بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 1
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ
قَدْ اَفْلَحَ : فلائی پائی (کامیاب ہوئے) الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن (جمع)
بیشک ایمان والے رستگار ہوگئے
مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : قد افلح المومنون۔ بیہقی نے حضرت انس کی حدیث روایت کی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :” جب اللہ تعالیٰ نے جنت عدن کو تخلیق فرمایا اور اپنے دست قدرت سے اس کے درخت لگائے اور اسے فرمایا تو بول تو اس نے کہا : قد افلح المومنون۔ (1) نسائی نے حضرت عبد اللہ بن سائب سے روایت کیا ہے فرمایا : میں فتح مکہ کے دن بنی پاک ﷺ کی بارگاہ میں حاضر تھا۔ آپ ﷺ نے کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی (1) آپ ﷺ نے اپنے نعلین اتارے اور انہیں اپنی بائیں جانب رکھا اور سورة المومنون سے تلاوت کی جب حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰٗ کے ذکر پر پہنچے تو آپ کو کھانسی آگئی آپ نے وہاں رکوع کردیا۔ امام مسلم نے اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے۔ امام ترمذی میں حضرت عمربن خطاب ؓ سے مروی ہے فرمایا : نبی کریم ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کے منہ مبارک سے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسے آواز سنائی دیتی تھی۔ (2) ایک دن آپ ﷺ پر وحی نازل ہوئی ہم کچھ دیر آپ کے پاس ٹھہرے رہے پھر جب وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ ﷺ نے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہاتھوں کو بلند کیا اور یہ دعا کی :” اے اللہ ہم میں اضافہ کر اور ہم میں کمی نہ کر اور ہمیں خوش رکھ اور ہم سے راضی ہوجا پھر فرمایا۔ مجھ پر دس آیات نازل ہوئی ہیں جو ان پر عمل پیرا ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا “ پھر یہ آیات پڑھیں۔ قد افلح المومنون دس آیات تک۔ ابن عربی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ نحاس نے کہا : من اقامھن کا مطلب ہے جس نے ان پر عمل کیا اور جو ان میں احکام ہیں ان کی مخالفت نہ کرے جیسے تو کہتا ہے : فلان یقوم بعملہ فلاں اپنا کام کرتا ہے۔ پھر ان آیات کے بعد وضو اور حج کا فرض نازل ہوا پس وہ بھی ان کے ساتھ داخل ہوگیا۔ طلحہ بن مصرف نے قد افلح المومنون یعنی الف کے ضمہ کے ساتھ مجہول کا صیغہ پڑھا ہے۔ یعنی ثواب اور خیر میں باقی رکھے گئے۔ الفلاح کا لغوی اور شرعی معنی سورة بقرہ میں گزرچکا ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ کا ارشاد ہے : خشعون۔ معتمر نے خالد سے انہوں نے حضرت محمد بن سیرین سے روایت کیا ہے فرمایا نبی اکرم ﷺ نماز میں آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو اللہ نے یہ آیت نازل کی : الذین ھم فی صلاتھم خشعون۔ پھر رسول اللہ سجدہ کی جگہ دیکھتے تھے اور ہشیم نے روایت کی ہے کہ مسلمان نماز میں ادھر ادھر متوجہ ہوتے تھے اور ادھر ادھر دیکھتے تھے حتیٰ کہ قد افلح المومنون۔ الذین ھم فی صلاتھم خاشعون۔ کا ارشاد نازل ہوا تو وہ اپنی نمازوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہوں نے سامنے دیکھنا شروع کیا۔ سورة بقرہ میں فول وجھک شطر المسجد الحرام (البقرہ :144) کے تحت علماء کے اقوال نمازی کی نماز کی حالت میں دیکھنے کے بارے میں گزر چکے ہیں کہ وہ نماز میں کس جگہ نظر رکھے۔ اسی طرح خشوع کا لغوی معنی وانھا لکبیرۃ الا علی الخاشعین۔ البقرہ کے تحت گزر چکا ہے۔ خشوع کا محل دل ہے اور دل میں خشوع ہوتا ہے تو اس کے خشوع کی وجہ سے تمام اعضاء میں خشوع ہوتا ہے کیونکہ وہ جسم کی سلطنت کا بادشاہ ہے جیسا کہ ہم نے سورة بقرہ میں بیان کیا ہے۔ جب کوئی عالم نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ نماز میں کسی چیز کی طرف نظر کرنے اور نفس میں کسی دنیا کی چیز کا خیال لانے سے رحمن سے ڈرتا ہے ہے۔ عطا نے کہا : وہ نماز میں اپنے جسم کے کسی حصہ سے نہیں کھیلتا۔ نبی کریم ﷺ نے کسی شخص کو نماز میں اپنی داڑھی سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی خشوع ہوتا۔ (3) حضرت ابو ذر نے کہا نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو رحمت اس کے سامنے ہوتی ہے پس وہ کنکریوں کو حرکت نہ دے۔ (1) (جامع ترمذی، کتاب الصلوۃ، ماجائکم کراھیۃ مسح الحصی فی الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 50) ۔ اس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ شاعر نے کہا : غور سے سنو نماز میں ساری خیرو برکت ہے کیونکہ اس میں اعضاء اللہ کے لئے عجز و نیاز کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہماری شریعت کا نماز پہلا فرض ہے اور آخر میں بھی یہی باقی رہے گا جب دین اٹھا لیا جائے گا جو تکبیر کے لئے کھڑا ہوتا ہے اس سے رحمت الٰہی ملاقات کرتی ہے گویا غلام اپنے آقا کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے اور نماز میں انسان اپنے رب سے سرگوشی کرنے والا ہوتا ہے۔ مبارک ہو اگر اسے خشوع نصیب ہو۔ ابو عمران جونی نے روایت کیا ہے فرمایا : حضرت عائشہ ؓ سے پوچھا گیا کہ نبی پاک ﷺ کا اخلاق کیا تھا فرمایا کہ تم سورة المومنون پڑھتے ہو ؟ عرض کی گئی ہاں۔ فرمایا وہ پڑھو تو سورة المومنون قد افلح المومنون سے لیکر یحافظون تک پڑھی (المستدرک للحاکم، کتاب التفسیر، سورة مومنون، جلد 2، صفحہ 392) ۔ نسائی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : نبی پاک ﷺ نماز میں پہلے دائیں بائیں دیکھتے تھے لیکن پیٹھ کے پیچھے گردن نہیں پھیرتے تھے (سنن نسائی، کتاب السھو، الرخصۃ فی الالتفات، جلد 1، صفحہ 178، جامع ترمذی، باب ماذکر فی التفات الصلاۃ، حدیث 536) ۔ حضرت کعب بن مالک نے ایک طویل حدیث میں کہا : میں نبی پاک ﷺ کے قریب نماز پڑھتا تھا اور میں چوری چوری آپ کو دیکھتا تھا جب میں اپنی نماز کی طرف متوجہ ہوتا تو آپ ﷺ میری طرف دیکھتے تھے اور جب میں آپ کی طرف متوجہ ہوتا تھا تو مجھ سے اعراض فرما لیتے تھے۔ (الحدیث) آپ ﷺ نے کعب کو نماز کے اعادہ کا حکم نہیں دیا۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ خشوع کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہا : یہ نماز کے فرائض سے ہے یا اس کے فضائل اور مکملات سے ہے۔ صحیح پہلا قول ہے اور خشوع کا محل دل ہے یہ پہلا عمل ہے جو لوگوں سے اٹھایا جائے گا یہ حضرت عبادہ بن صامت کا قول ہے۔ اس کو امام ترمذی نے جبیر بن نفیر کے حوالہ سے حضرت ابودرداء سے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی ذھاب العلم، حدیث 2577) ۔ نسائی نے جبیر بن حدیث سے، عوف بن مالک اشجعی سے طرق صحیحہ کے ذریعے روایت کیا ہے۔ ابو عیسیٰ نے کہا : معاویہ بن صالح اہل حدیث کے نزدیک ثقہ ہے۔ ہم کوئی ایسا محدث نہیں جانتے جس نے اس پر کلام کی ہو سوائے یحییٰ بن سعید قطان کے۔ میں کہتا ہوں : معاویہ بن صالح ابو عمرو اور ابو عمر حضری حمصی قاضی اندلس بھی کہا جاتا ہے، ابو حاتم رازی سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا : صالح الحدیث ہے اس کی حدیث لکھی جاتی ہے اور اس سے حجت پکڑی جاتی ہے۔ اس میں یحییٰ بن معین کا قول مختلف ہے۔ عبد الرحمن بن مہدی، امام احمد بن حنبل اور ابو زرعہ رازی نے اس کو ثقہ کہا ہے۔ امام مسلم نے اپنی صحیح میں اس سے حجت پکڑی ہے۔ سورة بقرہ میں اللغو اور للزکوۃ کا معنی گزر چکا ہے۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔ ضحاک نے کہا یہاں اللغو سے مراد شرک ہے۔ حسن نے کہا : تمام گناہ ہے۔ یہ جامع قول ہے اس میں اس کا قول بھی داخل ہے جنہوں نے کہا : اس سے مراد غنا ہے جیسا کہ امام مالک بن انس نے حضرت محمد بن منکدر سے روایت کیا ہے جس کا بیان سورة لقمان میں آئے گا۔ فعلون۔ کا معنی ہے ادا کرنے والے۔ یہ فصیح ہے۔ کلام عرب میں اس معنی میں آیا ہے۔ امیہ نے کہا : المطعمون الطعام فی السنۃ الاز متہ و الفاعلون للزکوات
Top