Baseerat-e-Quran - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
بیشک جنہوں نے کفر (دین سے انکار) کیا، ان کے لئے یکساں ہے آپ ان کو ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے،
لغات القرآن : آیت نمبر 6 تا 7 (کفروا): انہوں نے کفر کیا، دین اسلام کی سچائیوں سے انکار کیا۔ چھپایا۔ (سواء) : برابر ہے، یکساں ہے، ایک جیسا ہے۔ (انذرت): تو نے ڈرایا۔ اسی سے نذیر کا لفظ بنا ہے جو کہ بشیر کے لفط کے بالمقابل ہے۔ ۔ ۔ نذیر کے معنی ہیں ۔ آخرت کے عذاب سے شفقت و مہربانی کی بناء پر ڈرانے اور سمجھانے والا اور بشیر کے معنی ہیں “ خوشخبریاں سنانے والا ”۔ (ختم): اس نے مہر لگا دی۔ جب کسی چیز پر مہر یا سیل لگا دی جاتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اب باہر سے کوئی چیز اندر اور اور اندے سے باہر نہیں آسکتی۔ دلوں پر مہر لگنے کا مطلب یہ ہے کہ حق نہ تو ان کے دلوں میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ان کے دلوں کا کفر باہر آسکتا ہے۔ (سمع): سننے کی طاقت، اس کی اہلیت۔ ۔۔ ۔ سہولت کے لئے اس کا ترجمہ “ کان ” کا کیا جاتا ہے۔ (ابصار): بصر کی جمع ہے ۔ ۔۔ ۔ دیکھنے کی طاقت ہے ۔ ۔۔ ۔ آنکھ ۔ ۔۔ آنکھیں ۔ (غشاوۃ): پردہ ، رکاوٹ ، حجاب ۔ ۔۔ ۔ یہ لفظ “ غشی ” سے بنا ہے جس کے معنی کسی چیز کو ڈھانپنے اور رکاوٹ ڈالنے کے آتے ہیں۔ (عذاب):۔ ۔۔ تکلیف ، مصیبت۔ ۔۔ یہ لفظ رحمت کے مقابلے میں آتا ہے۔ تشریح : آیت نمبر 6 تا 7 خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ شدید مخالفتوں ، مصیبتوں اور مشکلات کے باوجود دن رات اسلام کی سچائیوں اور اس کے نور کو پھیلانے کی جدو جہد فرما رہے تھے۔ آپ کی دلی تمنا اور آرزو تھی کہ کسی طرح مکہ مدینہ اور ساری دنیا کے لوگ ایمان قبول کرلیں، اس کے لئے آپ دن رات اس طرح اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش اور جان سوزی سے کام لیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ (اے میرے حبیب “ ﷺ ”) آپ تو اس غم میں اپنی جان گھلا ڈالیں گے کہ وہ ایمان کیوں نہیں مختلف روایات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ آپ ﷺ اسلام کا پیغام پہنچانے میں دن رات اپنے آرام کا خیال کئے بغیر اسی جدو جہد میں لگے رہتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کو معلوم ہوا کہ ایک قافلہ مکہ مکرمہ سے اس طرح گزر رہا ہے کہ وہ صبح ہونے سے پہلے روانہ ہوجائے گا، حالانکہ آپ دن بھر کے تھکے ہوئے اور ستائے ہوئے تھے اس کے باوجود آپ ﷺ فوراً روانہ ہوگئے اور آپ ﷺ نے اپنا فرض پورا کرنے کے لئے ان تک اللہ پیغام پہنچانے کی کوشش کی۔ یہی آپ کی دن رات کی کوششیں تھیں نتیجہ یہ ہے کہ۔ جن کے مقدر میں اسلام کی سعادت تھی انہوں نے ایمان قبول کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوار لی اور اپنے دلوں کو نور ایمانی سے جگمگا لیا، روشن کرلیا۔ ۔۔ لیکن ان ہی میں سے کچھ ایسے بھی ضدی، ہٹ دھرم اور بد قسمت لوگ تھے جنہوں نے کلمہ حق قبول کرنے سے نہ صرف انکار کردیا تھا بلکہ دین اسلام اور سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے بغض وعناد کی حدوں کو پھلانگ گئے تھے اور آپ کی دشمنی میں اتنے آگے بڑھ چکے تھے کہ وہ اسلام کے اس پودے کو جڑ اور بنیاد سے ہی اکھاڑ پھینکنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان میں سچائی اور حق کی تڑپ اور جستجو ایک فطری بات ہے لیکن جب وہی شخص ذاتی فائدوں ، بری عادتوں ، کم نظری اور گھٹیا پن کا مزاج پیدا کرلیتا ہے تو وہ حق اور سچائی کا اس طرح مخالف ہوجاتا ہے کہ پھر بڑی سے بڑی سچائی بھی نہ اس کے دل میں اترتی ہے نہ کانوں سے سنائی دیتی ہے اور نہ آنکھیں اس کا مشاہدہ کرسکتی ہیں۔ نبی مکرم ﷺ کو ان آیات میں اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ آپ اللہ کے پیغام کو پہنچاتے رہیے جن کے دلوں میں اور ان کی روحوں میں سچائی قبول کرنے کی اہلیت ہوگی وہ اس کے ذریعے اپنی دنیا اور آخرت سنوار لیں گے لیکن جو بدقسمت ہیں جیسے ابو جہل ، ابو لہب، عتبہ، شیبہ، اور ولید مدینہ منورہ کے یہودی کعب بن اشرف ، حی بن اخطب اور جدی بن اخطب وغیرہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے دلوں اور اپنے کانوں پر تالے اور اپنی آنکھوں پر پردے ڈال رکھے ہیں، آپ ان کو برے اعمال کے برے نتائج سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان قبول کرنے والے نہیں ہیں۔ یہ تو ان لوگوں کی طرح ہیں جو بدپرہیزیاں کرتے کرتے اپنے آپ کو بیماری کے اس مقام تک پہنچا چکے ہیں جہاں ایک ماہر ڈاکٹر بھی کہہ اٹھتا ہے کہ اب اس مرض کا کوئی علاج نہیں ہے۔ بلکہ مرجانا ہی اس کا مقدر بن چکا ہے۔ یہ لوگ بھی روحانی اعتبار سے اس منزل تک پہنچ چکے ہیں جہاں ان کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے۔ اے نبی ﷺ آپ حق کی بات ہر شخص تک پہنچاتے رہئیے، جو کفر و انکار کا راستہ اختیار کریں گے بھیانک اندھیرے ان کا مقدر بن جائیں گے اور وہ لوگ جو اپنے دلوں کو اسلام کی تعلیمات اور آپ ﷺ کی اطاعت و محبت کے چراغوں سے روشن کرلیں گے وہ خود ستاروں کی طرح چمک کر دنیا کے اندھیروں کو دور کردیں گے۔ خلاصہ کلام : قرآن کریم کی سب سے پہلی اور بڑی سورت “ سورة بقرہ ” ہے اس کے پہلے رکوع میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لئے ہدایت حاصل کرنے کی بنیادیں “ اللہ کا خوف، غیب پر ایمان ، نماز کا قائم کرنا، اللہ کے دئیے ہوئے رزق میں سے اللہ کے لئے خرچ کرنا، قرآن کریم اور اس سے پہلے نازل کئے ہوئے دین کے اصولوں اور کلام پر ایمان ، اور آخرت پر یقین رکھنا۔ قرار دیا ہے۔ یہ وہ بنیادی باتیں ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان کی نجات اور کامیابی ہوجاتی ہے۔ اسلام کے بعد کافروں کے مزاج کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ وہ ایک چکنے گھڑے کی طرح سے ہوچکے ہیں جن کے دل و دماغ اور فکر پر اسلام کی سچائی کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ۔۔ ۔ اور وہ اپنے آپ کو ان بدقسمتوں میں شامل کرچکے ہیں جن کے لئے مہربان رب بھی فرما دیتا ہے کہ اے نبی ﷺ آپ ان کی حرکتوں سے مایوس نہ ہوں یہ بڑے بدعمل لوگ ہیں۔ ۔۔ ۔ انہوں نے بدعملیاں کر کر کے اپنے آپ کو اس منزل اور مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں سے ان کی واپسی ناممکن ہے، ان کے دلوں اور کانوں پر مہریں لگ چکی ہیں اور آنکھوں پر پردے پڑچکے ہیں، اب ان میں سوچنے ، سننے اور حق بات کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی۔ لہٰذا آپ ﷺ یہ سوچ کر رنجیدہ نہ ہوں کہ وہ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ آپ ﷺ اپنا فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہیے۔ کیونکہ ان کا برا انجام اور ایک زبردست عذاب طے کیا جا چکا ہے۔ پہلے رکوع میں مومنوں اور کافروں کے متعلق ارشاد فرمانے کے بعد دوسرے رکوع سے کچھ ایسے لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں ایمان کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا۔ ۔۔ ۔ یہ لوگ منافقت کے مرض میں مبتلا ہیں۔ ۔۔ ۔ بیمار ذہن و فکر کے لوگ جھوٹ بولتے بولتے اس کو سچ سمجھنے لگتے ہیں، اور اللہ اور اس کے نیک بندوں کو اپنے طرز عمل سے دھوکہ میں رکھ کر اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان مفادات کے حصول کو بڑی ہوشیاری سمجھنے لگے ہیں۔ ایمان کے نام پر بےایمانیاں، اصلاح کے نام پر فساد ، منہ پر کچھ اور پیٹھ پیچھے کچھ کہنا۔ ان کا کردار ہوتا ہے۔ فرمایا کہ ایسے لوگوں کا انجام تو کافروں سے بھی بدتر ہے۔ ایسے لوگ کون ہیں یہاں تو اللہ نے ان کا نام نہیں بتایا لیکن قرآن حکیم میں ایسے لوگوں کو جگہ جگہ “ منافق ” فرمایا گیا ہے۔ ۔۔ ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کے دوسرے رکوع میں ان کا بڑی تفصیل سے ذکر فرمایا ہے اس لئے ان آیات کی تشریح سے پہلے منافقین کے متعلق سمجھنا بہت ضروری ہے۔ منافقین کون ہیں ؟ منافق۔ ۔۔ ۔ کا لفظ نفق (ن۔ ف۔ ق) سے بنا ہے جس کے معنی ہیں زمین کے نیچے نیچے ایسی سرنگ اور راستہ بنانا جس میں ضرورت کے وقت چھپنا اور خفیہ راستوں سے نکل بھاگنا آسان ہو۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ عام طور پر چوہے اور کچھ جانور زمین کے اندر ایک سرنگ سی بنا لیتے ہیں جس کو جانور کا “ بل ” کہتے ہیں۔ یہ چوہے اور جانور ذرا سی آہٹ پا کر اپنے بلوں میں جا گھستے ہیں اور خطرہ ٹلتے ہی پھر سے باہر آجاتے ہیں۔ اسی طرح یہ منافق بھی ہیں جو اسلام دشمن ہوتے ہیں ۔ اپنے مفادات کے لئے مسلمانوں میں ملے جلے رہتے ہیں۔ جب اسلام اور مسلمانوں میں انہیں کوئی فائدے کی بات نظر آتی ہے تو ان کو جیسی کہنے لگتے ہیں۔ اور اگر کفر کی چمک دمک میں دل کشی نظر آتی ہے تو بلا تکلف ان کے ساتھ ہو لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک (نعوذ باللہ) ایسے لوگ جو مومن ہیں بہت ہی احمق اور ناعاقبت اندیش ہوتے ہیں “ جو آخرت کے ادھار پر اپنی دنیا بیچ دیتے ہیں اور مصلحتوں سے کام نہیں لیتے۔ ” کیونکہ ایک مومن تو اپنا سب کچھ لٹا کر اللہ کے دین، اس کی بقاء اور ترقی کو اپنی دنیا اور آخرت کی ترقی کا زینہ اور اپنے نبی کی شان پر قربان ہونے کو دین و دنیا کی کامیابی سمجھتا ہے۔ لیکن ان منافقین کے نزدیک “ یہ کوئی سمجھ داری کی بات نہیں ہوتی ” چناچہ اسی رکوع میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ تم بھی اور مخلص مسلمانوں کی طرح ایمان کے تقاضوں کو پورا کرو، ایمان لے آؤ تو وہ بڑی حقارت سے کہتے تھے کہ ہم ان کی طرح ایمان لائیں ؟ جو بیوقوف ، ناعاقبت اندیش ہیں (نعوذ باللہ) ۔ ۔۔ ۔ اللہ نے خود ہی ان کے جواب میں فرمایا کہ احمق اور غیر دانش مندیہ مخلص مومن مسلمان نہیں ہیں۔ ۔۔ بلکہ احمق اور جاہل تو وہ لوگ ہیں جو نبی کے جاں نثاروں کو حقیر سمجھتے ہیں۔ آنے والا وقت بتائے گا کہ صحابہ کرام ؓ کو ایسا کہنے والے خود ہی شرمندگی سے اپنی بوٹیاں نوچتے نظر آئیں گے۔ چناچہ فتح مکہ کا دن اس کا گواہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے جاں نثاروں کی گردنیں شکر ادا کرنے کے لئے اللہ کے سامنے جھکی ہوئی تھیں۔ ۔۔ ۔ اور کافر و منافق جو اپنے آپ کو عقل کا پیکر سمجھتے تھے ان کی گردنیں مسلمانوں کے سامنے شرمندگی سے جھکی ہوئی تھیں۔ یہ تو اس دنیا میں تھا آخرت میں ان منافقین کو جو شرمندگی ہوگی شاید اس دنیا میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں ہے اس کے برخلاف اس دن صحابہ کرام ؓ کا مقام انتہائی بلند ہوگا۔
Top