Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے، وہ ایمان نہیں لانے کے
صفات کافرین کا ذکر قال تعالیٰ ان الذین کفرو۔۔۔ الی۔۔۔ عذاب عظیم (یہ آیت نازل ہوئی ان کے حق میں جن کی موت کفر پر اللہ تعالیٰ نے اپنے علم قدیم میں جانی تھی جیسا کہ عتبہ وشیبہ وابی جہل وولید بن مغیر (موضح القرآن) یہاں تک گروہ اتقیاء کا ذکر فرمایا کہ جو قرآن کریم کی ہدایت سے متمع اور منتفع ہوئے اب آئندہ اشقیاء کا ذکر فرماتے ہیں کہ اپنی شقاوت اور فساد فطرت کی وجہ سے اس چشمۂ ہدایت سے منتفع نہیں ہوئے۔ چناچہ فرماتے ہیں تحقیق جن لوگوں نے کفر کیا یعنی جو لوگ اللہ کے علم میں کافر ہیں ان کے حق میں آپ کا ڈرانا اور نہ ڈرانا سب برابر ہے وہ ایمان نہ لائیں گے آپ اس قسم کے لوگوں کے ایمان نہ لانے سے رنجیدہ اور ملول نہ ہوں قرآن کی ہدایت اور آپ کی تبلیغ اور دعوت کا قصور نہیں بلکہ ان کی فاسد اور بگڑی ہوئی استعداد اور فطرت کا قصور ہے اصل کافر وہی ہے کہ جسکا خاتمہ اور موت اللہ کے علم میں کفر پر مقرر ہوچکا ہو۔ جیسے ابوجہل اور ابولہب وامثالہم۔ ورنہ جس شخص کا خاتمہ ایمان پر ہونے والا ہے وہ فی الحال محض ظاہر کے اعتبار سے کافر ہے حقیقت اور انجام کے اعتبار سے مومن ہے۔ بد عمر را نام اینجابت پرست لیک مومن بود نامش در الست جو لوگ محض ظاہر کے اعتبار سے کافر تھے ان میں سے بہت سے مشرف باسلام ہوئے اور ہوتے رہیں گے لیکن جو اللہ کے علم میں کافر تھے ان میں سے کوئی ایمان نہیں لایا۔ ایسے کافروں کے حق میں ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے۔ گزشتہ آیات میں اہل انعام کا ذکر تھا یعنی جن کو حق تعالیٰ نے ایمان اور ہدایت اور تقویٰ کی نعمت سے سرفراز فرمایا اب اہل غضب اور اہل ضلال کا ذکر فرماتے ہیں۔ ان دو آیتوں میں خالص کافروں کا ذکر ہے اور اس کے بعد تیرہ آیتوں میں منافقین کا ذکر ہے۔ حرف تحقیق یعنی کلمہ ان کا استعمال اکثر ان مواقع میں ہوتا ہے کہ جہاں مخاطب کو کسی قسم کا کوئی تردد ہو۔ مگر کبھی کبھی ایسے موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے کہ جہاں متکلم یا مخاطب کے گمان کے خلاف کوئی شی ظاہر ہو جیسے حضرت مریم کی والدہ کا بطور حسرت یہ فرمانا۔ رب انی وضعتھا انثی اے پروردگار تحقیق میں نے تو یہ لڑ جنی ہے خلاف امید لڑکی کی ولادت کو بطور حسرت حرف ان کے ساتھ ذکر فرمایا اور علی ہذا نوح (علیہ السلام) کو اپنی قوم سے یہ امید تھی کہ وہ میری تصدیق کریں گے جب خلاف امید انہوں نے تکذیب کی تو بطور حسرت یہ فرمایا رب ان قومی کذبون اے پروردگار تحقیق میری قوم نے تو میری تکذیب کی اسی طرح اس جگہ نبی اکرم ﷺ کے امید کے خلاف کفار کے نہ ایمان لانے کو حرف ان کے ساتھ ذکر فرمایا کہ اے ہمارے نبی آپ ان کافروں کے ایمان کی امید نہ رکھیں۔ ان کے حق میں آپ کا ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے یہ ایمان نہ لائیں گے اور سواء علیھم۔ اس لیے فرمایا کہ کافروں کے حق میں ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے لیکن آپ کے حق میں برابر نہیں آپ تو مامور من اللہ ہیں۔ آپ کو تبلیغ اور دعوت کا اجر ہر حال میں ملے گا اس آیت سے یہ مقصود نہیں کہ آپ ان کو تبلیغ اور ہدایت نہ فرمائیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے سے غمگین اور ملول نہ ہوں۔ کفر کی تعریف ہم یؤمنون بالغیب کی تفسیر میں ایمان کے ساتھ کفر کی حقیقت بھی امام غزالی سے نقل کرچکے ہیں لیکن امام رازی نے جو کفر کی تعریف فرمائی ہے وہ زیادہ واضح ہے اور کفر کی تمام اقسام کو حاوی اور جامع ہے وہ یہ ہے۔ الکفر عدم تصدیق الرسول ﷺ فیما علم بالضرورۃ مجیئہ بہ (تفسیر کبیر ص 159 ج 1) یعنی کفر کے معنی یہ ہیں کہ رسول اور پیغمبر کی اس چیز میں تصدیق نہ کرنا جس کا بدیہی اور قطعی طور پر دین سے ہونا معلوم ہوچکا ہے کیونکہ کفر کی یہ تعریف یعنی عدم تصدیق الرسول۔ تکذیب اور ترک تصدیق دونوں کو شامل ہے اور امام غزالی نے جو تعریف کی ہے یعنی تکذیب الرسول وہ بظاہر اس شخص کے کفر پر صادق نہ آئے گی۔ کہ جو نہ تصدیق کرتا ہے اور نہ تکذیب حالانکہ وہ شخص بالاجماع کافر ہے نبی کی تصدیق نہ کرنا ہی کفر ہے خواہ تکذیب کرے یا نہ کرے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کفر کی تعریف بجائے تکذیب کے ترک تصدیق کے ساتھ کی جائے تاکہ کفر کی دونوں صورتوں پر صادق آسکے۔ کما قال اللہ تعالی۔ ومن لم یؤمن باللہ و رسولہ فانا اعتدنا للکافرین سعیرا۔ جو اللہ اور اس کے رسول کی تصدیق نہ کرے تو ہم نے ایسے کافروں کے لیے دہکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ اس آیت شریفہ میں نہ تصدیق کرنے والوں کو کافر کہا گیا۔ وقال تعالی۔ وقال الذین کفرو الن نؤمن بھذا القران۔ کافروں نے کہا ہم ہرگز اس قرآن کی تصدیق نہ کریں گے۔ سورة صافات میں ہے کہ اہل جنت اہل نار سے یہ کہیں گے۔ بل لم تکونوا مومنین۔ بلکہ تم تصدیق کرنے والے نہ تھے۔ فلا صدق ولا صلی : بلکہ تم تصدیق کرنے والے نہ تھے۔ بلکہ خود یہی آیت یعنی ان الذین کفروا سواء علیھمء انذرتھم ام لم تنذرھم لا یؤمنون۔ امام رازی کی تائید کرتی ہے اس لیے کہ اس آیت میں نہ ایمان لانے والوں اور نہ تصدیق کرنے والوں کو کافر کہا گیا ہے۔ اقسام کفر علماء نے کفر کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں 1 ۔ کفر تکذیب : یعنی انبیاء رسل کو جھٹلانا کما قال تعالی۔ وقال الکفرون ھذا سحر کذاب ان کل الا کذب الرسل فحق عقاب کافروں نے کہا یہ ساحر اور جھوٹا ہے۔ ان قوموں میں سے ہر ایک پیغمبروں کو جھٹلایا پس میرا عذاب ان پر ثابت ہوگیا۔ 2 ۔ کفر استکاب۔ تکبر کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو نہ ماننا اور اس کے قبول سے انکار کردینا۔ ابی واستکبر وکان من الکفرین : ابلیس نے حکم ماننے سے انکار کردیا اور تکبر کیا اور تھا وہ کافروں میں سے۔ 3 ۔ کفر اعراض۔ : یعنی پیغمبر کی نہ تصدیق کرے اور نہ تکذیب بلکہ اعراض اور روگردانی کرے کماقال تعالی۔ والذین کفروا عما انذروا معرضون۔ اور کافر جس چیز سے ان کو ڈرایا جاتا ہے اس سے اعراض کرتے ہیں۔ شاہ عبدالقادر صاحب معرضون کا ترجمہ اس طرح فرماتے ہیں کہ " دھیان نہیں کرتے " یعنی نبی کی نصیحت کی طرف توجہ اور التفات نہیں کرتے۔ وقال تعالی۔ قل اطیعوا اللہ واطیعو الرسول فان تولوا فان اللہ لا یحب الکافرین۔ کہدیجئے کہ اطاعت کرو اللہ کی اور اس کے رسول کی۔ اور اگر روگردانی کریں تو کہدیجئے کہ اللہ کافروں کو محبوب نہیں رکھتا۔ اس آیت میں روگردانی کرنے والوں کو کافر بتایا گیا ہے اور اس قسم کی بہت سی آیتیں ہیں۔ 4 ۔ کفر ارتیاب یعنی پیغمبر نہ صادق ہونے کا یقین ہے نہ کاذب ہونے کا۔ بلکہ شک اور تردد ہے۔ یہ بھی کفر ہے۔ چناچہ وقد کفرعوا بہ۔ کی علت حق تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے۔ انھم کانوا فی شک مریب۔ (یعنی بیشک تھے وہ شک میں متردد) 5 ۔ کفر نفاق : یعنی زبان سے اقرار اور قلب سے انکار کرے اور من الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وماھم بمومنین سے دور تک اسی کفر نفاق کا بیان ہے۔ (5) کفر نفاق : یعنی زبان سے اقرار اور قلب سے انکار کرے اور من الناس من یقول امنا باللہ وبالیوم الاخر وماھم بم ﷺ منین۔ سے دور تک اسی کفر نفاق کا بیان ہے۔ حق جل شانہ کا یہ ارشاد ختم اللہ علی قلوبھم۔ پہلے جملہ کی دلیل ہے یعنی ان کافروں کے حق میں ڈرانا اور نہ ڈرانا اس لیے برابر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے تمرد اور عناد اور سرکشی کے سزا میں ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی ٓنکھوں پر ایک خاص قسم کا پردہ ہے جو ان ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں ٓتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی سرکشی اور عناد کے سزا میں ان پر علم اور ہدایت کے دروازے بند کر دئیے ہیں نہ آنکھ کے راستہ سے ہدایت پہنچ سکتی۔ اور نہ کان کے راستہ سے لہذا اب کوئی صورت نہیں کہ ہدایت ان کے دلوں تک پہنچ سکے۔ دل کا دروازہ اگر کھلا ہوا ہوتا تو پھر شاید ہدایت اندر داخل ہوجاتی مگر وہ بند کردیا گیا۔ یہ دنیا میں ہوا۔ اور آخرت میں ان کے لیے بڑا دردناک عذاب ہے جو فلاح کی سراسر ضد ہے۔ نکتہ : علی قلوبھم اور علی سمعھم میں کلمہ علی کو مکرر لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ قلوب اور اسماع ہر ایک کی مہر جداگانہ اور مستقل ہے جمہور علماء مفسرین ومتکلمین یہ فرماتے ہیں کہ آیت شریفہ میں ختم اور غشاوۃ سے یہ مراد نہیں کہ حق تعالیٰ نے حقیقۃً ان کے دلوں اور کانوں پر کوئی مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر کوئی پردہ ڈال دیا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ یہ متکبرین اور معاندین اور ہوا پرست اور دشمنان حق وہدایت اپنی طبعی زیغ اور جبلی کجروی کی وجہ سے اس درجہ اور اس حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ اخلاق ذمیمہ اور رذائل ان کے دلوں میں اس درجہ راسخ اور پختہ ہوچکے ہیں کہ ہر فحشاء اور منکر ان کو مسحتسن نظر آتا ہے اور حق جل وعلا کی ہر نافرمانی ان کو لذیذ معلوم ہوتی ہے ان کی حالت نجاست کے کیڑے کی طرح ہے کہ جس گندگی سے طبعی رغبت ہوتی ہے اور خوشبو سے اس کو طبعی نفرت ہوتی ہے اور بسا اوقات یہ نجاست کا کیڑا عطر کی تیز خوشبو کو برداشت بھی نہیں کرسکتا اور بعض اوقات عطر کی خوشبو سے مر بھی جاتا ہے یہی حالت ان کافروں کی ہے کہ کفر کی نجاست پر فریفتہ ہیں اور حق اور ہدایت کے عطر سے ان کو نفرت ہے۔ حق تعالیٰ نے کافروں کی اس حالت کو بطور استعارہ ختم اور غشاوۃ کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے اور مطلب یہ ہے کہ جس طرح مہر اور پردہ بیرونی اشیاٗ کے وصول اور نفوذ سے مانع ہوتے ہیں اسی طرح ان کی یہ حالت ایمان اور ہدایت کو ان کے دلوں تک نہیں پہنچنے دیتی اور اندرونی کفر کو اندر سے باہر نہیں ٓنے دیتی اور نہ ان کے کان کسی حق بات کی طرف التفات کرتے ہیں اور نہ ان کی آنکھیں کسی امر حق کو دیکھنا چاہتی ہیں ایسے لوگوں کو ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے۔ قدوۃ الاولیاء امام حسن بصری (رح) یہ فرماتے ہیں کہ آیت میں ختم اور غشاوہ (مہر اور پردہ) ظاہر اور حقیقت پر محمول ہے کافروں کے دلوں پر حقیقۃً ایک مہر ہے اور حقیقۃً ان کی آنکھوں پر ایک پردہ ہے جو مجہول الکیفیۃ ہے اور ہماری نگاہوں سے مستور ہے۔ اللہ کے فرشتے اس ختم اور غشاوہ کا مشاہدہ کرتے ہیں اور اسی مہر اور پردہ کو دیکھ کر یہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ کافر کبھی ایمان نہیں لائیں گے اور ان پر لعنت کرتے ہیں جس طرح قلوب م ﷺ منین پر نقش ایمان لکھا ہوا دیکھ کر ان کے لیے دعاء اور استغفار کرتے ہیں کما قال تعالیٰ اولئک کتب فی قلوبھم الایمان یہی لوگ ہیں جن کے دل میں اللہ نے ایمان لکھ دیا ہے پس جس طرح م ﷺ منین کے دلوں پر ایمان کی کتابت حقیقت ہے اگرچہ کتاب ایمان کی طرح اس کی کیفیت مجہول ہے ملائکۃ اللہ جس طرح قلوب مومنین پر کتابت ایمان کا حسا اور عیاناً مشاہدہ کرتے ہیں اسی طرح وہ قلوب کافرین پر مہر اور ان کی ابصار پر پردہ کا بھی حقیقۃً معاینہ کرتے ہیں (تفسیر کبیر ص 190 ج 1) واخرج البزار والبیھقی فی الشعب وضعفہ عن ابن عمر عن النبی ﷺ قال الطابع معلق بقائمۃ العرش فاذا انتھکت الحرمۃ وعمل بالمعاصی اوجترئ علی اللہ بعث اللہ الطابع فطبع علی قلبہ فلا یقبل بعد ذلک شیئا (تفسیر در منثور ص 238) تفسیر سورة نساء تحت تفسیر قولہ تعالیٰ بل طبع اللہ علیھا بکفرھم۔ امام بزار اور امام بیہقی شعب الایمان میں عبداللہ بن عمر ؓ سے راوی ہیں اور امام بیہقی نے اس کی سند کو ضعیف بتایا ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا مہر لگانے والا فرشتہ عرش کا پایا پکڑے کھڑا رہتا ہے جب کوئی شخص اللہ کے حکم کی بیحرمتی کرتا ہے اور کھلم کھلا اس کی نافرمانیوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اللہ کے مقابلہ میں گستاخ اور دلیر ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس مہر لگانے والے فرشتے کو حکم دیتے ہیں وہ فوراً اس گستاخ اور بیباک کے دل پر مہر لگا دیتا ہے جس کے بعد وہ کسی حق کو قبول نہیں کرتا (تفسیر در منثور ص 238 2) اور احادیث صحیحہ اس معنی کی تائید کرتی ہیں چناچہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو ایک سیاہ نقطہ اس کے قلب پر لگ جاتا ہے پس اگر توبہ کرلی اور اس گناہ سے باز آگیا تو دل کو صیقل کردیا جاتا ہے اور اگر کوئی اور گناہ کیا تو وہ نقطہ اور بڑھ جاتا ہے حتی کہ رفتہ رفتہ اس کے دل کو گھیر لیتا ہے اور یہی وہ رین (زنگ) ہے جس کی حق تعالیٰ نے کلا بل ران علی قلوبھم مما کانوا یکسبون میں خبر دی ہے۔ (رواہ الترمذی وقال حدیث حسن صحیح) پس جس طرح ہم ظاہری سیاہی اور سفیدی اور زندگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ اس سے کہیں زائد ملائکۃ اللہ قلوب بنی آدم کی سیاہی اور سفیدی اور زندگ کا معائنہ کرتے ہیں مجاہد فرماتے ہیں کہ رین یعنی زنگ کا درجہ ختم اور طبع سے کم ہے۔ اور ختم اور طبع کا درجہ۔ اقفال سے کم ہے اوراقفال سب سے زائد سخت ہیں۔ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے ام علی قلوب اقفالھا۔ کیا ان کے دلوں پر قفل ہیں۔ امام قرطبی 1 فرماتے ہیں کہ حدیث رین اور مجاہد کا قول اس امر کی دلیل ہے کہ آیت میں جس ختم کا ذکر ہے وہ امر حقیقی ہے۔ تفسیر قرطبی ص 188 ج 1 (1 ۔ امام قرطبی حدیث رین کو نقل کر کے فرماتے ہیں قلت وفی قول مجاھد ھذا۔ وقولہ (علیہ السلام) ان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وہی القلب۔ دلیل علی ان الختم یکون حقیقیا واللہ اعلم تفسیر قرطبی ص 188 ج 1) عن ابن عمر ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ اذا کذب العبد تباعد عنہ الملک میلا من نتن ما جاء بہ رواہ الترمذی۔ عبداللہ بن عمر رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ بندہ جب جھوٹ بولتا ہے تو اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ ایک میل دور چلا جاتا ہے (ترمذی) و عن جابر قال کنا مع النبی ﷺ فارتفعت ریح منتنۃ فقال رسول اللہ ﷺ اتدرون ما ھذہ الریح ھذہ ریح الذین یغتابون ال مومنین رواہ احمد۔ حضرت جابر راوی ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے یکایک ایک بدبو اٹھی آپ نے ارشاد فرمایا جانتے ہو یہ کیسی بدبو ہے پھر فرمایا یہ بدبو ان لوگوں کے منہ سے آرہی ہے جو اس وقت مسلمانوں کی غیبت کر رہے ہیں۔ (مسند احمد) ہم اگر قصور بصیرت کی وجہ سے کذب اور غیبت کے رائحہ کریہہ اور اس کی بدبو کا احساس نہ کرسکیں تو ہمارا یہ عدم احساس معاذ اللہ۔ ملائکہ مکرمین اور انبیاء ومرسلین کے عدم احساس کی ہرگز ہرگز دلیل نہیں بن سکتا۔ اسی طرح اگر ہم اپنی درماندہ اور قاصر بصیرت سے قلوب کافرین کی مہر اور ان کی آنکھوں کا پردہ نہ دیکھ سکیں تو ملائکۃ اللہ کے نہ دیکھنے کی کیسے دلیل ہوسکتا ہے گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمۂ اٖتاب را چہ گناہ امام قرطبی فرماتے ہیں کہ یہ ختم اور طبع حق جل شانہ کی جانب سے ابتداءً نہ تھا۔ بلکہ ان کے اعراض اور استکبار اور تکذیب اور انکار کی پاداش اور سزا میں تھا جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ فبما نقضھم میثاقھم وکفرھم بایات اللہ وقتلھم الانبیاء بغیر حق وقولھم قلوبنا غلف۔ بل طبع اللہ علیھا بکفرھم فلا یؤمنون الا قلیلا۔ وقال تعالیٰ فلما زاغوا ازاغ اللہ قلوبھم واللہ لا یھدی القوم الفاسقین۔ وقال تعالیٰ ونقلب افئدۃ ھم وابصارھم کما لم یؤمنوا بہ اول مرۃ ونذرھم فی طغیانھم یعمھون۔ پس بسبب ان کے عہد توڑ دینے اور آیات الٰہی کے انکار کردینے اور انبیاء کو دیدہ و دانستہ ناحق قتل کرنے کی وجہ سے کہ ہمارے دل پردہ میں ہیں۔ اللہ نے ان کے دلوں پر ان کے کفر اور عناد کی وجہ سے مہر لگا دی پس یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے مگر ان میں کے بہت تھوڑے۔ پس جب انہوں نے کجروی اختیار کی اور حق سے انحراف کیا تو اللہ نے ان کے دلوں کو بالکلیہ حق سے پھیر دیا اور اللہ نہیں توفیق دیتا حد سے نکلنے والوں کو۔ آیات مذکورہ میں اس امر کی تصریح ہے کہ اللہ کی جانب سے یہ ختم اور طبع ان کے نقض میثاق اور قتل انبیاء اللہ اور زیغ اور انحراف کی پاداش اور سزا تھی ان کی دیدہ دلیری اور علی الاعلان نافرمانی کی ان کو یہ سزا ملی کہ ہمیشہ کے لیے ہدایت سے محروم کردئیے گئے اور مہر لگا کر ہدایت قبول کرنے کی صلاحیت ہی سلب کرلی گئی۔ اور معرفت اور ہدایت کی سب راہیں ان پر بند کردی گئیں اب وہ نہ حق کی باتوں کو سمجھ سکیں گے اور نہ سن سکیں گے۔ اور نہ دیکھ سکیں گے اس لیے اب ان کو ڈرانا اور نہ ڈرانا سب برابر ہے۔ اور اگر بالفرض حق تعالیٰ جل شانہ ابتداءً ہی کسی کے دل پر مہر لگادیں اور اپنی توفیق اور ہدایت سے محروم کردیں تب بھی ذرا برابر کوئی ظلم نہیں جیسا کہ عطاء بن ابی رباح سے منقول ہے کہ میں ابن عباس ؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے یہ سوال کیا کہ اگر حق تعالیٰ مجھ سے اپنی ہدایت کو روک لیں اور گمراہی اور ہلاکت کو میرے لیے مقدر فرمادیں تو کیا یہ ظلم نہ ہوگا حضرت ابن عباس ؓ نے یہ ارشاد فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ نے تیری کسی مملوک شئی کو روک لیا ہے تو بیشک تجھ پر ظلم کیا اور اگر خدا نے اپنی مملوک شیئ کو روک لیا ہے تو وہ اس کی ملک ہے اس کو اختیار ہے جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے نہ دے۔ واللہ یختص برحمتہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۔ وقال تعالیٰ قل ان الفضل بید اللہ یؤتیہ من یشاء واللہ واسع علیم۔ اسی طرح ہدایت بھی اس کی ملک ہے اور اس کی رحمت ہے جس سے اپنے وفاداروں اور اطاعت شعاروں کو نوازتا ہے اور متکبرین اور سرکشوں کو اس سے محروم کرتا ہے (کتاب الھجرتین للحافظ ابن القیم ص 99) حق تعالیٰ نے اپنی قدرت اور حکمت بالغہ سے لوگوں کو مختلف الاستعداد بنایا کسی کو غبی اور کسی کو ذکی کسی کو خوبصورت اور کسی بد صورت کسی کو بینا اور کسی کو نابینا۔ کسی کو صحیح سالم تندرس اور کسی کو معذور اور اپاہج اور گونگا اور بہرا۔ جس کسی کو جو کمال اور خوبی عطاء کی وہ محض اس کا فضل ہے اس پر کسی کا کوئی حق اور قرضہ نہیں اور جس کو نہیں دیا اس پر کوئی ظلم نہیں کیا۔ اسی طرح اس نے اپنی قدرت اور حکمت بالغہ سے کسی کی طینت میں تکبر اور عصیان اور اباء اور سرکشی کی استعداد رکھی اور کسی کی فطرت میں اطاعت اور فرمانبرداری کی استعداد تھی وہ حکم خداوندی سنتے ہی سر بسجود ہوگیا۔ جیسے بیج میں برگ وبار سب نہاں ہوتے ہیں اور جب وقت آتا ہے تو سب باہر نکل آتے ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ اس نے بندوں کو مختلف الاستعداد کیوں بنایا۔ سو یہ سوال بالکل مہمل ہے وہ مالک مطلق اور فعال لما یرید ہے لا یسئل عما یفعل وھم یسئلون۔ کرا زھرۂ آنکہ زبیم تو کشاید زباں جز بہ تسلیم تو زباں تازہ کردن باقرار تو نینگیختن علت از کار تو حق تعالیٰ نے جس زمین کو چاہا ایسا شور بنایا کہ جو تخم اس میں ڈالا جائے وہ سوخت ہوجائے اور کسی زمین کو مرغزار اور لالہ زار بنایا کوئی فلسفی اور سائنس دان اس کی وجہ نہیں بیان کرسکتا کہ خدا تعالیٰ نے زمین کی صلاحیتوں اور استعدادوں میں یہ فرق کیوں رکھا والبلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ والذی خبث لا یخرج الا نکدا۔ ایں زمین پاک وآں شور است و بد ایں فرشتہ پاک وآں دیوسف ودد ہر دو گوں زبنور خوردند از محل لیک شد زاں نیش وزاں دیگر عسل ہر دو گوں آہو گیا خوردند وآب زیں یکے سرگین شد وزاں مشکناب ہر دو نے خوردندن از یک آب خور آں یکے خالی وآں پر از شکر صد ہزاراں ایں چنیں اشباہ ہیں فرق شاں ہفتاد سالہ راہ بیں ایں خورد گردد پلیدی زوجدا واں خورد گردد ہمہ نور خدا لطائف و معارف 1 ۔ (قلب): لغت میں اس صنوبری گوشت کے ٹکڑے کا نام ہے جو سینہ کے بائیں جانب ایک خالی جگہ میں رکھا ہوا ہے اور یہی مضغۂ لحم۔ روح حیوانی کا منبع اور سرچشمہ ہے اسی میں روح حیوانی پیدا ہوتی ہے۔ جس کے وجود پر بدن کی حس و حرکت موقوف ہے اور جو شرائین کے ذریعہ تمام اعضاء میں پہنچتی ہے مگر اصطلاح شرح میں اس لطیفۂ ربانی کو قلب کہتے ہیں جو اس مغضہ لحم میں من جانب اللہ رکھا ہوا ہے اور انسان کی انسانیت اسی سے قائم ہے اور اسی کی وجہ سے احکام شرعیہ کا مکلف اور مخاطب بنتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔ ان فی ذلک لذکری لمن کان لہ قلب او القی السمع وھو شھید اور اسی لطیفۂ ربانی کو قرآن کریم میں کہیں نفس سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کما قال تعالیٰ ۔ ونفس وما سواھا فالھمھا فجورھا وتقواھا۔ اور کبھی روح کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے۔ کما قال تعای قل الروح من امر ربی۔ ونفخت فیہ من روحی۔ اس قسم کی آیات میں روح سے وہی لطیفۂ انسانی مراد ہے انسان کا بدن عالم خلق سے ہے اور یہ لطیفۂ انسانی عالم امر سے ہے اور الہام یزدانی کا محل اور مورد ہے اس لطیفہ پر جب مہر لگ گئی تو استدلال اور کشف اور الہام کے سب دروازے بند ہوگئے۔ 2 ۔ (سمع): سمع کے معنی کان کے ہیں جو ایک عضو ہے اور کبھی اس کا اطلاق قوت سامعہ پر بھی آتا ہے آیت میں یہی معنی مراد ہیں اس قوت پر جب مہر لگ گئی تو کان کے ذریعہ سے جو ہدایت دل تک پہنچ جاتی تھی اس کا دروازہ بند گیا۔ 3 ۔ (ابصار): جمع بصر کی ہے آنکھ کی روشنی کو بصر کہتے ہیں۔ جس طرح دل کی روشنی کو بصیرت کہتے ہیں۔ 4 ۔ (ختم اور غشاوہ): ختم کے معنی مہر کرنا تاکہ وہ چیز بند ہوجائے اور چیزیں باہر سے اندر کی طرف نہ پہنچ سکیں اور غشاوہ پر دہ کو کہتے ہیں آنکھ پر غشاوہ کے معنی یہ ہیں کہ وہ پردہ آنکھ کی شعاع کو باہر سے روک دے۔ 5 ۔ معتزلہ کا گمان یہ ہے کہ کسی کے دل پر مہر لگادینا ایک امر قبیح ہے اور اللہ تعالیٰ ہر قبیح سے پاک اور منزہ ہے اس لیے معتزلہ قرآن کریم کے اس قسم کی تمام آیتوں کی تاویل کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ختم اور طبع کی اسناد حق تعالیٰ کی طرف اسناد مجازی ہے۔ اہل حق کہتے ہیں کہ یہ اسناد حقیقی ہے قلوب بنی آدم اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہیں وہ اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے قلوب کو پلٹیں دیتا رہتا ہے۔ اور پھرتا رہتا ہے کبھی خیر کی طرف اور کبھی شر کی طرف کما قال تعالی۔ ونقلب افئدتھم وابصارھم کما لم یؤمنوا بہ اول مرۃ ونذرھم فی طغیانھم یعمھون۔ اس قسم کی آیات سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ تمام قلوب اس کی انگلیوں میں ہیں قلوب کی ہدایت اور ضلالت اور ان کی سعادت اور شقاوت اس کے ارادہ اور مشیت کے تابع ہے بغیر اس کی توفیق اور عنایت کے ایمان اور ہدایت ممکن نہیں۔ یضل من یشاء ویھدی من یشاء ومن یضلل اللہ فما لہ من ھاد واعلموا ان اللہ یحول بین المرء وقلبہ۔ تمام کائنات اسی کی پیدا کی ہوئی ہے اسی نے اپنی قدرت سے ان کو عدم کے پردہ سے نکال کر وجود کی مسند پر بٹھلایا ہے لہذا یہ ناممکن ہے کہ عالم کا کوئی ذرہ بدوں اس کے ارادہ اور مشیت کے حرکت کرسکے ایمان اور ہدایت کفر اور ضلالت سب اسی کی مخلوق ہیں تخلیق وتکوین کے اعتبار سے ہر چیز کی اسناد اس کی طرف ہوگی۔ اور اسناد حقیق ہوگی۔ البتہ کسب اور حصول کے اعتبار سے بندوں کی طرف اسناد ہوسکتی ہے چونکہ یہ ختم اور تغشیہ بندوں کے اختیاری تمرد اور سرکشی کا نتیجہ اور اس کی سزا ہے اس لیے متمردین اور معاندین کے تقبیح اور تشنیع کے لیے اس کو ذکر کیا لہذا مورد مذمت اور مستحق ملامت صرف وہی لوگ ہوں گے جو ان خبیث استعدادوں کے ظرف اور محل ہیں۔ زہر اور سنکھیہ کا پیدا کرنا تو کمال ہے مگر اس کا استعمال قبیح اور مذموم ہے اسی طرح روحانی زہر۔ (کفر و ضلالت) اور روحانی تریاق (ایمان وہدایت) کو پیدا کرنا تو کمال ہی کمال ہے مگر اس کو اپنے اختیار سے استعمال کرنے کا حکم دوسرا ہے زمین اچھی ہو یابری۔ شور اور بنجر ہو یا گلزار اور مرغزار ہو پیدا کرنا تو دونوں ہی کا حکمت ہے مگر برائی کیساتھ شور اور بنجر زمین ہی کو مؤسف کیا جائے گا۔ پیدا کرنے والا تو ہر حال میں قابل حمد و ستائش ولائق صد آفرین وتحسین ہے۔ ولابلد الطیب یخرج نباتہ باذن ربہ والذی خبث لا یخرج الا نکدا۔ جس زمین کو حق تعالیٰ نے شور اور بنجر بنایا اور انبات کی صلاحیتوں سے اسے محروم کردیا تو خداوند ذوالجلال نے زمین کے اس ٹکڑے پر کوئی ظلم نہیں کیا، اسی طرح خداوند علیم و حکیم نے اگر کسی کے دل پر مہر لگا کر اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال کر اس کی زمین قلب کو ہدایت کی صلاحیتوں سے محروم کردیا تو کوئی ظلم نہیں کیا اہل حق کہتے ہیں کہ یہ ختم اور غشاوہ۔ ان کی سرکشی اور عناد کی سزا ہے یہ مہر ان کو کفر پر مجبور نہیں کرتی اس مہر کا تورنا ان کے اختیار میں ہے۔ حق کے سامنے سر تسلیم خم کردیں ابھی مہر ٹوٹتی ہے۔ حق جل شانہ گمراہی کے قفل پیدا کیے اور کافروں کے دلوں پر ڈالدئیے۔ کما قال تعالیٰ ام علی قلوب اقفالھا۔ مگر اس علیم و حکیم نے ان قفلوں کے کھولنے کے لیے مفاتیح (کنجیاں) بھی پیدا کیں تاکہ اگر کوئی قلف ضلالت کو کھولنا چاہے تو کلید ہدایت اور مفتاح سعادت اس کے ہاتھ میں ہے اس سے بسہولت قفل کھل سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی بدنصیب کنجی کا استعمال نہ کرے تو قفل خود بخود تو کھلنے سے رہا۔ 6 ۔ امام ربانی شیخ مجدد الف ثانی قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں کہ کفر اور کافروں کے ساتھ حق تعالیٰ شانہ کو ذاتی عداوت ہے اور غیر اللہ کی عبادت کرنے والے اس حق جل وعلا کے بالذات دشمن ہیں۔ اسی وجہ سے ان کا عذاب دائمی ہے اور ان کی مغفرت ناممکن ہے اس لیے کہ صفت رافت و رحمت جو کہ صفات افعال میں سے ہے وہ ذاتی غضب اور ذاتی عداوت کے مقتضا کو ہرگز نہیں بدل سکتی۔ ایک صفت فعل کا مقتضا دوسری صفت فعل کے مقتضا سے متغیر اور متبدل ہوسکتا ہے۔ مثلا صفت احیاء سے صفت امانۃ کا مقتضا بدل سکتا ہے۔ مگر مقتضائے ذات مقتضائے فعل سے نہیں بدل سکتا۔ اس لیے کہ اقتضائے ذاتی بلاشبہ اقتضائے فعلی اوراقتضاء سے کوئی حصہ نہ ملے گا۔ کیونکہ وہ اس وحدہ لاشریک لہ کے بالذات دشمن ہیں اور حدیث قدسی میں جو سبقت رحمتی علی غضبی (میری رحمت میرے غضب پر سابق ہے) وارد ہوا ہے۔ اس سے ذاتی غضب مراد نہیں جو کفار ومشرکین کے ساتھ مخصوص ہے۔ بلکہ صفاتی اور فعلی غضب مراد ہے جو گنہگار مسلمانوں کے ساتھ مخصوص ہے عصاۃ مومنین (گنہگار مومن ین) کے ساتھ ذاتی عداوت اور ذاتی غضب متعلق نہیں مومنین مذنبین کے حق میں جو عقاب اور عتاب بھی آیا ہے وہ ان کے افعال سیئہ کی طرف راجع ہے بلکہ گنہگاروں کے ساتھ ایمان کی وجہ سے ذاتی محبت متعلق ہے اور اسی ذاتی محبت کی وجہ سے اہل ایمان جنت میں ہمیشہ رہیں گے اور گناہوں کی وجہ سے جو صفاتی اور فعلی غضب ان سے متعلق ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے چند روز عذاب میں رہیں گے اور پھر اس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ روح وریحان اور نعیم مقیم میں رہیں گے۔ رہا یہ سوال کہ کافر کے لیے کسی رحمت کا حاصل ہونا فقط ظاہر اور صورت کے لحاظ سے ہے ورنہ حقیقت میں وہ استدراج اور کید متین ہے اور دار آخرت کی طرح دار دنیا میں بھی کفار سے ذاتی عداوت اور ذاتی غضب رحمت کے فیضان سے مانع ہے۔ کما قال تعالیٰ ۔ ایحسبون انما نمدھم بہ من مال وبنین نسارع لھم فی الخیرات بل لا یشعرون۔ کیا یہ کافر یہ گمان کرتے ہیں کہ ہم جو ان کی مال اور اولاد سے امداد کیے جارہے ہیں تو ان کے لیے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں بلکہ یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ یہ استداراج ہے۔ وقال تعالیٰ سنستدرجھم من حیث لا یعلمون واملی لھم ان کیدی متین ہم بتدریج ان کو جہنم کی طرف لے جارہے ہیں۔ ایسی طرح سے کہ ان کو معلوم بھی نہیں اور ان کو ڈھیل دے رہا ہوں۔ بیشک میری تدبیر بہت مضبوط ہے۔
Top