Urwatul-Wusqaa - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور ان لوگوں کو اس آدمی کا حال پڑھ کر سناؤ جسے ہم نے اپنی نشانیاں دی تھیں لیکن پھر اس نے وہ جامہ اتار دیا پس شیطان ان کے پیچھے لگا نتیجہ یہ نکلا کہ گمراہوں میں سے ہو گیا
اس آدمی کی مثال جس نے اس عہد فطرت کو جان بوجھ کر دبا دیا : 199: یہ شخص کون تھا جس کا ذکر اس آیت سے شروع کیا جا رہا ہے بعض کا خیال ہے کہ عرب جاہلیت کا ایک حکیم شاعر امیہ بن عبداللہ بن الصلت ثقفی تھا ۔ یہ غیر معمولی ذکاوت و استعداد کا آدمی تھا اور اہل کتاب کی صحبت میں رہ کر وہ خدا پرستی اور دینداری کے خیالات سے آشنا ہوگیا تھا لیکن بعض نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا نام لیا جس کا نام بلعام بن باعور بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے زمانہ میں اپنی نظیر دوسرے انسانوں میں نہیں رکھتا تھا ۔ ہزاروں کی تعداد میں طلبہ اس کی علمی مجلسوں میں حاضر ہوتے تھے اور اس کے خطبات کو قلم بند کرتے تھے لیکن موسیٰ (علیہ السلام) سے حسد کرنے کے باعث اپنے علم و فضل کے باوجود راہ حق سے منحرف ہوگیا۔ لیکن سعید بن المسیب نے ابو عامر بن صفی کا نام لیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ زمانہ جاہلیت میں زہد و ریاضت کی زندگی بسر کرتا تھا اور اون کے بنے ہوئے کپڑے پہنتا تھا اس کو خیال تھا کہ نبوت کے لئے مجھے انتخاب کیا جائے گا لیکن جب خلعت نبوت نبی اعظم و آخر ﷺ کو عطا کی گئی تو اس نے کفر اختیار کرلیا اور اس طرح سے بعض مفسرین نے کچھ اور لوگوں کے نام بھی لئے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک بات کے پیچھے لگنا اور تحقیق کرکے یہ بتانا کہ وہ فلاں شخص ہی تھا کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی ۔ اس لئے کہ جس بات کو اللہ نے ظاہر نہیں کیا اور اللہ کے رسول نے نہیں بتایا اس کے پیچھے پڑ کر اپنا وقت ضائع کرنا چہ معنی دارد ؟ پھر اس کی ضرورت بھی نہیں کہ شخص کا نام ضرور معلوم کیا جائے۔ ہاں ! بعض لوگوں نے یہ بتایا کہ یہ کسی شخص واحد کا ذکر نہیں بلکہ یہ پوری قوم بنی اسرائیل کی داستان ہے جو ایک شخص کی صورت میں عبرت حاصل کرنے کے تمثیلی رنگ میں بیان کی گئی ہے اس لئے کہ جو کچھ اس کی صفات میں بیان کیا گیا ہے وہ قوم بنی اسرائیل پر مجموعی طور پر فٹ ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کی رائے میں وہ خود فرعون ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کا ہم عمر بادشاہ تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو اللہ کا پیغام سنایا تھا جیسا کہ تفسیر کبیر میں بیان کیا گیا ہے۔ مختصر یہ کہ وہ شخص خواہ کوئی تھا ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو انسانیت کے بلند مرتبے پر ترقی عطا فرمائی تھی لیکن وہ دنیا کے فائدوں ، لذتوں اور آرائشوں کی طرف جھک پڑا۔ خواہشات نفس کے تقاضوں کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس نے ان کے آگے سپر ڈال دی اور ان تمام حدود کو وہ توڑ گیا جن کی نگہداشت کا تقاضا خود اس کا علم کر رہا تھا پھر جب وہ محض اپنی اخلاقی کمزوری کی بناء پر جانتے بوجھتے حق سے منہ موڑ کر بھاگا تو شیطان جو قریب ہی انسان کی گھات میں بیٹھا ہوتا ہے اس کے پیچھے لگ گیا اور برابر اس کو ایک پستی سے دوسری پستی کی طرف لے جاتا رہا یہاں تک کہ وہ اس زمرے میں پہنچ گیا جو ہر لحاظ سے اپنی متاع عقل و ہوش گم کر بیٹھتا ہے ۔ اس کی حالت کو بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا کہ : فَانْسَلَخَ مِنْهَا ، سلخ سانپ کے کینچلی اتارنے کو کہتے ہیں ۔ چناچہ کہا جاتا ہے کہ : انسلخت الحیۃ من جلدھا ، مقصد اس سے یہ ہے کہ جس طرح سانپ اپنی پرانی اور پہلی کینچلی اتارتا ہے اسی طرح اس شخص نے آیات اور ہدایات کو اتار کر پھینک دیا اور اس کی جگہ گمراہی و ضلالت کا لباس اوڑھ لیا ۔ یعنی وہ ہدایت کی طرف سے نکل کر گمراہی کی طرف پھر گیا جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ : انْسَلَخَ الْاَشْهُرُ الْحُرُمُ (التوبہ 9 : 50) جب وہ گمراہی میں ڈوب گیا تو ۔ محاورہ ہے کہ مرے کو مارے شاہ مدار جب وہ خود لالچ میں پھنس گیا اور دنیا کی طرف جھک گیا تو اس کی ایسی حالت ہوگئی کہ گویا شیطان اس کے پیچھے لگ گیا اور اس سے اس کے دل میں وسوسہ اندازی شروع ہوگئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فی الواقع گمراہ ہوگیا اور اس ہدایت سے مکمل طور پر نکل گیا ۔ بنی اسرائیل جیسی قوم جس کا ہر کام الٹا تھا اس میں سے اگر یہ شخص چن لیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ قوم کا ایک بد ترین انسان تھا لیکن قوم مسلم کے خصوصاََ اس ملک عزیز پاکستان کے جتنے مذہبی اور سیاسی لیڈر ہیں ان کی اکثریت کے اوصاف بالکل اس شخص سے میل کھاتے نظر آتے ہیں ۔ اس بات کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے کہ اس وقت سارے گمراہوں سے بڑھ کر گمراہ تھا تو آج ان سب کی حالت اس طرح ہو رہی ہے ۔ جب وہ قانون الٰہی کی زد میں آگیا تو اس کی مثال کتے کی سی ہوگئی : اخلد الی الارض وہ زمین کی طرف مائل ہوگیا ایسا کہ بس اس کا ہو کر رہ گیا ۔ دراصل یہ اس سنت الٰہی کا بیان ہے جو اس نے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں پسند کی ۔ وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو اپنی آیات اور انعامات سے نوازتا ہی اگر وہ ان کی قدر کرتے ہیں تو وہ ان کے ذریعہ سے ان کو دین اور دنیا دونوں کی سرفرازی عطا فرماتا ہے اور اس سے ان کی عقل کو رفعت اور ان کی روح کو معراج حاصل ہوتی ہے لیکن جو لوگ ان آیات اور انعامات پانے کے بعد بھی اپنی خواہشوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور کتے کی طرح زمین سونگھتے ہی چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو ان کی خواہشوں ہی کے حوالے کردیتا ہے اس جگہ اس شخص کی حالت بھی اس کتے کی طرح بیان کی گئی جس نے آیات الٰہی پر غور نہ کیا کیونکہ کتے کی فطرت میں حرص و طمع کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے جب دیکھو گلی سڑی چیزوں اور غلیظ ہڈیوں کی تلاش میں منہ لٹکائے کو چہ بکوچہ پھر رہا ہے اور اس طرح چلتے چلتے سونگھنا اور ٹانگ اٹھا کر موتنا اس کی عادت راسخ ہے اس شخص نے بھی دولت حصول کے لئے کتے کی طرح ہرچیز کو شروع کردیا اور جو شخص بھی ایسی حالت بنا لے یہ مثال اس پر صادق آتی ہے فرمایا کتا ایک ایسا جانور ہے جس پر بوجھ لادو یا نہ لادو اس کا ہانپنا بند نہیں ہوتا اور اس شخص کی حالت بھی ایسی ہوگئی کہ وہ اپنی خواہشوں کے ہاتھوں ایسا بےبس ہوگیا کہ اس نے آیات الٰہی اور انعامات الٰہی کی کوئی پرواہ نہ کی ۔ آج قوم مسلم کے ہر ایک آدمی کو اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ میں کیا کر رہا ہوں اور خصوصاََ ان لوگوں کو جو اللہ کے دین کے وارث قرار پا گئے ہیں اور وہ خود بھی اپنے آپ کو دین الٰہی کا وارث سمجھتے ہیں نبی اعظم و آخر ﷺ کی موجودگی میں قوم یہود کے کسی ایک آدمی یا پوری قوم کی یہ حالت دراصل قریش کو سنائی گئی اور مقصود یہ تھا کہ قریش بھی اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر کریں جو نعمت اللہ نے ان کو انعام کردی اور نعمت خود محمد رسول اللہ کی ذات اقدس ہے کہ آپ ﷺ آیات الٰہی کی تبلیغ و تلاوت تم پر کرتے ہیں جو سب سے بڑی نعمت خدا وندی ہے اور تم لوگ اس کی قدر کرو اور ان کی باتوں کو سنو ، ان پر ایمان لائو اور اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرو اس آدمی کی مانند ہو جائو جس کا قصہ یہاں بیان کیا گیا ۔ تم اس قصہ کو سن کر عبرت حاصل کرو اور اس قصہ میں غور و فکر کرتے رہو۔ ان دو آیات میں بیان کئے گئے قصہ میں اہل فکر کے لئے بہت سی عبرتیں اور نصیحتیں ہیں ۔ ان میں سے چند ایک کو یہاں بیان کیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔ 1 ۔ کسی شخص کو اپنے علم و فضل اور زہد و عبادت پر ناز نہیں کرنا چاہیے۔ حالات بگڑتے اور بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی جیسے اس شخص کا حال ہوا اس سے عبرت حاصل کرنا عقل مندی کی نشانی ہے ۔ 2 ۔ ایسے مواقع اور ان کے مقدمات سے بھی آدمی کو پرہیز کرنا ضروری ہے جہاں اس کو اپنے دین کی خرابی کا اندیشہ ہو خصوصاََ مال اور اہل و عیال کی محبت میں اس انجام بد کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے۔ 3 ۔ مفسد اور گمراہ لوگوں کے ساتھ تعلق اور ان کا ہدیہ یا دعوت قبول کرنے سے بھی پرہیز کرنا چاہیے کہ اس سے بھی خرابی کا اندیشہ ہے ۔ ہاں ! ان کو تبلیغ کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ 4 ۔ بےحیائی اور حرام کاری پوری قوم کو تباہ و برباد کردیتی ہیں اس لئے ہر اس کام سے بچنا ضروری ہے جو بےحیائی کی طرف مائل کرے۔ 5 ۔ آیات الٰہی کی تضحیق نہ خود کرے اور نہ ہوتی دیکھ کر برداشت کرے بلکہ حتی المقدور اس خرابی کو دور کرنے کی کوشش کرے ۔
Top