بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
کام نکال لے گئے ایمان والے
سورة مومنون مکہ میں اتری اور اس کی ایک سو اٹھارہ آیتیں ہیں اور چھ رکوع
فضائل و خصوصیات سورة مومنون
مسند احمد میں حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب کی روایت ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو پاس والوں کے کان میں ایسی آواز ہوتی جیسے شہد کی مکھیوں کی آواز ہوتی ہے۔ ایک روز آپ کے قریب ایسی ہی آواز سنی گئی تو ہم ٹھہر گئے کہ تازہ آئی ہوئی وحی سن لیں۔ جب وحی کی خاص کیفیت سے فراغت ہوئی تو آنحضرت ﷺ قبلہ رخ ہو کر بیٹھ گئے اور یہ دعا کرنے لگے اللھم زدنا ولا تنقصنا و اکرمنا ولاتھنا واعطنا ولا تحرمنا واثرنا ولا توثر علینا وارض عنا و ارضنا (یعنی یا اللہ ہمیں زیادہ دے کم نہ کر اور ہماری عزت بڑھا ذلیل نہ کر اور ہم پر بخشش فرما، محروم نہ کر اور ہمیں دوسروں پر ترجیح دے ہم پر دوسروں کو ترجیح نہ دے اور ہم سے راضی ہو اور ہمیں بھی اپنی رضا سے راضی کر دے) اس کے بعد فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس آیتیں ایسی نازل ہوئی ہیں کہ جو شخص ان پر پورا پورا عمل کرے تو وہ (سیدھا) جنت میں جائے گا۔ پھر یہ دس آیتیں جو اوپر لکھی گئی ہیں پڑھ کر سنائی۔ (ابن کثیر)
اور نسائی نے کتاب التفسیر میں یزید بن بابنوس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ کا خلق کیسا اور کیا تھا، انہوں نے فرمایا آپ کا خلق یعنی طبعی عادت وہ تھی جو قرآن میں ہے اس کے بعد یہ دس آیتیں تلاوت کر کے فرمایا کہ بس یہی خلق و عادت تھی رسول اللہ ﷺ کی۔ (ابن کثیر)

خلاصہ تفسیر
بالتحقیق ان مسلمانوں نے (آخرت میں) فلاح پائی جو (تصحیح عقائد کے ساتھ صفات ذیل کے ساتھ بھی موصوف ہیں یعنی وہ) اپنی نماز میں (خواہ فرض ہو یا غیر فرض) خشوع کرنے والے ہیں اور جو لغو (یعنی فضول) باتوں سے (خواہ قولی ہوں یا فعلی) برکنار رہنے والے ہیں اور جو (اعمال و اخلاق میں) اپنا تزکیہ کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی (حرام شہوت رانی سے) حفاظت رکھنے والے ہیں لیکن اپنی بیبیوں سے یا اپنی (شرعی) لونڈیوں سے (حفاظت نہیں کرتے) کیونکہ ان پر (اس میں) کوئی الزام نہیں۔ ہاں جو اس کے علاوہ (اور جگہ شہوت رانی کا) طلبگار ہو ایسے لوگ حد (شرعی) سے نکلنے والے ہیں اور جو اپنی (سپردگی میں لی ہوئی) امانتوں اور اپنے عہد کا (جو کسی عقد کے ضمن میں کیا ہو یا ویسے ہی ابتداءً کیا ہو) خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی (فرض) نمازوں کی پابندی کرتے ہیں ایسے ہی لوگ وارث ہونے والے ہیں جو فردوس (بریں) کے وارث ہوں گے (اور) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

معارف و مسائل
فلاح کیا چیز ہے اور کہاں اور کیسے ملتی ہے
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤ ْمِنُوْنَ ، لفظ فلاح قرآن و سنت میں بکثرت استعمال ہوا ہے اذان و اقامت میں پانچ وقت ہر مسلمان کو فلاح کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ فلاح کے معنے یہ ہیں کہ ہر مراد حاصل ہو اور ہر تکلیف دور ہو (قاموس) یہ لفظ جتنا مختصر ہے اتنا ہی جامع ایسا ہے کہ کوئی انسان اس سے زیادہ کسی چیز کی خواہش کر ہی نہیں سکتا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ مکمل فلاح کہ ایک مراد بھی ایسی نہ رہے جو پوری نہ ہو اور ایک بھی تکلیف ایسی نہ رہے جو دور نہ ہو، یہ دنیا میں کسی بڑے سے بڑے انسان کے بس میں نہیں چاہے دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہفت اقلیم ہو یا سب سے بڑا رسول اور پیغمبر ہو۔ اس دنیا میں کسی کے لئے یہ ممکن نہیں کہ کوئی چیز خلاف طبع پیش نہ آئے اور جو خواہش جس وقت دل میں پیدا ہو بلا تاخیر پوری ہوجائے۔ اگر اور بھی کچھ نہیں تو ہر نعمت کے لئے زوال اور فنا کا کھٹکا اور ہر تکلیف کے واقع ہوجانے کا خطرہ، اس سے کون خالی ہوسکتا ہے ؟
