Mualim-ul-Irfan - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
بیشک وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ، ان کے لئے برابر ہے کہ آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ، وہ ایمان نہیں لائیں گے
انسانوں کے تین گروہ : ہدایت (اور گمراہی) کے اعتبار سے انسان تین گروہوں میں تقسیم ہوتے ہیں۔ پہلا گروہ مومنین کا ہے جو ہدایت کو ظاہراً اور باطناً قبول کرتے ہیں اور اسے اپناتے ہیں۔ یہ مومن متقی کہلاتے ہیں۔ سورة بقرہ کی پہلی چار آیتوں میں ان کا حال ، ان کے اوصاف اور ان کا انجام بیان ہوا ہے۔ انسانوں کا دوسرا گروہ وہ ہے ، جو ہدایت الٰہی کا ظاہراً بھی انکار کرتے ہیں اور باطناً بھی انکار کرتے ہیں۔ یہ لوگ کسی طور پر ہدایت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے ، لہذا کافر کہلاتے ہیں۔ ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے انہیں لوگوں کا حال اور ان کا انجام بیان فرمایا ہے۔ ان کا تیسرا گروہ زبان سے تو ہدایت ربانی کا اقرار کرتا ہے۔ مگر دل سے تسلیم نہیں کرتا۔ یہ لوگ منافق ہوتے ہیں۔ آئندہ تیرہ آیات میں انہی لوگوں کا حال بیان ہوا ہے۔ کیونکہ انہوں نے علی الاعلان ہدایت کو قبول نہیں کیا۔ اور کفر پر اڑے ہوئے ہیں۔ البتہ منافقین کا گروہ چونکہ زیادہ خطرناک ہے اس لئے اس گروہ کا حال زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ ان کی مثالیں بھی دی ہیں۔ تشبیہات کے ساتھ بھی سمجھایا ہے ، کیونکہ منافقین کا یہ گروہ بڑا خطرناک گروہ ہے۔ کفر کا معنیٰ : عربی زبان میں کفر کا معنی کسی چیز کو چھپا دینا یعنی مخفی اور پوشیدہ کردینا ہے۔ اسی لیے امام بیضاوی (رح) کہتے ہیں (1 ۔ تفسیر بیضاوی ج 1 ، ص 17) کہ جس ڈوڈی کے اندر پھل بند ہوتا ہے۔ اسے کافور کہتے ہیں ۔ اور کسان جو بیج کو زمین میں چھپا دیتا ہے۔ اسے کافر کہتے ہیں۔ جیسے سورة الحدید میں آتا ہے “ کمثل غیث اعجب الکفار نباتہ ” گویا کافر کا لفظ کسان پر بھی بولا گیا ہے۔ بادل اور اندھیرا جو سورج کو اپنے اندر چھپا لیتا ہے۔ اس کو بھی کافر کہتے ہیں ؎ فی لیلۃ کفر النجوم غمامھا یعنی بادل اور اندھیرا ستاروں کو چھپا لیتا ہے تو لغوی اعتبار سے اس کا معنی یہ ہوگا جیسا کہ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں (2 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 14 ، تفسیر مدارک ج 1 ص 14 ، تفسیر منار ج 1 ص 40) ان الذین ستروا لحق عنادا بیشک وہ لوگ جنہوں نے عناد کی وجہ سے حق کو چھپا دیا۔ ظاہرہی نہیں کیا ۔ جب کفر کا اطلاق شریعت کی اصطلاح میں کیا جاتا ہے تو اس کا خاص مفہوم ہوتا ہے۔ اور وہ یہ کہ جو چیز حضور نبی کریم ﷺ کے دین سے قطعی اور یقینی طور پر ثابت ہو۔ شک و شبہ والی بات نہ ہو ، اس چیز کا منکر کافر کہلاتا ہے اور یہ انکار کفر کہلائے گا۔ خواہ کسی ایک چیز کا انکار ہو یا تمام چیزوں کا ۔ کفر کی مختلف اقسام : جس طرح شرک نفاق ، الحاد ، ارتداد ، زندقہ ، فسق ، ایمان ، توحید وغیرہ قرآن کی مختلف اصطلاحات ہیں۔ اور ان سب کا الگ الگ مفہوم ہے اسی طرح کفر میں ایک اصطلاح ہے اور اس کی مختلف اقسام ہیں ۔ جو کہ مفسرین ، محدثین ، فقہاء اور علماء نے بیان کی ہیں۔ کفر انکار : منجملہ ان کے کفر انکار ہے ۔ اس کا معنی یہ ہے کہ کوئی شخص دل اور زبان دونوں سے شریعت کی قطعی چیز کا انکار کرے ان الذین کفروا میں دل و زبان دونوں سے انکار ہے۔ ایسا خص حق کی بات کو جاننے کے لیے بالکل تیار نہیں۔ لہٰذا یہ کفر انکار ہے۔ کفرجحود : قرآن پاک میں کفر کی جس دوسری قسم کا ذکر آتا ہے ۔ وہ کفر جحود ہے ۔ جحد کا معنی انکار ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ وجحد وابھا سے ظاہر ہے۔ کفر جحود کی تعریف یہ ہے کہ آدمی دل سے پہچانتا ہے اور سمجھتا ہے کہ بات سچی ہے۔ مگر وہ اس کا زبان سے اقرار نہیں کرتا۔ جیسا کہ فرعونیوں کے متعلق فرمایا “ جحدوا بھا واستیقنرتا انفسھم ظلما وعلوا ” دل میں سمجھتے تھے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا دین سچا ہے مگر وہ اس کا انکار کرتے تھے۔ یہ انکار ظلم اور تعدی کی بنا پر تھا۔ اس کو کفر جحود کہا جاتا ہے۔ ابلیس کا کفر یہی ہے ۔ کیونکہ وہ دل میں حق بات کو سمجھتا ہے مگر اقرار کی بجائے انکار کرتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں ایک شخص بلعم بن باعورا ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کی بارگار سے مردود ہوا تھا اس کا ذکر سورة اعراف میں موجود ہے ۔ اسی طرح حضور ﷺ کے زمانہ میں ایک بڑا حکیم شاعر امیہ بن ابی الصلت ہوا ہے۔ اس کا کفر بھی ایسا ہی تھا ۔ اس نے حق کو جانتے پہچانتے ہوئے قبول نہیں کیا تھا اس کا نظریہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر کیوں وحی نازل کی۔ مجھ پر کیوں نہیں کی۔ عربی زبان میں اس کا کلام موجود ہے۔ وہ خص نیکی ، بدی اور قیامت تک کا تصور رکھتا تھا۔ وہ توراۃ اور انجیل کا قاری اور ہدایت کا طلب گار تھا۔ مگر جب حضور ﷺ کی بعثت ہوئی تو وہ حسد میں مبتلا ہوگیا۔ اور آپ کی رسالت کا انکار کردیا۔ حالانکہ وہ دل سے برحق سمجھتا تھا۔ وہ اتنا قابل آدمی تھا کہ اس کا اشعار پڑھ کر محسوس ہوتا ہے۔ کہ یہ کوئی بڑا مومن آدمی ہوگا۔ حضور ﷺ نے اس کے متعلق فرمایا (1 ۔ تفسیر ابن کثیر ج 1 ص 265) انہ ممن امن لسانہ ولم یؤمن قلبہ یعنی زبان تو اس کی مومنوں جیسی ہے مگر دل کافر ہے۔ ہمارے زمانہ میں ایک افسانہ نویس انگریز برناڈشا گزرا ہے۔ بڑا صاحب علم تھا ، اسلام کو وہ بھی سچا سمجھتا تھا۔ مگر کمبخت بےاقرار نہیں کیا۔ یہی حال مسٹر گاندھی کا تھا۔ وہ اسلام کو سچا مذہب کہتا تھا ۔ مگر دل سے تسلیم نہیں کیا وہ عیسائیت اور ہندومت کو بھی سچے مذاہب ہی سمجھتا تھا حالانکہ سچا مذہب تو صرف اسلام ہی ہے۔ “ ان الدین عند اللہ الاسلام ” باقی سب ادیان باطل ہیں یہی کفرِ جحود ہے۔ کہ کسی چیز کو دل سے صحیح سمجھ کر پھر زبان سے اس کا اقرار نہ کیا جائے۔ کفر عناد : کفر کی تیسری قسم کفر عناد ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ دل سے پہچانتا بھی ہے۔ زبان سے اقرار بھی کرتا ہے کہ یہ دین درست ہے۔ مگر قبول نہیں کرتا اس کی مثال ابو طالب کا کفر ہے (1 ۔ تفسیر معالم التنزیل ج 1 ص 14) ۔ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے والد اور حضور ﷺ کے چچا تھے۔ وہ کہتا تھا کہ میرا بھتیجا سچا ہے صادق اور امین ہے۔ جو کہتا ہے سچ ہے۔ مگر اس نے ایمان اور توحید کو قبول نہیں کیا۔ اس کا خاتمہ کفر پر ہی ہوا۔ وہ عجیب قسم کے وہم کا شکار تھا۔ محض اس ڈر سے اسلام قبول نہیں کیا کہ عورتیں ملامت کریں گی کہ موت کے ڈر سے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا۔ یہ کفر عناد ہے۔ کفر نفاق : کفر کی چوتھی قسم کفر نفاق ہے۔ اس کا ذکر اگلی آیتوں میں آرہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان زبان سے اسلام کی سچائی کا اقرار کرتا ہے ۔ کلمہ بھی پڑھتا ہے۔ نمازیں بھی ادا کرتا ہے ، زکوٰۃ دیتا ہے۔ بسا اوقات جہاد میں بھی شریک ہوتا ہے۔ من کروں سے تکذیب کرتا ہے۔ یہ کفر نفاق ہے۔ اور پھر نفاق بھی دو قسم سے ہے یعنی اعتقادی نفاق اور عملی نفاق۔ یہاں پر جس نفاق کا ذکر ہوا ہے۔ یہ اعتقادی نفاق ہے کہ اعتقاداً دل سے تسلیم نہیں کرتا عملی نفاق کا ذکر بعد میں آئے گا ۔ وہ اور چیز ہے محدثین کرام فرماتے ہیں (2 ۔ معالم التنزیل ج 1 ص 14 ، فتح المسلم ج 1 ص 243) کہ یہ چاروں کفر خطرناک ہیں۔ ان میں سے کسی میں بھی مبتلا ہوگیا۔ وہ اللہ کے ہاں کبھی نجات نہیں پاسکتا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا ہوگا یہ قطعی بات ہے۔ یہ کفر شک کہلاتا ہے۔ کفر شک : اس کے علاوہ بھی کفر کی کئی قسمیں ہیں۔ منجملہ ان کے کفر شک ہے۔ قرآن پاک میں بعض منافقوں کے بارے میں آتا ہے “ فہم فی ریبھم یترددون ”۔ دوسری جگہ فرمایا “ بل ھم فی شک یلعبون ” یعنی ایسے لوگ شک میں ہی کھیل رہے ہیں۔ کفر جہالت : اسی طرح کفر کی ایک قسم کفر جہالت ہے۔ علم حاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ساری عمر جہالت میں گزر جاتی ہے۔ نہ علم ہوتا ہے اور نہ وہ راہ راست پر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی جگہ جگہ پر مذمت بیان کی ہے۔ “ اکثرھم لا یعلمون ” ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے یعنی علم نہیں رکھتے۔ دوسری جگہ فرمایا “ ھل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ” کیا عالم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں ؟ مطلب یہ کہ برابر نہیں ہوتے۔ اس قسم کا کفر کفرِ جہالت ہے۔ جس میں اکثر لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔ کفر تاویل : کفرِ تاویل کو الحاد زندقہ بھی کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی شئ کو غلط مطلب پہنا دیا جائے۔ اصل مقصد کچھ اور ہو مگر تاویل کے ذریعے کچھ سے کچھ بنا دیا جائے ۔ مثلاً غلام احمد پرویز قرآن پاک کی آیت “ اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول ” کا مطلب مرکز ملت یا سنٹرل گورنمنٹ مراد (1 ۔ ) لیتا ہے۔ کہ مرکزی حکومت کا حکم ماننا لازمی ہے۔ اسی طرح حج کا معنی اس نے عالمی کانفرنس کیا ہے۔ حالانکہ حج ایک عبادت کا نام ہے۔ اس کے ارکان ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے اس لئے محض عالمی کانگرس یا عالمی کانفرنس کا نام دنیا بالکل غلط ہے۔ پرویز نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ خدا کے محکمومہ ہونے کا مطلب اپنی فطرت کا محور نہ ہونا ہے۔ یہ بھی کفر والا معنی ہے۔ اس نے ترجمہ القرآن میں لکھا ہے (2 ۔ مفہوم القرآن ج 3 ، ص 1123) کہ اللہ کا معنی قانون ہے جہاں بھی اللہ کا لفظ آیا ہے اس سے مراد قانون ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کی ذات یا ہستی نہیں ہے۔ اسی طرح اس نے حورعین کا معنی پاکیزہ فکر کیا ہے (3 ۔ ) ۔ گویا جنتیوں سے مراد پاکیزہ فکر والے لوگ ہیں ، حالانکہ حورعین کی اصطلاح کو تمام مسلمان سمجھتے ہیں کہ وہ عورتوں کی ایک پاکیزہ مخلوق ہے۔ غلام احمد قادیانی نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں “ محمد رسول اللہ ” کے متعلق لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن میں میرا نام محمد بھی رکھا ہے اور رسول بھی۔ العیاذ باللہ۔ یہ کفر والا معنی ہے اس سے پہلی آیت “ وبالاخرۃ ھو یوقنون ” کا معنی قادیانی یوں کرتے ہیں۔ بالنبوۃ الاخرۃ یعنی متقی وہ لوگ ہیں جو آخری نبوت پر یقین رکھتے ہیں ۔ اور آخری نبوت مرزا غلام احمد مرتد کی لیتے ہیں حالانکہ آخرت سے مراد دار الاخرت یا یوم آخرت ہے ۔ یہ مرزئیوں کی تاویل کی مثال ہے۔ اسی طرح انہوں نے “ ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین کا معنی یہ کیا ہے۔ کہ حضور ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کے مہر لگانے والے ہیں۔ یعنی اب جو نبی آتے ہیں وہ حضور ﷺ کی مہر سے آتے ہیں۔ گویا حضور ﷺ مہر لگا لگا کر دوسروں کو نبی بنا رہے ہیں (العیاذ باللہ) الغرض کفر تاویل سے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا معنی کرنا جو نہ حضور ﷺ سے منقول ہو ، نہ صحابہ کرام ؓ سے اور نہ سلف صالحین سے ثابت ہو ، وہ کفر تاویل ، زندقہ یا الحاد میں شمار ہوگا۔ سرسید احمد خان نے بہشت کا معنی مسرت اور خوشی کیا ہے۔ دوزخ کو غم اور پریشانی سے تعبیر کیا ہے۔ خوشی اور مسرت اچھے اعمال کا صلہ ہوتی ہے۔ اور رنج و غم برے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک جنت اور دوزخ کسی خاص جگہ کا نام نہیں۔ یہ بھی کفر یہ معنی ہے۔ عملی کفر : کفر کی ایک قسم عملی کفر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نعمت کی قدردانی کی بجائے اس کی ناشکری کی جائے۔ کسی نے حضور ﷺ سے پوچھا ، حضور ! کفر سے کیا مراد ہے فرمایا ناشکر گزاری اور ناقدری۔ اکثر عورتیں اس قسم کے کفر میں مبتلا ہوتی ہیں۔ عورتوں کے متعلق حدیث شریف میں آتا ہے (1 ۔ بخاری ج 1 ص 9 ، مسلم ج 1 ص 60) تکفرن العشیر یعنی تم خاوند کا کفر کرتی ہو۔ ناشکر گزاری کرتی ہو۔ یہی عملی کفر ہے۔ فرمایا کہ خاوند زمانہ بھر راحت و آرام مہیا کرتا رہے اگر ایک مرتبہ بھی تمہاری مرضی کے خلاف کوئی بات ہوجاتی ہے تو کہتی ہو ، تیرے گھر آکر مجھے کبھی سکھ نصیب نہیں ہوا کفران نعمت اکثر عورتوں کے مزاج میں داخل ہوتا ہے۔ یہ اعتقادی کفر نہیں بلکہ عملی کفر ہے۔ محدثین اور فقہائے کرام عملی کفر کی دو قسمیں بتاتے ہیں (2 ۔ ) بعض عملی کفر ایمان کے بالکل منافی ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایسے کفر کا ارتکاب کرے تو ایمان سے خارج ہوجاتا ہے ۔ مثلاً کوئی بت کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے ، یا قرآن کریم کی توبین کا مرتکب ہو اسے گندی جگہ پر پھینک دے یا مثلاً کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کو گالی دے یا کسی نبی کو قتل کرے تو ایسا آدمی ایمان سے خارج ہوجاتا ہے۔ عملی کفر کی دوسری قسم وہ ہے جن کی وجہ سے انسان ایمان سے خارج نہیں ہوتا مثلاً کوئی شخص نماز کا تارک ہو ، شراب پی لے ، کسی کو قتل کر ڈالے۔ زنا کا مرتکب ہو یا کسی سے ناحق لڑائی کی۔ یہ سب کفر ہی کی قسم سے ہیں۔ مگر یہ ایمان کے منافی نہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا (1 ۔ مسلم ج 1 ، ص 58) لا ترجعوا بعدی کفارا میرے بعد کفار کی طرح نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو۔ ان امور سے انسان اسلام سے تو باہر نہیں نکلتا۔ مگر کام کافروں والے ہیں۔ مومن کی شان نہیں کہ یہ کام کرے۔ قتالہ کفر (2 ۔ مسلم ج 1 ، ص 58) مومن سے مقاتلہ کفر ہے۔ مومن کو گالی دے فسق کی بات کرے ، ناحق لڑائی یہ سب کفر کی باتیں ہیں۔ کیونکہ کافر ، مسلمان کی جان کا دشمن ہوتا ہے جب کہ مومن ، مومن کی جان کا محافظ ہوتا ہے۔ فرمایا (3 ۔ جامع صغیر مع شرح فیض لقدیر ج 4 ، ص 153) شارب الخمر کعابدوثن یعنی شراب پینے والا ایسا ہی ہے۔ جیسا بت پرستی کرنے والا۔ گویا شرابی کو بت پرست کے ساتھ تشبیہ دی۔ نسائی شریف میں آتا ہے (4 ۔ مستدرک حاکم ) من الی عرافا او کاھنا جو کاہن یا عراف کے پاس غیب کی خبریں پوچھنے کے لئے گیا فقد کفر اس نے کفر کی۔ اس کی مزید تفصیل آتی ہے کہ اگر نجومی کی بات کو بالکل سچا سمجھ رہا ہے تو اسلام سے خارج ہوگیا۔ اور اگر سچا سچا تو نہیں سمجھتا ، ویسے ہی اس کی رائے لینا چاہتا ہے۔ تو یہ عملی کفر ہے ، اسلام سے خارج تو نہیں ہوتا۔ مگر سخت گہنگار ہوتا ہے۔ کفر وہریت : کفر و ہریت بھی اسی قبیل سے ہے۔ قرآن پاک میں اسی کفر کے متعلق مذکور ہے کہ بعض کافر یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ “ وما یھلکنا الا الدھر ” یعنی ہمیں زمانہ ہی ہلاک کرتا ہے ایسے لوگ زمانے کے تمام حادثات کو زمانے ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی ذات کا اقرار نہیں کرتے کہ وہی ہر چیز کرنے والا ہے ، بلکہ زمانے کو سب کچھ سمجھتے ہیں ۔ یہ کفر و ہریت کہلاتے ہیں۔ ایک اشکال اور اس کا جواب : ان الذین کفرو سواء علیھمء انذرتھم میں یہ اشکال وارد ہوتا ہے ۔ کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ کہ کفار کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اگر ایسا ہے تو پھر انہیں ایمان کی تبلیغ و دعوت سے کیا حاصل ؟ مفسرین کرام وضاحت فرماتے ہیں کہ اس مقام پر لفظ سواء علیھم یعنی ان کفار کے لیے برابر ہے۔ خواہ آپ تبلیغ کریں یا نہ کریں سوآء علیک کے الفاظ نہیں آئے۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ ان کو تبلیغ کرنا یا نہ کرنا آپ کے برابر ہے۔ یہ تو ان کے لیے برابر ہے۔ کہ انہیں کسی چیز کا اثر نہیں ہوتا۔ آپ کا تو فرض ہے کہ آپ فریضہ تبلیغ انجام دیتے رہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ یہ اس کی اپنی صوابدید پر ہے۔ آپ کے لئے حکم یہی ہے “ فذکر ان نفعت الذکری ” آپ کی نصیحت کرتے چلے جائیں ، چاہے وہ انہیں فائدہ دے یا نہ دے۔ آپ کو اس تبلیغ کا ہر حالت میں اجر ملے گا ۔ گزشتہ سے پیوستہ : ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے اعتبار سے انسانوں کے دوسرے گروہ یعنی کفار کا ذکر کیا ہے۔ پہلے گردہ متقین کا بیان ہوچکا ہے۔ یہ دوسرے گروہ کا بیان ہے اور تیسرے گروہ منافقین کا تذکرہ اگلے رکوع میں آئے گا۔ یہ دوسرا گروہ کفار کا ہے۔ جو ظاہراً اور باطناً اللہ تعالیٰ کی توحید کا انکار کرتے ہیں۔ اور ہدایت کو قبول نہیں کرتے۔ کفر کی تشریح اور اس کی مختلف اقسام گزشتہ درس میں مختصرا بیان کردی گئی تھیں۔ ان آیات کے مصداق کون ہیں : گزشتہ درس میں اس اشکال کا تذکرہ ہوا تھا۔ کہ اگر کافروں نے ایمان ہی نہیں لانا ، خواہ انہیں ڈرایا جائے یا نہ ڈرایا جائے ، تو پھر انہیں تبلیغ کرنے کا فائدہ کیا ہے۔ اس کا جواب بھی دیا گیا تھا کہ ڈرانا یا نہ ڈرانا کفار کے لیے برابر ہے۔ نہ کہ خود مبلغ کے لیے ، کیونکہ مبلغ تو ہر حالت میں اجر کا مستحق ہے ، خواہ کوئی ایمان لائے یا نہ لائے ۔ دوسرا سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد تو یہ ہے کہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ، کفار ایمان نہیں لائیں گے۔ حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ بہت سے کافر اگرچہ ایمان نہیں لائے ۔ مگر دوسرے بہت سے ایمان لائے۔ ابو سفیان ؓ کافر ہی تو تھے ۔ وہ ایمان کی دولت سے مشرف ہوئے۔ ابوجہل جیسے بدترین دشمن کا بیٹا عکرمہ ؓ ایمان لایا۔ مشہور جرنیل خالد بن ولید ؓ بھی بڑی دیر کے بعد ایمان کی دولت سے مالا مال ہوئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر کفار سے مراد وہ کفار ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ اس کی استعداد خراب ہے۔ ان کا خاتمہ کفر پر ہونے والا ہے۔ ان سے عتبہ ، شیبہ ، ابولہب اور ابوجہل جیسے کافر مراد ہیں۔ جن کا خاتمہ حالت کفر پر ہوا۔ بعض مفسرین کرام فرماتے ہیں (1 ۔ ) کہ ان آیات میں یہودیوں کی طرف اشارہ ہے جب قرآن کریم نازل ہوا تو انہیں اسلام کی دعوت پیش کی گئی۔ مگر وہ جانتے بوجھتے ہوئے ایمان نہ لائے ماسوائے اکا دکا آدمی کے جنہوں نے اسلام قبول کیا۔ وہ کہتے تھے کہ ہم پہلی کتابوں پر ایمان لا چکے ہیں لہٰذا ہمیں اس کتاب یعنی قرآن پاک پر ایمان لانے کی ضرورت نہیں ہے وہ انتہائی درجے کے متعصب لوگ تھے۔ یہ روش انہوں نے عناد کی وجہ سے اختیار کی۔ چناچہ اس سورة مبارکہ میں کثرت سے یہود کا ذکر آئے گا۔ بلکہ اس سورة کا موضوع ہی یہود کی اصلاح ہے۔ یہود کا ذکر “ یبنی اسرائیل ” سے شروع ہو کر اختتام پارہ اور پھر دوسرے پارے تک چلا گیا ہے۔ ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے تو پھر انہیں اسلام کی دعوت دینے کا کیا جواز رہ جاتا ہے۔ بلکہ انہیں دعوت دینا تو خلاف انصاف معلوم ہوتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی اس کے جواب میں فرماتے ہیں (2 ۔ بیان القرآن ج 1 ص 4) کہ یہود کے رویہ کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے وہ ایمان سے محروم رہیں گے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے۔ جیسے کوئی ماہر ڈاکٹر یا طبیب کسی مریض کو دیکھ کر بتائے کہ اسے ٹی بی کا مرض لاحق ہے اور اب یہ تین درجے عبور کرکے چوتھے درجے میں داخل ہوگیا ہے۔ اب مریض کی موت یقینی ہے۔ ظاہر ہے کہ مریض کی ہلاکت ڈاکٹر کے کہنے سے نہیں ہوگی۔ بلکہ اس کی موت کا سبب تو وہ بیماری ہے جس میں وہ مبتلا ہے۔ یا اس میں مزید دخل اس کی بد پرہیزی یا بےاحتیاطی کو ہوگا جو اس نے اختیار کی ، اسی طرح کفار کے ایمان نہ لانے کا سبب ان کی اپنی روش ہے ، نہ کہ اللہ کا فرمان۔ الغرض ! فرمایا ان الذین کفروا سواء علیھم جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے برابر ہےء انذرتھم ام لم تنذرھم آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں لا یؤمنون وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ مہر لگانے کا مطلب : انہیں کفار کے متعلق اراد ہوتا ہے ختم اللہ علی قلوبھم وعلیٰ سمعھم یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے وعلیٰ ابصارھم غشاوۃ اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے۔ یہاں پر یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود ہی ان کے دلوں پر اور کانوں پر ٹھپے لگا دیے ہیں ، اور آنکھوں پر پردے ڈال دئیے ہیں تو پھر ان سے کہنا ایمان لاؤ یا ہدایت اختیار کرو۔ کہاں تک درست ہے اس کا حل مفسرین کرام یہ بیان کرتے ہیں (1 ۔ ) کہ مہر لگانا یا پردہ ڈالنا بطور سزا کے ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے عناد اور سرکشی کی وجہ سے ٹھپے لگائے ہیں ۔ کسی کو ماں کے پیٹ میں ہی مہر لگا کر ہدایت کا راستہ بند نہیں کردیا ۔ قرآن و حدیث میں اس بات کی تصریح موجود ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے (2 ۔ مسند احمد ج 2 ص 233 ، بخاری ج 2 ص 976 ، مسلم ج 2 ص 336) کل مولود یولد علی الفطرۃ ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر وہ ماحول اور تربیت کے مطابق یہودی ، مجوسی یا سکھ عیسائی وغیرہ ہوجاتا ہے اس کے اندر تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی فطرت سلیمہ کو بگاڑ لیتا ہے۔ اور کفر ، شرک اور نفاق میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ قرآن پاک میں موجود ہے “ بل طبع اللہ علیھا بکفرھم ” اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر اور اس پر اصرار کی وجہ سے ٹھپہ لگا دیا نہ کہ روز اول سے ہی انہیں بلاوجہ مہر بند کردیا۔ قرآن پاک کی آیت بتاتی ہے۔ “ نولہ ما تولی ” آدمی جس طرف جانا چاہتا ہے۔ خدا اسی طرف کی توفیق دے دیتا ہے۔ توفیق تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ مگر ارادہ تو انسان کا ہوتا ہے۔ اور ارادے کی حد تک انسان کو اختیار دیا گیا ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں اسے کسب کہتے ہیں۔ گویا ارادہ انسان کا اپنا ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے “ ونصلہ جھنم ” آخر کار اس کو جہنم میں داخل کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیار کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک تندرست آدمی اپنے ارادے اور اختیار سے ہاتھ اٹھاتا ہے۔ اور دوسرا شخص رعشہ کا مریض ہے۔ اور اس کا ہاتھ غیر ارادی طور پر حرکت کرتا رہتا ہے۔ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اگر کوئی تندرست آدمی اپنے ہاتھ سے کوئی نقصان کر دے ، کوئی برتن توڑ دے کسی کو تھپڑ مار دے تو وہ اس فعل کا ذمہ دار ہوگا۔ اور قابل گرفت ہوگا۔ برخلاف اس کے کسی رعشے والے آدمی سے غیر ارادی طور پر کوئی نقصان ہوجائے تو وہ قابل مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ وہ تو بیچارہ مجبور ہے اس کے ہاتھ سے تلوار گر کر کسی کی ہلاکت کا سبب بھی بن جائے۔ تو اسکے ذمے قصاص نہیں ہوگا دیت ہوگی ، معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو جو محدود اختیار دیا گیا ہے۔ اسی کو شریعت میں کسب کہا جاتا ہے چناچہ جو شخص بقائمی ہوش و حواس اپنے ارادے سے صحیح راستے سے روگردانی کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دیتے ہیں اور آنکھوں پر پردہ حائل کردیتے ہیں ۔ مہر لگانے کا یہی مطلب ہے۔ دلوں کی سیاہی : مسلم شریف کی روایت میں آتا ہے (1 ۔ مسلم ج 1 ص 82) تعرض الفتن علی القلوب کا لحصیر عودا عودا دلوں پر فتنے وارد ہوتے ہیں ۔ جس طرح تنکا تنکا جوڑ کر چٹائی تیار ہوجاتی ہے اسی طرح دلوں پر فتنے یکے بعد دیگرے آتے رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے۔ کہ انسان گمراہ ہوجاتا ہے اور اس کے دل پر ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ یہ فتنے گمراہی کی باتیں ہیں جو ایک ایک کرکے انسان پر حملہ آور ہوتی رہتی ہیں حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ان فتنوں کو قبول کرجاتا ہے اس کا دل سیاہ ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ حتیٰ کہ پورے کا پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور انسان اس سٹیج پر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں نیکی کو نیکی نہیں سمجھتا اور برائی کو برائی نہیں جانتا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے لوٹے کو الٹا کرکے رکھ دیا جائے یعنی پیندہ اوپر منہ نیچے کی طرف کردیا جائے تو اس میں کوئی چیز نہیں سما سکتی۔ اسی طرح انسان کا دل بھی الٹا ہوجاتا ہے۔ نیکی کی کوئی بات اس میں جگہ نہیں پاتی۔ برخلاف اس کے جو شخص دل پر وارد ہونے والے فتنوں کو قبول نہیں کرتا ، اس کا دل سنگ مرمر کی طرف سفید ہوجاتا ہے۔ اسے کوئی فتنہ نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ ایک دوسری حدیث میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا (1 ۔ ترمذی ص 481 ، ابن ماجہ ص 313) کہ جب بندہ پہلی مرتبہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ تو اس کے دل پر سیاہ داغ پڑجاتا ہے اگر بندہ توبہ کرلے۔ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگ لے تو سیاہ داغ دھل جاتا ہے اور دل پھر سفید ہوجاتا ہے ۔ اور اگر توبہ کرنے کی بجائے دوبارہ گناہ کا مرتکب ہوا تو سیاہ داغ بڑھ جاتا ہے۔ اسی طرح ہر گناہ کے ارتکاب پر دل کی سیاہی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ سارا دل سیاہ ہوجاتا ہے۔ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ احاطت بہ خطیئتہ ” اس کے گناہوں نے اس کا احاطہ کرلیا ہے۔ اس کا دل معصیت ، کفر اور شرک میں گھر گیا ہے۔ اسی حالت کے متعلق فرمایا “ کلا بل وان علی قلوبھم ماکانوا یکسبون ” خبردار ! سن لو ! ان کے دل پر زنگ چڑھ گیا ہے۔ اور اس کی وجہ ان کا اپنا کیا دھرا ہے۔ یہی وہ سٹیج ہے جس کے متعلق فرمایا “ ختم اللہ علی قلوبھم ” یعنی اللہ تعالیٰ نے بطور سزا ان کے دلوں پر مہر لگائی ہے۔ اعضائے رئیسہ کے بارے میں باز پرس ہوگی : اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے انسان کے تین اہم اعضاء یعنی دل ، کان اور آنکھوں کا ذکر کیا ہے۔ دل محض گوشت کا ایک لوتھڑا ہی نہیں بلکہ ا س کو عقل قلب اور فواد سے بھی تعبیر کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ سوچ کا تعلق دماغ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور قوت ارادہ کا تعلق قلب کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی قوت ارادی کو فواد کہا گیا ہے۔ قرآن پاک میں موجود ہے “ ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ منثورا ”۔ یاد رکھو ! کان ، آنکھ اور دل سب کے متعلق سوال ہوگا۔ یہ اعضا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام ہیں۔ انسانی جسم میں یہی چیزیں علم کے ذرائع ہیں۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو انسان کی کچھ حقیقت نہ ہو۔ یا اگر اللہ تعالیٰ یہ اعضاء عطاء کر دے اور پھر انسان ان سے کام ہی نہ لے تو اس کی مثال قرآن پاک نے یہی بیان فرمائی “ صم بکم عمی ” ایسے لوگ بہرے ہیں ، گونگے ہیں اور اندھے ہیں “ فھم لا یعقلون ” کو یہ عقل سے کام ہی نہیں لیتے گعیا کافروں کی مذمت کی ہے کہ ان کی حالت یہ ہے اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں دی ہیں۔ کہ انسان دل کے ساتھ سمجھے اور غور کرے۔ کیونکہ یہ دل ہی منبع اخلاق ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سزا کے ذکر میں “ تطلع علی الافدۃ ” فرمایا۔ یعنی جہنم کی آگ کا اثر سب سے پہلے ایسے لوگوں کے دلوں پر ہوگا۔ کیونکہ انہوں نے قلب جیسے مرکز اخلاق کو بگاڑا ، تو جہنم کی آگ کا اثر بھی پہلے دل پر ہی ہوگا۔ جسم کے باقی حصوں یعنی ہاتھ پاؤں پر آگ کا اثر دوسرے نمبر پر ہوگا۔ اعضائے رئیسہ میں سے قلب کی اہمیت : حدیث شریف میں حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے (1 ۔ مسلم ج 2 ص 28) کہ انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوگا اور اگر یہ لوتھڑا بیمار ہے تو سارا جسم بیمار ہوگا فرمایا الا وھی القلب سنو ! وہ لوتھڑا دل ہے۔ حسن و قبح کا سارا دارومدار دل پر ہے۔ محبت اور نضرت کے تمام جذبات دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سارا معاملہ دل سے تعلق رکھتا ہے۔ دل کے ذریعے انسان سمجھتا ہے۔ اور کان کے ذریعے اللہ تعالیٰ معلومات بہم پہنچاتا ہے۔ قرآن پاک کی تلاوت نبی کی حدیث ، واعظ کا وعظ وغیرہ سب چیزیں کانوں کے ذریعے سے سنی جاتی ہیں۔ لہٰذا کان کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اسی طرح آنکھ بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ انہیں کے ذریعے انسان قدرت کی عظیم نشانیاں دیکھتا ہے۔ کتابیں پڑھتا ہے ۔ اگر انکھیں نہ ہوں تو ساری دنیا گھپ اندھیرا ہوجاتی ہے۔ دل کی اہمیت کے مطابق علامہ اقبال مرحوم کہتے ہیں (2 ۔ پیام مشرق) ؎ غافل ترے زمرو مسلمان مذیدہ ام دل درمیان سینہ او بیگانہ دل است کہ میں نے مسلمان سے زیادہ غافل کسی کو نہیں دیکھا۔ کہ دل جیسی عظیم دولت اس کے سینے میں موجود ہے۔ مگر وہ اس سے غال ہے۔ اسے شعور ہی نہیں دیکھا ، کہ دل جیسی عظیم دولت اس کے سینے میں موجود ہے۔ مگر وہ اس سے غافل ہے۔ اسے شعور ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی نعمت اس کو عطا کی ہے۔ الغرض ! اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم نعمتیں انسان کو ودیعت کی ہیں۔ یہ اس کے لیے حصول علم کے ذرائع ہیں۔ جو شخص ان ضائع کرتا ہے۔ اس کی مثال حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے یوں دی ہے (1 ۔ بیان القرآن ج 1 ، ص 4) ۔ جیسے کوئی امیر کبیر کسی کی تنخواہ مقرر کر دے۔ کہ بھائی تم غریب ہو ہر ماہ یہ وظیفہ وصول کرلیا کرتا۔ وہ شخص ہر مہینے اپنا مشاہرہ وصول تو کرلیتا ہے۔ مگر کسی مصرف میں لانے کی بجائے اسے گڑھے میں پھینک دیتا ہے۔ یا پانی میں ڈبو دیتا ہے۔ امیر دیتا رہتا ہے اور غریب ضائع کرتا رہتا ہے۔ آخر کار اس امیر کو کہنا پڑتا ہے کہ یہ شخص کس قدر نمک حرام ہے۔ کہ میں نے ا س پر رحم کرتے ہوئے اس کا وظیفہ مقرر کیا ہے مگر یہ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتا چناچہ اس کا وظیفہ بند کردیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود اس شخص کو افسوس بلکہ احساس تک نہیں ہوتا کہ اس کی آمدنی ختم ہوگئی ہے۔ تو اس قسم کے شخص کے متعلق سوائے اس کے اور کیا کہا جائے گا کہ یہ بیوقوف سزا کا ہی مستحق ہے۔ عذاب عظیم کی وعید : یہی حالت اس شخص کی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دل عطا کیا۔ کان اور آنکھیں دیں مگر وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا۔ ان کو بروئے کار نہیں لاتا تو آخر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ نعمتیں سلب کرلی جائیں گی ، اور ایسا شخص نمک حرام قرار پائے گا۔ یہی وہ حالت ہے جس کے متعلق فرمایا کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔ اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔ لہٰذا ان کے لیے عذاب عظیم مقرر کردیا گیا ہے ، یہ اسی کے مستحق ہیں۔ اعضائے رئیسہ کا مرکز ایک ہے : یہاں پر جن تین اعضاء کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں قلوب جمع ہے۔ سمع واحد اور ابصار پھر جمع کا صیغہ ہے۔ کہتے ہیں (2 ۔ تفسیر عزیزی فارسی ج 1 ص 96) کہ قلب کی حالت تو ہر شخص کی الگ الگ ہے لہٰذا بہت لوگوں کی وجہ سے اسے جمع فرمایا۔ اور کان اگرچہ ہر انسان کے دو ہیں مگر ان دونوں کی سماعت اکٹھی ہوتی ہے ، ان کا مرکز ایک ہے۔ لہٰذا اس کے لئے واحد کا صیغہ بولا۔ اور آنکھیں دونوں الگ الگ ہیں ان دونوں سے اکٹھا بھی کام لیا جاسکتا ہے۔ اور ایک کو بند کرکے کسی ایک سے بھی دیکھا جاسکتا ہے لہٰذا ان کے لیے جمع کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ پہلے دو اعضاء یعنی دل اور کانوں کے متعلق فرمایا کہ ان پر ٹھپہ لگا دیا گیا ہے۔ اور آنکھوں کے متعلق فرمایا کہ جو لوگ ان کو استعمال نہیں کرتے ان پر پردہ ڈال دیا ہے۔ ان کو کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ یہ کفر ، شرک اور برائی کا پردہ ہے ، جو آنکھوں پر پڑا ہوا ہے۔ صحیح بات نظر ہی نہیں آتی۔ جب کسی شخص کی یہ حالت ہوجاتی ہے تو ایسے ہی لوگوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ولھم عذاب عظیم ان کے لئے بہت بڑی سزا ہے۔ جو آگے چل کر انہیں ملے گی۔ ان دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے دوسری قسم کے گروہ انسانی کا حال بیان فرمایا جنہوں نے ظاہراً اور باطناً کفر کو اختیار کیا اور ہدایت سے محروم رہے۔ ان کی سزا کا ذکر بھی اجمالاً کردیا۔ اور الفاظ کے ضمن میں وجوہات بھی ذکر کر دئیے۔ ان کا حال مختصر طور پر بیان فرمایا ہے۔ آگے منافقین کا ذکر آئے گا۔ چونکہ یہ زیادہ خطرناک گروہ ہے۔ اس لیے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ یہ تیسرا گروہ ہے۔
Top