Al-Quran-al-Kareem - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
 بے شک جن لوگوں نے کفر کیا، ان پر برابر ہے، خواہ تو نے انھیں ڈرایا ہو، یا انھیں نہ ڈرایا ہو، ایمان نہیں لائیں گے۔
(لَا يُؤْمِنُوْنَ) اس سے مراد تمام کفار تو ہو نہیں سکتے، کیونکہ بیشمار کافر دعوت کے نتیجے میں ایمان لائے اور لا رہے ہیں۔ اس لیے یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو پچھلی آیات میں مذکور چھ چیزوں کا یا ان میں سے بعض کا انکار کردیتے ہیں اور ہٹ دھرمی کی اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ اگر یہ حق بھی ہو تو ہم اسے نہیں مانیں گے، جیسے بعض یہود مدینہ (بقرۃ : 146) اور ابو جہل اور اس کے ساتھی وغیرہ (انفال : 32)۔ جب کوئی طے کرلے کہ میں نے ماننا ہی نہیں تو اسے ایمان کیسے نصیب ہوسکتا ہے ؟ سوئے ہوئے کو جگایا جاتا ہے، جاگتے ہوئے مدہوش کو کون جگا سکتا ہے ؟ اس کے یہ معنی نہیں کہ ڈرانا بالکل فضول ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہر شخص تک پہنچانا فرض ہے، کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اللہ کے علم میں کون ایمان لانے والا ہے اور کس کی قسمت میں کفر پر اصرار ہے، ہمیں ہر حال میں ڈرانے پر ثواب ملے گا اور نہ ڈرانے پر باز پرس ہوگی۔ اس لیے فرمایا کہ ڈرانا نہ ڈرانا ان پر برابر ہے، یہ نہیں فرمایا کہ آپ پر برابر ہے، یہاں ہمزہ کا معنی ’ کیا ‘ نہیں ہوگا، بلکہ یہ برابری کا مفہوم ادا کر رہا ہے، اسے ’ ہمزہ تسویہ ‘ کہتے ہیں۔
Top