Tafseer-e-Baghwi - Al-A'raaf : 175
وَ اتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاَ الَّذِیْۤ اٰتَیْنٰهُ اٰیٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَاَتْبَعَهُ الشَّیْطٰنُ فَكَانَ مِنَ الْغٰوِیْنَ
وَاتْلُ : اور پڑھ (سناؤ) عَلَيْهِمْ : ان پر (انہیں) نَبَاَ : خبر الَّذِيْٓ : وہ جو کہ اٰتَيْنٰهُ : ہم نے اس کو دی اٰيٰتِنَا : ہماری آیتیں فَانْسَلَخَ : تو صاف نکل گیا مِنْهَا : اس سے فَاَتْبَعَهُ : تو اس کے پیچھے لگا الشَّيْطٰنُ : شیطان فَكَانَ : سو ہوگیا مِنَ : سے الْغٰوِيْنَ : گمراہ (جمع)
اور ان کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائیں (اور ہفت پارچہ علم شرائع سے مزین کیا) تو اس نے ان کو اتار دیا پھر شیطان اسکے پیچھے لگا تو وہ گمراہوں میں ہوگیا۔
175 (واتل علیھم نبا الذی اتینہ ایتنا فانسلخ منھا فاتبعہ الشیطن فکان من الغوین) اس میں اختلاف ہے۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ” بلعم بن باعورائ “ ہے اور مجاہد (رح) فرماتے ہیں ” بلعام بن باعور “ عطہی نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ یہ بنی اسرائیل میں سے تھا۔ علی بن ابی طلحہ ؓ سے مروی ہے کہ وہ کنعانی لوگوں میں سے تھا جبار ین کے شہر میں سے۔ مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ بلقاء شہر کا تھا۔ بلعم بن باعور کا واقعہ اس کا واقعہ ابن عباس ؓ، ابن اسحاق، سدی رحمہما اللہ و دیگر حضرات کے بیان کے مطابق یہ ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے جبارین سے لڑائی کا ارادہ کیا اور ملک شام میں بنی کنعان کی زمین میں پڑائو ڈالا تو وہ قوم بلعم کے پاس آئی۔ اس کے پاس اسم اعظم تھا تو یہ لوگ کہنے لگے کہ موسیٰ (علیہ السلام) بڑا طاقتور بندہ ہے اور اس کے ساتھ بہت بڑا لشکر ہے۔ وہ آیا ہے تاکہ ہمیں ہمارے شہر سے نکال دے اور ہمیں قتل کر کے بنی اسرائیل کو وہاں ٹھہرا دے۔ تیری دعا قبول ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے دعا کر کہ وہ لوگ یہاں سے چلے جائیں تو بلعم نے کہا تم ہلاک ہو اللہ کا نبی اس کے ساتھ فرشتے اور مئومنین ہیں، میں ان پر بد دعا کیسے کرسکتا ہوں حالانکہ میں اللہ سے علم رکھتا ہوں اگر میں نے ایسا کیا تو میری دنیا اور آخرت چلی جائے گی تو وہ آ ہ وزاری کرنے لگے اور بار بار اصرار کرنے لگے تو بلعم نے کہا میں اپنے رب سے مشورہ کروں گا اور وہ تب تک دعا نہ کرتا تھا جب تک خواب میں اس کو اس دعا کا حکم نہ دیا جاتا تو اس نے ان پر بد دعا کرنے کا مشورہ کیا تو خواب میں کہا گیا کہ ان پر بد دعا نہ کرنا تو اس نے اپنی قوم کو جواب دیا کہ میں نے اللہ سے مشورہ کیا، مجھے بد دعا سے روک دیا گیا ہے تو انہوں نے ہدیہ دیا، اس نے قبول کرلیا، پھر انہوں نے وہی مطالبہ کیا