Mazhar-ul-Quran - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
(اے محبوب ! ﷺ) سناؤ انہیں اس شخص کا حال کہ جس کو ہم نے اپنی آیتوں کا علم دیا تو وہ ان آیتوں کی پابندی سے صاف نکل گیا، پھر اس کے پیچھے شیطان پڑگیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا
واقعہ بلعم باعور (جس کی زبان سینہ تک آگئی) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو ارشاد فرمایا کہ تم یہود کو اس شخص کے حال کی اطلاع دے دو جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانیاں دی تھیں، اور وہ نشانیاں اس کے کفر کی وجہ سے اس طرح نکل گئیں جیسے سانپ اپنی کینچلی سے نکل جاتا ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جبارین سے جنگ کا قصد کیا اور سرزمین شام میں نزول فرمایا تو بلعم باعور کی قوم اس کے پاس آئی اور اس سے کہنے لگے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت تیز مزاج ہیں اور ان کے ساتھ کثیر لشکر ہے۔ وہ یہاں آئے ہیں ہمیں اس شہر سے نکالیں گے اور قتل کریں گے، اور بجائے ہمارے بنی اسرائیل کو اس سرزمین میں آباد کریں گے۔ تیرے پاس اسم اعظم ہے اور تیری دعا قبول ہوتی ہے تو نکل اور اللہ تعالیٰ سے دعا کر کہ اللہ تعالیٰ انہیں یہاں سے ہٹادے۔ بلعم باعور نے کہا تمہارا برا ہو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نبی ہیں، اور ان کے ساتھ فرشتے ہیں اور ایماندار لوگ ہیں، میں کیسے ان پر بد دعا کروں۔ میں جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مرتبہ ہے اگر میں ایسا کروں گا تو میری دنیا و آخرت برباد ہوجاوے گی۔ مگر قوم اس سے اصرار کرتی رہی اور بہت اصرار کیا تو بلعم باعور نے کہا کہ میں اپنے رب کی مرضی معلوم کرلوں اس کا یہی طریقہ تھا چناچہ خواب میں اس کو جواب مل جاتا تھا۔ چناچہ خواب میں اس کو منع کیا گیا کہ ان کے خلاف دعا نہ کرنا۔ قوم نے پھر اصرار کیا تو اس نے پھر وہی کہا لیکن دوسری مرتبہ کچھ جواب نہ ملا تو قوم کہنے لگی :'' اللہ کو منظور نہ ہوتا تو وہ پہلے کی طرح اب بھی منع کردیتا ''۔ جب بہت اصرار کیا اور لالچ دیا تو آخر کار وہ بد دعا کرنے کے لئے پہاڑ پر چڑھا تو جو بد دعا کرتا تھا اللہ تعالیٰ اس کی زبان کو اس کی قوم کی طرف پھیر دیتا، اور اپنی قوم کے لئے جو دعائے خیر کرتا تھا بجائے قوم کے بنی اسرائیل کا نام اس کی زبان پہ آتا تھا۔ قوم نے کہا کہ اے بلعم ! یہ کیا کر رہا ہے۔ بنی اسرائیل کے لئے دعا کرتا ہے اور ہمارے لئے بد دعا، اس نے کہا :'' یہ میرے اختیار میں نہیں۔ میری زبان میرے قبضہ میں نہیں ہے ''۔ اور اس کی زبان باہر نکل پڑی اور سینہ تک لٹک گئی تو اس نے اپنی قوم سے کہا :'' میری دنیا و آخرت دونوں برباد ہو گئیں ''۔
Top