Tafseer-e-Haqqani - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
بیشک جو لوگ انکار کرچکے ہیں ان کے لیے تو آپ کا ڈر سنانا (اور) نہ سنانا (دونوں) برابر ہیں وہ ایمان نہ لائیں گے
ترکیب : اِنَّ اسم مشبہ اَلَّذِیْنَ موصول کفروا اس کا صلہ، موصول اور صلہ دونوں مل کر اس کا اسم ہوئے اور سِوَآئٌ بمعنی استوا اس کی خبر ہے اور اس کے مابعد جو ہے وہ اس مصدر کا فاعل بن کر مرفوع ہے گویا کلام یوں ہوا ان الذین کفروامستو علیہم انذارک وعدمہ۔ ختم فعل لفظ اللہ فاعل علی جار قلوب مجرورمضاف ھم مضاف الیہ۔ مضاف اور مضاف الیہ دونوں مل کر معطوف علیہ اور علی سمعہم معطوف۔ معطوف اور معطوف علیہ دونوں مجرور ہوئے جار کے پھر متعلق ہوئے ختم سے۔ ختم اپنے فعل اور متعلق سے مل کر جملہ فعلیہ ہوا۔ غشاوۃ مبتداء مؤخر اور علٰٓی ابصارھم ثابت کے متعلق ہو کر اس کی خبر۔ مبتداء خبر مل کر جملہ اسمیہ ہوا اور جملہ سابقہ پر اس کا عطف ہوا، عذاب موصوف الیم صفت دونوں مل کر مبتداء موخر اور ولہم خبر مقدم جو متعلق ثابت کے ہے مبتدا خبر مل کر جملہ اسمیہ ہو کر پہلے جملہ پر معطوف ہوا۔ تفسیر : پیشتر خدائے تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ قرآن متقین کے لیے ہدایت ہے اس پر یہ خیال گزرتا تھا کہ کافروں کے لیے کیوں ہدایت نہیں، حالانکہ ضرور ان ہی کے لیے ہدایت کا ہونا تھا کیونکہ متقی تو خود ہدایت پر تھے اس کا اپنے کلام میں اشارتاً یہ جواب دیا کہ کافر اور متقی سے مراد ازلی کافر اور ازلی متقی ہیں گو بالفعل ایک شخص طرح طرح کی برائیوں اور انواع و اقسام کے کفر و شرک میں مبتلا ہے، مگر وہ ازل میں انوارِ الٰہی سے حصہ پا چکا ہے تو اس کو ضرور قرآن سے ہدایت ہوگی اور وہ ایمان بھی لاوے گا اور اچھے اعمال بھی کرے گا اور جو ازل میں اس نور سے محروم رہا وہ انجام کار محروم ہی رہے گا، اس کو قرآن اور حضرت کے وعظ و پند سے کچھ نفع نہ ہوگا، کس لیے کہ اس میں سرے سے صلاحیت ہی نہیں۔ 1 ؎ اس عدم صلاحیت اور اس ازلی بدنصیبی کو جو ازل میں خدا کی طرف سے ظہور میں آئے مہر اور پردہ سے تعبیر کیا ہے، اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ یہ عالم اور جس قدر اس عالم کی چیزیں ہیں بلکہ جس قدر اور صدہا عالم فرض کئے جائیں سب خدا تعالیٰ کے وجود حقیقی کے اظلال اور پر توے ہیں۔ اس عالم حسی میں جو کچھ وقتاً فوقتاً پایا جاتا ہے وہ اسی وقت موجود نہیں ہوجاتا بلکہ عالم مثالی میں موجود ہوچکا ہے۔ وہاں سے وقتاً فوقتاً ظہور کرتا اور پردہ غیب سے باہر آتا ہے گو وہ شے حادث ذاتی یا زمانی سہی مگر اب پیدا نہیں ہوئی اور یہ بات تنزلات ستہ کے معانی میں غور کرنے سے بخوبی سمجھ میں آسکتی ہے۔ اس عالم حسی سے ہزار ہا سال پیشتر عالم مثالی میں خدائے تعالیٰ کی ایک تجلی ہوئی کہ جس میں تمام کائنات عالم حسی اس کے دربار فیض آثار میں اپنی استعداد کے موافق ہر چیز سے فیض یاب ہوئے ؎ قسمت کیا ہر ایک کو قسام ازل نے جس چیز کو جس شخص کے قابل نظر آیا اس جگہ حضرت آدم 2 ؎ (علیہ السلام) سے تمام ذریت جو ہونہار تھی، چیونٹیوں کی طرح سے نکل پڑی اور اس کا آفتاب جمال ہر شخص پر نور افگن ہوا، جن میں استعداد خدا داد کی وجہ سے کچھ بھی صفائی تھی، ان پر وہ نور پڑا اور چمکا اور جن کی اصل میں کدورت تھی ان پر وہ نور نہ پڑا، (جس طرح اس عالم میں آفتاب نکلتا ہے تو شفاف چیزیں منور ہوجاتی ہیں اور مکدر نہیں چمکتیں) اور ہر شخص نے اس کی ربوبیت کا اقرار کیا جن پر وہ نور پڑا تھا وہ لوگ اس عالم حسی میں اہل سعادت یعنی مومن کہلائے اور جن پر وہ نور نہ پڑا وہ اسی شقاوت کی تاریکی میں اس عالم میں آئے اور کافر و منافق کہلائے۔ قرآن حقائقِ اشیاء کو نہیں بدل سکتا جو وہاں محروم رہا ان کو یہاں کون منور کرسکتا ہے، اس لیے حضرت کی تسلی اللہ تعالیٰ نے کردی اور جو لوگ دراصل اہل سعادت ہیں مگر عوارض وغیرہ سے تاریکی میں گرفتار ہیں ان کو ابھارتا ہے کہ ہمارے قرآن اور آپ کے بیان میں اے نبی کچھ قصور نہیں لیکن جو ازلی بدنصیب ہیں ان کی تقدیر میں بھلائی نہیں۔ واضح ہو کہ اس خدا داد ہدایت اور صلاحیت ازلی کے لحاظ سے لوگوں کی سات قسم ہیں کس لیے کہ بنص قرآنی یا لوگ شقی ہیں یا سعید فَمِنْھُمْ شَقِیٌّ وَّسَعِیْدٌ اور اشقیاء کو اصحاب الشمال یا اصحاب المشئمہ بھی کہتے ہیں، پھر ان اشقیاء کی دو قسم ہیں۔ اول مطرو دین کہ جن پر بہیمیت اور تاریکی ہیولانیت نے ایسا غلبہ کیا ہے کہ ان پر نور الٰہی پڑنے کی قابلیت ہی نہیں رہی اور چوطرفہ اندھیریوں اور ہر قسم کی تاریکیوں نے ان کو ایسا گھیر لیا کہ گو وہ بظاہر جنس انسان میں ہیں لیکن درحقیقت جانور ہیں ان کو کافر بھی کہتے ہیں دیوار اور مہر اور پردہ جو قرآن میں مذکور ہے اس سے یہی ظلمات مراد ہیں۔ ان ہی کی نسبت فرمایا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ 1 ؎ یعنی جو ازلی گمراہ اور سیاہ قلب ہیں ان کے لیے قرآن ہدایت نہیں بخشتا خواہ آپ وعظ و نصیحت کریں یا نہ کریں ان کے دلوں میں ایمان قبول کرنے کی قابلیت نہیں۔ الخ۔ 12 منہ۔ 2 ؎ چناچہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ خدا نے مخلوق کو ظلمت (طبیعت) میں پیدا کیا اور ان پر اپنا نور ڈالا پس جس شخص پر وہ نور پڑگیا اس نے ہدایت پائی اور جس پر نہ پڑا وہ گمراہ ہوا اور میں اسی لیے کہتا ہوں کہ احکام ازلیہ پر قلم خشک ہوگیا۔ رواہ احمد والترمذی۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ خدا نے پشت آدم سے بمقام لعمان عہد لیا پس اس کی پشت سے تمام ذریت کو نکال کر اس کے سامنے پھیلا دیا اور غنی و فقیر سب کو دکھلا دیا اور انبیاء چراغوں کی مانند چمکتے نظر آئے پھر خدا نے آدم کے روبرو سب سے عہد لیا کہ میں تمہارا رب ہوں تم اس پر قائم رہنا پھر اس کے یاد دلانے کو دنیا میں انبیاء بھیجوں گا تاکہ تم قیامت کو یہ عذر نہ کرو کہ ہم کو معلوم نہ تھا یہ کہ ہمارے آباء و اجداد نے شرک کیا ہم ان کے مقلدر ہے ہم پر کیا گناہ ہے انتہی ملخصاً ، رواہ احمد۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر شخص کا ٹھکانا جنت یا دوزخ میں پہلے ہی سے علم الٰہی میں قرار پا چکا ہے (متفق علیہ) اور فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میرے ہاتھ میں یہ دو کتابیں کیسی ہیں ؟ لوگوں نے کہا نہیں۔ فرمایا کہ داہنے ہاتھ کی کتاب میں خدا نے تمام اہل جنت کے نام لکھ دیے ہیں اور ان کی قوم اور باپ کے نام بھی مندرج ہیں اور بائیں میں تمام اہل دوزخ کے نام ہیں۔ رواہ الترمذی۔ (حقانی) کَفَرُوْا سَوَآئٌ عَلَیْہْمْ ئَاَنْذَرْتَہُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ سوال : صدہا کافروں کو ایمان لاتے دیکھا ہے اکثر صحابہ ؓ پیشتر کافر تھے پھر ایمان لائے۔ متقی اور ہادی اور مہدی کہلائے۔ جواب : جو لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے وہ دراصل کافر نہ تھے اور ان کو جو اس وقت کافر کہا جاتا تھا تو بحکم حالت موجودہ ورنہ وہ حقیقت میں متقی تھے جو ہدایت پر آگئے اور وہ ازلی کافر جیسا کہ ابوجہل وغیرہ ہرگز ایمان نہ لائے نہ لاویں گے نہ ان میں صلاحیت ہے۔ اس لیے ان کی نسبت خدائے تعالیٰ فرماتا ہے : وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَھَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنَّ وَالْاِنْسِ لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بْھَا وَلَھُمْ اَعْیُنٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ بْھَا وَلَھُمْ اٰذَانٌ لاَ یَسْمَعُوْنَ بْھَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامْ بَلْ ھُمْ اَضَلَّ اُولٰئِکَ ھُمُ الْفَغِلُوْنَ (کہ ہم نے بہت سے جن اور آدمی جہنم کے لیے پیدا کئے ہیں ان کو دل ملے ہیں مگر سمجھتے نہیں، ان کو آنکھیں دی گئی ہیں مگر ان سے دیکھ نہیں سکتے، کان دیے گئے ان سے سن نہیں سکتے، وہ لوگ بمنزلہ چارپایوں کے ہیں بلکہ ان سے بھی گمراہ اور یہی غافل ہیں) ۔ دوم وہ لوگ کہ جن میں کسی قدر استعداد ذاتی تو تھی کہ جو کبھی طبیعت کی تاریکیوں میں اس طرح چمکتے تھے جس طرح گھنگور گھٹا میں بجلی، مگر ان لوگوں نے جب جاہ و جلال اور شکوک و شبہات اور پابندی رسم و رواج سے اور شہوت پرستی اور مستی سے اس نور کو بجھا دیا اور اس ذاتی استعداد کو مٹا دیا اس گروہ کو منافق کہتے ہیں۔ ان کا تفصیل سے پچھلی آیتوں میں ذکر آتا ہے اور سعیدوں کی بھی دو قسم ہیں ایک قسم مقربین اور سابقین۔ دوسری اصحاب الیمین جن کو اصحاب المیمنہ و مقتصدین بھی کہتے ہیں۔ پھر مقربین کی بھی دو قسم ہیں اول مجتبیٰ ، دوم منیب۔ اَللّٰہُ یَجْتَبِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْ اِلَیْہِ مِنْ یُّنِیْبُ مجتبیٰ کو اہل سلوک محبوب اور منیب کو محب بھی کہتے ہیں اور کبھی مجذوب و سالک بھی کہتے ہیں۔ یہ لوگ انبیاء و صدیقین ہیں اور اسی طرح اصحاب الیمین کی بھی کئی قسمیں ہیں اہل فضل وثواب کہ خدا کے فضل سے مقصود کو پہنچے ہیں اور اسی امید پر ایمان و اعمال صالحہ عمل میں لاتے ہیں۔ دوم اہل عفو کہ جن کے اچھے اعمال میں کچھ برے بھی شامل ہیں، مگر یا تو ان کی قوت ایمان اور نور معرفت اور رجائِ صادق سے خدائے تعالیٰ اس گناہ کو معاف کردیتا ہے یا توبہ اور اس کے مقابلہ میں گریہ وزاری اور اعمال صالحہ سے وہ داغ مٹ جاتا ہے خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحاً وَآخَرَ سَیّْئًا عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّتَوْبَ عَلَیْہْمْ کا یہ ہی لوگ مصداق ہیں اور فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیّْئٰاتِھْمْ حَسَنَاتٍ ۔ ان ہی کے حق میں فرماتا ہے۔ سوم معذبین کہ بقدر گناہ ان کو عذاب ہوگا اور یہ عذاب کبھی تو دنیا ہی میں بصورت نقصان مال و جان و بیماری و خواری ظہور کرتا ہے اور گناہوں سے صاف کرجاتا ہے جیسا کہ آیات اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور کبھی مومن کی روح پر ایک عجیب دہشت اور سخت بےکلی اور تاسف لاحق ہوتا ہے سو وہ بھی اس کا کفارہ ہوجاتا ہے اور کبھی آخرت میں وہ برے اعمال آگ اور سانپ بچھو کی صورت میں ظہور کرکے اس کی روح کو صدمہ پہنچاتے ہیں اور جب ایک مدت تک اس تکلیف کو پا لیتا ہے تو پھر روح منور ہوجاتی ہے اور جنت میں آرام پاتی ہے اور کبھی انبیاء اولیاء و ملائکہ کی شفاعت سے خلاصی ہوجاتی ہے۔ ان پانچ گروہوں کا حال الذین انعمت علیہم میں اور ھدی للمتقین الخ میں ہوچکا اور اشقیاء کے اول فریق کافر کا ان آیات میں بیان ہوا کہ قرآن سے ان کو ہدایت نہیں اور اشقیاء کے دوسرے فریق منافق کا اس کے بعد ومن الناس من یقول الخ میں خدا بیان فرماتا ہے۔ متعلقات : ختم اللہ علیٰ قلوبہم ہرچند ختم کا اسناد اللہ کی طرف اہل حق کے نزدیک اسناد حقیقی 1 ؎ ہے لیکن مہر کرنے سے اور ان کی 1 ؎ معتزلہ کے نزدیک اسناد مجازی ہے، اہل حق کے نزدیک مجاز لغوی اعنی مسند معنی مجازی میں مستعمل ہے باقی اسناد حقیقی ہے۔ معتزلہ اور عیسائی کہتے ہیں کہ خدا کی طرف کفر کا پیدا کرنا اور مہر اور گمراہ کرنا منسوب کرنا نہایت بےادبی اور اس کی ذات مقدس میں عیب لگانا ہے۔ لہٰذا اس قسم کی عبارتوں کو مجاز پر محمول کرنا چاہیے لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ یہ لوگ اس بات کو اچھی طرح نہ سمجھے، عقلاً یوں کہ جب یہ تسلیم کرلیا گیا ہے کہ اس عالم کا وہی خالق ہے تو اعیان و اعراض سب کچھ اسی کا مخلوق ہوگا، کس لیے کہ ممکن کو دوسرا ممکن پیدا کرنے کی خواہ وہ جوہر ہو خواہ عرض (کوئی کام وغیرہ) قدرت مستقلہ نہیں اور جو ہو تو وہ خالق آنکھوں پر پردہ ہونے سے یہ مراد نہیں کہ درحقیقت خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں اور کانوں پر اس طرح سے مہر لگا دی ہے کہ جس طرح کسی برتن کا منہ بند کرکے اس پر لاکھ سے اس لیے مہر لگا دیتے ہیں کہ اس کے اندر اور کوئی چیز نہ جانے پاوے نہ اندر کی چیز باہر آنے دے اور سچ مچ کا کوئی ٹاٹ یا ترپال کا پردہ ان کی آنکھوں پر ڈال دیا ہے۔ شاید کسی کم فہم نے یہ بات سمجھ کر قرآن مجید پر اعتراض کیا ہو بلکہ اس سے مراد وہ جبلی کجروی اور طبعی تاریکی ہے کہ جس کی وجہ سے کفر و معصیت کی طرف بےخود ہو کے دوڑتا ہے اور امور فطرت سے اس کو دلی نفرت ہوتی ہے جس طرح کہ گوہ کے کیڑے کو خوشبودار پھول سے جبلی نفرت اور گندگی سے رغبت ہوتی ہے گویا کہ خوشبو کی طرف رغبت کرنے سے اس کیڑے کے دل پر مہر ہوگئی ہے اور اس کی آنکھوں پر قضاء و قدر سے حجاب پڑا ہوا ہے۔ سو یہ ایک حالت ہے کہ جس کو خدا نے استعارہ کے طور پر ختم اور غشاوہ سے تعبیر کیا ہے اور کبھی اس حالت کو طبع سے تعبیر کیا ہے اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبْھْمْ اور کبھی اغفال سے ولا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرْنَا اور کبھی اقساء سے وَجَعَلْنَا قُلُوْبُھُمْ قَاسِیَۃً اس حالت کا فاعل حقیقی خدائے تعالیٰ ہے کیونکہ یہ جتنے امور جبلی ہیں سب قضاء و قدر سے ہیں اور اسی لیے ان کو خدائے تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور اس میں اس کی ذات پاک پر کوئی عیب نہیں لگتا۔ کس لیے کہ اس کا کا سب بندہ ہے اس کو کسی قدر اس میں دخل ہے اس لیے اس کی طرف بھی نسبت کرتے ہیں اور برائی کا بوجھ اس کے سر پر دھرتے ہیں اور اسی لیے اتمام حجت کو ان کے پاس بھی خدا کے انبیاء (علیہم السلام) پیغام ہدایت لاتے ہیں اور پھر وہ اپنی نافرمانی کی سزا دنیا و آخرت میں پاتے ہیں۔ اب جس طرح یہ سوال بیجا ہے کہ خدا نے اپنے بندوں کو مختلف استعداد پر کیوں بنایا اور بعضوں کی جبلت میں یہ تاریکی کیوں رکھی ہے اور پھر ان کو عذاب کیوں دیا ؟ کس لیے کہ یہ کسی قدر اختیار پر مبنی ہے اور مختلف استعداد اور رنگ برنگ کی قابلیت دینے مستقل ماننے پڑیں، کہ جس کی تسلیم میں سب سے بڑھ کر بےادبی ہے۔ پس جب یہ ثابت ہوا کہ بندہ کو اپنے افعال پر قدرت مستقلہ نہیں ورنہ کبھی کوئی ناکامیاب نہ ہوتا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ بندہ اپنے افعال ارادیہ میں پتھر اور لکڑی کی طرح مجبور نہیں اس کے ارادی کاروبار اس طرح سے سرزد نہیں ہوتے کہ جس طرح رعشہ میں بےخود ہاتھ ہلا کرتا ہے تو ضرور یہ تسلیم کرنا پڑا کہ نہ جبر محض ہے نہ قدر محض بلکہ خالق ہر چیز کا اللہ تعالیٰ اور کسی قدر اختیار بندہ کو بھی دیا ہے خواہ وہ ارادہ ہو یا کچھ اور۔ جو کچھ ہو مگر اس کی وجہ سے بندہ کو کا سب کہا جاتا ہے جس کی وجہ سے بھلائی برائی اس کی طرف منسوب ہوئی ہے اور جزا و سزا پاتا ہے چلا عدم سے میں ہستی کو بول اٹھی تقدیر بلا میں پڑنے کو کچھ اختیار لیتا جا پس اس گمراہی وغیرہ افعال کو خالق ہونے کی وجہ سے خدا کی طرف بھی منسوب کرسکتے ہیں اور خالق ہونے میں کوئی برائی نہیں نہ اس برائی سے وہ متصف ہوسکتا ہے، مثلاً تلوار بنانے والے کا کوئی قصور نہیں نہ اس کو قاتل کہہ سکتے ہیں بلکہ جس نے تلوار کو مارا۔ اسی طرح رنگریز کو اسود نہ کہیں گے بلکہ کپڑے کو جس پر (سواد) سیاہی قائم ہوئی اور چونکہ بندہ کا سب ہے بمقام ذم اس کی طرف بھی نسبت ہوگی جس کی وجہ سے وہ برائی بھلائی سے متصف ہوگا اور چونکہ شیطان یا کوئی اور گمراہ کرنے والا سبب ہوتا ہے تو مجاز افعل کو سبب کی طرف بھی منسوب کیا جاتا ہے جس طرح کہ شیطان کو اسی علاقہ سے مضل کہتے ہیں اسی طرح قرآن یا نبی (علیہ السلام) کو ہادی۔ نقلاً یوں کہ قرآن و احادیث میں بکثرت یہ انتساب موجود ہے اور حقیقی معنی کو جب تک کوئی مانع نہ ہو، چھوڑنا جائز نہیں اور بائبل میں بھی بہت سے مقامات پر ایسی عبارتیں پائی جاتی ہیں کہ جن میں ان امور کو خدا کی طرف منسوب کیا ہے ازان جملہ پولوس اپنے دوسرے خط کے چوتھے باب میں جو قرنیتوں کو لکھا ہے یوں کہتا ہے (3) اور ہماری انجیل اگر پوشیدہ ہو وے تو انہیں پر پوشیدہ ہے جو ہلاک ہوتے ہیں۔ (4) کہ اس جہاں کے خدا نے ان کی عقلوں کو جو بےایمان ہیں تاریک کردیا ہے تاکہ مسیح الخ کی جلال والی انجیل کی روشنی ان پر نہ چمکے، یہ عبارت صاف صاف ان آیات قرآنیہ کے مضمون کی تصدیق کر رہی ہے اگلے فقرے میں قدرت کو بالکل خدا کی طرف منسوب کرتا ہے کہ قدرت کی بزرگی ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے۔ انتہیٰ ، ، اور ایک جگہ کہتا ہے کمہار سے برتن نہیں کہہ سکتا کہ تو نے مجھے ایسا کیوں بنایا اسی طرح بندہ نہیں کہہ سکتا، اس پر پادری صاحب اگر قرآن پر اعتراض کریں تو کمال بےانصافی ہے۔ میں وہ خود مختار ہے، جس کو جو کچھ دیا اس کا فضل ہے اور جس کو نہیں دیا تو اس پر کچھ ظلم نہیں کیا۔ اسی طرح برتن کا کمہار سے یہ کہنا بیجا ہے کہ تو نے مجھ پر ظلم کیا جو آبدست کرنے کی بدہنی بنایا بادشاہوں اور معشوقوں کے پینے کا پیالہ نہ بنایا ؟ اس مسئلہ جبر و قدر میں زیادہ گفتگو کرنے کی ممانعت ہے کیونکہ اس کے اسرار پورے پورے عقل میں مشکل سے آتے ہیں، اس لیے ہم بھی قلم روکتے ہیں۔ 1 ؎ قلب : ایک گوشت صنوبری کو کہتے ہیں کہ جو بائیں جانب پہلو میں الٹا لٹکا ہوا ہے اور اسی لیے اس کو قلب کہتے ہیں اور اس میں جگر سے آ کر خون پکتا ہے اور پھر اس کے لطیف ابخرے روحانی بنتے ہیں اور شرائین کے ذریعے سے تمام بدن میں دوڑتے ہیں اور حس و حرکت کا منشا بھی یہی روح ہے جس عضو میں وہ روح نہ جائے تو وہ بےحس و حرکت ہو کر مرجائے اور یہ روح ہوائی کہلاتی ہے اور اسی کو نسمہ بھی کہتے ہیں اور روح حقیقی یعنی نفس ناطقہ کا اصل مرکب یہی ہے اور اس کا مرکب تمام جسم ہے۔ جب اس روح کو ہوائی میں (کہ جس کو روح حیوانی اور روح طبی بھی کہتے ہیں) سخت فساد آتا ہے تو روح حقیقی کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور قطع تعلق کا نام موت ہے اور اصطلاح شرع میں قلب لطیفہ انسانی کا نام ہے کہ جس سے انسانیت قائم ہے اور جس سے شوق و محبت پیدا ہوتی ہے اور جس سے شرع کے اوامرونواہی بجا لاتے ہیں اور کبھی قلب سے عقل بھی مراد ہوتی ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ اور کبھی نفس یا روح بھی مراد ہوتی ہے اس آیت میں یہی لطیفہ مراد ہے کیونکہ استدلال کرنا اسی کا کام ہے اور یہی الہامِ الٰہی کی جگہ ہے اور یہی حق شناسی کی دوربین ہے۔ پس جب اس پر مہر ہوگئی تو یہ سب باتیں مفقود ہوگئیں۔ نکات : (1) ختم اللہ الخ یہ اس دعوے کی (کہ ان پر ہدایت کا کچھ اثر نہ ہوگا وعظ کرنا نہ کرنا برابر ہے) دلیل ہے اور یہ دلیل اس لیے بیان ہوئی کہ بظاہر اس دعوے کا ثبوت سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس کے ثبوت میں فرمایا کہ یہ اس لیے کہ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کردی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہے یعنی ان کی جبلت میں تاریکی ہے اور بہیمیت کی اندھیریوں نے ان کو ہر طرف سے محیط گھیر کر اس امر کے قابل ہی نہ رکھا۔ (2) کسی چیز کا دریافت کرنا تین طرح پر ہوتا ہے۔ یا تو حس سے یا خبر صادق سے، یا خود عقل غور کرکے دریافت کرے۔ مگر امور آخرت اور خدا کی ذات وصفات حس سے تو معلوم نہیں ہوسکتی۔ اب ان کو یا خود عقل یقین کرے یا خبر صادق سے ان کی تصدیق ہو۔ پھر جب کہ ان کی ازلی گمراہی ثابت کرنی مقصود تھی اور اس لیے ختم اللہ علی قلوبہم و علٰی سمعہم فرمایا جس سے ادراک عقلی اور خبر مخبر صادق سن کر ایمان لانے کی نفی ہوگئی اور یہ دونوں سبب مفقود ہوگئے یعنی ان کے دلوں پر مہر ہے عقل سے ان امور کا کیونکر یقین کریں اور ان کے کانوں پر بھی مہر ہے وہ مخبر صادق کی خبر کیونکر سنیں اور کس طرح ایمان لائیں۔ لیکن کسی قدر حس سے امور حسیہ پر ایمان لانے کا احتمال تھا وہ یہ کہ نبی (علیہ السلام) کے معجزات دیکھ کر ایمان لاویں۔ سو یہ بھی بات ان کو نصیب نہیں۔ وہ ہرچند بیشمار معجزات دیکھ چکے ہیں لیکن بمنزلہ نا بینا کے ہیں اس لیے امور حسیہ پر بھی ایمان نصیب نہ ہونے کے سبب علیٰ ابصارھم غشاوہ فرما دیا کہ یہ جنم کے اندھے بھی ہیں ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ کچھ دیکھتے ہی نہیں۔ (3) مہر ایسی چیز پر کیا کرتے ہیں جس پر ہر طرف سے تصرف ہو سکے، پس مہر اس کو ہر طرف سے بند کردیتی ہے۔ چونکہ کان میں ہر طرف سے اور دل میں ہر طرف سے بات پڑ سکتی ہے ان کے لیے کوئی جہت خاص نہیں اس لیے ان پر تو مہر لگانا فرمایا اور آنکھ چونکہ سامنے 1 ؎ اہل سنت کا اعتقاد ہے کہ انسان کا ہدایت پانا یا گمراہ ہونا سب اللہ کی طرف سے ہے انسان کے پیدا ہونے کے پہلو یہ سب امور ظہور پذیر ہوچکے ہیں اس اعتقاد کو ایمان بالقدر کہتے ہیں یہ مضمون قرآن مجید کی اس آیت میں ظاہر ہوگیا اور آیندہ بھی بہت سی آیتوں سے اس کا بیان آئے گا۔ علی ہذا حدیث میں بھی اس کا بیان بڑی تفصیل سے ہے۔ اس لیے علماء نے مسئلہ قدر کے بارے میں گفتگو کرنے سے منع کیا ہے۔ (حقانی ) سے دیکھتی ہے اس کے لیے جہت خاص ہے تو اس پر پردہ پڑنا فرمایا کہ سامنے سے پردہ پڑگیا دیکھنا بھی جاتا رہا۔ جب خدائے تعالیٰ دعوے اور اس کی دلیل بیان فرما چکا تو بعد میں اس پر جو اثر مرتب ہونے والا ہے وہ فرماتا ہے کہ ولہم عذاب الیم یہ عذاب خواہ آگ سے ہو خواہ طوق و زنجیر سے خواہ اور کسی طرح سے کہ جس کی کیفیت ہم کو معلوم نہیں جو کچھ ہو وہ روح کی تاریکی اور اس کی جبلی کج روی کا اثر مرتب ہے جس طرح پانی کا اثر برودت اور آگ کا اثر حرارت ہے، اسی طرح انسان کے برے اعمال کا اثر خاص ہے کہ جو مرنے کے بعد معلوم ہوگا۔ اعاذنا اللہ منہ، جب خدائے تعالیٰ فریق اشقیا کو بیان کرچکا تو اب دوسرے فریق منافقین کا حال بیان فرماتا ہے۔
Top