Mualim-ul-Irfan - Al-A'raaf : 80
وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ
وَلُوْطًا : اور لوط اِذْ : جب قَالَ : کہا لِقَوْمِهٖٓ : اپنی قوم سے اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ : کیا آتے ہو بیحیائی کے پاس (بیحیائی کرتے ہو) مَا سَبَقَكُمْ : جو تم سے پہلے نہیں کی بِهَا : ایسی مِنْ اَحَدٍ : کسی نے مِّنَ : سے الْعٰلَمِيْنَ : سارے جہان
اور (ہم نے) لوط (علیہ السلام) (کو رسول بنا کر بھیجا) ۔ جب کہا انہوں نے اپنی قوم سے (اے لوگو ! ) کیا تم بےحیائی کا ایسا کام کرتے ہو جو تم سے پہلے کسی نے نہیں کیا جہان والوں میں سے
ربط آیات اس سے پہلے اللہ تعالیٰ حضرات نوح ، ہود اور صالح علیہ (علیہم السلام) کے تاریخی واقعات بیان کرچکے ہیں جن کے ذریعے اہل ایمان کو جرات دلائی جارہی ہے کہ دیکھو ! اللہ کے انبیاء نے کتنے نامساعد حالات میں بھی دین کی خدمت کی اور خدا کا پیغام اپنی اپنی قوموں تک پہنچایا۔ یہ واقعات اگرچہ اجالاً بیان کیے گئے ہیں تاہم مقصد یہ ہے کہ امت آخر الزمان کو بھی یہ واقعات پیش نظر رکھ کر دین کے کام کو آگے بڑھانا ہے اس سورة میں حضرت صالح (علیہ السلام) کے بعد حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا حال بیان فرمایا ہے ولوطاً اس کا عطف بھی لقد ارسلنا نوحاً پر ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہم نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو رسول بناکر بھیجا تو یہاں پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تقریر اور قوم کے جواب کا تذکرہ فرمایا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے آپ کا تعلق کلدانی خاندان سے ہے آپ اور ابراہیم (علیہ السلام) کا وطن مالوف بابل ہے جو موجودہ بغداد سے ساٹھ ستر میل دور تقریباً سو مربع میل پر پھیلا ہوا بہت بڑا شہر تھا شہر کلدانیوں اور آشوریوں کا دارالخلافہ رہا ہے بڑا متمدن شہر تھا ابراہیم (علیہ السلام) اسی شہر میں پیدا ہوئے جوان ہوئے تو اللہ کی طرف سے نبوت عطا ہوئی انہوں نے لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچایا مگر آپ کی بیوی سارہ اور بھتیجے لوط (علیہ السلام) (جو اس وقت بچے تھے) کے سوا کوئی شخص ایمان نہ لایا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فامن لہ لوط (العنکبوت) مردوں میں صرف لوط (علیہ السلام) آپ پر ایمان لائے پھر اللہ تعالیٰ ے ہجرت کرجانے کا اشارہ فرمایا تو ابراہیم (علیہ السلام) اپنی بیوی اور لوط (علیہ السلام) کے ساتھ بابل نے نکل کھڑے ہوئے پہلے مصر پہنچے وہاں سے ایک خادمہ ہاجرہ بھی مل گئی جس کے ساتھ آپ نے بعد میں نکاح کرلیا پھر راستے میں کسی مقام پر حضرت لوط (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی اور حکم ہوا کہ شرق اردن میں پہنچ کر وہاں کے لوگوں کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچائو ، یہ بھی اس زمانے میں بڑا متمدن علاقہ تھا امام ابن کثیر (رح) نے لکھا ہے کہ اس علاقے میں چار بڑے بڑے شہر تھے جن کی آبادی چار لاکھ سے کم نہ تھی یہ شہر سدوم ، عامورہ ، دواما اور صعودا تھے سدوم کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور یہ دارالخلافہ تھا بڑا سرسبز علاقہ تھا کھیتی باڑی اور باغات عام تھے تجارت بھی وسیع پیمانے پر ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کو اہل سدوم کی طرف رسول بناکر بھیجا آپ کا سلسلہ نسب لوط بن ہارن بن تارخ یا آزر ہے۔ مشترک اور متفقر جرائم جن جن اقوام کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء مبعوث فرمائے ان میں بعض مشترک جرائم تھے اور بعض مختلف ، کفر اور شرک تمام اقوام کا مشترک جرم ہے اس میں سب لوگ ہی مبتلا رہے ہیں چناچہ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے ہر نبی کی پہلی دعوت یہی ہوتی تھی یقوم اعبدواللہ مالکم من اللہ غیرہ اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ کی عادت کرو اس کے سوا کوئی معبود نہیں بعض جرائم مختلف اقوام میں مختلف رہے ہیں مثلاً شعیب (علیہ السلام) کی قوم تجارتی بددیانتی کا شکار تھی وہ ماپ تول میں کمی بیشی کرتے تھے ہود (علیہ السلام) کی قوم میں غرور وتکبر کی فراوانی تھی صالح (علیہ السلام) کی قوم اسراف و تبذیر کا شکار تھی بےجا عمارتیں بناتے تھے اور لہود لہب میں مصروف رہتے تھے اسی طرح قوم لوط فعل خلاف وضع فطری یعنی اغلام بازی میں ملوث تھی حضرت لوط (علیہ السلام) کے تذکرے میں ان کی قوم کی اس قبیح بیماری لواطت یا سدومت کا ذکر بھی آتا ہے زنا اور لواطت ملتے جلتے جرائم ہیں مگر لواطت زنا سے بھی شدید تر جرم ہے صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ یہ فعل طبعاً عقلاً اور شرعاً ہر لحاظ سے قبیح ہے زنا قطعاً حرام ہے اگرچہ وہ طبعی محل میں ہوتا ہے مگر لواطت کا تعلق تو غیر طبعی محل سے ہے لہٰذا یہ تو زنا سے بھی بڑا جرم ہے کہتے ہیں کہ اس علاقے میں باغات عام تھے لوگ ان کا پھل توڑ لیتے تھے جن میں بچے بھی ہوتے تھے شیطان نے ان کو پٹی پڑھائی کہ بچوں سے یہ فعل کرو تو وہ پھل توڑنے سے باز آجائیں گے انہوں نے ایسا ہی کیا اور اس طرح اس فعل بد کی ابتداء ہوئی قوم لوط سے پہلے یہ بیماری کسی قوم میں نہ تھی یہ لوگ آہستہ آہتہ حادی ہوگئے حتیٰ کہ ان کی فطرت سلیمہ ہی مسخ ہو کر رہ گئی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عورتوں کی طرف التفات ختم ہوگیا اور شہوت رانی مردوں کے ذریعے ہونے لگی۔ فحاشی کا ارتکاب نیکی کا حکم اور برائی سے امتناع ہر نبی کے فرائض منصبی میں شامل رہا ہے تمام نبی لوگوں کو برائیوں سے روکتے رہے کفر شرک کے علاوہ مخصوص برائیوں کے خلاف بھی انبیائے کرام آواز اٹھاتے رہے حضرت لوط (علیہ السلام) نے بھی اپنا فرض ادا کیا اذقال لقومہ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا اتالون الفاحشۃ کیا تم ایسی بےحیائی کا ارتکاب کرتے ہو ماسبقکم بھا من احد من العلمین کہ تم سے پہلے جہان بھر میں یہ کام کسی نے نہیں کیا یہاں پر لواطت کو بےحیائی کہا گیا ہے جب کہ زنا کو بھی اسی لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ولا تقربو لزنی انہ کان فاحشۃ (بنی اسرائیل) زنا کے قریب نہ جائو کے بیشک یہ بےحیائی ہے قرآن پاک میں بخل کو بھی فحش کیا گیا ہے کیونکہ ذہنی طور پر وہ بھی فحاشی ہوتی ہے عملی طور پر زنا بھی فحش ہے اور لواطت اس سے بڑھ کر مولانا عبیداللہ سندھی (رح) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ لواطت اتنی خلاف طبع بات ہے کہ جانوروں میں بھی نہیں پائی جاتی ماسوائے بندر کے یہی وجہ ہے کہ جن قوموں کی اللہ نے سزا کے طور پر شکلیں بدل دیں انہیں بندر اور خنزیر بنا دیا بندر اور خنزیر دونوں غلیظ جانور ہیں اللہ تعالیٰ نے شہوانی خواہش کی تکمیل کے لیے مرد کے مقابلے میں عورت کو پیدا کیا ہے مگر اس بدترین فعل کے اولین مرتکبین قوم لوط ٹھہری چناچہ لوط (علیہ السلام) نے صریح لفظوں میں اپنی قوم سے فرمایا انکم لتاتون الرجال شھوۃ من دون النساء تم مردوں پر شہوت رانی کرتے ہوئے دوڑتے ہو عورتوں کو چھوڑ کر دوسری جگہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے عورتیں پیدا کی ہیں تاکہ نکاح کرکے اپنے طبعی تقاضے پورے کرو فرمایا تم نے جائز ذریعہ چھوڑ کر غیر فطری طریقہ اختیار کیا بل انتم قوم مسرفون تم حد سے بڑھنے والے لوگ ہوں۔ شہوت رانی کے جائز ذرائع اللہ تعالیٰ نے انسان میں میلان شہوانی دو مقاصد کے لیے پیدا کیا ہے ایک تو نفسانی خواہش کی تکمیل ہے اور دوسرے نسل انسانی کا بقا ہے شہوانی مادہ انسان کو برائی پر آمادہ کرتا ہے اسی لیے دعا میں سکھایا گیا ہے الھم انی اعوذبک من شرمنی اے اللہ ! میں مادہ شہوت سے تیری پناہ پکڑتا ہوں اللہ تعالیٰ نے اس طبعی خواہش کو پورا کرنے کے لیے عورتوں سے نکاح کا حکم دیا ہے فانکحوا ماطاب لکم من النساء (النسائ) منکوحہ عورتوں کے علاوہ اوما ملکت ایمانکم کے مطابق لونڈیوں سے بھی طبعی خواہش پوری کی جاسکتی ہے اس زمانے میں چونکہ لونڈیوں کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اس لیے نکاح ہی واحد ذریعہ ہے جس سے انسان طبعی تقاضے پورے کرسکتا ہے فرمایا فمن ابتغی ورآء ذلک فاولیک ھم العدون (المعارج) اس کے علاوہ اگر کوئی دیگر راستہ اختیار کرے گا تو وہ تعدی کرنے والا ہوگا۔ اغلام بازی کی طرح جانوروں کے ساتھ خلاف وضع فطری فعل کا ارتکاب بھی قطعاً حرام ہے اسی طرح مشت زنی کے ذریعہ مادہ منویہ کو خارج کرنا بھی ملعون ہے گویا جائز طریقہ صرف نکاح ہے حضور نے فرمایا کہ نکاح وہ بابرکت ہے جس میں تکلف نہ ہو سہل اور آسان طریقے سے نکاح کرو تاکہ برائیوں کا تدارک ہوسکے ہمارے ہاں تو نکاح کو سخت مشکل بنا دیا گیا لمبا چوڑا جہیز ، بلاوجہ لاتعداد جوڑے اور زیورات اور پھر تکلف دعوتیں ایسی قباحتیں ہیں جو نکاح کے راستے میں رکاوٹ بن رہی ہیں ان غلط رسومات کی وجہ سے سال ہا سال بچے بچیاں نکاح سے محروم رہتے ہیں جس کی وجہ سے طرح طرح کی معاشرتی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ادھر تعدد ازواج پر بھی پابندی ہے حالانکہ نکاح کو عام کرنے کا حکم تاکہ فحاشی کو پھیلنے کا موقع ہی نہ ملے تندرست آدمی ہو ، کمائی کرسکتا ہو ، نمازی اور دیانتدار ہو ، بس کافی ہے نکاح کردوخ جہیز کی لعنت نے تو نکاح کو محدود کرکے رکھ دیا ہے جب اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں تو پھر یہ مکروہ تحریمی بن جاتا ہے حضور ﷺ کا اسوہ ہمارے پاس موجود ہے اس کے مطابق نکاح کرو یہ جہیز وغیرہ نہ تو فرض واجب ہے اور نہ سنت ، آخر ہم نے خود اپنے آپ پر کیوں پابندیاں عائد کرلی ہیں ؟ انہی پابندیوں کی وجہ سے فحاشی میں اضافہ ہورہا ہے اس کے خلاف وسیع پیمانے پر جہاد کی ضرورت ہے۔ قوم لوط کا سلوک جب لوط (علیہ السلام) نے قوم کو اس مبنیہ فحاشی سے منع کیا وما کان جواب قومہ تو نہیں تھا قوم کا جواب الا ان قالو سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا اخرجوھم من قریتکم ان کو یعنی لوط (علیہ السلام) اور آپ کے ماننے والوں کو اپنے شہر سے نکال باہر کرو انھم اناس یتطھرون یہ بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں انہیں ہم گنہگاروں کی بستی سے کیا سروکار ، انہیں یہاں سے کسی اچھی جگہ چلے جانا چاہیے لوط (علیہ السلام) نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا انی لعلکم من القالین (الشعرائ) میں تو تمہارے عمل سے نفرت کرتا ہوں آپ دعا کرتے تھے رب نجنی واھلی مما یعملون (الشعرائ) مجھے اور میرے اہل کو ان کے قبیح فعل سے نجات دے آپ اس متمدن علاقے میں عرصے تک تبلیغ کرتے رہے جس کے جواب میں قوم نے سخت مخالفت کی آپ کو مارا پیٹا ، گالیاں دیں آپ پر پتھر برسائے اور آپ کا تمسخر اڑایا مگر ان میں سے کوئی بھی ایمان نہ لایا آپ کی دو بچیاں ایماندار تھیں باقی ساری قوم بمعہ آپ کی بیوی آ پکے خلاف تھے جب آپ نے ہجرت کو تو اس وقت دو جوان بچیاں آپ کے ساتھ تھیں۔ فرمایا فانجینہ واھلہ ہم نے نجات دی لوط (علیہ السلام) اور آپ کے اہل یعنی دو بچیوں کو الا امراتہ ماسوائے بیوی کے وہ بھی عذاب الٰہی سے بچ نہ سکی کانت من الغبرین کیونکہ وہ پیچھے رہنے والوں میں سے تھی اس نے لوط (علیہ السلام) کے ساتھ تو ہجرت نہیں کی اس کی تفصیل سورة حجر میں موجود ہے اللہ نے فرمایا فاسرباھلک بقطع من اللیل اے لوط (علیہ السلام) ! رات کے ایک حصے میں اپنے گھر والوں کو لے کر نکل جائیں وہاں بھی آتا ہے ” الا امراتہ قدرنا انھا لمن الغبرین “ مگر بیوی نہیں جائے گی وہ بھی پیچھے رہنے والوں میں ہوگی اور عذاب کا شکار بنے گی۔ قوم پر عذاب جب لوط (علیہ السلام) اپنے گھر والوں کو لے کر بستی سے نکل گئے تو فرمایا وامطرنا علیھم مطراً ہم نے ان پر خاص قسم کی بارش برسائی۔ جس میں پتھر برسے ، سورة ہود میں اس کی تفصیل موجود ہے وامطرنا علیھا حجارۃ سجیل ہم نے پتھروں سے بارش کی اور پتھر بھی ایسے مسومۃ عندربک جن پر نشان لگے ہوئے تھے کہ یہ پتھر فلاں بےایمان کے سر پر لگے گا اور یہ فلاں کو ہلاک کرے گا اس کے ساتھ آتش فشانی کی کیفیت تھی جس طرح آتش بازی کی صورت میں شعلے نکلتے ہیں اسی طرح آگ کے شعلے بھی نکل رہے تھے اور پتھروں کی بارش بھی ہورہی تھی اس طرح وہ قوم ہلاک ہوگئی اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں بھی عذاب نازل کیا ہے وہاں پر ایسا ہی ذکر کیا ہے کہیں پتھر برسائے ، کہیں زلزلہ آیا ، کہیں ہوا کو مسلط کیا ، کہیں طوفان آیا اور کہیں چیخ نے کام تمام کردیا اللہ نے مختلف اقوام پر مختلف طریقوں سے عذاب نازل کیا فرمایا فانظرکیف کان عاقبۃ المجرمین دیکھو ! مجرموں کا کیسا انجام ہوا برے کاموں کا ہمیشہ برا ہی انجام ہوتا ہے قوم لوط نہایت ہی قبیح فعل کی مرتکب ہوئی بلکہ ہم جنسی کے موجد ہی وہ تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نہایت ہی سخت عذاب کے ذریعے ہلاک کیا جو بھی اللہ کی نافرمانی کرے گا وہ بالآخر خدا تعالیٰ کی گرفت میں آئے گا اگر کسی طرح دنیا میں بچ گیا تو برزخ اور آخرت میں تو بہرحال پکڑا جائے گا۔ لواطت کی شرعی سزا لواطت کی شرعی سزا کے متعلق فقہائے کرام اور محدثین میں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں حضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں زنا کے تو کئی واقعات پیش آئے اور مجرمین پر حد بھی جاری کی گئی مگر لواطت کا کوئی کیس پیش نہیں آیا نہ آپ نے ایسا کوئی معاملہ نمٹایا یہی وجہ ہے کہ اس فعل شنیع کی سزا میں اختلاف پایا جاتا ہے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت جسے ترمذی ، ابودائود اور امام احمد نے اپنی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے کے مطاق لواطت کی سزا یہ ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردیا جائے مگر امام ترمذی (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں کلام ہے اس کے راوی ضعیف ہیں لہٰذا یہ صحیح نہیں ہے البتہ حضور ﷺ نے فرمایا من یعمل عمل قوم لوط فھو ملعون یعنی جو کوئی قوم لوط کا عمل انجام دے گا وہ ملعون ہے مگر اس حدیث میں قتل کرنے کا حکم نہیں۔ حضرت سعید ابن مسیب (رح) ، عطا (رح) ، امام حسن بصری (رح) ، امام ابراہیم نخعی (رح) ، امام سفیان ثوری (رح) ، امام اوزاعی (رح) ، امام ابو یوسف (رح) اور امام محمد (رح) وغیرہ ہم فرماتے ہیں کہ لواطت کی سزا زنا کی سزا کے برابر ہے یعنی شادی شدہ کو سنگسار کیا جائے گا ، اور غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گے صاحب روح المعانی فرماتے ہیں کہ اس فعل کے پہلی دفعہ مرتکب کے لیے سزا نہیں ہے اور اگر دوسری دفعہ پھر یہ فعل کرے تو اسے زانی کے برابر سزا دی جائے امام احمد (رح) اور امام اسحاق (رح) کا مذہب یہ ہے کہ ہم جنسی کرنے والا شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ، اسے ہر حالت میں سنگسار کردینا چاہیے امام شافعی (رح) کہتے ہیں کہ لوطی کو ہر حالت میں قتل کردو یہ سب تعزیرات ہیں جو مختلف فقہائے کرام نے بیان کی ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ فعل لواطت کی حد نہیں بلکہ تعزیر ہے چناچہ امام ابوحنیفہ (رح) کا بھی یہی مسلک ہے کہ لواطت میں حد نہیں ہے بلکہ تعزیر ہے جو کہ مسلمان حاکم وقت کی صوابدید پر ہے کہ وہ عمر قید کی سزا دے سزائے موت دے دے یا کوڑے لگوائے چناچہ امام ابن کثیر (رح) فرماتے ہیں وقد ذھب الامام ابوحنیفہ الی ان من شاھق و یطبیٰ الحجارۃ کما فعل بقوم لوط یعنی حضرت امام ابوحنیفہ (رح) اس طرف گئے ہیں کہ لواطت کے مرتکب کو کسی اونچی جگہ سے گرا کر اوپر پتھر بھی مارنے چاہئیں کیونکہ اللہ نے قوم لوط کو یہی سزا دی تھی اس مسئلہ میں بعض حضرات امام صاحب (رح) کو مطعون کرتے ہیں کہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ لواطت کی حد نہیں ہے حالانکہ یہ بھی لکھا ہے کہ تعزیر ہے اور تعزیر میں سخت ترین ابھی دی جاسکتی ہے جیسا کہ امام صاحب (رح) کا مسلک ہے کہ کسی اونچے مینار سے گرا کر پتھر بھی مارو بہرحال امام صاحب (رح) سزا کے قائل ہیں۔ صاحب مشکوۃ نے سند زریں کے حوالے سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی ؓ نے احرقھما یعنی لواطت کرنے والے دونوں کو آگ میں جلا ڈالا حضرت ابو صدیق ؓ کے متعلق آتا ہے ھدم علیھم حائطا آپ نے مجرم کو دیوار کے نیچے کھڑا کرکے اوپر دیوار گرادی مقصد یہ ہے کہ اس قسم کے کیس خلفائے راشدین ؓ کے زمانے میں پیش آئے تو انہوں نے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق تعزیر لگائی کیونکہ اس جرم کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ حضرت جابر ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا انی اخاف علیٰ امتی من عمل قوم لوط مجھے اپنی امت سے زیادہ خطرہ ہے کہ وہ قوم لوط والے عمل میں ملوث نہ ہوجائے اس شنیع فعل کے موجد قوم لوط کے لوگ ہیں اس سے پہلے یہ کام نہ عرب میں تھا اور نہ عجم میں مگر جس بات کا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خطرہ تھا وہی ہوئی اب یہ فعل ساری دنیا میں پایا جاتا ہے حتیٰ کہ برطانوی پارلیمنٹ نے تو یہ قانون پاس کردیا ہے کہ اگر دو بالغ مرد باہمی رضا مندی سے ہم جنسی کا ارتکاب کرتے ہیں تو ان پر کوئی جرم عائد نہیں ہوتا البتہ اگر یہ فعل کسی کے ساتھ زبردستی کیا جائے تو پھر قابل مواخذہ ہے خنزیر کھانے والے لوگ اسی طرح بےغیرت ہوتے ہیں انگریز اور سکھ دونوں قومیں خنزیر کا گوشت کھاتی ہیں اور دونوں پرلے درجے کے بےحیا ہیں۔ ان لوگوں کو زنا کے متعلق بھی یہی نظریہ ہے کہ اگر رضا مندی سے کیا جائے تو کوئی گرفت نہیں اور اگر بالجبر (RAPE) ہو تو پھر جرم ہے۔ شہوت رانی کے ناجائز ذرائع فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ عورت کے مقام مکروہ سے مجامعت کرنا بھی قطعی حرام ہے حضور ﷺ کا اشراد ہے ملعون من اتی امراۃ فی دبرھا ایسا شخص ملعون ہے …………… ترمذی شریف میں یہ بھی آتامن اتی خائضا او امراۃ فی دبرھا اوکاھتا فصدقہ فقد کفر بما انزل علی محمد جس شخص نے حائضہ عورت سے مجامعت کی یا عورت کے ساتھ قوم لوط کا عمل کیا یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی باتوں کی تصدیق کی اس نے محمد ﷺ پر نازل شدہ چیز کا انکار کیا اسی طرح حضرت عبداللہ ابن عباس سے ترمذی شریف میں منقول ہے من اتی بھیمہ فلاحد علیہ جس نے کسی جانور سے فعل بد کا ارتکاب کیا اس پر حد نہیں ہے البتہ تعزیر ہوگی یہی قول امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے جس حدیث میں آتا ہے کہ اگر کوئی آدمی کسی جانور کے ساتھ ملوث پایا جائے تو دونوں کو قتل کردو یہ ح دیث صحیح نہیں ہے فعل بہرحال حرام ہے اور مرتکب شخص ملعون ہے شیخ عبدالحق (رح) اپنی کتاب لمعات میں لکھتے ہیں کہ چاروں آئمہ اس بات پر متفق ہیں کہ جانور کے ساتھ بدفعلی کرنے والے پر حد نہیں ہے یہی مسلک امام ابوحنیفہ (رح) کا ہے۔ مولانا مودودی کا سہو مولانا مودودی (رح) نے حضرت لوط (علیہ السلام) کے متعلق آیت 80 کی تفسیر میں لکھا ہے کہ ” اپنے چچا کے ساتھ عراق سے نکلے اور کچھ مدت تک شام و فلسطین و مصر میں گشت لگا کر دعوت و تبلیغ کا تجربہ حاصل کرتے رہے پھر مستقل پیغمبر کے منصب پر سرفراز ہو کر اس بگڑی ہوئی قوم کی اصلاح پر مامور ہوئے۔ مولانا کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے نبوت کو عام سرکاری ملازمت یا سول سروس پر قیاس کیا ہے گویا لوط (علیہ السلام) پہلے ٹریننگ حاصل کرتے رہے اور اس کے بعد منصب نبوت پر فائز ہوئے ایسی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ اپنی مرضی سے انبیاء کا انتخاب کرتا ہے وہ ان کی صلاحیتوں سے واقف ہوتا ہے اللہ اعلم حیث یجعل رسالتہ (الانعام) وہ جانتا ہے کہ منصب رسالت کو کہاں رکھنا ہے اور پھر اس کے مطابق فیصلہ کرنا ہے نبوت عطا ہونے سے پہلے خود نبی کے علم میں بھی نہیں ہوتا کہ اسے کس منصب پر سرفراز ہوتا ہے چناچہ حضور ﷺ کے متعلق واضح طور پر موجود ہے ” وما کنت تدری ما الکتب ولا ایمان “ (الشوری) نبوت سے پہلے آپ کو کتاب و ایمان کا علم نہیں تھا پھر جب نبوت عطا ہوجاتی ہے تو نبی کو حکم ہوتا ہے ” بلغ ما انزل الیک من ربک “ جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا جاتا ہے اس کو پہنچا دیں ” وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ “ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو حق رسالت ادا نہیں کیا بہرحال یہ اللہ کی شان ہے کہ وہ جس کو چاہے نبوت و رسالت کے لیے منتخب فرمائے اور پھر جسے اس منصب کے لیے منتخب فرماتا ہے اس کی تربیت اور حفاظت کا انتظام بھی خود ہی فرماتا ہے کسی نبی کے لیے کسی دوسری جگہ سے تربیت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
Top