بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafheem-ul-Quran - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے 1 جو
سورة الْمُؤْمِنُوْن 1 ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد ﷺ کی دعوت قبول کرلی آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا، اور اس طریق زندگی کی پیروی پر راضی ہوگئے جسے آپ نے پیش کیا ہے۔ فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی۔ یہ لفظ خسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا، اپنی مراد کو پہنچا، آسودہ و خوشحال ہوگیا، اس کی کوشش بار آور ہوئی۔ اس کی حالت اچھی ہوگئی۔ قَدْ اَفْلَحَ " یقیناً فلاح پائی " آغاز کلام ان الفاظ سے کرنے کی معنویت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ اس وقت ایک طرف دعوت اسلامی کے مخالف سرداران مکہ تھے جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں، جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی، جن کو دنیوی خوشحالی کے سارے لوازم میسر تھے۔ اور دوسری طرف دعوت اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے، اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بد حال کردیا تھا۔ اس صورت حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ " یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے " تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے، تمہارے اندازے غلط ہیں، تمہاری نگاہ دور رس نہیں ہے، تم اپنی جس عارضی و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے، اور محمد ﷺ کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں۔ اس دعوت حق کو مان کر انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی۔ اور اسے رد کر کے دراصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے برے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے۔ یہ اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
Top