Anwar-ul-Bayan - Al-Baqara : 3
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ
الَّذِينَ : جو لوگ يُؤْمِنُونَ : ایمان لاتے ہیں بِالْغَيْبِ : غیب پر وَيُقِيمُونَ : اور قائم کرتے ہیں الصَّلَاةَ : نماز وَمِن : اور سے مَّا : جو رَزَقْنَاهُمْ : ہم نے انہیں دیا يُنْفِقُونَ : وہ خرچ کرتے ہیں
جو ایمان لاتے ہیں غیب پر اور قائم کرتے ہیں نماز کو اور ہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں
متقین کی صفات : اس کے بعد متقین کی صفات بیان فرمائیں، اول یہ کہ وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جن باتوں کی خبر دی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے جو باتیں بتائی ہیں، ماضی سے متعلق ہوں یا مستقبل سے ان سب کو مانتے ہیں اور ان پر ایمان لاتے ہیں، بغیر دیکھے صرف خبر پر ایمان لے آنا یہ ایمان بالغیب ہے اور ایمان بالغیب ہی معتبر ہے۔ جب قیامت کا دِن ہوگا تو وہاں کے حالات سب ہی دیکھ لیں گے اور مان لیں گے لیکن دیکھنے کے بعد مان لینا اور ایمان لانا معتبر نہیں۔ متقیوں کی دوسری صفت یہ بیان فرمائی (وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ) یعنی وہ نماز قائم کرتے ہیں، یُصَلُّوْنَ نہیں فرمایا بلکہ (وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ ) فرمایا۔ نماز قائم کرنا یہ ہے کہ نماز کے فرائض و واجبات و سنن و مستحبات سب کو خوف دھیان اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے۔ تفسیر ابن کثیر میں حضرت ابن عباس ؓ کا ارشاد نقل کیا ہے : اقامۃ الصلوۃ اتمام الرکوع و السجود و التّلاوۃ و الخشوع والاقبال علیھا فیھا۔ یعنی نماز کا قائم کرنا یہ ہے کہ رکوع سجدہ پورا پورا ادا کیا جائے اور تلاوت بھی صحیح ہو اور نماز میں خشوع بھی ہو اور نماز پڑھتے وقت نماز کا دھیان بھی ہو۔ پھر فرمایا : (وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ) (اور ہمارے دیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں) متقیوں کی صفت اقامت الصلوٰۃ بیان کرنے کے بعد ( جو عبادات بدنیہ میں سے سب سے اہم اور سب سے بڑی عبادت ہے) مالی عبادت کا ذکر فرمایا۔ یعنی متقیوں کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا ہے اس میں سے اللہ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ ان میں مالی فرائض (زکوٰۃ اور عشر) اور واجبات (صدقہ فطر وغیرہ) نفلی صدقات سب داخل ہیں۔
Top