بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Baseerat-e-Quran - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
یقیناً ان ایمان والوں نے کامیابی حاصل کر لی
لغات القرآن آیت 1 تا 11 : افلح (وہ کامیاب ہوا۔ اس نے فلاح پائی) ‘ خاشعون (خاشع) اللہ کے خوف سے ڈرنے والے۔ اللغو (فضول بات۔ ایسی بات جس کا فائدہ کوئی نہ ہو) ‘ فروج (فرج) شرم گاہیں ‘ ملکت ایمان (باندیاں) ‘ غیر ملومین (الزام نہیں ہے) ‘ ابتغائ (جس نے تلاش کیا) ‘ وراء (پیچھے۔ علاوہ) العادون (حد سے بڑھنے والا) ‘ راعون (رعایت کرنے والے۔ خیال رکھنے والے) ‘ الوارثون (وارث) مالک۔ تشریح : آیت نمبر 1 تا 11 : دنیاداروں نے کامیابی ‘ ناکامی ‘ خیرو فلاح ‘ نفع و نقصان اور چھوٹائی بڑائی کے کچھ ایسے پیمانے مقرر کر رکھے ہیں کہ اگر ایک شخص مال و دولت ‘ عیش و آرام ‘ بلندو بالا بلڈنگوں ‘ اونچی حویلیوں اعلی سواریوں کا مالک ہے تو اس کو کامیاب ترین ‘ عقل مند ‘ سمجھ دار ‘ باعزت اور معاشرہ کا بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ خواہ وہ سب چیزیں ظلم و زیادتی ‘ رشوت و غصب ‘ حرام اور ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہوں لیکن اگر کوئی صاحب ایمان شخص دیانت و امانت ‘ تقویٰ ‘ پرہیز گاری اخلاص اور ایمان کا پیکر ہو مگر معاشرتی اعتبار سے کمزور ‘ غریب اور مفلس ہو تو اس کو معاشرہ میں کوئی حیثیت نہیں دی جاتی۔ اس کو ایک ناکام شخص اور چھوٹا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ غربت اور امارت کی یہی وہ ترازو ہے جس پر تول کر سارے فیصلے اور وزن کئے جاتے ہیں۔ ان دنیاوی اصولوں کے برخ لاف قرآن کریم نے ایمان ‘ عمل صالح اور تقویٰ کو انسانی عظمت کا معیار اور پیمانہ مقرر کیا ہے اور ایسے لوگوں کو کامیاب ترین لوگوں میں شامل کیا ہے جو ان صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ صاف صاف الفاظ میں فرمادیا ہے کہ اللہ نے حضرت آدم و حوا کے ذریعہ تمام انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کردینا ایک پہچان تو ہے لیکن فخر کی چیز نہیں ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محترم اور باعظمت وہ لوگ ہیں جو نیکی اور پرہیز گاری میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ سورة المومنون کی زیر مطالعہ آیات میں فرمایا کہ اللہ نے مومنوں کو کامیاب و بامراد کردیا یعین اہل ایمان صرف اسی دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی کامیاب و با مراد ہوں گے۔ غربت وامارات کی یہی کشمکش اس وقت بھی تھی جب نبی کریم ﷺ نے اللہ کے حکم سے اعلان نبوت فرمایا۔ ایمان اور عمل صالح ‘ تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی اختیار کرنے والے صحابہ کرام ؓ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور نبی کریم ﷺ کی اطاعت و فرماں برداری کرتے ہوئے دنیا کی بےحقیقت زندگی کو چھوڑکر اپنا سب کچھ آخرت کی زندگی سنوارنے پر لگادیا تھا ان کو کفار مکہ دین اسلام قبول کرنے پر طعنے دیا کرتے تھے کہ تمہیں دین اسلام نے کیا دیا ؟ فقرو فاقہ ‘ غربت و افلاس ‘ بےرونق محفلیں ‘ طرح طرح کی مصیبتیں اور پریشانیاں ‘ اس کے برخلاف ذرا ہمیں دیکھو دنیاوی راحتیں اور کامیابیاں ہمارے قدم چوم رہی ہیں ہماری محفلیں کیسی پر رونق ہیں اور ہم ہر اعتبار سے زندگی گذار رہے ہیں۔ ہم کامیاب ترین لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ دراصل کامیاب ترین وہی لوگ ہیں جو صاحبان ایمان ہیں۔ دنیا اور آخرت میں وہی کامیاب و بامراد ہوں گے۔ لیکن وہ لوگ جو کفر پر جمے بیٹھے ہیں وہ دنیا کے نا کام ترین لوگ ہیں۔ کیونکہ جب یہ آخرت کی ابدی اور ہمیشہ کی زندگی میں پہنچیں گے تو خالی ہاتھ ہوں گے اور وہاں کوئی ان کا ساتھ نہ دے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان آیات میں جس کامیابی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ دنیاوی اعتبار سے تو یوں پوری ہوئی کہ اللہ نے دین اسلام کی برکت سے انہیں ہر طرح کی فتوحات اور کامیابیاں عطا فرمائیں اور بہت تھوڑے عرصے میں اہل ایمان جزیرۃ العرب سے نکل کر ساری دنیا میں پہنچ گئے۔ ہر جگہ کامیابیوں نے ان کے قدم چومے۔ قیصر وکسریٰ کی سلطنتیں ختم ہوگئیں اور دینا میں صرف اہل ایمان ہی فاتح اور کامیاب بن کر چھا گئے اور دنیا نے ظلم و ستم سے نجات پائی اور ہر طرف امن و سلامتی عام ہوگئی۔ یہ تو دنیاوی اعتبار سے کامیابیاں حاصل ہوئیں یقیناً آخرت کی ہر طرح کی کامیابیاں بھی اسی طرح حاصل ہوں گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے جو پورا ہو کررہے گا۔ اصل کامیابی یہی ہے کہ دنیا اور آخرت دونوں بن جائیں۔ جو لوگ صرف دنیا کی زیب وزینت کے چکر میں پوری زندگی گذار دیتے ہیں وہ لوگ وقتی طور پر تو کامیاب نظر آتے ہیں لیکن انجام کے اعتبار سے قطعاً ناکام و نامراد لوگ ہیں۔ سورۃ المومنون کی ان گیارہ آیات میں ” کامیاب مومنوں “ کی سات خصوصیات کا خصا طور پر ذکر فرمایا گیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کی کامیابی کی بنیادیں نہایت مضبوط ہیں۔ جب بھی ان بنیادوں کو اپنایاجائے گا اللہ کا وعدہ ہے کہ کامیابیاں ان کے قدم چو میں گی۔ ان نیک خصلتوں کی وجہ سے دنیا اور آخرت میں فلاح حاصل ہوگی۔ (1) پہلی خصوصیت یہ ہے کہ ” وہ لوگ اپنی نمازوں میں خشوع و خضوع اختیار کرتے ہیں ” یعنی قلبی ‘ ذہنی ‘ فکری اور جسمانی سکون کے ساتھ نمازوں کو ادا کرتے ہیں۔ وہ منافقین کی طرح دکھاوا ‘ سستی اور کاہلی کا مظاہرہ نہیں کرتے بلکہ نہایت ذوق و شوق ‘ عاجزی و انکساری ‘ ادب احترام اور شریعت کی تمام ہدایات کے مطابق اپنی نمازوں کو ادا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور نبی کریم ﷺ کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کے جذبے سے اس طرح نمازیں ادا کرتے ہیں کہ اس میں ریاکاری اور دکھاوا نہیں ہوتا ” خشوع و خضوع “ کا یہی مفہوم ہے۔ نماز درحقیقت وہ اہم ترین عبادت ہے جس سے دین کی بنیادیں مضبوط اور مستحکم ہوتی ہیں۔ جو شخص نماز جیسی عبادت کو چھوڑتا ہے وہ درحقیقت دین کی بنیادوں کو ڈھانے والا اور اسلام کے اصولوں سے بغاوت کرنے والا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام کے تفصیلی احکامات تو مدینہ منورہ کی زندگی میں آئے مگر نمازوں کا اہتمام مکہ مکرمہ سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ اور معراج النبی کے مبارک موقع پر اس امت کو اللہ کی طرف سے جو تحفہ عطا کیا گیا وہ پانچ وقت کی فرض نمازیں تھیں۔ جس کے اجرو ثواب کا یہ عالم ہے کہ پانچ وقت کی نمازیں ادا کرنے والے شخص کو پچاس نمازوں کا ثواب عطا کیا جاتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو نمازوں کی فرضیت مکہ مکرمہ ہی سے شروع ہوئی۔ احادیث سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن بھی سب سے پہلے نماز کے متعلق پوچھا جائے گا۔ قیامت کے دن جو آدمی پہلے سوال ہی میں فیل ہوگیا اس کی آخرت تو تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ اس اہمیت کا اندازہ نبی کریم ﷺ کے ان ارشادات سے کیا جاسکتا ہے جن میں آپ نے نمازوں کو ادا کرنے کی سخت تاکید فرمائی ہے۔ نمازوں سے ہماری غفلت نے ہمیں بہت سی سعادتوں سے محروم کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اقامت صلوۃ کی توفیق عطا فرائے۔ آمین۔ اس موقع پر اس بات کا ضرور خیال رکھا جائے کہ نمازوں سے غفلت دو سرح ہورہی ہے پہلی تو یہ کہ بہت سے لوگ نماز ہی نہیں پڑھتے جو ایک بہت بڑی بدنصیبی ہے لیکن بعض لوگ نماز ادا کرتے ہیں مگر ان کے آداب کا خیال نہیں رکھتے اور ایسی نمازیں پڑھتے ہیں کہ نمازیں خود ان پر ملامت کرتی ہیں چناچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر ادا کرنے کے لئے اچھی طرح وضو کرے گا اور نمازوں میں خشوع و خضوع (قلبی سکون) اختیار کرے گا تو وہ نمازیں نہایت روشن ہوکر چمکنے لگیں گی اور نماز اس کو دعا دے گی کہ اے اللہ جس طرح اس شخص نے میری حفاظت کی ہے ( ہر طرح کے آداب کا خیال رکھا ہے) اسی طرح آپ اس کی حفاظت فرمائیے۔ لیکن جو شخص نمازوں کو بری طرح پڑھتا ہے (جلدی ‘ دکھاوا ‘ آداب کا خیال نہ رکھنا) نمازوں میں سستی کرتا ہے۔ اس کو ٹا ل ٹال کر پڑھتا ہے۔ اچھی طرح وضو نہیں کرتا تو وہ نماز بری صورت میں سیاہ رنگ میں ڈھل جائے گی اور پڑھنے والے کو بد دعا دے گی کہ الہٰی جس طرح اس نے مجھے خراب کیا آپ اس کو اسی طرح خراب کردیجئے۔ اس کے بعد وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نمازی کے منہ پر ماردی جاتی ہے۔ حضرت ابو دردائ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ امت سے سب سے پہلے جو چیز اٹھائی جائے گی۔ وہ ” خشوع “ ہے۔ یہاں تک کہ قوم میں کوئی شخص بھی خاشع نظر نہیں آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نمازیں ادا کرنے ‘ اس کا پوری طرح حق ادا کرنے اور خشوع خضوع کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
Top