اس سے معلوم ہوا کہ فلاح کامل تو ایسی چیز ہے جو اس ملک دنیا میں دستیاب ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ دنیا تو دار التکلیف و المحنت بھی ہے اور اس کی کسی چیز کو بقاء وقرار بھی نہیں۔ یہ متاع گرانمایہ ایک دوسرے عالم میں ملتی ہے جس کا نام جنت ہے۔ وہ ہی ایسا ملک ہے جس میں انسان کی ہر مراد ہر وقت بلا انتظار حاصل ہوگی وَّلَهُمْ مَّا يَدَّعُوْنَ (یعنی ان کو ملے گی ہر وہ چیز جو وہ چاہیں گے) اور وہاں کسی ادنیٰ رنج و تکلیف کا گزر نہ ہوگا اور ہر شخص یہ کہتا ہوا وہاں داخل ہوگا الْحـَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْٓ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۭ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُ ، الَّذِيْٓ اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہم سے غم دور کردیا بلاشبہ ہمارا رب معاف کرنے والا قدر دان ہے جس نے ہمیں اپنے فضل سے ایک مقام میں پہنچا دیا جس کی ہر چیز قائم و دائم ہے اس آیت میں یہ بھی اشارہ موجود ہے کہ دار دنیا میں کوئی بھی ایسا نہ ہوگا جس کو کبھی کوئی رنج و غم نہ پہنچا ہو۔ اس لئے جنت میں قدم رکھتے ہوئے ہر شخص یہ کہے گا کہ اب ہمارا غم دور ہوا۔ قرآن کریم نے سورة اعلیٰ میں جہاں فلاح حاصل کرنے کا یہ نسخہ بتلایا کہ اپنے آپ کو گناہوں سے پاک کرے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى اس کے ساتھ ہی یہ بھی اشارہ فرمایا کہ کامل فلاح کی جگہ اصل میں آخرت ہے صرف دنیا سے دل لگانا طالب فلاح کا کام نہیں۔ فرمایا بَلْ تُـؤ ْثِرُوْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا، وَالْاٰخِرَةُ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى، یعنی تم لوگ دنیا ہی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہو حالانکہ آخرت بہتر بھی ہے کہ اسی میں ہر مراد حاصل اور ہر تکلیف دور ہو سکتی ہے اور وہ باقی رہنے والی بھی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ کامل و مکمل فلاح تو صرف جنت ہی میں مل سکتی ہے دنیا اس کی جگہ ہی نہیں۔ البتہ اکثری حالات کے اعتبار سے فلاح یعنی بامراد ہونا اور تکلیفوں سے نجات پانا یہ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو عطا فرماتے ہیں۔ آیات مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے فلاح پانے کا وعدہ ان مومنین سے کیا ہے جن میں وہ سات صفات موجود ہوں جن کا ذکر ان آیات کے اندر آیا ہے۔ یہ فلاح عام اور شامل ہے جس میں آخرت کی کامل مکمل فلاح بھی داخل ہے اور دنیا میں جس قدر فلاح حاصل ہونا ممکن ہے وہ بھی۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ صفات مذکور کے حامل مومنین کو آخرت کی کامل فلاح ملنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن دنیا میں فلاح تو بظاہر کفار فجار کا حصہ بنی ہوئی ہے اور ہر زمانے کے انبیاء اور ان کے بعد صلحا امت عموماً تکلیفوں میں مبتلا رہے ہیں۔ مگر جواب اس کا ظاہر ہے کہ دنیا میں مکمل فلاح کا تو وعدہ نہیں کہ کوئی تکلیف پیش ہی نہ آوے بلکہ کچھ نہ کچھ تکلیف تو یہاں پر صالح و متقی کو بھی اور ہر کافر فاجر کو بھی پیش آنا ناگزیر ہے اور یہی حال حصول مراد کا ہے کہ کچھ نہ کچھ یہ مقصد بھی ہر انسان کو خواہ وہ صالح و متقی ہو خواہ کافر و بدکار ہو حاصل ہوتا ہی ہے۔ پھر ان دونوں میں فلاح پانے والا کس کو کہا جائے تو اس کا اعتبار عواقب اور انجام پر ہے۔
