Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور آپ ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے جسے ہم نے اپنی آیات دیں پھر وہ ان سے نکل گیا۔ پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا،
ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو اتباع ھویٰ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی آیات کو چھوڑ بیٹھا جس شخص کا ان آیات میں ذکر ہے یہ کون شخص تھا اس کے بارے میں تفسیر درمنثور (ص 145 ج 3) میں متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ ان میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے اقوال بھی ہیں اور ان کے علاوہ تابعین میں سے سعید بن مسیب اور مجاہد اور قتادہ کے اقوال بھی نقل کیے ہیں۔ حضرت قتادہ نے تو یہ فرمایا کہ جس شخص پر ہدایت پیش کی جائے اور وہ اس کے قبول کرنے سے انکار کر دے اس شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ مثال بیان فرمائی ہے۔ لیکن قرآن مجید کا سیاق بتاتا ہے کہ یہ ایک واقعہ بھی ہے۔ واقعہ بیان فرما کر عبرت حاصل کرنے کے لیے (فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ) جو فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی شخص کا واقعی قصہ ہے محض مثال ہی نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ جس شخص کا اس آیت کریمہ میں واقعہ بیان فرمایا ہے اس کا نام بلعم بن باعوراء ہے۔ یہ شخص جبارین یعنی عمالقہ میں سے تھا جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وہاں تشریف لے گئے اور ان کے شہروں میں داخل ہونے کا ارادہ فرمایا تو بلعم کے چچا کے بیٹے اور قوم کے دوسرے افراد اس کے پاس آئے اور اس سے کہا کہ موسیٰ قوت و شوکت والے آدمی ہیں اور ان کے ساتھ بہت سے لشکر ہیں وہ لشکروں کے ذریعہ ہم پر غلبہ پانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لہٰذا تو اللہ تعالیٰ سے دعاء کر کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ کو اور اس کے ساتھیوں کو ہم سے دفع کر دے بلعم نے جواب دیا کہ میں تو ایسا نہیں کرسکتا۔ اگر میں اللہ سے یہ دعاء کروں کہ موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کو تم سے ہٹا دے تو میری دنیا و آخرت دونوں ہی برباد ہوجائیں گی۔ لیکن وہ لوگ برابر اصرار کرتے رہے۔ لہٰذا اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کے لیے بد دعا کردی اور اس طرح اللہ کی آیات سے نکل گیا۔ آیات الٰہیہ کے جاننے پر جو اس کی ذمہ داری تھی اس کو پس پشت ڈال دیا اور ان آیات سے بےتعلق ہوگیا اور شیطان اس کے پیچھے لگ گیا جس کی وجہ سے وہ بالکل ہی گمراہ ہوگیا اور بعض روایات میں یہ ہے کہ جب بلعم نے بد دعاء کرنے سے انکار کردیا اور لوگ برابر اصرار کرتے ہی رہے تو اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے بد دعا کرنی شروع کی لیکن زبان سے اپنی قوم کے لیے بد دعا نکل رہی تھی۔ اس کی قوم نے کہا کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ کہنے لگا میں کیا کروں میری زبان سے تمہارے ہی لیے بد دعا نکلتی ہے اور اگر میں موسیٰ اور اس کی قوم کے لیے بد دعاء کروں تو وہ قبول نہیں ہوگی، بلعم اپنی قوم سے ہدیہ کے عنوان سے رشوت لے چکا تھا۔ اب اس نے اپنی قوم کو یہ رائے دی کہ تم اپنی عورتوں کو سنگھار کے ساتھ بنی اسرائیل میں بھیج دو ۔ وہ لوگ ان سے زنا کریں گے تو ان پر اللہ کی طرف سے عذاب آجائے گا چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ بنی اسرائیل زنا میں مبتلا ہوگئے۔ لہٰذا اللہ نے ان پر طاعون بھیج دیا، جس میں ستر ہزار بنی اسرائیل مرگئے۔ (تفسیر درمنثور ص 147 ج 3) اس روایت میں یہ اشکال ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قیادت میں تو بنی اسرائیل نے عمالقہ پر حملہ کرنے اور ان کے شہر میں داخل ہونے کا ارادہ ہی نہیں کیا پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا ؟ عمالقہ پر حملہ کرنے کا واقعہ تو حضرت یوشع (علیہ السلام) کے زمانہ میں پیش آیا تھا۔ حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت یوں بھی ہے کہ بلعم اہل یمن سے تھا۔ اللہ نے اس کو اپنی آیات عطا فرمائیں اور اس نے ان کو چھوڑ دیا، اور حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ شخص بنی اسرائیل میں سے تھا، بہر حال یہ سب باتیں اسرائیلیات ہیں کوئی بھی پائے ثبوت کو نہیں پہنچتی۔ ایک قول یہ بھی ہے جو حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے مروی ہے کہ یہ آیت امیہ بن ابی الصلت کے بارے میں نازل ہوئی۔ وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اسے اسلام کی دعوت دی اور اسے (بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ یٰسٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ ) پڑھ کر سنایا تو اس کا ارادہ ہوا کہ اسلام قبول کرے۔ لیکن جب اسے بدر کے واقعات کی خبر ملی تو اسلام کا ارادہ چھوڑ دیا اور طائف میں جا کر مرگیا۔ یہ روایت درمنثور (ص 146 ج 3) میں نسائی، ابن جریر، ابن المنذر اور طبرانی وغیر ہم کے حوالہ سے نقل کی ہے نیز صاحب درمنثور نے مجاہد سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ بلعم کو نبوت عطا کی گئی تھی اس نے اپنی قوم سے رشوت لے لی اور ان لوگوں نے یہ شرط کر کے رشوت دی کہ وہ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے اور خاموش رہے یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے چناچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ یہ بات تو بالکل ہی غلط ہے کیونکہ حضرات انبیاء کرام سے اس قسم کے امور کا صادر ہونا شرعی اصول کے مطابق ناممکن ہے۔ بہر حال صاحب قصہ جو بھی ہو۔ اس کی تعیین پر آیت کی تفسیر موقوف نہیں ہے، جس شخص کا یہ واقعہ ہے وہ اللہ پاک کی طرف سے آزمائش میں ڈالا گیا اور وہ نا کام ہوا، اس نے دنیاوی زندگی ہی کو ترجیح دی اور اللہ کی آیات کو چھوڑ دیا اور خواہشات کے پیچھے پڑگیا لہٰذا گمراہ ہوا اسی کو فرمایا :
Top