Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 6
فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا
فَلَعَلَّكَ : تو شاید آپ بَاخِعٌ : ہلاک کرنیوالا نَّفْسَكَ : اپنی جان عَلٰٓي : پر اٰثَارِهِمْ : ان کے پیچھے اِنْ : اگر لَّمْ يُؤْمِنُوْا : وہ ایمان نہ لائے بِهٰذَا : اس الْحَدِيْثِ : بات اَسَفًا : غم کے مارے
سو کہیں تو گھونٹ ڈالے گا اپنی جان کو ان کے پیچھے8 اگر وہ نہ مانیں گے اس بات کو پچھتا پچھتا کر  
8:۔ یہ آں حضرت ﷺ کے لیے تسلی ہے۔ ” لعل “ یہاں ترجی کے لیے نہیں بلکہ اشفاق کے لیے ہے۔ کیونکہ لعل محبوب چیز کے ساتھ ترجی کے لیے ہوتا ہے اور محذور (یعنی جس سے مخاطب کو ڈرانا اور روکنا منظور ہو) کے ساتھ اظہار شفقت کے لیے۔ یہاں دوسری شق ہے اللہ تعالیٰ نے آں حضرت ﷺ کو مشرکوں کے پیچھے جان مارنے سے منع فرمایا ہے (بحر ج 6 ص 97) ۔ آیت کا ترجمہ اس طرح ہوگا۔ کہیں آپ ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک نہ کرلیں۔ ” اسفا “ یہ ” باخع “ کا مفعول لہ ہے اور اسف کے معنی شدت غم کے ہیں۔ آپ کی خواہش تھی کہ مشرکین کفر و انکار سے باز آجائیں اور ایمان لے آئیں اور مسئلہ توحید کو مان لیں۔ مگر آپ کی امکانی کوششوں اور دعوت و تبلیغ کے انتہائی ناصحانہ اور موثر انداز کے باوجود کفر و انکار اور آپ کی مخالفت میں اور آگے بڑھ گئے۔ اس سے آپ کو محض ازراہ شفقت بہت زیادہ افسوس اور رنج و غم دامنگیر ہوا۔ یہاں تک کہ آپ ہر وقت متفکر اور غمگین رہنے لگے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسلی کیلئے یہ آیتیں نازل فرمائیں۔ اور آپ کو تسلی دی کہ آپ نے فریضہ تبلیغ و انذار وتبشیر کا حق ادا کردیا۔ اور میرا پیغام توحید احسن طریق سے مشرکین تک پہنچا دیا۔ اب اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو آپ اس کا غم نہ کریں کیونکہ دولت ایمان سے ان کو سرفراز کرنا یہ نہ آپ کا فریضہ ہے نہ آپ کے اختیار وقدرت میں ہے المقصود ان یقال للرسول لا یعطم حزنک و اسفک بسبب کفرھم فنا بعثنک منذرا و مبشرا فاما تحصیل الایمان فی قلوبھم فلا قدرۃ لک علیہ والغرض تسلیۃ الرسول ﷺ عنہ (کبیر ج 5 ص 677) ۔
Top