دنیا کا تجربہ اور مشاہدہ شاہد ہے کہ جو اہل صلاح ان سات اوصاف کے حامل اور ان سے متصف اور ان پر قائم ہیں گو دنیا میں وقتی تکلیف ان کو بھی پیش آجائے مگر انجام کار ان کی تکلیف جلد دور ہوتی ہے اور مراد حاصل ہوجاتی ہے ساری دنیا ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتی ہے اور دنیا میں نیک نام انہی کا باقی رہتا ہے۔ جتنا دنیا کے حالات کا غور و انصاف سے مطالعہ کیا جائے گا ہر دور ہر زمانے ہر خطہ میں اس کی شہادتیں ملتی چلی جائیں گی۔
مومن کامل کے وہ سات اوصاف جن پر آیات مذکورہ میں فلاح دنیا و آخرت کا وعدہ ہے
سب سے پہلا وصف تو مومن ہونا ہے مگر وہ ایک بنیادی چیز اور اصل الاصول ہے اس کو الگ کر کے سات اوصاف جو یہاں بیان کئے گئے ہیں یہ ہیں۔
اول نماز میں خشوع، خشوع کے لغوی معنے سکون کے ہیں اصطلاح شرع میں خشوع یہ ہے کہ قلب میں بھی سکون ہو۔ یعنی غیر اللہ کے خیال کو قلب میں بالقصد حاضر نہ کرے اور اعضاء بدن میں بھی سکون ہو کہ عبث اور فضول حرکتیں نہ کرے (بیان القرآن) خصوصاً وہ حرکتیں جن سے رسول اللہ ﷺ نے نماز میں منع فرمایا ہے اور فقہاء نے ان کو مکروہات نماز کے عنوان سے جمع کردیا ہے۔ تفسیر مظہری میں خشوع کی یہی تعریف حضرت عمرو بن دینار سے نقل کی ہے اور دوسرے بزرگوں سے جو خشوع کی تعریف میں مختلف چیزیں نقل کی گئی ہیں وہ دراصل اسی سکون قلب وجوارح کی تفصیلات ہیں۔ مثلاً حضرت مجاہد نے فرمایا کہ نظر اور آواز کو پست رکھنے کا نام خشوع ہے۔ حضرت علی نے فرمایا کہ دائیں بائیں التفات یعنی گوشتہ چشم سے دیکھنے سے بچنا خشوع ہے۔ حضرت عطاء نے فرمایا کہ بدن کے کسی حصہ سے کھیل نہ کرنا خشوع ہے۔ حدیث میں حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نماز کے وقت اپنے بندے کی طرف برابر متوجہ رہتا ہے جب تک وہ دوسری طرف التفات نہ کرے جب دوسری طرف التفات کرتا ہے یعنی گوشہ چشم سے دیکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے رخ پھیر لیتے ہیں۔ (رواہ احمد والنسائی و ابو داؤد وغیرہم۔ مظہری) اور نبی کریم ﷺ نے حضرت انس کو حکم دیا کہ اپنی نگاہ اس جگہ رکھو جس جگہ سجدہ کرتے ہو اور یہ کہ نماز میں دائیں بائیں التفات نہ کرو (رواہ البیہقی فی السنن الکبریٰ و مظہری)
اور حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز میں اپنی داڑھی سے کھیل رہا ہے تو فرمایا لو خشع قلب ھذا الخشعت جوارحہ (رواہ الحاکم والترمذی بسند ضعیف) یعنی اگر اس شخص کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی سکون ہوتا۔ (مظہری)
نماز میں خشوع کی ضرورت کا درجہ
امام غزالی و قرطبی اور بعض دوسرے حضرات نے فرمایا کہ نماز میں خشوع فرض ہے اگر پوری نماز خشوع کے بغیر گزر جائے تو نماز ادا ہی نہ ہوگی۔ دوسرے حضرات نے فرمایا کہ اس میں شبہ نہیں کہ خشوع روح نماز ہے اس کے بغیر نماز بےجان ہے مگر اس کو رکن نماز کی حیثیت سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ خشوع نہ ہوا تو نماز ہی نہ ہوئی اور اس کا اعادہ فرض قرار دیا جائے۔
حضرت سیدی حکیم الامة نے بیان القرآن میں فرمایا کہ خشوع صحت نماز کیلئے موقوف علیہ تو نہیں اور اس درجہ میں وہ فرض نہیں مگر قبول نماز کا موقوف علیہ اور اس مرتبہ میں فرض ہے حدیث میں طبرانی نے معجم کبیر میں بسند حسن حضرت ابوالدرداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے جو چیز اس امت سے اٹھ جائے گی یعنی سلب ہوجائے گی وہ خشوع ہے یہاں تک کہ قوم میں کوئی خاشع نظر نہ آئے گا۔ کذا فی مجمع الزوائد (بیان)
