بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ahkam-ul-Quran - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
بیشک ایمان والے رستگار ہوگئے
نماز میں خشوع وخضوع قول باری ہے (قد افلح المومنون الذین ھم فی صلوتھم خاشعون) یقینافلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں) ابن عون نے محمد بن سیرین سے روایت کی ہے کہ حضو ر ﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھاتے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے اپنا سرجھکا لیا۔ ہشام نے مجھ سے روایت کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے اپنی آنکھیں جھکا لیں۔ ہر شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کی نگاہ اس کی سجدے کی جگہ سے آگے نہ جائے۔ ایک جماعت سے مروی ہے کہ نماز میں خشوع سے مراد یہ ہے کہ نگاہ سجدے کی جگہ سے آگے نہ جائے۔ ابراہیم، مجاہد اور زہری سے مروی ہے کہ خشوع کے معنی سکون کے ہیں۔ المسعودی نے ابوسنان سے اور انہوں نے اپنے ایک آدمی سے روایت کی ہے کہ حضرت علی سے اس آیت کی تفسیر پوچھی گئی۔ آپ نے فرمایا۔ خشوع کا تعلق دل سے ہے نیز یہ کہ تم مسلمان شخص کے لئے اپنا کندھا نرم رکھا اور نماز میں دائیں بائیں نہ دیکھو۔ “ حسن کا قول ہے کہ خاشعون بمعنی خائفون ہے یعنی ڈرنے والے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ خشوع کا لفظ ان تمام معانی کو شامل ہے یعنی نماز میں سکون اختیار کرنا، عاجزی کا اظہار کرنا۔ دائیں بائیں نہ یدکھنا ، حرکت نہ کرنا اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔ حضور ﷺ سے آپ کا یہ ارشاد منقول ہے (اسکنوا فی الصلوۃ و کفوا ایدیکم فی الصلوۃ نماز میں سکون اختیار کرو اور اپنے ہاتھوں کو روکے رکھو) نیز فرمایا (امرت ان اسجد علی سبعۃ اعضاء وان لااکف شعرا ولا ثوباً مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات اعضاء کے بل سجدوں کروں، اور بالوں اور کپڑے کو نہ سمیٹوں) حضور ﷺ نے نماز میں کنکریوں کو ہاتھ لگانے سے منع فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے (اذا قام الرجل یصلی فان الرحمۃ تواجھہ فاذا التفت انصوفت عنہ، جب ایک شخص کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہوجاتی ہے ۔ جب وہ دائیں بائیں دیکھتا ہے تو رحمت منہ موڑ کر چلی جاتی ہے) زہری نے سعید بن المسیب سے روایت کی ہے کہ حضور ﷺ نماز میں نگاہ اٹھاتے تھے لیکن دائیں بائیں نہیں دیکھتے تھے۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابوء دائود نے، انہیں ابو توبہ نے ، انہیں معاویہ بن سلام نے زید بن سلام سے کہ انہوں نے ابو سلام کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ مجھے السلولی نے روایت بیان کی، اور انہیں سہل بن الحنظلیہ نے کہ صحابہ کرام حضور ﷺ کے ہمراہ حنین کی طرف روانہ ہوگئے۔ سہل نے سلسلہ حدیث جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حضور ﷺ نے صحابہ سے پوچھا۔” آج رات پہرہ دینے کے فرائض کون سر انجام دے گا ؟ “ حضرت انس بن ابی مرثد الغنوی نے عرض کیا۔” میں سرانجام دوں گا۔ “ آپ ﷺ نے فرمایا۔” پھر گھوڑے پر سوار ہو جائو۔ “ وہ گھوڑے پر سوار ہو کر حضور ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا۔” اس گھاٹی کی طرف چلے جائو یہاں تک کہ اس کی بلندی پر پہنچ جائو اور ہو شیار رہنا کہ کہیں رات کی وجہ سے دھوکا نہ جائو۔ “ جب صبح ہوئی تو حضو ر ﷺ نماز گاہ کی طرف چل پڑے اور وہاں پہنچ کر دو رکعت نماز ادا کی پھر فرمایا ” کیا تم نے اپنے سوار کی موجودگی کو محسوس کیا ؟ “ صحابہ نے نفی میں جواب دیا۔ اس کے بعد جماعت کے لئے صفیں درست ہوئیں اور اقامت کہی گئی۔ حضور ﷺ نماز کے دوران گھاٹی کی طرف بار بار دیکھتے رہے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ نے دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرا تو فرمایا۔ تمہیں بشارت ہو، تمہارا سوار آگیا ہے۔ “ اس روایت میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ آپ ﷺ نماز کے اندر بار بار گھاٹی کی طرف دیکھتے رہے۔ ہمارے نزدیک یہ بات دو وجوہ سے عذر پر محمول ہے۔ ایک تو یہ کہ آپ کو اس گھاٹی کی طرف سے دشمن کے اچانک حملے کا خطرہ تھا اور دوسری یہ کہ آپ سوار کے متعقل فکر مند تھے جب تک کہ اس کی آمد نہ ہوگئی۔ ابراہیم نخعی کے متعلق مروی ہے کہ وہ نماز میں دزدیدہ نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا کرتے تھے۔ حماد بن سلمہ نے حمید سے انہوں نے معاویہ بن قرہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن عمر سے استفسار کیا گیا کہ عبداللہ بن الزبیر نماز میں فلاں فلاں حرکت نہیں کرت ییعنی دائیں بائیں نہیں دیکھتے یہ سن کر حضرت ابن عمر نے فرمایا۔” لیکن ہم تو کرتے ہیں اور ہم لوگوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں۔ “ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ آپ نماز میں دائیں بائیں التفات نہیں کرتے تھے۔ اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ جس التفات سے روکا گیا ہے یہ وہ التفات ہے جس میں نمازی اپنا چہرہ دائیں یا بائیں موڑ لے۔ لیکن اگر آنکھوں کے کناروں سے دائیں بائیں دیکھ لے تو اس کی ممانعت نہیں ہے۔ سفیان نے اعمش سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ زمین پر پڑا ہوا کپڑا ہے۔ ابومجلز نے ابو عبیدہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اپنی آواز پست رکھتے، اپنا جسم اور اپنی نظریں جھکائے رکھتے۔ علی بن صالح نے زبیر الیامی کے متعلق روایت کی ہے کہ جب وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ گویا لکڑی ہیں۔
Top