Tafseer-e-Saadi - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
جو لوگ کافر ہیں انہیں تم نصیحت کرو یا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے، وہ ایمان نہیں لانے کے
آیت نمبر 6 تا 7 اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ جنہوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا یعنی کفر کی صفات سے متصف ہوئے اور کفر کے رنگ میں اس طرح رنگ گئے کہ کفر ان کا وصف لازم بن گیا جس سے کوئی ہٹانے والا ان کو ہٹا نہیں سکتا اور نہ کوئی نصیحت ان پر کارگر ہوسکتی ہے۔ وہ اپنے کفر میں راسخ اور اس پر جمے ہوئے ہیں، لہٰذا اس کے لئے برابر ہے تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ وہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے۔ حقیقت میں کفر اس تعلیم یا اس کے بعض حصے کا انکار کرنے کا نام ہے جسے رسول اللہ ﷺ لے کر آئے۔ پس ان کفار کو کوئی دعوت فائدہ نہیں دیتی البتہ اس دعوت سے ان پر حجت ضرور قائم ہوجاتی ہے۔ اس آیت میں گویا رسول اللہ ﷺ کی اس امید کو ختم کردیا گیا جو آپ کو ان کے ایمان لانے کی تھی اور فرما دیا گیا کہ آپ ان کے ایمان نہ لانے پر غمزدہ نہ ہوں اور ان کفار کے ایمان نہ لانے پر افسوس اور حسرت کے مارے آپ ہلکان نہ ہوں۔ پھر ان موانع کا ذکر کیا ہے جو ان کے ایمان لانے سے مانع ہیں۔ (ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے، لہٰذا ایمان ان میں داخل نہیں ہوسکتا۔ پس وہ کسی فائدہ مند چیز کو یاد کرسکتے ہیں نہ کسی فائدہ مند چیز کو سن سکتے ہیں۔ (وعلی ابصارھم غشادۃ) یعنی ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ ہے جو انہیں فائدہ مند چیزوں کو دیکھنے سے روکتا ہے۔ یہی وہ ذرائع ہیں جو علم اور بھلائی کے حصول میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان ذرائع کو ان پر مسدود کردیا گیا ہے، لہٰذا ان سے کسی قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی اور نہ ان سے کسی بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے۔ ان پر ایمان کے دروازے صرف اس لئے بند کردیئے گئے کہ انہوں نے حق کے عیاں ہوجانے کے بعد بھی کفر، انکار اور عناد کا رویہ اختیار کئے رکھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :” ونقلب افدتھم وابصارھم کمالم یومنوا بہ اول مرۃ) (الانعام :110/6) ” اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے وہ اس قرآن پر اس طرح ایمان نہ لائیں گے جس طرح وہ پہلی بار ایمان نے لائے۔ “ یہ دنیاوی عذاب ہے۔ پھر آخرت کے عذاب کا ذکر کیا اور فرمایا : (ولھم عذاب عظیم) ” اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے “ یہ جہنم کا عذاب اور اللہ جبار کی دائمی ناراضی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کا ذکر فرمایا جو ظاہری طور پر مسلمان ہیں مگر ان کا باطن کفر سے لبریز ہے۔
Top