مومن کامل کا دوسرا وصف، لغو سے پرہیز کرنا ہے والَّذِيْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ لغو کے معنے فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔ لغو کا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدہ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے اس سے پرہیز واجب ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر، اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا من حسن اسلام المرا ترکہ مالا یعنیہ یعنی انسان کا اسلام جب اچھا ہوسکتا ہے جبکہ وہ بےفائدہ چیزوں کو چھوڑ دے۔ اسی لئے آیت میں اس کو مومن کامل کی خاص صفت قرار دیا ہے۔
تیسرا وصف، زکوٰة ہے لفظ زکوٰة کے معنے لغت میں پاک کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں شرح مال کا ایک خاص حصہ کچھ شرائط کے ساتھ صدقہ کرنے کو زکوٰة کہا جاتا ہے اور قرآن کریم میں عام طور پر یہ لفظ اسی اصطلاحی معنے میں استعمال ہوا ہے۔ اس آیت میں یہ معنے بھی مراد ہو سکتے ہیں اور اس پر جو شبہ کیا جاتا ہے کہ یہ آیت مکی ہے مکہ میں زکوٰة فرض نہ ہوئی تھی ہجرت مدینہ کے بعد فرض ہوئی، اس کا جواب ابن کثیر وغیرہ مفسرین کی طرف سے یہ ہے کہ زکوٰة کی فرضیت مکہ ہی میں ہوچکی تھی سورة مزمل جو بالاتفاق مکی ہے اس میں بھی اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کے ساتھ اٰتُوا الزَّكٰوةَ کا ذکر موجود ہے مگر سرکاری طور پر اس کے وصول کرنے کا عام انتظام اور نصابات وغیرہ کی تفصیلات مدینہ طیبہ جانے کے بعد جاری ہوئیں۔ جن لوگوں نے زکوٰة کو مدنی احکام میں شمار کیا ہے ان کا یہی منشاء ہے۔ اور جن حضرات نے فرضیت زکوٰة کو مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد حکم قرار دیا ہے انہوں نے اس جگہ زکوٰة کا مضمون عام لغوی معنی میں اپنے نفس کو پاک کرنا قرار دیا ہے خلاصہ تفسیر میں بھی یہی لیا گیا ہے اس معنے کا قرینہ اس آیت میں یہ بھی ہے کہ عام طور پر قرآن کریم میں جہاں زکوٰة فرض کا ذکر آیا ہے تو اس کو (آیت) ایتاء الزکوٰة یوتون الزکوٰة اور اتوا الزکوة کے عنوان سے بیان کیا گیا، یہاں عنوان بدل کر للزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَ فرمایا اس کا قرینہ ہے کہ یہاں زکوٰة کے وہ اصطلاحی معنے مراد نہیں اس کے علاوہ فاعلون کا بےتکلف تعلق فعل سے ہوتا ہے اور زکوٰة اصطلاحی فعل نہیں بلکہ ایک حصہ مال ہے اس حصہ مال کیلئے فاعلون کہنا بغیر تاویل کے نہیں ہو سکتا۔ اگر آیت میں زکوٰة کے معنی اصطلاحی زکوٰة کے لئے جاویں تو اس کا فرض ہونا اور مومن کے لئے لازم ہونا کھلا ہوا معاملہ ہے اور اگر مراد زکوٰة سے تزکیہ نفس ہے یعنی اپنے نفس کو رذائل سے پاک کرنا تو وہ بھی فرض ہی ہے کیونکہ شرک، ریا، تکبر، حسد، بغض، حرص، بخل جن سے نفس کو پاک کرنا تزکیہ کہلاتا ہے یہ سب چیزیں حرام اور گناہ کبیرہ ہیں۔ نفس کو ان سے پاک کرنا فرض ہے۔
چوتھا وصف، شرمگاہوں کی حفاظت حرام سے والَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَ ، اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ ، یعنی وہ لوگ جو اپنی بیویوں اور شرعی لونڈیوں کے علاوہ سب سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ان دونوں کے ساتھ شرعی ضابطہ کے مطابق شہوت نفس پوری کرنے کے علاوہ اور کسی سے کسی ناجائز طریقہ پر شہوت رانی میں مبتلا نہیں ہوتے۔ اس آیت کے ختم پر ارشاد فرمایا فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ ، یعنی شرعی قاعدے کے مطابق اپنی بیوی یا لونڈی سے شہوت نفس کو تسکین دینے والوں پر کوئی ملامت نہیں اس میں اشارہ ہے کہ اس ضرورت کو ضرورت کے درجہ میں رکھنا ہے مقصد زندگی بنانا نہیں۔ اس کا درجہ اتنا ہی ہے کہ جو ایسا کرے وہ قابل ملامت نہیں واللہ اعلم۔
Top