت زنی کے ذریعہ مادہ منویہ کو خارج کرنا بھی ملعون ہے گویا جائز طریقہ صرف نکاح ہے حضور نے فرمایا کہ نکاح وہ بابرکت ہے جس میں تکلف نہ ہو سہل اور آسان طریقے سے نکاح کرو تاکہ برائیوں کا تدارک ہوسکے ہمارے ہاں تو نکاح کو سخت مشکل بنا دیا گیا لمبا چوڑا جہیز ، بلاوجہ لاتعداد جوڑے اور زیورات اور پھر تکلف دعوتیں ایسی قباحتیں ہیں جو نکاح کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہیں ان غلط رسومات کی وجہ سے سال ہا سال بچے بچیاں نکاح سے محروم رہتے ہیں جس کی وجہ سے طرح طرح کی معاشرتی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ادھر تعدد ازواج پر بھی پابندی ہے حالانکہ نکاح کو عام کرنے کا حکم تاکہ فحاشی کو پھیلنے کا موقع ہی نہ ملے تندرست آدمی ہو ، کمائی کرسکتا ہو ، نمازی اور دیانتدار ہو ، بس کافی ہے نکاح کردوخ جہیز کی لعنت نے تو نکاح کو محدود کرکے رکھ دیا ہے جب اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں تو پھر یہ مکروہ تحریمی بن جاتا ہے حضور ﷺ کا اسوہ ہمارے پاس موجود ہے اس کے مطابق نکاح کرو یہ جہیز وغیرہ نہ تو فرض واجب ہے اور نہ سنت ، آخر ہم نے خود اپنے آپ پر کیوں پابندیاں عائد کرلی ہیں ؟ انہی پابندیوں کی وجہ سے فحاشی میں اضافہ ہورہا ہے اس کے خلاف وسیع پیمانے پر جہاد کی ضرورت ہے۔ قوم لوط کا سلوک جب لوط (علیہ السلام) نے قوم کو اس مبنیہ فحاشی سے منع کیا وما کان جواب قومہ تو نہیں تھا قوم کا جواب الا ان قالو سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا اخرجوھم من قریتکم ان کو یعنی لوط (علیہ السلام) اور آپ کے ماننے والوں کو اپنے شہر سے نکال باہر کرو انھم اناس یتطھرون یہ بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں انہیں ہم گنہگاروں کی بستی سے کیا سروکار ، انہیں یہاں سے کسی اچھی جگہ چلے جانا چاہیے لوط (علیہ السلام) نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا انی لعلکم من القالین (الشعرائ) میں تو تمہارے عمل سے نفرت کرتا ہوں آپ دعا کرتے تھے رب نجنی واھلی مما یعملون (الشعرائ) مجھے اور میرے اہل کو ان کے قبیح فعل سے نجات دے آپ اس متمدن علاقے میں عرصے تک تبلیغ کرتے رہے جس کے جواب میں قوم نے سخت مخالفت کی آپ کو مارا پیٹا ، گالیاں دیں آپ پر پتھر برسائے اور آپ کا تمسخر اڑایا مگر ان میں سے کوئی بھی ایمان نہ لایا آپ کی دو بچیاں ایماندار تھیں باقی ساری قوم بمعہ آپ کی بیوی آ پکے خلاف تھے جب آپ نے ہجرت کو تو اس وقت دو جوان بچیاں آپ کے ساتھ تھیں۔ فرمایا فانجینہ واھلہ ہم نے نجات دی لوط (علیہ السلام) اور آپ کے اہل یعنی دو بچیوں کو الا امراتہ ماسوائے بیوی کے وہ بھی عذاب الٰہی سے بچ نہ سکی کانت من الغبرین کیونکہ وہ پیچھے رہنے والوں میں سے تھی اس نے لوط (علیہ السلام) کے ساتھ تو ہجرت نہیں کی اس کی تفصیل سورة حجر میں موجود ہے اللہ نے فرمایا فاسرباھلک بقطع من اللیل اے لوط (علیہ السلام) ! رات کے ایک حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جائیں وہاں بھی آتا ہے ” الا امراتہ قدرنا انھا لمن الغبرین “ مگر بیوی نہیں جائے گی وہ بھی پیچھے رہنے والوں میں ہوگی اور عذاب کا شکار بنے گی۔ قوم پر عذاب جب لوط (علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے نکل گئے تو فرمایا وامطرنا علیھم مطراً ہم نے ان پر خاص قسم کی بارش برسائی۔ جس میں پتھر برسے ، سورة ہود میں اس کی تفصیل موجود ہے وامطرنا علیھا حجارۃ سجیل ہم نے پتھروں سے بارش کی اور پتھر بھی ایسے مسومۃ عندربک جن پر نشان لگے ہوئے تھے کہ یہ پتھر فلاں بےایمان کے سر پر لگے گا اور یہ فلاں کو ہلاک کرے گا اس کے ساتھ آتش فشانی کی کیفیت تھی جس طرح آتش بازی کی صورت میں شعلے نکلتے ہیں اسی طرح آگ کے شعلے بھی نکل رہے تھے اور پتھروں کی بارش بھی ہورہی تھی اس طرح وہ قوم ہلاک ہوگئی اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں بھی عذاب نازل کیا ہے وہاں پر ایسا ہی ذکر کیا ہے کہیں پتھر برسائے ، کہیں زلزلہ آیا ، کہیں ہوا کو مسلط کیا ، کہیں طوفان آیا اور کہیں چیخ نے کام تمام کردیا اللہ نے مختلف اقوام پر مختلف طریقوں سے عذاب نازل کیا فرمایا فانظرکیف کان عاقبۃ المجرمین دیکھو ! مجرموں کا کیسا انجام ہوا برے کاموں کا ہمیشہ برا ہی انجام ہوتا ہے قوم لوط نہایت ہی قبیح فعل کی مرتکب ہوئی بلکہ ہم جنسی کے موجد ہی وہ تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت ہی سخت عذاب کے ذریعے ہلاک کیا جو بھی اللہ کی نافرمانی کرے گا وہ بالآخر خدا تعالیٰ کی گرفت میں آئے گا اگر کسی طرح دنیا میں بچ گیا تو برزخ اور آخرت میں تو بہرحال پکڑا جائے گا۔ لواطت کی شرعی سزا لواطت کی شرعی سزا کے متعلق فقہائے کرام اور محدثین میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں زنا کے تو کئی واقعات پیش آئے اور مجرمین پر حد بھی جاری کی گئی مگر لواطت کا کوئی کیس پیش نہیں آیا نہ آپ نے ایسا کوئی معاملہ نمٹایا یہی وجہ ہے کہ اس فعل شنیع کی سزا میں اختلاف پایا جاتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت جسے ترمذی ، ابودائود اور امام احمد نے اپنی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کے مطاق لواطت کی سزا یہ ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردیا جائے مگر امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں کلام ہے اس کے راوی ضعیف ہیں لہٰذا یہ صحیح نہیں ہے البتہ حضور ﷺ نے فرمایا من یعمل عمل قوم لوط فھو ملعون یعنی جو کوئی قوم لوط کا عمل انجام دے گا وہ ملعون ہے مگر اس حدیث میں قتل کرنے کا حکم نہیں۔ حضرت سعید ابن مسیب (رح) ، عطا (رح) ، امام حسن بصری (رح) ، امام ابراہیم نخعی (رح) ، امام سفیان ثوری (رح) ، امام اوزاعی (رح) ، امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد (رح) وغیرہ ہم فرماتے ہیں کہ لواطت کی سزا زنا کی سزا کے برابر ہے یعنی شادی شدہ کو سنگسار کیا جائے گا ، اور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گے صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ اس فعل کے پہلی دفعہ مرتکب کے لیے سزا نہیں ہے اور اگر دوسری دفعہ پھر یہ فعل کرے تو اسے زانی کے برابر سزا دی جائے امام احمد (رح) اور امام اسحاق (رح) کا مذہب یہ ہے کہ ہم جنسی کرنے والا شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ، اسے ہر حالت میں سنگسار کردینا چاہیے امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ لوطی کو ہر حالت میں قتل کردو یہ سب تعزیرات ہیں جو مختلف فقہائے کرام نے بیان کی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ فعل لواطت کی حد نہیں بلکہ تعزیر ہے چناچہ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی مسلک ہے کہ لواطت میں حد نہیں ہے بلکہ تعزیر ہے جو کہ مسلمان حاکم وقت کی صوابدید پر ہے کہ وہ عمر قید کی سزا دے سزائے موت دے دے یا کوڑے لگوائے چناچہ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں وقد ذھب الامام ابوحنیفہ الی ان من شاھق و یطبیٰ الحجارۃ کما فعل بقوم لوط یعنی حضرت امام ابوحنیفہ (رح) اس طرف گئے ہیں کہ لواطت کے مرتکب کو کسی اونچی جگہ سے گرا کر اوپر پتھر بھی مارنے چاہئیں کیونکہ اللہ نے قوم لوط کو یہی سزا دی تھی اس مسئلہ میں بعض حضرات امام صاحب (رح) کو مطعون کرتے ہیں کہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ لواطت کی حد نہیں ہے حالانکہ یہ بھی لکھا ہے کہ تعزیر ہے اور تعزیر میں سخت ترین ابھی دی جاسکتی ہے جیسا کہ امام صاحب (رح) کا مسلک ہے کہ کسی اونچے مینار سے گرا کر پتھر بھی مارو بہرحال امام صاحب (رح) سزا کے قائل ہیں۔ صاحب مشکوۃ نے سند زریں کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی ؓ نے احرقھما یعنی لواطت کرنے والے دونوں کو آگ میں جلا ڈالا حضرت ابو صدیق ؓ کے متعلق آتا ہے ھدم علیھم حائطا آپ نے مجرم کو دیوار کے نیچے کھڑا کرکے اوپر دیوار گرادی مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے کیس خلفائے راشدین ؓ کے زمانے میں پیش آئے تو انہوں نے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق تعزیر لگائی کیونکہ اس جرم کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ حضرت جابر ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا انی اخاف علیٰ امتی من عمل قوم لوط مجھے اپنی امت سے زیادہ خطرہ ہے کہ وہ قوم لوط