تو اس نے کہا میں اپنے رب سے مشورہ کرلوں، جب مشورہ کیا تو کوئی اشارہ نہ ہوا تو اس نے کہا مجھے مشورہ میں کوئی اشارہ نہیں ہوا تو انہوں نے کہا اگر آپ کے رب کو ناپسند ہوتا آپ کا بد دعا کرنا تو جیسے پہلی مرتبہ آپ کو منع کردیا تھا ویسے ہی اب بھی منع کردیتے تو وہ گڑگڑاتے رہے یہاں تک کہ وہ فتنہ میں مبتلا ہوگیا اور اپنی گدھی پر سوار ہو کر پہاڑ کی طرف چل پڑا کہ بنی اسرائیل کے لشکر پر جھانک سکے جب تھوڑا سا چلا تو وہ گدھی گھٹنے کے بل بیٹھ گئی۔ توبلعم اس سے اترا، اس کو مارا تو وہ کھڑی ہوگئی۔ وہ سوار ہوا تھوڑا سا چلا کر پھر گھنٹوں کے بل بیٹھ گئی تو اس نے دوبارہ وہی کام کیا وہ پھر کھڑی ہوئی، ایسا کئی مرتبہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے گدھی کو بات کرنے کی اجازت دی تو اس نے کہا تیرا ناس ہو اے بلعم ! تو کہاں جا رہا ہے ؟ کیا تو فرشتوں کو میرے آگے نہیں دیکھ رہا کہ وہ مجھے پیچھے دھکیل رہے ہیں ؟ کیا تو مجھے لے کر اللہ کے نبی اور مئومنین پر بد دعا کرنے جا رہا ہیڈ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا تو وہ چل پڑی۔ جب وہ حسان پہاڑ پر چڑھی تو وہ ان پر بد دعا کرنے لگا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان اس کی قوم کی طرف پھیر دی کہ ان پر بد دعا کر بیٹھا اور اپنی قوم کے لئے خیر کی دعا کرنے لگا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان کو بنی اسرائیل کی طرف پھیر دیا تو اس کی قوم نے کہا اے بلعم ! تجھے پتہ ہے کہ تو کیا کہہ رہا ہے ؟ تو ہم پر بد دعا اور بنی اسرائیل کے لئے دعا کر رہا ہے۔ تو وہ کہنے لگا میں اپنی زبان پر قادر نہیں رہا، اللہ تعالیٰ اس پر غالب آگئے ہیں پھر اس کی زبان باہر نکل کر سینہ پر آگئی تو اس نے کہا اب میری دنیا اور آخرت برباد ہوگئی۔ اب صرف مکر اور حیلہ باقی رہ گیا ہے۔ میں تمہارے لئے حیلہ کروں گا تم عورتوں کو خوب سنوار کر ان کو سامان بیچنے لشکر میں بھیجوا اور ان کو کہو کہ کوئی آدمی اگر کچھ کرنا چاہے تو نہ روکیں کیونکہ اگر ان میں سے ایک آدمی نے بھی زنا کیا تو تمہیں کافی ہے۔ انہوں نے ایسا کیا جب عورتیں لشکر میں گئیں تو ایک کنعانی عورت کشتی بنت صور بنی اسرائیل کے ایک بڑے آدمی زمری بن شلزم پر گزری۔ یہ شمعون بن یعقوب قبیلہ کا سردار تھا تو اس کو اسی عورت کا حسن بڑا اچھا لگا تو اس نے اس عورت کا ہاتھ پکڑا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے لے آیا اور کہنے لگا کہ آپ اس کو کہیں گے کہ یہ مجھ پر حرام ہے ؟ تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ ہاں یہ تجھ پر حرام ہے تو اس نے کہا اللہ کی قسم میں اس بات میں آپ (علیہ السلام) کی اطاعت نہ کروں گا۔ پھر اس عورت سے زنا کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت بنی اسرائیل پر طاعون بھیج دیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے خاص آدمیوں میں سے فخاص بن عیز ار بن ہارون کہیں گیا ہوا تھا وہ آیا تو طاعون کی وجہ پوچھی اور ان کے خیمہ میں گیا تو وہ دونوں مرد و عورت لیٹے ہوئے تھے۔ اس نے اپنے ہتھیار سے ان کے سر اڑا دیئے اور ہتھیار پر بلند کر کے باہر لے آیا اور کہنے لگا، اے اللہ ! جو تیری نافرمانی کرے گا ہم اس کے ساتھ ایسا ہی کریں گے تو طاعون ان سے دور کردیا گیا۔ زمرے اور اس عورت کے برے کام اور فخاص کے ان کو قتلک رنے کی مدت میں بنی اسرائیل کے ستر ہزار آدمی طاعون سے مرگئے۔ یہی وجہ ہے کہ بنی اسرائیل جو ذبیحہ کر کے ان کا دست جبر اور پہلو فیحاص کی اولاد کو دیتے تھے کیونکہ فیحاص نے زمری اور عورت کو نیزے میں پر وکرنیز ہاتھ میں اٹھا کر کہنی کو اپنے پہلو سے ٹیکا تھا اور لاشوں کو اپنے جبڑوں سے لگا کر روک رکھا تھا اور بنی اسرائیل اپنے اونٹوں میں سے ایک اونٹنی بھی فیحاص کی اولاد کو دیتے ہیں کیونکہ فیحاص عیزاء کا جیٹھا بیٹا تھا۔ بلعم کے بارے میں یہ آیت اتری تھی ” واتل علیھم نبأ الذی آتیناہ آیاتنا “ مقاتل کا بیان ہے کہ شاہ بلقاء نے بلعم سے کہا کہ موسیٰ کے لئے بد دعا کرو۔ بلعم نے کہا وہ میرے ہم مذہب ہیں۔ میں ان کے لئے بد دعا نہیں کروں گا۔ بادشاہ نے صلب کے تختے نصب کرائے (اور حکم دیا کہ بد دعا کرو ورنہ تم کو صلیب پر لٹکا دوں گا) بلعم نے یہ حالت دیکھی تو خچر پو سوار ہو کر بد دعا کرنے کے لئے بستی سے باہر نکلا۔ بنی اسرائیل کے لشکر کے سامنے پہنچا تو خچر رک گیا۔ بلعم نے خچر کو مارا خچر نے کہا تو مجھے کیوں مارتا ہے۔ مجھے تو حکم ہی یہ ملا ہے میرے آگے یہ آگ ہے جو مجھے چلنے سے روک رہی ہے۔ بعلم لیٹ آیا اور بادشاہ سے واقعہ بیان کردیا۔ بادشاہ نے کہا تم کو بد دعا تو کرنی ہوگی ورنہ میں صلیب پر لٹکا دوں گا۔ آخر بلعم نے اسم اعظم پڑھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے بد دعا کی کہ وہ اس شہر میں داخل نہ ہوں بد دعا قبول ہوگئی اور اس کی بد دعا کی وجہ سے بنی اسرائیل تیہ میں پھنس گئے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا پروردگار ہم کس جرم کی وجہ سے تیہ میں پھنس گئے۔ اللہ نے فرمایا بلعم کی بد دعا کیوجہ سے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا پروردگار جس طرح تو نے اس کی بد دعا میرے متعلق قبول فرمائی۔ میری بد دعا اس کے متعلق بھی قبول فرمائے۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ نے بد دعا کی بلعم سے اسم اعظم اور ایمان چھن لیا جائے۔ موسیٰ کی بد دعا سے اس کی معرفت سلب کرلی اور ایمان اس طرح کھینچ لیا ۔ جیسے بکری کی کھال کھینچ لی جاتی ہے۔ سفید کبوتر کی شکل میں ایک صورت اس کے اندر سے نکل گئی۔ آیت فانسلخ منھا سے یہی مراد ہے۔
Top