والے عمل میں ملوث نہ ہوجائے اس شنیع فعل کے موجد قوم لوط کے لوگ ہیں اس سے پہلے یہ کام نہ عرب میں تھا اور نہ عجم میں مگر جس بات کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خطرہ تھا وہی ہوئی اب یہ فعل ساری دنیا میں پایا جاتا ہے حتیٰ کہ برطانوی پارلیمنٹ نے تو یہ قانون پاس کردیا ہے کہ اگر دو بالغ مرد باہمی رضا مندی سے ہم جنسی کا ارتکاب کرتے ہیں تو ان پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا البتہ اگر یہ فعل کسی کے ساتھ زبردستی کیا جائے تو پھر قابل مواخذہ ہے خنزیر کھانے والے لوگ اسی طرح بےغیرت ہوتے ہیں انگریز اور سکھ دونوں قومیں خنزیر کا گوشت کھاتی ہیں اور دونوں پرلے درجے کے بےحیا ہیں۔ ان لوگوں کو زنا کے متعلق بھی یہی نظریہ ہے کہ اگر رضا مندی سے کیا جائے تو کوئی گرفت نہیں اور اگر بالجبر (RAPE) ہو تو پھر جرم ہے۔ شہوت رانی کے ناجائز ذرائع فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ عورت کے مقام مکروہ سے مجامعت کرنا بھی قطعی حرام ہے حضور ﷺ کا اشراد ہے ملعون من اتی امراۃ فی دبرھا ایسا شخص ملعون ہے …………… ترمذی شریف میں یہ بھی آتامن اتی خائضا او امراۃ فی دبرھا اوکاھتا فصدقہ فقد کفر بما انزل علی محمد جس شخص نے حائضہ عورت سے مجامعت کی یا عورت کے ساتھ قوم لوط کا عمل کیا یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کی اس نے محمد ﷺ پر نازل شدہ چیز کا انکار کیا اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس سے ترمذی شریف میں منقول ہے من اتی بھیمہ فلاحد علیہ جس نے کسی جانور سے فعل بد کا ارتکاب کیا اس پر حد نہیں ہے البتہ تعزیر ہوگی یہی قول امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے جس حدیث میں آتا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی جانور کے ساتھ ملوث پایا جائے تو دونوں کو قتل کردو یہ ح دیث صحیح نہیں ہے فعل بہرحال حرام ہے اور مرتکب شخص ملعون ہے شیخ عبدالحق (رح) اپنی کتاب لمعات میں لکھتے ہیں کہ چاروں آئمہ اس بات پر متفق ہیں کہ جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے والے پر حد نہیں ہے یہی مسلک امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے۔ مولانا مودودی کا سہو مولانا مودودی (رح) نے حضرت لوط (علیہ السلام) کے متعلق آیت 80 کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ” اپنے چچا کے ساتھ عراق سے نکلے اور کچھ مدت تک شام و فلسطین و مصر میں گشت لگا کر دعوت و تبلیغ کا تجربہ حاصل کرتے رہے پھر مستقل پیغمبر کے منصب پر سرفراز ہو کر اس بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح پر مامور ہوئے۔ مولانا کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے نبوت کو عام سرکاری ملازمت یا سول سروس پر قیاس کیا ہے گویا لوط (علیہ السلام) پہلے ٹریننگ حاصل کرتے رہے اور اس کے بعد منصب نبوت پر فائز ہوئے ایسی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے انبیاء کا انتخاب کرتا ہے وہ ان کی صلاحیتوں سے واقف ہوتا ہے اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ (الانعام) وہ جانتا ہے کہ منصب رسالت کو کہاں رکھنا ہے اور پھر اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہے نبوت عطا ہونے سے پہلے خود نبی کے علم میں بھی نہیں ہوتا کہ اسے کس منصب پر سرفراز ہوتا ہے چناچہ حضور ﷺ کے متعلق واضح طور پر موجود ہے ” وما کنت تدری ما الکتب ولا ایمان “ (الشوری) نبوت سے پہلے آپ کو کتاب و ایمان کا علم نہیں تھا پھر جب نبوت عطا ہوجاتی ہے تو نبی کو حکم ہوتا ہے ” بلغ ما انزل الیک من ربک “ جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا جاتا ہے اس کو پہنچا دیں ” وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ “ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو حق رسالت ادا نہیں کیا بہرحال یہ اللہ کی شان ہے کہ وہ جس کو چاہے نبوت و رسالت کے لیے منتخب فرمائے اور پھر جسے اس منصب کے لیے منتخب فرماتا ہے اس کی تربیت اور حفاظت کا انتظام بھی خود ہی فرماتا ہے کسی نبی کے لیے کسی دوسری جگہ سے تربیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
Top